انسانی زندگی نشیب و فراز سے پرپیچ گزر گاہ کی مانند ہے۔ بعض اوقات انسان وہ کر بیٹھتا ہے جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ کسی فرد کا ایک عمل اس کی آئندہ زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔جرم ایک ایسا سماجی قابل نفرت اور قابل سزاء عمل ہے جس کا ارتکاب کرنے کے بعد انسان مجرم کہلاتا ہے۔
کسی جرم کے پیچھے خواہ کوئی بھی وجوہات ہوں،کیسے ہی حالات ہوں جرم بہر حال جرم ہی ہے۔ جرائم کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے اور اس سے پہنچنے والا نقصان لیکن ہر جرم کی سزاء ہوتی ہے ۔ اگر معاشرے سے سزاء وجزاء کا عنصر نکال دیا جائے تو معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا، جس کا جو جی چاہے گا وہ کر گزرے گا۔ یہ تمیز کئے بنا کہ وہ عمل اچھا ہے یا برا۔ جرم و سزاء کا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان کا زمین سے۔ مہذب معاشرے اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے اور امن و امان قائم رکھنے کے لئے ایسا نظام تشکیل دیتے ہیں جو مجرموں کو سزاء دے اور باقی لوگوں کے لئے جرم سے دور رہنے کو ترویج دے۔
جیلیں بھی ایسی ہی جگہ ہیں جہاں آپ کو ان گنت جرائم کی کہانیاں ملیں گی۔مختلف رنگ، زبان اور نسل سے تعلق رکھنے والے مجرم ایک چھت تلے رہتے دکھائی دیں گے۔ پاکستان میں بھی مجرموں کو سزاء دینے کے لئے جیلوں کا نظام موجود ہے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر جیلوں میں مروو خواتین کے لئے الگ بندوبست ہے۔
پنجاب میں اس وقت جیلوں کی تعداد 44ہے جس میں 68ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔ لاہور، قصور، راولپنڈی ،سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب میں جگہ کم پڑنے سے قیدیوں کے لئے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خواتین کی جیلوں کو اور ان سہولیات کو دیکھا جائے جو کسی بھی قیدی کو انسانی حقوق کی فراہمی کی صورت ملتی ہیں تو اس کو لے کر عموماً منفی رائے ملتی ہے جس پر بارہا تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ آئیے آج دیکھتے ہیںکہ خواتین قیدیوں کے اصل مسائل کیا ہیں اور کیا جن حقوق کی فراہمی کا دعوی کیا جاتا ہے وہ انھیں میسر ہیں بھی یا نہیں۔ یہ جاننے کے لئے ہم نے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قیدی خواتین سے ملاقات کی اور ان کی زندگی کے شب و روز کا احوال جانا۔
جیل کیسی ہوتی ہے؟
جیل اپنے اندرایک الگ دنیا ہے جہاں مختلف علاقوں سے آئے لوگ ایک نیا جہان آباد کرتے ہیں جس میں خوف، نفرت، انتقام ، انتظار، محبت، مایوسی ،ندامت، آس و یاس کے جذبات سے پُر کہانیاں سانس لیتی ہیں۔ جیسے ہر انسان کی ایک کہانی ہوتی ہے یوں ہی ہر جرم کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی داستاں ہوتی ہے ۔ملزم اور مجرم خواتین کوجیل میں رکھا جاتا ہے جہاں کڑے پہروں اورسرخ اونچی فصیلوںکی چاردیواری میں وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارتی ہیں۔
قیدی خواتین کی روزمرہ زندگی کیسی ہوتی ہے؟
جیل میں بیرکس اور سیلز ہوتے ہیں جہاں خواتین رہتی ہیں۔ روزانہ صبح انھیں ناشتہ دیا جاتا ہے جس سے ان کے دن کی ابتداء ہوتی ہے یوں ہی حوالاتی یا قیدی خواتین جن کی عدالت میںپیشی ہو وہ پولیس کے ہمراہ جاتی ہیں۔ ان کی مصروفیت کے لئے جیل کے اندر چھوٹے موٹے کاموں کا ٹاسک دے دیا جاتا ہے ۔ دوپہر میں ان کو کھانا دیا جاتا ہے اور شام میں کھانا دے کر انھیں دوبارہ سیلز اور بیرکس میں لاک کردیا جاتا ہے۔
کن مجرموں کو الگ رکھا جاتا ہے؟
ایسے مجرمان جو توہین مذہب کے مرتکب ہوںیا جنہیں کوئی موذی بیماری جیسے کہ ایڈز وغیرہ یا پھر ذہنی طور پر تندرست نہ ہوں ان کو الگ سیلز میں رکھا جاتا ہے۔ کورٹ لکھپت جیل میں اس وقت توہین رسالت کے جرم میں 8خواتین زیر حراست ہیں جن میں سے دو قیدی جبکہ چار حوالاتی ہیں۔ یوں تو حوالاتی اور قیدیوں کو الگ سیلز میں رکھا جاتا ہے مگر جگہ کی قلت کے باعث دونوںکو الگ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔جیل میں اس وقت تین حاملہ خواتین بھی موجود ہیں۔
قیدیوں کی بہبود کے لئے کیا کیا جارہا ہے؟
سپریٹنڈنٹ جیل کوٹ لکھپت اعجاز اصغرکاکہناتھاکہ ہمارا مقصدجیل میں موجود قیدیوں کی اصلاح کرنا ہے جس میںان کی اخلاقی تربیت کرنااولین ترجیح ہے۔وہ جیل میں رہ کر جب اپنی سزاء مکمل کر کے باہر جائیں تو ایک اچھے شہری کی طرح زندگی گزاریں اور معاشرے کا فعال رکن بن سکیں۔ جیل میں قیدیوں کی سزاؤں کو کم کرنے کے لئے انھیں ایسے محرک دیئے جاتے ہیں جو ان کی شخصیت کے لئے موثر ثابت ہوں اوران کی دینی و اخلاقی تربیت بھی ہو جیسے اگر کوئی قیدی تین سپارے حفظ کرتا ہے تو اس کی سزاء میں کچھ کمی کر دی جاتی ہے۔
پھر خواتین جیل میں رہ کر میک اپ اور بیوٹیشن کا کورس کرتی ہیں جس میں انھیں TEFTAکی جانب سے تین ماہ کا کورس مکمل کرنے پر سرٹیفیکٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ ڈیزائینگ اور سلائی کا کورس کرتی ہیں جس پہ انھیں سرٹیفیکٹ دیا جاتا ہے یوںوہ جیل سے رہا ہوکر ایک باعزت انداز میں معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتی ہیں۔ لیٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے قیدی خواتین کو پڑھنے لکھنے کے قابل بنانے کے لئے چھ روز کی ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ وہ بنیادی خواندگی سے روشناس ہوسکیں۔
سہولیات کیا ہیں؟
جیل میں خواتین کی ذہنی صحت اور دیگر ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں جن میں پی سی او اور کینٹین سے کچھ منگوانے کی سہولت موجود ہے جس کا ایک باقاعدہ میکنزم موجود ہے۔
ہر قیدی خاتون جیل میں لگے فون بوتھز سے ایک ہفتے میں اسی منٹ تک اپنے رجسٹرڈ قریبی رشتہ داروں سے بات کر سکتی ہے۔ اور ہفتے میں ایک دن ملاقات بھی کرسکتی ہے۔ خواتین کے لئے عبدالعلیم خان فاونڈیشن ہر ماہ سینٹری کٹس بھیجتی ہے جس میں منہ دھونے والا صابن، کپڑے دھونے کا صابن، شیمپو، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ، سرسوں کا تیل ، فنائل اور سینٹری نیپکنز موجود ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف این جی اوز جرسیاں جرابیں شالز اور کمبل بھی دیتی ہیں۔جیل میں موجود ایسی خواتین جن کے بچے ابھی چھوٹے ہوں انھیں دودھ چاول اور چینی کی ایک خاص مقدار فراہم کی جاتی ہے جیسے روزانہ کی بنیاد پر آدھا کلو دودھ اور سو گرام چاول، یوںہی مریض خواتین کی بھی خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے۔
بچوں کے لئے ایک ڈے کیئر سیٹ اپ بنا ہوا ہے جہاں قیدی خواتین میںسے ہی کسی پڑھی لکھی خاتون کو بچوں کو پڑھانے لکھانے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ جیل میں عموماً ڈبل سٹوری چارپائیاں ہوتی ہیں ایسی صورت میں جہاں کوئی بزرگ خاتون ہو یا حاملہ خاتون ہو جس کے لئے اوپر چڑھنا مشکل ہو اسے نیچے والا حصہ دیا جاتا ہے۔
سیلز میں ہائی پروفائل کیسز کو رکھا جاتا ہے سیلز میں عموماً چار سے چھ چارپائیاں اوپر نیچے رکھی ہوتی ہیں۔قیدی خواتین کے لئے جیل میں کھانے کا مینو بھی اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی جس میں ہفتے کے چھ روز مینو میں چکن رکھا گیا ہے۔ رمضان میں مختلف این جی اوز اور صاحب ثروت افراد بھی قیدی خواتین کے لئے افطار کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔ اے جی ایچ فاونڈیشن اور شاہینہ خان وومن ایڈ ٹرسٹ بھی قیدی خواتین کے لئے رضاکارانہ طور پر متحرک ہیں جیسے کچھ قیدی خواتین جن کی کوئی پیروی کرنے والا نہیں ان کے کیسز کا فالو اپ کرنا ، مچلکے جمع کروانا وغیرہ۔
خواتین کے لئے لاہور اور راولپنڈی میں الگ ایڈمن بلاک کی منظوری مل چکی ہے اور کا م بھی شروع ہے لیکن جس رفتار سے کام ہو رہا ہے وہ جلد مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ڈاکٹر اور سائیکاٹرسٹ بھی جیل میں مخصوص وقت دیتی ہیں جس کا مقصد وہاں کسی بھی قیدی خاتون کو طبی مدد فراہم کرنا ہے ۔ اصولاً تو جیل میں 24/7ڈاکٹرز کو تین مختلف شفٹوں میں موجود دہنا چاہئے تاکہ وہ کسی بھی ایمرجنسی کے لئے تیار ہو۔ ایک کچن بھی تعمیر کروایا گیا ہے جہاں خواتین اپنی پسند سے ذاتی خرچ پر کچھ بنا ناچاہیں تو بنا سکتی ہیں۔
تو پھر مسائل کیا ہیں؟
یوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیل میں موجود قیدی خواتین باہر موجود خواتین کی نسبت زیادہ محفوظ اور بہتر زندگی گزار رہی ہیں لیکن درحقیقت وہ لمحہ لمحہ مر رہی ہیں۔ جیل میں اچھی خوراک کا ملنا بہتر ماحول ہونا اور ان کی خواندگی و اصلاح کی کوششیں یقیناً جیل انتظامیہ کا بہتر عمل ہو سکتا ہے لیکن جیل میں موجود قیدی خواتین ضمانتوں اور اپیلوں کے لئے لمحہ لمحہ انتظار کی سولی پر لٹک رہیں ہیں۔ جیل میں ایک قیدی خاتون جو سات بیٹیوں کی ماں ہیں اور ان پر 302کا پرچہ ہے وہ گزشتہ آٹھ برس سے ضمانت کی منتظر ہیں ۔
یوں تو ہائی کورٹ میں ایک سال سے زائد کیس چلنے کے بعد ضمانت لی جاسکتی ہے اور سپریم کورٹ سے تین برس بعد۔لیکن ابھی 2019کی اپیلیں ہی نہیں نبٹائی جاسکیں، جیل میں قیدی خواتین کی گنجائش دس برس قبل سو سے زائد ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بتدریج بڑھ رہی ہے جس سے مسائل جنم لے رہے ہیں جیسا کہ اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں238خواتین قیدی اور حوالاتی موجود ہیںجبکہ 116چارپائیاں ہیں اسی جگہ میں قیدی خواتین کے ساتھ اس دورانیہ میں موجود 13بچوں کو بھی رہائش فراہم کرنی ہے۔
جگہ کی قلت کے باعث ایک چارپائی پر دو دو خواتین کو جگہ دی جاتی ہے۔اور بچوں والی خواتین کو ایک چارپائی دی جاتی ہے۔یوں اصولاً جہاں قیدی اور حوالاتی مجرموں کو الگ رکھنا ہوانھیں جگہ کی تنگی کے باعث ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔بیرون ملک قیدیوں کی نفسیات کو پہلے پرکھا جاتا ہے اور پھر تعین کیا جاتا ہے کہ کس مجرم کو کہاں اور کس کے ساتھ رکھنا ہے۔
لیکن یہاں ایسا کوئی اصول لاگو نہیں قیدی اور حوالاتی دونوں جگہ کی قلت کے باعث ساتھ رہنے پر مجبور ہیں یہاں تک کہ ایک بستر پر دو دو ۔اوور کراوئڈنگ ہونے کی وجہ سے قیدی خواتین میں ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ خواتین کی جیلوں کے مخصوص اضلاع میں ہونے کی وجہ سے ان کے کیسز کی پیروی کے لئے دور دراز علاقوں سے آنے والوں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔
بہت سی شادی شدہ خواتین سے جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کے جیسے مردوں کو اپنی بیویوںا ور بچوں سے ملنے کی اجازت ہے ہمیں بھی ہونی چاہیئے ۔یہ ایک لمبا پروسس ہوتا ہے لیکن اس پر بھی انسانی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’’اچھے گھر کی عورتوںکا جیل میں آنا کوئی انہونی بات نہیں‘‘
لیڈی سپریٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل سیدہ امبر نقوی سے جب جیل میں آنے والی خواتین کے حوالے سے پوچھا گیا کہ عموماً کس طبقے سے ہوتی ہیں تو ان کا جواب بہت حیرت انگیز تھا۔ ’’لاہور اور پنڈی کی جیل میں اچھے گھرؤں کی خواتین کا آنا کوئی انہونی بات نہیں‘‘ وہ کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ عموماً عورتیں لالچ یا نفرت میں آکر کرائم کر بیٹھتی ہیں لیکن بعد میں ہم نے کئی کو پچھتاتے بھی دیکھا ہے ۔ اکثریت غریب طبقے سے ہی تعلق رکھتی ہے لیکن پڑھی لکھی اور بڑے گھرانوں کی عورتیں بھی جرم کرتی ہیں۔
’’اکیلی عورت کو دیکھ کر سب اپنا ’ٹھرک‘ جھاڑتے ہیں‘‘!
ایڈووکیٹ جواد میر کرمنل کیسز کو ڈیل کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یوں تو ضمانت کو لے کر خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ رعایت مل جاتی ہے لیکن جب کسی خاتون پہ ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے تو اسے پولیس سٹیشن سے لے کر عدالت تک ہر جگہ ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
جیل حکام کا بظاہر تو یہ دعوی ہوتا ہے کہ جیل میں خواتین قیدیوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ایسا ان کیسز میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں فیملی سپورٹ ہو یا سیاسی اثرو رسوخ ہو۔ ایسی لاوارث خواتین جن کی پیروی کرنے والا کوئی نہ ہو یا رشوت کے لئے ان کے ہاتھ کچھ نہ ہو ان کا حال بدتر ہوتا ہے ۔غریب خواتین کو ایک مسئلہ وکلاء کی فیسوں کا بھی ہوتا ہے جو وہ ادا کرسکنے سے قاصر ہوتی ہیں اور یہ ضمانت کے حصول میں حائل ہوتا ہے ۔
عدالت بعض اوقات پیروی کے لئے پراسیکیوٹر فراہم کرتی ہے لیکن وہ عموماًدلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور ٹرائل کی حد تک پیروی کرتے ہیں ضمانت کی حد تک نہیں۔چھوٹے جرائم کی صورت میں اکثر انسانی حقوق کی تنظیمیں عورتوں کو فری وکیل مہیا کرتی ہیں لیکن سیریس جرائم جیسے قتل ، منشیات وغیرہ میں ایسا نہیں ہوتا۔اعلی عدالتیں عموماً فیصلوں میں عورت ہونے کی بنا پرضمانت کا حق دیتی ہیں جیسے بعض اوقات چوری ڈکیتی، منشیات اور اغواء جیسے کیسز میں بھی جلدی ضمانت مل جاتی ہے لیکن اب یہ ٹرینڈ کم کیا جارہا ہے۔
جب ان سے ضمانتیں نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو ان کا موقف تھا کہ یہ عموماًغریب خواتین یا جن کی پیروی کرنے والا کوئی نہ ہو ان کے کیسز میں ہوتا ہے۔دوسرا قتل کے مقدمات میں ہائی کورٹ ،سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے وکلاء لاکھوں میں فیسیں لیتے ہیں جو ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔پھرعدالت ضمانت منظور کرنے میں شرائط یا bail bondرکھتی ہے، یعنی ملزم ضمانت نامہ گارنٹی کے طور پرعدالت میں جمع کروائے جو کسی کو زمین، جائیداد یا رجسٹری، فرد عدالت میں جمع کروانا ہوتا ہے لیکن عموماً غریب لوگوں کی کوئی گارنٹی دینے کو تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ ایک لمبے عرصے تک جیل میں ہی رہتے ہیں۔
جیل میں داخل ہونے کے لئے کئی گیٹس سے گزرنا پڑتاہے اور خواتین کی جیل میں تو مردوں کا داخلہ ممکن ہی نہیں سو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جیل میں موجود کسی خاتون کا جنسی استحصال کیا جاسکتا ہے یا اسے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جواد کا کہنا تھا کہ یہ سب جیسا بظاہر دکھائی دیتا ہے ویسا نہیں ہوتا اور ضروری نہیںہے کہ سب ہی خواتین کو اس کا سامنا ہو۔ یہ تھوڑا ٹیکنکل معاملہ ہے، ایک عورت کے جیل میں رہنے سے اس کے رہا ہونے تک اسے مختلف انداز میں تنگ کیا جاتا ہے۔
اور زیادہ مسئلہ ان خواتین کو ہوتا ہے جو خوبصورت ہوں ۔ میری کچھ کلائنٹس کے ساتھ ایسا ہوا اور جب ان کی ضمانت کروائی گئی تو انھوں نے مجھے ساری روداد سنائی تو ان کو فوری عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا لیکن انھیں اتنا ڈرا دیا گیا تھا کہ وہ بس اس دوزخ سے نکل کر گھر جانا چاہتی تھیں۔ یہاں تو مردوں کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے عورت تو پھر عورت ہے۔اور جہاں تک جنسی استحصال کا تعلق ہے وہ صرف زیادتی تک محدود نہیںبلکہ وہ زبانی اور بیڈ ٹچ کے علاوہ بہت سے طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
عورت کو تفتیش کے بہانے اکیلے بلانا ، جب جیل سے عدالت پیروی کے لئے لے جایا جاتا ہے تو وہاں سارا عملہ مردوں کا ہوتا ہے، اکیلی عورت کو پا کر چاہے وہ وکیل ہوں، عدالتی اہلکارہوں، پولیس ملازمین سب اپنا ’ٹھرک‘ جھاڑتے ہیں، جہاں تک عورتوں کی جیل کی حدود کا تعین ہے وہاںسپرنٹنڈ نٹ کے علاوہ ہر کانسٹیبل کی رسائی ممکن نہیں۔ ایسی کوئی بھی صورت حال یا کیس اعلٰی انتظامیہ کی ملی بھگت کے بنا ممکن ہی نہیں۔
ان دیکھی دنیا کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے، عاصم رضا
ایڈیشنل سیکرٹری جیل خانہ جات عاصم رضا سے جب تمام صورتحال پر موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب میں اس محکمے میں ٹرانسفر ہوا تو میں نے بھی جیل کے بارے میں لاتعداد باتیں سن رکھی تھیں لیکن یہاں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک ان دیکھی دنیا کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔
درحقیقت یہاں پر قیدیوں کا پورا خیال رکھا جارہا ہے۔خصوصاً خواتین کی جیل کو لے کر ہم نے سخت رولز بنارکھے ہیںجیلوں میں کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کا کنٹرول روم ہے باقاعدہ چیکنگ کی جاتی ہے۔اور کوئی بھی مرد یہاںتک کہ کھانے پہنچانے کے لئے بھی جیل کے مین گیٹ سے اندر جانے کی اجازت نہیں وہ خواتین اسٹاف بیرونی دروازے سے وصول کر کے خود اندر پہنچاتی ہیں۔ فورڈ کی کوالٹی کو سیکور کرنے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ مہینے میں کسی بھی دن بنا اطلاع دیئے کھانے کا معیار جانچنے آسکتے ہیں۔
پہلے بیرکس سے دور فون بوتھز تھے اب وہ بھی بیرکس کے پاس لگوا دیئے ہیں تاکہ ان کو آسانی ہو اور ہر ہفتے بیس کے بجائے اسّی منٹس گھر والوں سے بات کر سکیں۔خاص طور پر Remissionیعنی سزاء میں کمی کے نظام کا انداج بہتر کیا ہے تاکہ اس میں کوئی کرپشن نہ ہو جیسے ہی کسی قیدی کی سزاء میں کمی کا اعلان ہو اس کو فوراً ریکارڈ پر درج کر لیا جائے۔پھر کسی بیمار خاتون کو اگر ہاسپٹلائزیشن کی ضرورت ہے تو اس سسٹم کو آسان کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ عاصم رضا کا کہنا تھا کہ ہم نے ان قیدیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے بار کونسل کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس میں ایسی خواتین جو وکیل افورڈ نہیں کر سکتیں ان کو مفت لائرز ملیں۔ مسئلہ یہاں عدلیہ سے متعلقہ ہے کہ وہاں سے کیسز کی سنوائی میں دیر ہوتی ہے۔
جہاںتک اوور کراؤڈنگ کی بات ہے تو اس کے پیچھے بھی عدالتی نظام کی ہی سستی ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایک چوتھائی قیدی ہیں اور باقی سارے انڈرٹرائل ہیں۔باقی ہم اس سلسلے میں مختلف جیلوں میں بیرکس بنا رہے ہیں اور خواتین کے لئے فیصل آباد، راولپنڈی اور لاہور میں نئی جیلیں بنارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب انھیں ٹرائل کے لئے جیل کی حدود سے پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس کے بعد ہماری ذمہ داری نہیں رہتی وہ پولیس کی ذمہ داری بن جاتی ہے اس دوران اگر ان کے ساتھ کچھ بھی ہوتا ہے اس میں ہماراکوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارا کام قیدیوں کی فلاح اور ان کو جیل کی حدود میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہے جس کے لئے ہم کوشاں ہیں۔
جیلوں میں خواتین زیادہ محفوظ ہیں! فرح ہاشمی
سیدہ فرح ہاشمی سینئر جرنلسٹ اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے ’’رہائی‘‘ کے پلیٹ فارم سے جیلوں میں موجود خواتین اور بچوں کی فلاح کے لئے کام کررہی ہیں۔ جب ان سے جیلوں میںموجود خواتین کی صورت حال کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہناتھا کہ جیلوں میں خواتین شاید دوسری خواتین سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں اور میرے پچیس برس کے تجربے میں کسی قیدی خاتون کو جنسی ہراسانی کا کم از کم جیل میں سامنا کرنا پڑا ہو مجھے یاد نہیں پڑتا جو معاملات ایسے ہیں وہ پولیس کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہیئے کہ آخر معاشرے میں کرائم کم کیوں نہیں ہو رہا۔ جیلوں میں قیدیوں کو اتنا سکون اور اچھا کھانا پینا دیا جائے گا تو ان کے اندر جرم کے لئے ڈر کیسے پیدا ہوگا۔ ہفتے میں چھ مرتبہ قیدیوںکو چکن کھلایا جارہا ہے عام گھروں میںکون اتنے روز چکن کھاتا ہے ۔
آپ تو قیدیوں کو ہائی پروٹین دے رہے ہیں تاکہ وہ مزید تگڑے مجرم بنیں۔ جیل کا کانسپٹ تو ایسا ہونا چاہیئے جہاں پر مجرم کو سزاء کا احساس ہو اور وہ وہاں سے بھاگنا چاہے، اور مڑکر دوبارہ جرم نہ کرے۔ میں ان کو سہولت دینے کے خلاف نہیں لیکن انھیں اس قدر آسائشات مہیا کرنے کے حق میں بھی نہیں۔ مجرم کو سادہ دال روٹی سبزی دینی چاہیئے اور اس کی کونسلنگ کرنی چاہیئے کے وہ جب جیل سے نکلے تو جرم کی دنیا میں واپس نہ آئے۔
جیل میں موجود خواتین کی اکثریت یا تو 9Cیعنی منشیات فروشی کے مقدمات میں پکڑی جاتی ہیں یا 302میں۔ منشیات کے کیسز میں غریب خواتین زیادہ ملوث ہوتی ہیں۔ کیونکہ خواتین کو لگتا ہے یوں پڑیاں بیچ کر وہ زیادہ پیسے کما سکتی ہیں، اسی طرح 302کے کیسز میں عموماً خواتین جن کے شوہر بے وفائی کرتے ہیں یا وہ خودکسی کے ساتھ تعلقات بنا لیتی ہیں بہت خطرناک پلاننگ کر کے قتل کرتی ہیں۔بظاہر معصوم دکھنے والی کوئی خاتون بہت خطرناک قاتلہ ہوسکتی ہے۔ لیکن میرا حکومت سے یہی سوال ہے کہ آج تک کرائم ریٹ کیوں کم نہیں ہو رہا۔خواتین کی شرح کو دیکھا جائے تو یقیناً وہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے لیکن تعلیم اور شعور عام ہونے کے بعد جیلوں کو تو خالی ہونا چاہئے تھا۔جرم کے خلاف سزاء کا نظام سخت ہونا چاہیئے اور قیدسے رہائی پانے والوں کو معاشرے میں واپس جا کر دوبارہ جرم کی سوچ بھی نہ آئے۔
یہ حقیقتاً لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین کی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے وہاں پر خواتین میں جرائم کی شرح کا بڑھنا قابل تشویش ہے۔ جیل میں تو ابھی صرف وہ خواتین موجود ہیں جن پر کوئی الزام ہے یا جن پر فردجرم عائد ہو چکی ہے اس کے علاوہ آف دا ریکارڈ نجانے کتنی خواتین جرائم میں ملوث ہوں گی۔ جیل میں خواتین کا خیال رکھا جاناانسانی بنیادوں پر ان کو سہولیات مہیا کرنا احسن اقدام ہے مگر ایسا ملک جہاں ہائی پروفائل کیسز کو سننے اور فیصلے سنانے کے لئے راتوں کو عدالتیں کھل جائیں وہاں ملزموں کو ہی جیلوں میں سالوں بیت جائیں تو سوال تو جنم لیتے ہیں۔
اور سوال تو ہمارے اداروں اور حکومتوں سے بھی بنتا ہے کہ آخر وہ آج تک معاشرے میں کرائم ریٹ کو کم کرنے میں کیونکر ناکام ہیں ، جیسی مثالی صورتحال کو دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھا جائے تو پھر تو معاشرے میں کوئی جرم ہی نہ ہو نا راوی چین ہی چین لکھتا ہو۔ اور سب سے بڑا سوال ملک کے ایجوکیشن سسٹم پر اٹھتا ہے کہ وہ اپنے افراد کو باشعور بنانے میں اور جرم کے راستوں پر چلنے سے کیونکر روک نہیں پا رہا؟ بحیثیت قوم برائی کے راستوں پر چلنے اور صبر و شکر سے اچھائی کا دامن تھامنے کا درس دینے میں کیوں کامیاب نہیںہو پارہا۔ سوال تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی بنتا ہے کے وہ ملک میں قانون کی عملداری میں کیوں کامیاب نہیں ہو پارہے!
(اعدادو شمار آخری معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیئے گئے ہیں)
٭٭٭
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قیدی خواتین کے کا کہنا تھا کہ خواتین کی جیل خواتین کے لئے جیل میں موجود موجود خواتین دیا جاتا ہے کرنے کے لئے کیا جاتا ہے قیدی خاتون میں خواتین کے لئے جیل ان کا کہنا دی جاتی ہے مجرموں کو موجود ہیں جیلوں میں نہیں ہوتا خواتین جن قیدیوں کو لکھپت جیل قیدیوں کی خواتین کو کوٹ لکھپت جیل میں ا کی وجہ سے ہے جس میں نے کے بعد میں کوئی کیسز میں کے علاوہ سیلز میں کرتی ہیں خاتون کو ہیں لیکن جارہا ہے ہوتی ہیں کوئی بھی جرائم کی کرتے ہیں بھی قیدی ہے تو اس تو ان کا کے لئے ا ان کا کہ میں بھی ہونے کی کے ساتھ ہے لیکن کسی بھی کے باعث کے کیسز ہیں اور ہے جہاں ہوتا ہے ہوتی ہے نہیں ہو ہیں جن اور ان ہے یوں ہیں جس جرم کے ہیں جی جیل کی ہو رہا ا کوئی رہا ہے کو الگ ہے اور بھی ہو جگہ کی یوں تو
پڑھیں:
عامر خان اپنی نئی گرل فرینڈ دنیا کے سامنے لے آئے
بالی ووڈ کے سپر اسٹار عامر خان نے اپنے مداحوں کو ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز دیا جب انہوں نے اپنی گرل فرینڈ گوری سپراٹ کو 13 مارچ کو ممبئی میں ایک پری برتھ ڈے ملاقات کے دوران میڈیا سے متعارف کرایا۔
ممبئی کے ایک ہوٹل میں میڈیا سے غیر رسمی ملاقات کے دوران انہوں نے اپنی زندگی اور کیریئر پر گفتگو کی اور پھر سب کو اپنی گرل فرینڈ ’گوری‘ سے ملوایا۔
اس موقع پرعامر اور گوری میڈیا کے ساتھ بیٹھے تھےجب انہوں نے اپنی کہانی شیئر کی عامر خان نے بتایا کہ وہ گوری کو 25 سال سے جانتے ہیں اور گزشتہ 18 ماہ سے ایک رشتہ میں ہیں۔
گوری سپراٹ کا نام منظر عام پر آنے کے بعد انٹرنیٹ پر ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ گوری سپراٹ کا تعلق بنگلورو سے ہے اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی شہر میں گزارا ہے۔ وہ ریٹا سپراٹ کی بیٹی ہیں، جو بنگلور میں ایک سیلون کی مالک تھیں۔
گوری نے اپنی تعلیم بلیو ماؤنٹین اسکول سے حاصل کی اور 2004 میں لندن کی یونیورسٹی آف آرٹس سے فیشن، اسٹائلنگ اور فوٹوگرافی میں ایف ڈی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت وہ ممبئی میں بی بلنٹ سیلون چلا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، گوری کا ایک چھ سالہ بچہ بھی ہے۔
عامر خان نے اپنی گرل فرینڈ کو میڈیا کی چکاچوند سے دور رکھتے ہوئے کہا کہ گوری ان کے پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ پریس میٹ کے دوران، عامر خان نے مذاق کرتے ہوئے کہا، ”دیکھا، کچھ بھی پتہ نہیں چلنے دیا میں نے تم لوگوں کو!“
عامر خان نے مزید بتایا کہ گوری کچھ عرصہ تک بنگلورو میں رہتی تھیں، جس کے باعث وہ میڈیا کی نظروں سے دور رہ کر اپنی ملاقاتیں رکھتے تھے۔حال ہی میں، عامر خان نے گوری کو اپنے بچوں، خاندان اور اپنے دہائیوں پرانے دوستوں، شاہ رخ خان اور سلمان خان سے ملوایا۔ 12 مارچ کو سلمان خان اور شاہ رخ خان نے عامر خان کے گھر آ کر گوری سے ملاقات کی۔
عامر خان نے اپنے نئے رشتہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس رشتہ کو 18 ماہ تک عوامی توجہ سے دور رکھا۔آج عامر خان اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس خاص دن کے موقع پر ایک فیملی ڈنر کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں گوری سپراٹ بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گی۔