Express News:
2025-03-24@00:58:58 GMT

استاد الاساتذہ ، عظیم شاعر راغب مراد آبادی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

راغب مراد آبادی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں ایک شاعر ادیب، دانشور اور استاد کے روپ میں پہچانا جاتا ہے۔ ان کی مختلف موضوعات پر 50 سے زائد کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ انھیں بے شمار اعزازات کے علاوہ پرائیڈ آف پر فارمنس سے بھی نوازا گیا۔

راغب مراد آبادی کا اصل نام اصغر حسین ہے، وہ 27 مارچ 1918 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر محمد حسین تھا۔ ان کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے، بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا۔ بچپن میں انھیں کھیلوں کا کافی شوق تھا اور وہ بیڈمنٹن اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔

وہ خاصے خاموش طبع تھے اور ان کا زیادہ وقت مطالعے میں صرف ہوتا تھا۔ وہ بہت ہی قابل طالب علم تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے مراد آباد، شملہ اور دہلی سے حاصل کی اور 1935 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

1942 میں انھوں نے ادیب فاضل اور 1943 میں منشی فاضل کا امتحان دیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کے پاس قائد اعظم کے ساتھ ایک 70 سال پرانی تصویر بھی ہے، وہ اس تصویر کو ہمیشہ حرز جاں بنائے رہے۔ انھوں نے بانی پاکستان کو بہت قریب سے اور بارہا دیکھا۔ بابائے قوم کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سخت مزاج تھے لیکن ساتھ ہی وہ بہت با اخلاق بھی تھے، دراصل وہ اصولوں کے پابند تھے، وہ نوجوانوں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ ‘‘

راغب مراد آبادی نوجوانی میں مسلم لیگ اور پاکستان کی تائید میں نظمیں لکھا کرتے تھے، ان کی سیکڑوں نظمیں قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوئیں۔ 1946 میں ’’عزم و ایثار‘‘ کے نام سے ان کی قومی اور سیاسی نظموں کی کتاب دہلی سے شایع ہوئی۔

تقسیم کے بعد ستمبر 1947 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک ’’سینٹرل گورنمنٹ ایمپلائز ایوی ایشن کمیٹی‘‘ قائم کی اور راغب صاحب کو اس کا سیکریٹری مقررکیا۔ اس کمیٹی نے مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں ایک جامع پروگرام مرتب کیا۔ گریجویشن کے بعد 1939 میں راغب صاحب دہلی میں سینٹرل آرڈیننس ڈپو سے منسلک ہو گئے تھے۔

کچھ عرصے انھوں نے ’’سپلائی ڈیپارٹمنٹ‘‘ میں بھی کام کیا۔ 45ء میں وہ انڈین گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ آف ری سیٹلمنٹ اینڈ ایمپلائمنٹ سے وابستہ ہوئے اور 1947 میں پاکستان آکر اسی ادارے سے منسلک ہو گئے تھے، وہ 67 سے 68 تک سندھ کے فیملی پلاننگ بورڈ کے پبلسٹی آفیسر رہے۔

ساتھ ہی انھوں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ سندھ میں افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور وہ 1980 میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سندھ نے انھیں وقتاً فوقتاً تین ہاؤسنگ سوسائٹیز کا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق قیام پاکستان سے لوگوں کو جو امیدیں وابستہ تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ راغب مراد آبادی نے 9 سال کی عمر میں پہلی نظم محلے میں ساس بہو کا جھگڑا دیکھ کر مثنوی کے انداز میں کہی:

بہو کا میاں سے ہوا کل جو جھگڑا

تو بی ساس لے آئیں آنگن سے پتھر

قریب آئے فرمایا غیض و غضب میں

کمینی ابھی توڑ دوں گی تیرا سر

بڑی جنگجو ہے بڑی تند خو ہے

چلاتی ہے تو اپنے شوہر پر نشتر

نکل جاری ڈائن ابھی تو یہاں سے

نہیں تیرے ابا کا ، یہ ہے میرا گھر

اس وقت وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے جب 1930 میں انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا۔

درج ذیل اشعار ان کی شاعری کے آغاز کے دور سے متعلق ہیں۔

جو تیرے در پہ جبیں اپنی جھکا لیتے ہیں

اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنا لیتے ہیں

جب کبھی دل کی تڑپ حد سے گزر جاتی ہے

تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں

کون ہے عالم تنہائی میں مونس راغب ؔ

دل ہی کو قصہ غم اپنا سنا لیتے ہیں

اس شعبے میں وہ مولانا ظفر علی خان مرزا یگانہ چنگیزی، سید علی اختر اور مولوی صفی لکھنو کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے ان تمام افراد سے اصلاح لی لیکن زیادہ عرصہ وہ مولانا ظفر علی خان کی شاگردی میں رہے۔ انھوں نے روزنامہ قومی اخبار کو مارچ 2006 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ آج شاعری کی اصلاح کا سلسلہ تقریباً ختم ہی ہوگیا اور آج ہر شخص خود کو غالبؔ اور میرؔ سے بڑا شاعر تصورکرتا ہے۔‘‘

اردو زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’اردو کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہیں کی گئی، اگر اسے سرکاری دفاترکی زبان کی حیثیت دے دی جائے تو یہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔

ہمارے ہاں شاعری اور ادب کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کے یہ شعبے مستحق ہیں، اسی وجہ سے آج نہ لکھنے والے ہیں اور نہ پڑھنے والے۔ یہی اردو کے زوال کی اصل وجہ ہے۔‘‘ راغب مراد آبادی کی شاعر مشرق علامہ اقبال سے خط و کتابت بھی رہی اور ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق وہ مولانا ظفر علی خان کے ساتھ علامہ اقبال سے ملے تھے اور وہ ان کے ساتھ بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آئے۔

راغب مراد آبادی نے سات ہزار سے زائد رباعیات کہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں خیام ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور انھیں جوش کے بعد اردو شاعری کی اس صنف میں سب سے بڑی شخصیت تصور کیا جاتا ہے، راغب مراد آبادی معروف دانشور اور فلسفی علامہ نیاز فتح پوری کے بھی نیاز مند رہے۔ ان کے مطابق نیاز فتح پوری عقلیت پسند تھے اور وہ بغیر دلیل کسی بات کے قائل نہیں ہوتے تھے۔

راغب صاحب ان کے بیش تر خیالات سے متفق تھے۔ راغب مراد آبادی قرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور وہ ترقی پسند نظریات کے بھی قائل تھے لیکن کبھی باقاعدہ ترقی پسند گروہ کا حصہ نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پسند نظریات مستقبل میں فروغ حاصل نہیں کریں گے اور اب جمہوری نظام ہی ریاستوں کا مستقبل ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کو جاگیرداروں اور آمروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ شاعری میں وہ جوشؔ، علامہ اقبالؔ، میرؔ، غالبؔ، رئیسؔ امروہوی اور پروفیسر منظور حسین شورؔ کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ راغب مراد آبادی خاصے عرصے علیل رہے۔ اسی دوران کرامت غوری نے ان کے لیے درج ذیل چند اشعار کہہ کر حکومت کی توجہ ان کی بیماری کی جانب مبذول کروائی تھی۔

علیل حضرت راغب ہیں یہ بری ہے خبر

ہے صاحبان ادب کو یہ جیسے تیر و تبر

ہماری کشور شعر و سخن کی آن ہیں وہ

کہ ان کے دم سے سجی ہے بساط فکر و نظر

خبر لے ان کی یہ سرکار کا فریضہ ہے

علاج ان کا ہو بہ اہتمام حسن نظر

کوئی دقیقہ نہ باقی رہے توجہ میں

ثبوت پیش کریں کج کلاہ چارہ گر

دعا یہ مل کے کریں صحت یاب ہوں راغبؔ

کہ فی زمانہ کہاں ان کے جیسا دیداہ ہو

یہ اشعار روزنامہ امن میں 28 مارچ 2009 کو شایع ہوئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اسی علالت میں مزید دو سال زندہ رہ کر 19 جنوری 2011 کو یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گئے۔

ہو رہا ہے خیر سے دار و رسن کا اہتمام

بعد اک مدت کے شاید ان کو ہم یاد آئے ہیں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے تھے انھوں نے کے مطابق لیتے ہیں تھے اور علی خان شایع ہو اور وہ اور ان میں وہ کے بعد

پڑھیں:

ہم عظیم رہنما اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور عظیم پاکستانی فلسفی علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں* سفیر ایران رضا امیری مقدم

 اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 مارچ2025ء) 23 مارچ کو، جیسا کہ پاکستان کی عظیم قوم پاکستان کا قومی دن بڑے فخر کے ساتھ مناتی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارت خانہ اور سفارت خانے کے رہائشی عملے اس پرمسرت موقع پر پاکستان کی حکومت اور قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


 پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، ہم بصیرت والے رہنما اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور عظیم پاکستانی فلسفی علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔


 کئی دہائیوں کے دوران، بحیثیت قوم، پاکستان نے غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدم، بہادر اور دیانتدار ثابت کیا اور وقت کی کسوٹی پر پورا اترا۔
 دونوں قیادتوں کے پختہ عزم کی بنیاد پر، ایران اور پاکستان اسلامی بھائی چارے، اچھی ہمسائیگی، باہمی احترام اور اخوت کے اصولوں پر مبنی ہمہ جہتی شعبوں میں مثالی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔
 86 ویں یوم پاکستان کے موقع پر ہماری نیک خواہشات پاکستان کی دیرپا امن، ترقی اور سلامتی کے لیے جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گوادر میں یوم پاکستان پر عظیم الشان ریلی کا انعقاد، شہریوں کا ملک سے اتحاد کا شاندار مظاہرہ
  • مسلم لیگ نے پاکستان بنایا وہی اسے سنوار رہی ہے: عظمیٰ بخاری
  • پیپلزپارٹی کبھی بھی کینالز نہیں بننے دے گی، بلاول بھٹوعوام کو خوداعتماد میں لیں گے، مراد علی شاہ
  • پاکستان کوعظیم اور فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے: حمزہ شہباز
  • سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں، منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے: مراد علی شاہ
  • ملک کو عظیم فلاحی ریاست بنانے کیلیے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا، وزیراعلیٰ کے پی
  • ہم عظیم رہنما اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور عظیم پاکستانی فلسفی علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں* سفیر ایران رضا امیری مقدم
  • چین کی صارفی مارکیٹ اب بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے پرکشش ہے ، چینی میڈیا
  • معروف اداکار کو رمضان میں شراب نوشی کی ویڈیو وائرل ہونے پر شدید تنقید کا سامنا