Express News:
2025-03-17@04:24:57 GMT

چار درویش اور ایک بکرا

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

آخری قسط
 

خوشاب سے میانوالی کو ملانے والی ریلوے سے جنوب میں سارا علاقہ تھل صحرا کا ہے۔ ہزاروں سال پرانی تاریخ کا حامل یہ علاقہ اب کہیں سرسبز ہورہا ہے مگر اس کی اصل ثقافت زوال پذیر ہورہی ہے اور اکثر علاقوں سے مٹتی جا رہی ہے۔ ہر طرف ریت کے ٹیلے ٹبے ہیں۔ پانی اور آبادی کم ہیں۔ صحرائی پودے اور جانور پائے جاتے ہیں۔

دونوں دریاؤں کے اس درمیانی علاقے کو سندھ ساگر دو آب کہتے ہیں۔ تھل کے لوگوں کا رہن سہن بہت خوبصورت ہے۔ دریائے سندھ سے نکالی ہوئی ایک نہر اور لوگوں کی شدید محنت تھل کو آہستہ آہستہ زرعی علاقے میں بدل رہی ہے۔ چوں کہ تھل ایکسپریس راولپنڈی سے ملتان جانے والی ریل گاڑی تھل کے ریگستان سے ہوکر گزرتی ہے، اسی لیے اس کا نام تھل ایکسپریس ہے۔ صحرائے تھل کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 90 میل جب کہ چوڑائی زیادہ سے زیادہ 70 میل ہے۔

دوپہر رفتہ رفتہ ڈھل رہی تھی۔ دن دسمبر کے تھے۔ اگرچہ کہ دھوپ تھی مگر پھر بھی ٹھنڈک کا احساس تو تھا۔ میں کھڑکی سے سر لگائے بیٹھا تھا کہ اونگھنے لگا۔ نہ جانے یہ جنڈ کے پکوڑوں کا اثر تھا یا پھر میری رات کی نیند نہ پوری ہوئی تھی۔ تھل ایکسپریس جو پہلے ہی رفتہ رفتہ چل رہی تھی، کچھ مزید سست سی ہوگئی اور کچھ لمحوں کے لیے رک گئی۔

میں نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ دھوپ اچھی لگی تھی، اس لیے نیند بھی اچھی آنے لگی۔ ریل گاڑی فقط ایک منٹ کے لیے ہی یہاں رکی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی چھوٹا سا ہی ریلوے اسٹیشن ہوگا۔ ریل کی صوت عجیب سا سُرور کانوں میں گھول رہی تھی۔ دس پندرہ منٹ میں نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ پہلے میرے سامنے کی سیٹ خالی تھی۔ اب کی بار جو آنکھیں کھولیں تو سامنے کی سیٹ پر ایک قد آور شخصیت بیٹھی تھی۔ چہرے کے نقوش سے تو خواجہ سراء لگتا تھا مگر مردانہ کپڑے، کندھوں پر گرم چادر اور رعب دار طریقے سے ان کا یوں بیٹھنا میرے تاثر کو زائل کر رہا تھا۔

عمر بھی کم از کم پچپن سال تو ہوگی۔ میں ان سے بات کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ان کا موبائل فون بجنے لگا۔ عجیب سی بھاری آواز میں ہیلو کہا گیا۔ شاید موبائل فون پر سوال کیا گیا تھا کہ آج بجلی کا بل ادا کرنے کی آخری تاریخ تھی۔ جواباً بتایا گیا کہ بل اور پیسے فلاں فلاں جگہ رکھے ہیں۔ پوچھا گیا کہ دودھ ابال کر رکھ دیا تھا؟ کچھ مزید باتیں ہوئیں اور فون بند کر دیا گیا۔ فون بند کر کے جب وہ اسے اپنی جیب میں ڈال رہے تھے تو قمیص کے کف پر میں نے بڑا سا J (جے) لکھا دیکھا، جس سے اندازہ ہوا کہ شخصیت خواہ مرد ہو یا خواجہ سراء، کچھ رکھ رکھاؤ والی تو تھی۔

بازوؤں میں موٹے موٹے کنگن بھی دکھائی دیے۔ ایک کنگن کم از کم پانچ تولے سے تو زیادہ کا ہی ہو گا۔ میں ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھتا رہا۔ انھوں نے مجھے ایسے دیکھا تو مسکرا دیے۔ جواباً میں بھی ہلکا سا مسکرا دیا۔ نام میاں گلزار تھا اور اپنے کسی چیلے کی تیمارداری کے لیے کلور کوٹ جا رہے تھے۔ میں نے تجسس سے پوچھا کہ ابھی گھر میں کس سے بات کر رہے تھے تو کہنے لگے کہ میری شریکِ حیات ہے۔ میں کچھ حیرت زدہ ہوا تو تفصیلات بتانے لگے کہ میاں گلزار صاحب ایک مردانہ اوصاف کے خواجہ سراء ہیں اور ان کی شریکِ حیات ایک زنانہ خواجہ سرا تھیں۔ میاں گلزار کوئی عام خواجہ سراء نہ تھے بلکہ گرو تھے۔

ان کا ہر چیلا انھیں ماہانہ کچھ نہ کچھ رقم دیتا تھا اور بدلے میں وہ اپنے چیلوں کے لیے مائی باپ کا کام کرتے تھے۔ انھیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے تھے۔ ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ گرو کا جب دل کرتا تھا، اپنے کسی نہ کسی چیلے کو اپنی خدمت کے لیے بلا لیتا تھا۔ میں نے میاں گلزار سے زیادہ سوال جواب نہ کیے، مبادا انھیں کسی بات کا برا نہ لگے مگر ان کے بچپن کے بارے ضرور سوال جواب کیے۔

میاں گلزار صاحب بتانے لگے کہ خوشیوں نے بھائی سجاد علی کے گھر کا رخ شادی کے پندرہ سال بعد کیا تھا۔ شادی کے بعد کے پندرہ سال بھائی اور بھابھی نے کس طرح گزارے تھے، یہ صرف وہی جانتے تھے۔ بھائی تو پھر بھی ایک مرد تھا، اصل امتحان تو بھابھی زینب بتول کا تھا، جس کو معاشرے کی باتیں بھی سننا پڑیں اور دل میں یہ ڈر الگ کہ کہیں بھائی دوسری شادی نہ کر لے۔ بھائی عقل مند آدمی تھا، بیوی کے سارے خدشات سے واقف تھا اس لیے ہمیشہ بھابھی زینب کی ہمت بڑھاتا۔ نہ جانے کس کی دعا قبول ہوئی اور شادی کے پندرہ سال بعد بھابھی نے ایک بچے کو جنم دیا۔

بھائی کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی، کمی تھی تو فقط بچے کی جو اب پوری ہوگئی تھی۔ دس سال پہلے وہ اپنے آبائی گھر سے نئی کوٹھی میں منتقل ہوچکے تھے۔ خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے۔ دورنزدیک کے سب رشتے داروں کو اپنی خوشی میں شامل کیا گیا۔ فقیروں کو جھولی بھر بھر کر نوازا گیا۔ جو بھی بچے کی مبارک باد دینے آیا، خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ میرے بھائی کی ماں نے سختی سے تائید کی تھی کہ جو فقیر، خواجہ سراء بچے کو دعا دینے آئے، اسے خالی ہاتھ نہ بھیجا جائے۔ بھائی بھی خوب پیسے لٹاتا رہا۔ رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں نے دروازے پر بچے کی لمبی عمر کی صدا لگائی۔ مجھے خبر تو وقت پر مل چکی تھی مگر میں جان بوجھ کر رات دیر سے وہاں گیا تھا۔

بھائی بھی اب لوگوں کو دے دے کر تھک چکا تھا مگر دادی سے پوتے کی لمبی عمر کی دعا سن کر رہا نہ گیا اور بھائی کو دروازے پر بھیج دیا کہ وہ صدائی کو کچھ دیر کر آئے۔ بھائی نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا۔ بچے پر سے سو کا نوٹ وارا اور دروازے کی جانب چل پڑا۔ بھائی کی کوٹھی بھی سڑک سے ہٹ کر تھی اور سب مہمان بھی جاچکے تھے، اس لیے خاموشی تھی۔ بھائی نے دروازہ کھولا تو جیسے تیس سال پیچھے چلا گیا۔ دونوں چہرے ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے.

چیخوں کا شور یقیناً بھائی کے کانوں میں گونج رہا تھا،بھیا میں نے کچھ نہیں کیا... مگر بھائی اور باپ پر جیسے خون سوار تھا۔

دونوں ہی مجھ سے بہت تنگ تھے، جہاں تک ممکن تھا، اس بات کو چھپایا گیا مگر یہ راز آخر کب تک راز رہتا۔ بے چاری دائی نے اپنے ناقص علم اور ”وسیع تجربے“ کی بنیاد پر میرے پیدا ہونے پر میرے اوپر لڑکے کا ٹھپا تو لگا دیا مگر ماں سے بھلا بچے کی کون سی بات چھپی رہ سکتی ہے۔ ماں سب سمجھتی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ میرا باپ اور بھائی دونوں اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ باپ نے جب بالائی منزل پر بنے اسٹور سے مجھے اور پھوپھا کو باہر نکلتے دیکھا تو قصور وار میں ہی قرار پایا۔ گلی میں کرکٹ کھیلتے کھیلتے جب میں اچانک غائب ہوا اور پھر چچا کے ساتھ روتا ہوا گھر واپس آیا تو باپ شرمندگی کے مارے اپنے بھائی سے میری گم شدگی اور رونے کا سبب بھی نہ پوچھ سکا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ معاشرے کی نظر میں قصور میرا ہی نکلنا تھا۔ پھر ایک رات فیصلہ ہوگیا۔

چند لوگ آئے اور مجھے میرے باپ کی اجازت سے اپنے ساتھ لے گئے۔ ماں دوپٹے کا پلو منہ میں دے کر روتی رہی، میں چلایا... ماں کی طرف بھاگا... مگر بھائی نے اسے راستے میں ہی دبوچ لیا۔ ماں نے ایک بار بھی مجھے چھڑوانے کی کوشش نہ کی جیسے وہ خود بھی یہی چاہتی ہو کہ میں ان لوگوں کے ساتھ چلا جاؤں۔ مجھے زبردستی ان لوگوں کے ساتھ بھیج دیا گیا۔

ماں..... اس لفظ کے علاوہ میری زبان پر دوسرا کوئی لفظ نہ تھا کیوں کہ پورے دس سال ماں نے ہی مجھے سینے سے لگا کر رکھا تھا اور میرے لیے بھی ماں، باپ، دوست سب کچھ میری ماں ہی تھی۔ مگر اب شاید ماں بھی یہی چاہتی تھی کہ میں یہاں سے چلا جاؤں اور میں چلا گیا۔ بھائی سجاد علی ماضی سے اس وقت واپس آیا جب بچے کے رونے کی آواز اس کے کان میں پڑی۔ بھابھی دروازے پر کھڑے بھائی سے مخاطب ہوئی، کون ہے؟ کوئی نہیں...ایک کھسرا مُنے کو دعا دینے آیا ہے۔

بھائی نے دروازہ بند کردیا۔ میں ہاتھ میں پکڑے سو کے نوٹ کو گھورنے لگا اور چپ چاپ بھائی کی کوٹھی سے بھتیجے کو دیکھنے کی خواہش دل میں دبائے واپس آ گیا۔ میاں گلزار تقریباً رو پڑے۔ میرے سوال کہ گزربسر کیسے ہوتی ہے پر بتایا کہ پہلے تو ان کی کمائی کا واحد ذریعہ ناچنا گانا ہی تھا مگر ان کا دل کبھی بھی اس طرف مائل نہیں ہوا۔ دو چار پیسے جمع ہوئے تو اسے چھوڑ دیا اور پھر ایک ٹانگا چلانا شروع کردیا۔

مذاق اڑانے والے لوگ تو تھے مگر زیادہ تر نے میرے کام کو دیکھا، میری نیت کو دیکھا۔ پھر ایک حادثے کے باعث ٹانگا چلانا ترک کرنا پڑا تو بازاروں اور گلی محلوں میں جا کر کھیس بیچنا شروع کردیے۔ گاؤں سے جا کر کھیس خرید لاتا اور انھیں شہر میں بیچ دیتا۔ باریک دریاں شہروں میں ملتی کہاں تھیں، اس لیے ہاتھوں ہاتھ بِک جاتیں۔ بتانے لگے کہ کچھ سال پہلے ہی ان کے پرانے مکان کے قریب ایک لڑکا پیدا ہوا۔ دائی تجربہ کار تھی، پہچان گئی کہ بچہ اصل میں خواجہ سرا ہے۔

گھر والوں نے بھی عقل مندی دکھائی اور دو دن کے بچے کو میری گود میں ڈال گئے۔ میں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ پرانا محلہ چھوڑا اور اپنی شریکِ حیات کو لے کر دوسری جگہ چلا گیا۔ اس بچے کو اب ہم دونوں مل کر پال رہے ہیں۔ باتیں تو میں میاں گلزار سے بہت ساری کرنا چاہتا تھا مگر پھر ان کا اسٹیشن آگیا اور وہ سر پر پیار دیتے ہوئے تھل ایکسپریس سے اتر گئے۔

 شام ٹھیک پانچ بج کر پانچ منٹ پر تھل ایکسپریس شاہ عالم ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئی جس کا نام شاہ عالم خان ہوت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ نواب حسن خان ہوت اپنی کتاب سرگذشت حسن میں لکھتے ہیں،”ڈیرہ جات کے ابتدائی ریاستی خدوخال دریائے سندھ کے اروار اور پار کے پتن اور ان سے جڑی معاشرتی آبادیوں سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ پتن کہیری، ببر، ڈیرہ اسماعیل خان، داجل، نوتک، بکھر، دریا خان کے انتظامی مراکز سولہویں صدی سے ہی ہوت قبیلہ کی عمل داری میں تھے۔

ہوت خانوادہ کے آخری والئی ڈیرہ نصرت خان ہوت نے جہاں کابل شاہی راج کے ایماء پر ڈیرہ اسماعیل خان سے دست برداری قبول کی وہیں انہوں نے اپنے زندگی کے آخری ایام رنگپور میں گزارے، جہاں ان کی اولاد کے آج بھی آباد ہے۔ سندھو دریا کے مغربی کنارے پر رنگپور سے متصل موضع ہوت اور خان پور شمالی جہاں مشہور ہیں وہیں دریا کے مشرقی کنارے پر تھل سے متصل موضع بستی مائی روشن ہے جس کی قدیم آبادی شاہ عالم ہے۔

شاہ عالم خان بنیادی طور پر والئی ہوت نصرت خان بلوچ کی اولاد سے ایک شخصیت حسن خان ہوت کے پوتے اور بہادر خان ہوت کے فرزند ہیں جن کے نام پر دریائے سندھ اور تھل کا سنگم آج کے شاہ عالم کی قدیم آبادی رکھتا ہے۔ مخدوم سید جہانیاں جہاں گشت بخاری کے پوتے سید سراج الدین محمد المعروف شاہ عالم (King of Universe) کے نام کی نسبت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہوت چاہے مکران سے ہوں یا ڈیرہ اسماعیل خان سے ان کی سادات سے عقیدت مندی ہمیشہ سے ہی بے مثال رہی ہے۔

شاہ عالم کے اطراف میں کوئی آدھ درجن موضع جات میں کئی صدیوں سے سادات قبائل کی جاگیریں بھی موجود ہیں۔“ جب ہم دریا خان ریلوے اسٹیشن پہنچے تو شام مکمل طور پر اتر چکی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کا گھڑیال 6:08 کا وقت بتا رہا تھا۔ وادیِ سندھ کے عظیم جرنیل دریا خان نے جہاں اپنی بہادری و جرأت کے کارنامے بولان، سبی، بکھر اور ٹھٹھہ کے محاذوں پر سر انجام دیے وہیں، ان سے منسوب لوک داستانیں اسے ایک مافوق الفطرت اور حیرت انگیز شخصیت بناتی ہیں۔ ان میں سے ایک داستان نے انہیں دولہا دریا خان بنایا۔

دھرتی کا وہ دولہا جس نے نہ صرف ٹھٹھہ و سمہ سلطنت بلکہ اوچ شریف و ملتان تک کے علاقوں کو تاتاریوں کے غیض و غضب سے محفوظ کیے رکھا۔ جھڈو تھرپارکر کے علاقے میں بالو راٹھور سردار تھے جن کی دوشیزہ ہموں بہت مشہور ہوئیں۔ ان کی پرورش اسی جھڈو علاقے میں ہوئی جہاں ان سے منسوب ایک جھیل ہموں جو تلاؤ (Hamoon Jo Talao) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسی جھیل کنارے دریا کی روانی نے تھر کی مسحور کن کشش کو محسوس کیا۔ ہموں کی منگنی اس کے والد نے تھر ہی کے ڈیرو قبیلہ کے سرخیل کہو (Kahu) کے فرزند سے کر دی تھی۔

جس کہو کے نام سے منسوب کہو جو دڑو نام کے ٹیلے آج بھی میرپور خاص کے قریب پائے جاتے ہیں۔ کہو کی جام نظام الدین سمہ سے رشتہ داری اسے اس وقت کے طاقت ور عمائدین میں شمار کرتی تھی کیوں کہ اس کی ہمشیرہ مورکھائین اس وقت ٹھٹھہ کی ملکہ تھیں۔ وادی سندھ کی فوک کے مطابق راٹھور سردار بالو نے ہموں کا ہاتھ قندھار (بولان و سبی) کی مہم اور خوں خوار شیر کو اکیلے شکار کرنے سے مشروط کیا تھا کہ جو بھی دھرتی کو مغرب سے چنگھاڑتے ان درندوں سے بچانے گا ہموں اسی کی ہوگی اور پھر یہ فتح بھی قبول خان لاشاری المعروف دریا خان کے حصے میں آئی جس نے بولان و سبی کے آس پاس ارغون و تاتاری افواج کو شکست فاش دی۔

دریا خان فتوحات کے نقارے بجاتا ٹھٹھہ پہنچا اور پھر تھرپارکر کے راٹھور سردار نے ہموں کو دریا خان کے نام کر دیا۔ یوں قبول خان لاشاری بنا وادیِ سندھ کا دولہا دریا خان۔ جس نے اپنی زندگی میں ارغون تاتاریوں کو بولان، سیہون، بکھر اور ٹھٹھہ کے محاذوں پر مسلسل شکست سے ایسے دوچار کیا کہ دریائے سندھ کے کناروں پر بستے لوگ آج بھی انہیں لوک داستانوں و روایات میں فخریہ یاد کرتے ہیں۔

جام فیروز کی جاہ طلبی کی بدولت جب دریا خان کو ٹھٹھہ کے قریب ہوئی جنگ میں تاتاریوں نے دھوکے سے شہید کروایا تو نہ صرف ٹھٹھہ بلکہ بکھر، اچ شریف و ملتان تک ارغون تاتاریوں کے ظلم و سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تاریخ کے طالب علم آج بھی جب جام نظام الدین سمہ کے بیٹوں کے متعلق پڑھتے ہیں تو انہیں جام نندو کا منہ بولا بیٹا قبول محمد لاشاری المعروف دولہا دریا خان اپنی جرات، وفاداری اور شجاعت میں بے مثال و لازوال ملتا ہے۔

تھل ایکسپریس تقریباً چھے بج کر دس منٹ پر جب دریا خان کے ریلوے سٹیشن میں داخل ہونا شروع ہوئی تو ہر طرف اندھیرا طاری تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ میں آخری بوگی میں سوار تھا اور تھل ایکسپریس کی آخری بوگی تقریباً ہر پلیٹ فارم کے آخری کونے پر ہی لگ رہی تھی جہاں ریلوے اسٹیشن کے نام کا بورڈ نصب ہوتا تھا۔

کوئی بھی پلیٹ فارم کیسا ہے، یہ ہمیں صرف تب پتا چلتا جب تھل ایکسپریس اس پلیٹ فارم سے روانہ ہونے لگتی۔ دریا خان کے آنے پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ رات کی تاریکی میں کیا نظر آنا تھا۔ کوئی اکادکا بتی اگر جل بھی رہی تھی تو وہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے پاس تھی اور آخری بوگی اور ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں کم از کم چھے سے سات بوگیوں کا فاصلہ تھا۔

دریا خان کے آنے سے پہلے ہی میں اونگھ رہا تھا اور کبھی کبھار نیند کا خوش گوار جھونکا بھی آ جاتا۔ شاہ عالم ریلوے اسٹیشن پر جب سورج ڈوب رہا تھا تو اچانک سے میری آنکھ کھلی۔ دسمبر کے بالکل آخری دنوں کا سورج کالے اور سرخ رنگوں کے ملاپ کے ساتھ ڈوب رہا تھا۔ شاید وہ تیس دسمبر کا سورج تھا۔

اس ڈوبتے ہوئے سورج کی تصویر بنانا فضول تھا۔ نہ تو میں فوٹو گرافر تھا اور نہ ہی میرے پاس کوئی اچھا سا کیمرا تھا۔ میرے قریب ہی شعیب اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے لاشعوری کے عالم میں ہی شعیب صاحب کو آواز دی کہ ڈوبتا ہوا سورج دیکھیں مگر وہ شعیب کی سیٹ خالی تھی۔ میں نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہ پہلے ہی سورج پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سورج ڈوب گیا اور ہم سب اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

باہر مکمل اندھیرا پھیل گیا۔ مجھے ایک بار پھر جزوی طور پر نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ مکمل طور پر آنکھ تب کھلی جب تھل ایکسپریس کی آخری بوگی دریا خان ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کے بالکل کونے رک گئی۔ وادیئ سندھ کی سمہ سلطنت کے جام نظام الدین سمہ ایک عظیم حکم راں تھے، جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ اولاد نہیں دی تھی۔ سبی میں دوران شکار ان کی ملاقات ایک لاشاری نوجوانوں قبول محمد سے ہوئی جسے انہوں نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا، اس کی ٹھٹھہ میں پزیرائی کی اور کچھ ہی عرصے میں وہ نوجوان اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت سلطنت کا جرنیل دریا خان لاشاری مشہور ہوا۔

وادیئ سندھ کی تاریخ اور لوک داستانوں میں سب سے زیادہ ذکر اسی جرنیل کا ہے۔ دریا خان لاشاری نے ارغون اور منگولوں کو درہ بولان کے پاس بی بی نانی کی جنگ میں شکست فاش دی اور فتح مند ہو کر ٹھٹھہ پہنچا تو سندھ دھرتی کے لوگوں نے اسے دولھا دریا خان کا لقب دیا۔ بہادری اور بصیرت کی تاریخ رقم کرتا یہ جرنیل ٹھٹھہ کے قریب فتح پور کی جنگ میں ارغون اور منگول افواج کے ہاتھوں اس وقت شہید ہوا جب اس کی فوج کے کچھ ابن الوقتوں اور جام فیروز نے میدان جنگ میں پیٹھ دکھائی۔ ٹھٹھہ، بکھر سکھر اور سندھ کے باقی علاقوں سے بلوچ اور جاٹ قبائل نے براستہ اچ شریف، ملتان اور شورکوٹ سے ڈیرہ جات کی طرف ہجرت کی۔

اچ شریف اور شورکوٹ کے سمہ گورنروں جام ابراہیم اور جام بایزید سمہ نے ان قبائل کی خوب پزیرائی کی اور لنگاہ سلطنت میں ڈیرہ جات کی تشکیل ہوئی۔ ڈیرہ جات کے بلوچ قبائل نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مشرق میں بسایا دریا خان جو آج بھی وادیئ سندھ کے اس عظیم جرنیل کی نسبت کا امین ہے اور ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان کہلاتا ہے۔

میں دریا خان کا بورڈ دیکھنے میں مگن تھا کہ تھل ایکسپریس سرکنے لگی۔ کچھ ہی لمحوں میں تھل ایکسپریس ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے سامنے سے گزری اور بوگی میں ذرا روشنی سی پھیل گئی۔ میں ابراہیم کی طرح کھڑکی سے سر باہر نکالتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کو دیکھتا رہا جب تک تھل ایکسپریس مڑ کر مین لائن پر نہیں آ گئی۔ بچوں کے ساتھ چند ماہ پہلے جب میں علامہ اقبال ایکسپریس پر لاہور گیا تو ابراہیم بھی میری طرح ہر وقت باہر ہی دیکھتا رہا۔ جلد ہی دریا خان پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر لگا بورڈ بھی گزر گیا اور تھل ایکسپریس کے گرد ایک بار پھر اندھیرا پھیل گیا۔ میں نے گردن اندر کی جانب موڑی تو میرے سامنے والی خالی سیٹ پر کوئی بیٹھ چکا تھا۔ وہ سکندر علی تھا۔

سکندر علی ایک عِطر فروش تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک بیگ تھا جس میں عطر کی چھوٹی چھوٹی بہت سی شیشیاں تھیں۔ سکندر علی دریا خان کے بازار میں گھوم پھر کر عطر بیچتا تھا۔ کبھی دریا خان، کبھی لیہ اور کبھی بھکر۔ بنیادی طور پر وہ بھکر سے تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آج کل بھکر میں رہتا تھا۔

پیدائش کہاں کی تھی، یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو سید صداقت علی شاہ کی خدمت میں پایا۔ وہ سید صداقت علی کا کچھ بھی نہیں لگتا تھا مگر سب کی طرح انھیں شاہ جی ہی کہتا تھا۔ بچہ تھا اس لیے زنانے میں بھی آتا جاتا رہتا تھا ورنہ سعادت کے گھرانے کے زنان خانے میں کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا۔ صداقت شاہ کی ماں کو سب بڑی بی بی کہتے تھے اور اس کی بیوی کو چھوٹی بی بی۔ گھرانا چوں کہ سادات کا تھا، اس لیے سب ہی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وقت کا پنچھی اڑتا گیا اور سکندر علی کا بچپن بہت پیچھے رہ گیا۔

پہلے لڑکپن آیا اور پھر جوانی۔ سکندر پر زنانے میں جانا بند کردیا گیا مگر پھر بھی اس پر وہ سختی نہ تھی جو باقی ملازمین پر تھی۔ وجہ فقط یہ تھی کہ سکندر علی نے آنکھیں بھلے اس گھر میں نہ کھولیں ہوں مگر ہوش اسی گھر میں سنبھالا تھا۔ صداقت علی کو بھی سکندر علی بہت عزیز تھا اور خود سکندر علی بھی پورے گھرانے اور خاص کر صداقت علی شاہ کی خدمت میں کوئی کمی نہ رکھتا تھا۔ سکندر علی آگاہ تھا کہ شاہ جی کو کس کس وقت حقہ دینا ہے اور یہ بھی کہ حقے میں تمباکو اور گڑ کی کتنی کتنی مقدار شامل ہوگی۔ دن کے اوقات میں یہ تمباکو اور گڑ کی نسبت رات کی نسبت سے کچھ مختلف ہوتی تھی۔

سکندر علی نے کبھی اسکول کا منہ نہ دیکھا تھا مگر وہ صداقت علی کے آنکھوں کے اشاروں سے بھی واقف تھا اسی لیے بڑے شاہ کے کچھ زیادہ ہی قریب تھا۔ سکندر علی چند ماہ کا تھا جب وہ سادات کے یہاں آیا تھا۔ کہاں سے آیا تھا، یہ وہ نہ جانتا تھا۔ جان کر اسے کرنا بھی کیا تھا۔ صداقت علی کے پانچ بچے تھے۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ سب سے بڑی کلثوم تھی جسے سب بی بی کلثوم کہتے تھے۔ کنواری تھی جب کہ نیچے کے تینوں بھائی شادی شدہ تھے۔ صداقت علی خاندان سے باہر شادی کرنے کے لیے کسی صورت راضی نہ تھے جب کہ سادات میں کوئی بھی کلثوم کی عمر کا لڑکا نہ تھا۔

اگرچہ کہ روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ صداقت علی کسی بھی سادات کے لڑکے کو خرید کر اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے سکتے تھے مگر المیہ یہ تھا کہ کلثوم سے پندرہ سال چھوٹا بھی کوئی لڑکا نہ تھا۔ صداقت علی اپنے خون میں ملاوٹ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ کہ صداقت علی کے تینوں لڑکوں نے بہت کوشش کی کہ کلثوم کا بیاہ کسی غیر سید سے ہی کردیا جائے مگر صداقت علی کسی بھی صورت نہ مانے۔ کلثوم چالیس کا ہندسہ نہ جانے کب کا پار کرچکی تھی۔ چوں کہ سکندر علی نے ہوش ہی اسی گھر میں سنبھالا تھا بلکہ زیادہ وقت بھی زنانے میں گزرا تھا، اس لیے وہ سب کے ہی قریب تھا۔ پورا گھرانہ اس پر اعتماد بھی کرتا تھا۔ گھر کی عورتوں کو کہیں لے جانے کی ذمے داری بھی سکندر علی کی ہی تھی۔

گاؤں سے شہر جانا ہو، کلثوم بی بی نے بازار جانا ہو یا اپنی کسی سہیلی کے یہاں، سب لوازمات سکندر علی کے ہی سپرد تھے۔ سکندر کو بھی کلثوم بی بی سے عقیدت تھی۔ وہ انھیں کوئی مقدس ہستی ہی سمجھتا تھا مگر ایک عرصے سے کلثوم کے دل میں کہیں نہ کہیں سکندر کے لیے کچھ تو تھا۔ سکندر وہ واحد نامحرم تھا جسے کلثوم دیکھ سکتی تھی۔

ورنہ تو سادات کی خواتین سات پردوں میں ہی ہوتی تھیں۔ ایسے میں کیوں کر ممکن تھا کہ کلثوم کو سکندر علی سے محبت نہ ہوتی مگر سکندر علی نے امانت میں خیانت کبھی نہیں کی تھی۔ وہ نمک حلال تھا، اس نے نمک حلالی ہی کی۔ کلثوم نے باتوں ہی باتوں نے سکندر سے اظہارِمحبت بھی کیا اور سکندر نے بھی بالکل اسی طرح اپنی باتوں کو ایک غلاف میں لپیٹ کر کلثوم بی بی کے حضور پیش کردیا۔ سکندر علی احسان فراموش نہیں ہو سکتا تھا۔ جس گھرانے کے ٹکروں پر وہ پلا تھا، اسی پاک گھرانے میں چھید وہ کیسے کر سکتا تھا۔ کلثوم بھی آخر کار ایک عورت ذات ہی تھی۔

تعلق اگرچہ سادات سے تھا مگر تھی تو وہ اندر سے ایک مکمل عورت۔ نہ جانے کتنی ہی راتیں اس نے سکندر علی کو یاد کرتے ہوئے سسک سسک کر گزار دیں۔ ایک رات جب انتہا ہو گئی تو اس نے بہانے سے سکندر کو بلا لیا۔ کلثوم بے حجاب ہوئی، سکندر علی نے پہلی بار اسے اتنے قریب سے بنا پردے کے دیکھا تھا۔ کلثوم سکندر سے لپٹ گئی مگر نہ جانے سکندر علی آج کے مادہ پرست دور میں بھی کس مٹی سے بنا تھا۔

سکندر باہر کو بھاگا اور پھر کبھی بھی سادات محل کا رخ نہیں کیا۔ کوئی اور عورت ہوتی تو الگ بات تھی مگر کلثوم بی بی کے لیے سکندر علی کی آنکھوں میں آج بھی محبت تھی، عقیدت تھی۔ تھل ایکسپریس کی آخری بوگی میں میرے سامنے جو سکندر علی بیٹھا تھا، وہ ایک عطر فروش کے روپ میں تھا۔ سکندر علی نے شادی نہیں کی، خاندان نہیں بنایا۔ اس کے دل میں آج بھی کلثوم کے لئے بے پناہ محبت تھی۔ سکندر نے نہ تو صداقت علی سے نمک حرامی کی اور نہ اپنے دل سے۔ سکندر علی مجھ سے باتیں کرتا جاتا تھا اور مسکراتا رہتا تھا۔

نہ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی بوتل عطر کی نکالی اور میری نبض پر عطر مَلنے لگا۔ جلد ہی رات کے گھپ اندھیرے میں بھکر آیا، تھل ایکسپریس کی آخری بوگی بھکر پلیٹ فارم کے آخری کونے پر رکی اور سکندر علی نے اسی خاموشی سے تھل ایکسپریس کو چھوڑ دیا جس خاموشی سے اس نے سادات محل کا چھوڑا تھا۔ سکندر علی صرف اس بات سے مطمئن تھا کہ اس نے سادات محل کو داغ نہیں لگایا تھا۔ اگرچہ کہ رات ہر سُو پھیل چکی تھی۔

ہم سب تھل ایکسپریس کی آخری بوگی میں تھے۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت تو روشن تھی مگر اس عمارت تک پہنچ پانا اور پھر واپس اپنی بوگی میں آنا ناممکن تھا کیوں کہ تھل ایکسپریس بھکر ریلوے اسٹیشن پر صرف دو منٹ کے لیے رکتی ہے اور آخری بوگی اندر سے باقی ریل سے منسلک نہیں ہوتی۔ مجھے بتایا بھی گیا کہ اس قدر گھپ اندھیرا میں اول تو تصویر نہیں بننی اور اگر بنی بھی تو تقریباً واہیات ہی بننی ہے مگر محترم ریاض حسین انجم صاحب کی خوشبو پانا ضروری تھا۔ ان کا دستِ شفقت ضروری تھا۔

تھل ایکسپریس نے ہمیں اتنا ہی موقع دیا کہ ہم اندھیرے میں لکھے ہوئے بھکر کے ساتھ ایک تصویر بنا لیں، ریاض حسین انجم صاحب کی خوشبو پا لیں اور لیہ کی جانب روانہ ہوجائیں۔ ریاض انجم صاحب وہ ہیں جنھوں نے ”ریل کی تنگ گلیاں“ مضمون جو کہ نیرو گیج لائن (ماڑی انڈس تا بنوں) کے بارے تھا، مجھے بہت مفید اور تاریخی معلومات فراہم کی تھیں۔ رات چاروں سُو پھیل چکی تھی۔ دھند نے جنوبی پنجاب نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ سب لوگ گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔

ہماری آخری بوگی ہر پلیٹ فارم کے آخر میں جا کر لگتی تھی۔ ہماری بوگی میں کوئی سوار نہیں ہو رہا تھا۔ ساری چہل پہل بس آگے ہی تھی۔ اب پٹری کی حالت قدرے بہتر تھی تو ڈرائیور نے بھی تھل ایکسپریس کی رفتار اچھی خاصی رکھی۔ ٹھیک 10:40 پر تھل ایکسپریس نیل کی سر زمین ملتان کے ریلوے سٹیشن پر تھی۔ ہم سب ملتان پہنچ چکے تھے اور یوں ہمارا راول پنڈی سے ملتان کا سفر مکمل ہو گیا۔ سفر ہی مکمل نہیں ہوا، مانو ایک خواب مکمل ہو گیا، پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈیرہ اسماعیل خان ریلوے اسٹیشن کی سکندر علی نے پلیٹ فارم کے دریائے سندھ دریا خان کے کلثوم بی بی خواجہ سراء خان لاشاری میاں گلزار پندرہ سال صداقت علی سے زیادہ میں کوئی ٹھٹھہ کے ڈیرہ جات بوگی میں شاہ عالم سکتا تھا رہا تھا تھا مگر رہے تھے تھا اور کے ساتھ گھر میں کے قریب گیا اور اور پھر سندھ کے نہیں ہو کیوں کہ نہیں کی رہی تھی کی نسبت کے آخری تھی مگر پہلے ہی کی تھی علی کے اس لیے آج بھی میں ہی تھی تو بھی نہ کے نام سے ایک کے تھے تھی کہ لگے کہ رہی ہے ہی تھی کا تھا ہے اور بچے کو تھا کہ بچے کی کی اور کے لیے

پڑھیں:

بجرنگی بھائی جان نے منائی ہولی، دبنگ انداز میں؛ فلم سکندر کے سیٹ پر کیا ہوتا رہا؟

اداکار سلمان خان نے فلم سکندر کے سیٹ پر منفرد انداز میں ہولی منا کر سب کو حیران کردیا جس پر مداحوں کا کہنا ہے کہ آپ یوں ہی ہمارے دلوں کی جان نہیں۔

سلمان خان اپنی نئی آنے والی فلم سکندر کو عید پر ریلیز کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ڈبنگ اسٹوڈیو میں ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں۔

انھی مصروفیات کے دوران تہوار ہولی بھی آگیا۔ جسے بالی ووڈ کے تمام ہی اسٹارز روایتی انداز میں منانے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

موسیقی اور رقص کی محافل ہوتی ہیں اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکے جاتے ہیں۔ ہر طرف رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔

تاہم اداکار سلمان خان نے ہولی کا تہوار انوکھے انداز میں منا کر اپنے مداحوں کا جیت لیا۔ انھوں نے سکندر کے سیٹ پر بچوں کے ساتھ ہولی منائی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سلمان خان بچوں میں گھرے ہوئے نہایت خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Adiba Hussain????????♌️ (@iamadibahussain)

نوجوان اداکارہ عابدہ حسین نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں اس لمحے کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ سب سے رنگین ہولی، محبت کے رنگوں کی چھڑکاؤ کے ساتھ۔

جس پر سلمان خان کے مداحوں نے کمنٹس کی صورت میں مبارک بادوں اور نیک تمناؤں کی بارش کردی۔ 

 

متعلقہ مضامین

  • بجرنگی بھائی جان نے منائی ہولی، دبنگ انداز میں؛ فلم سکندر کے سیٹ پر کیا ہوتا رہا؟