Islam Times:
2025-03-31@15:40:37 GMT

فلسطینی بچے میرے بچے ہیں اور فلسطین میری سرزمین ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

فلسطینی بچے میرے بچے ہیں اور فلسطین میری سرزمین ہے

اسلام ٹائمز: فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان معصوم بچوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، انہیں بمباری میں شہید کر دیا جاتا ہے، ان کے اسکول تباہ کر دیے جاتے ہیں، اور ان کے خوابوں کو روند دیا جاتا ہے۔ فلسطینی بچوں کے آنسو، ان کی سسکیاں، اور ان کے خواب صرف فلسطین کے بچے ہونے کے ناطے نہیں بلکہ دنیا کے ہر انسان کے بچے ہونے کے ناطے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ان کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان پر ہونے والے مظالم درحقیقت پوری انسانیت پر حملہ ہیں۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

انسانیت کا دفاع کسی ایک قوم، نسل یا سرحد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جہاں کہیں ظلم ہو، وہاں آواز بلند کرنا ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔ مطلب دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و ستم ہو، وہاں انسانیت کے علمبرداروں کا کھڑا ہونا ایک اخلاقی، دینی اور انسانی فریضہ ہے۔ ظلم کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی قوم، مذہب یا نسل پر ہو، وہ ناقابلِ قبول ہے۔ خاص طور پر جب مظلوم بے یار و مددگار ہوں اور ان پر ظلم کرنے والے طاقت اور وسائل سے لیس ہوں تو خاموشی اختیار کرنا بزدلی کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار محض ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ آج فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے جہاں انسانیت کو کچلا جا رہا ہے، بچوں کے خواب چھینے جا رہے ہیں اور زندگی کو ملبے تلے دفن کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہنا محض بے حسی نہیں، بلکہ ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

فلسطین: ایک زخم جو صدیوں سے ہرا ہے
فلسطین نہ صرف ایک جغرافیائی خطہ ہے بلکہ یہ مظلومیت، استقامت اور قربانی کی علامت بن چکا ہے۔ 1948ء میں نکبہ (تباہی) کے نتیجے میں 700,000 سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے دخل کردیا گیا اور خاندان منتشر ہوگئے۔ مطلب یہ کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی عوام مسلسل ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بےدخل کر دیا گیا، انہیں پناہ گزین کیمپوں میں دھکیل دیا گیا اور روزمرہ کی زندگی کو ایک جہنم بنا دیا گیا۔ غیر قانونی اسرائیلی بستیاں، گھروں کی مسماری اور فوجی قبضہ مسلسل جاری رہا۔ پچاس لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین اپنے حقِ واپسی سے محروم تھے جو کہ بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ بات ہے۔ غزہ جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا رہا۔

شدید اقتصادی پابندیوں، خوراک اور ادویات کی قلت اور مسلسل فوجی حملوں کا شکار رہی، مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کی جارحیت جاری تھی جسے عالمی برادری کی خاموش حمایت حاصل تھی، فلسطینی عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم و مجبور تھے، یہاں تک کے طاقتور ممالک کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں مسلسل ظلم و جبر کا سامنا تھا۔ ایسے میں 7 اکتوبر 2023ء کو القسام کے بے خوف انسانی لشکر نے صیہونی حکومت کے خلاف اقدام کر ڈالا اور سینکڑوں صیہونی فوجیوں کو اپنے ساتھ لے گئے تاکہ اس ظلم و جبر و استبداد کی صورتحال کو روکا جا سکے اور اپنے جائز انسانی حقوق کی دنیا کے سامنے مانگ رکھی جا سکے لیکن صیہونی افواج نے ردِعمل میں تاریخ کی بدترین نسل کشی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسرائیل نے 70 ہزار سے زائد انسانوں کو قتل کر ڈالا جن میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ہسپتالوں، اسکولوں، سویلین آبادیوں کو تباہ کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 45 ہزار سے زائد معصوم بچے شہادت کا جام نوش کر چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے اپنی جگہ ہر باضمیر انسان کی رائے یہ ہے کہ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ناکامی ہے، جب ہم معصوم بچوں کے قتل پر خاموشی اختیار کر رہے ہوتے ہیں تو نہ صرف ہم اپنے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر رہے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار سے یقیناً گر چکے ہیں۔

فلسطینی بچے میرے بچے کیوں ہیں؟
جب میں کسی فلسطینی بچے کی آنکھوں میں خوف دیکھتا ہوں تو وہ میرے اپنے بچے کا عکس لگتا ہے، ان کی مسکراہٹیں جو کسی بھی بچے کی طرح ہونی چاہئیں جنگ کی گونج میں دب چکی ہیں۔ ایک باپ کے لیے اس کے بچے سب سے قیمتی ہوتے ہیں، اگر کوئی ظالم ان پر ظلم کرے، انہیں مارے، ان کی نسل کشی کرے، تو کیا باپ خاموش رہ سکتا ہے؟ یقیناً نہیں! فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان معصوم بچوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، انہیں بمباری میں شہید کر دیا جاتا ہے، ان کے اسکول تباہ کر دیے جاتے ہیں، اور ان کے خوابوں کو روند دیا جاتا ہے۔

فلسطینی بچوں کے آنسو، ان کی سسکیاں، اور ان کے خواب صرف فلسطین کے بچے ہونے کے ناطے نہیں بلکہ دنیا کے ہر انسان کے بچے ہونے کے ناطے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ان کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان پر ہونے والے مظالم درحقیقت پوری انسانیت پر حملہ ہیں۔ یہ بچے کسی جنگ کے سپاہی نہیں بلکہ مظلومیت کی علامت ہیں، ان کی دنیا کھیل کے میدانوں میں، اسکولوں اور ماں کی گود تک محدود ہونی چاہیئے تھی، مگر آج وہ کھنڈرات میں کھیلنے، ملبے تلے اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھونڈنے اور رات کے اندھیروں میں بمباری کے سائے میں سونے پر مجبور ہیں، کیا یہ ہمارا اجتماعی المیہ نہیں؟

فلسطین میری سرزمین کیوں ہے؟
زمین کسی خاص قوم یا مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ اس پر بسنے والے ہر انسان کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی زمین پر آزادی کے ساتھ زندگی گزارے۔ فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہم السلام نے قدم رکھے، جہاں مسجد اقصیٰ جیسی عظیم عبادت گاہ موجود ہے، جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ اس سرزمین کی حفاظت ہر اس انسان کا فریضہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا جانتا ہے۔ اگر آج ہم فلسطین پر ہونے والے ظلم کو نظرانداز کر دیں تو کل دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں ایسا ظلم ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ ہم ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ زمین فلسطینی عوام کی ہے، ان کی تاریخ، ثقافت اور تشخص کی بنیاد ہے مگر سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے یہ زمین صیہونیوں کی بربریت کا شکار ہے، دیہات و شہر تباہ کردییے اور انتہائی ظالمانہ طریقے سے منظم نسل کشی کی جا رہی ہے۔ لہذا یہ زمین ہماری زمین ہے کیونکہ ہر وہ زمین جہاں انسانی حقوق پامال ہوں، وہ پوری انسانیت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔

ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی برادری نے مظلوموں کے لیے ہمیشہ دُہرے معیار اپنائے ہیں۔ جہاں ان کے مفادات ہوتے ہیں، وہاں وہ انسانی حقوق کے چیمپئن بن جاتے ہیں اور جہاں انہیں فائدہ نہیں پہنچتا، وہاں وہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف سیاسی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک خالص انسانی مسئلہ ہے۔ ظلم جہاں بھی ہوگا، ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ فلسطین ہو، لبنان ہو، یمن ہو, میانمار ہو یا پھر سندھ یا کوئی اور جگہ۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ ہمیں فلسطین کے ساتھ ہمدردی ہے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا عملی اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔
 
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
شعور بیدار کریں:
فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کریں۔ فلسطینی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی خبریں شیئر کریں تاکہ دنیا کو سچ دکھایا جا سکے، فلسطینی عوام کی آواز بنیں۔ بین الاقوامی فورمز، مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں۔

بائیکاٹ کریں:
مظالم میں شامل کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ اسرائیلی جارحیت سے منافع کمانے والی کمپنیوں، جیسے پوما، ایئر ٹی این بی، صبرا حمص اور دیگر کے ایف سی، نیسلے، میک ڈونلڈ وغیرہ کا بائیکاٹ کریں اور ان تمام برانڈز کا بائیکاٹ کریں جو اسرائیلی مظالم کی حمایت کرتے ہیں۔

حکومتوں پر دباؤ ڈالیں:
اپنے قانون سازوں کو خط لکھیں، احتجاج میں شامل ہوں اور اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے خلاف آواز اٹھائیں۔

جھوٹے بیانیے مسترد کریں:
ظلم کو "دفاع" اور مزاحمت کو "دہشتگردی" کہنے والے بیانیے کو بے نقاب کریں۔

مالی اور انسانی امداد:
فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں۔

فلسطین کے عوام کو صرف زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کسی اور قوم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ظالم کے خلاف بولنا ہوگا اور ہر اُس کوشش میں شریک ہونا ہوگا جو انصاف اور امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطینی بچے ہمارے اپنے بچے ہیں اور فلسطین کی زمین ہماری اپنی زمین ہے، اگر آج ہم خاموش رہتے ہیں تو ہم انسانیت کے دفاع میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ عظیم فلسطینی شاعر محمود درویش نے کہا تھا: "کھڑے ہو جاؤ تاکہ دنیا دیکھے کہ ہم اب بھی زندہ ہیں"۔ ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے، آواز بلند کرنی ہے اور آزادی کے اس سفر میں فلسطینی عوام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے بچے ہونے کے ناطے پر ہونے والے مظالم آواز بلند کرنا فلسطینی بچوں فلسطینی عوام پوری انسانیت بائیکاٹ کریں کے خلاف آواز فلسطینی بچے دیا جاتا ہے ظلم کے خلاف انسانیت کی کھڑا ہونا نہیں بلکہ فلسطین کے اور ان کے جاتے ہیں ہیں بلکہ زمین ہے جہاں ان دنیا کے ہیں اور بچوں کے کے ساتھ تباہ کر بچوں پر دیا گیا کسی بھی کے لیے فرض ہے

پڑھیں:

فلسطینیوں کا مستقبل؟

غزہ میں اسرائیلی فورسز نے جنگی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی نوجوان ، بوڑھے، خواتین اور بچے شہید کیے جا چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتباہ جاری کیا ہے کہ غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں موجود شہری قحط اور شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ مصر اور قطر کی ثالثی میں غزہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں اہم پیش رفت کی خبریں آرہی ہیں لیکن کوئی عملی شکل تاحال سامنے نہیں آئی  ہے۔ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجویز پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔

 افسوس کا مقام ہے کہ یہ حملے اس دوران ہو رہے ہیں جب اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی ہے۔ اسرائیل نے امن معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غزہ میں زندگی اذیت ناک ہے، غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لاکھوں فلسطینی خیموں یا بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل نہتے فلسطینیوں نسل کشی کررہا ہے، ان سنگین ترین انسانیت سوز مظالم کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کے مطابق 80 فیصد امدادی سرگرمیاں معطل ہیں، خوراک اور ادویات کا چند دن کا اسٹاک رہ گیا، اس سے انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن عالمی طاقتیں مصلحت آمیز پالیسی پر عمل پیرا ہیں، برطانیہ اور فرانس کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ضرور طلب کرلیا گیا ہے لیکن پہلے بھی ایسے اجلاس ہو چکے ہیں جن میں قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں لیکن ان کی بھی اسرائیل نے کبھی پروا نہیں کی۔

سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان ہیں، ہر رکن کو ویٹو کا اختیار ہے۔ان قرارداوں کو اکثر امریکا ویٹو کردیتا ہے، یوں ساری مشق رائیگاں چلی جاتی ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ضرور موجود ہے، وہ اسرائیل کے حوالے سے اجلاس تو کرتی ہے جو نشستند، گفتند اور برخاستند سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دوران جب فلسطینی اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں، امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اور اقدام کیا ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنے والے 300 غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔

 دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کس کی پشت پناہی کے باعث فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کر رہا ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں ہے، دراصل اسرائیل سے امریکا ایک بڑی قوت ہے جس کے پاس وسائل بھی اور اثر و رسوخ بھی جسے وہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچا لیتا ہے، اگر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے۔ جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنھیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا، امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر لمحے اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، اس کی وجوہات جو بھی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن امریکا کو انصاف سے کام لینا چاہیے۔

بہرحال حالیہ اسرائیلی دہشت گردی ہو یا پھر ماضی کی اس کے سنگین نتائج اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو بھگتنے پڑیں گے جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دنیا کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین کا کوئی وجود نہیں دکھایا گیا، اس میں ان کے ارادے کو ظاہر کیا گیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کچھ اچھے نظر نہیں آرہے، صدر ٹرمپ نے آتے ہی جہاں اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی ہے وہیں یہ اعلان بھی کردیا کہ غزہ ایک جدید ترین بین الاقوامی سطح کا شہر ہوگا جہاں آنے والے اسرائیل کے خوابوں کی تکمیل کریں گے، اس کے علاوہ امریکی صدر نے اسرائیلی قیادت کو ہر قسم کی تفتیش سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک عالمی ادارے کی مُشکیں بھی کس دی ہیں تاکہ کوئی عالمی ادارہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے دیگر حامیوں کو گرفتار کرسکے نہ ہی بھیانک جنگی جرائم میں ملوث قرار دے کر قانون کے مطابق سزا سے ہم کنار کرسکے۔

 امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ کی سرزمین کو ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سوسائٹی سمجھ رکھا ہے۔ عالمی قوانین امریکا کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ غزہ کے باسیوں کو بے گھر کر دیا جائے۔ جس طرح برطانیہ نے 1948میں اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطینیوں کی سرزمین پر بسایا تھا۔ امریکا کے صدر ٹرمپ بھی اسی طرح غزہ کو ایک کالونی کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کو بھی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ صدرِ ٹرمپ نے وہ امریکی امداد بھی بند کر دی ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک کے دکھی اور مجبور انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کی جارہی تھی ۔یوں امریکا کی حالیہ پالیسی اسرائیل کے حق میں جارہی ہے۔

غزہ کا ممکنہ مستقبل کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں سیاسی، عسکری، معاشی اور انسانی صورتحال شامل ہے، اگر اسرائیل اپنی حالیہ جارحیت جاری رکھتا ہے تو وہ غزہ پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے، جس کے بعد یا تو براہ راست اسرائیلی انتظام نافذ ہوگا یا کوئی کٹھ پتلی حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس صورت میں فلسطینی مزاحمت برقرار رہ سکتی ہے، اور عالمی سطح پر شدید ردعمل آ سکتا ہے، اگر عالمی دباؤ بڑھتا ہے تو ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ غزہ کو کسی بین الاقوامی امن فورس کے تحت دے دیا جائے، جس میں عرب ممالک، اقوام متحدہ یا دیگر فریق شامل ہوں۔

اس سے انسانی بحران میں کمی آ سکتی ہے، مگر فلسطینی عوام کے مکمل حقوق کی بحالی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اگر فلسطینی مزاحمت جاری رہتی ہے تو اسرائیل کی کارروائیوں میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے،حماس کے لیے یہ صورتحال مشکل ہوگی جب کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی اور ممکن ہے کہ اس کا فلسطینی علاقوں پر کنٹرول ختم ہوجائے۔ فلسطینی قیادت کو عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہوجائے گا ، اگر عالمی برادری اور عرب ممالک فلسطینی کاز کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں تو غزہ اور مغربی کنارے کو ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کی پالیسی اور امریکا و یورپ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ امکان فی الحال کمزور نظر آتا ہے۔

اسرائیلی خفیہ ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس برطرفی پراسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی برطرفی کو اسرائیلی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کے اندر بھی چپقلش چل رہی ہے جب کہ عوام بھی نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔سچائی یہ ہے کہ غزہ میں جنگ، بمباری اور ناکہ بندی جاری مسلسل جاری ہے، فلسطینی شہری محصور ہیں جب کہ لاکھوں اپنے وطن سے ہجرت کرکے کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو بھی خالی کراکے یہاں کے فلسطینیوں کو کہیں اور آباد کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں اور وہ اپنے ارادے پر تاحال قائم ہیں۔ یوں یہ علاقہ انسانیالمیوں کی مثال بن چکا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو تو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ حماس کا غزہ میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔ غزہ پر اسرائیل کی مضبوط گرفت نے مسلم ممالک کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔فلسطنیوں کے لیے مستقبل میں لڑائی جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔ لڑائی میں فلسطنیوں کا جانی و مالی نقصان حد سے زیادہ ہوا ہے، گزشتہ 15 مہینوں میں سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بھی اس قابل نہیں کہ وہ حماس کو راضی کرسکے یا غزہ کا کنٹرول سنبھال لے۔ بین الاقوامی امن دستوں کی تعیناتی پر بات چیت ہوسکتی ہے، اس مقصد کے لیے بھی فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور امریکا دیگر ممالک کو آمادہ کرنا پڑے گا۔

 حماس کے بہت سے تربیت یافتہ جنگجو مارے جا چکے ہیں، اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس کا مزید نقصان ہوسکتا ہے۔عالمی انصاف، پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی ناگزیر ہے، اگر مصر، سعودی عرب، قطر اور دیگر عرب ممالک کوئی مضبوط موقف اختیار کرتے ہیں تو وہ کسی سفارتی حل کے ذریعے غزہ کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے لیے بہتر ہو سکتا ہے، مگر اس کا انحصار اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ردعمل پر ہو سکتا ہے۔ غزہ کا مستقبل کئی عالمی اور علاقائی عناصر سے جڑا ہوا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فلسطینی اسٹیک ہولڈرز سب سے پہلے متحد ہوجائیں، اس کے بعد عرب ممالک کے لیے کسی ایک حل پر متفق ہونا آسان ہوجائے گا ۔ اسرائیل کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھے گا۔

متعلقہ مضامین

  • چین کے شی زانگ کی کئی کہانیاں
  • صحافیوں کو اسرائیل کا خفیہ دورہ کرانا فلسطین کاز کے خلاف ہے، فلسطین فاؤنڈیشن
  • فلسطینیوں کا مستقبل؟
  • رجب بٹ نے ملک چھوڑنے کی اصل وجہ بتادی
  • یو ٹیوبر رجب بٹ نے پاکستان چھوڑ دیا، وجہ بھی بتادی
  • غیر ملکی سرمایہ کار چین کو مواقعوں کی سرزمین سمجھتے ہیں، چینی میڈیا
  • دین: عبادات یا کردار؟
  • کراچی میں آئی ایس او کے تحت عظیم الشان آزادی القدس ریلی کی ڈرون فوٹیج
  • اسٹٰبلشمنٹ سے مذاکرات نہیں ہوئے بلکہ رابطے بحال ہوئے تھے، بیرسٹر گوہر