Express News:
2025-03-16@23:11:20 GMT

چار درویش اور ایک بکرا

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

دوسری قسط

یہاں ایک مغلیہ دور کی پرانی مسجد کی نئے سرے سے تہذین و آرائش کی گئی ہے جس کے تین گنبد، محرابیں، مینار اور زمین سے اونچائی مغلیہ دور کی تعمیرکردہ مساجد سے مطابقت رکھتے ہیں -

واہ کے ساتھ ہی حسن ابدال ہے، جسے جلال خان کھٹڑ نامی شخص کے نام پر آباد کیا گیا تھا۔ شہر کا پرانا نام جلال سر تھا جسے بعد میں حسن ابدال کردیا گیا۔ حسن ابدال میں ایک مشہور مقبرہ بادشاہ اکبر کے وزیر خواجہ شمس الدین کا ہے جسے شمس الدین نے خود 1589 میں تعمیر کروایا تھا۔ جہاں شمس الدین کے ساتھ ان کے بھائی بھی مدفون ہیں۔

تھوڑا سا آگے ہوں تو ایک مقبرہ لالہ رخ کا بھی ہے۔ جس لالہ رخ کے حسن ابدال میں مقبرے کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ کوئی عام لالہ رخ نہیں بلکہ شہزادی لالہ رخ شہنشاہ اکبر کی بیٹی تھی مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اکبر کے علاوہ اس مقبرہ کو ہمایوں یا جہانگیر کی بیٹی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے جو کشمیر کے سفر کے دوران بیمار ہوئی اور اسے یہاں دفن کیا گیا- اب اصل میں یہاں کون دفن ہے، یہ کم از کم مجھے تو کنفرم نہیں۔ مقبرہ کے دروازہ پر تالا لگا ہے اور چار دیواری کے اندر پھولوں کی کیاریوں میں رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں -

قبر کو دیکھنے کے لیے مرکزی دروازے کے دائیں طرف کی دیوار سے جھانک کر آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ حسن ابدال اپنے تاریخی گردوارہ پنجہ صاحب کی بدولت بہت مشہور ہے۔ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں سکھ زائرین بیساکھی کے میلے پر گردوارہ پنجہ صاحب پر حاضر ہو کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے دامن میں واقع حسن ابدال کبھی بدھ مذہب کے حوالے سے بھی اہم مقام رہا ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1521ء میں حسن ابدال پہنچے۔

ان کی جائے قیام پر بعد میں ان کی یاد میں ایک گوردوارہ تعمیر کیا گیا۔ گوردوارے میں پتھر کی ایک چٹان پر ہاتھ کا ایک نشان کندہ ہے جسے باباگورونانک کی ایک کرامت کا نتیجہ بتایا جاتاہے۔ گرو نانک جی 1521 میں اپنی چوتھی اداسی کے دوران بھائی مردانہ کے ساتھ حسن ابدال تشریف لائے- سکھ روایات کے مطابق پہاڑی کے اوپر موجود چشمہ سے گرو نانک جی نے بھائی مردانہ کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ بابا ولی قندہاری جو کہ پہاڑی پر ہی موجود تھے، نے پانی دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ تمہارا گرو اگر اتنا کرنی والا ہے تو اسے کہو خود پانی نکال لے- یہ سن کر بابا نانک جی نے اپنا عصا زمین پر مارا جس سے وہاں سے چشمہ پھوٹ پڑا۔ بابا گرو نانک کے عصا مارتے ہی نیچے چشمہ نکلا اور پہاڑی پر موجود چشمہ خشک ہو گیا۔ اپنے چشمے جو خشک ہوتے دیکھا تو بابا ولی قندہاری نے غصہ میں آ کر پہاڑی کے اوپر سے ایک بڑا پتھر نیچے پھینکا تاکہ چشمہ بند ہوجائے مگر گرو نانک جی نے وہ پتھر اپنے ہاتھ سے روک لیا۔

پتھر کو روکنے سے گرو نانک جی کے پنجہ کا نشان پتھر میں ثبت ہوگیا - وہی اس جگہ کی وجہ شہرت بنی اور آج اس کو پنجہ صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پنجہ صاحب کا گردوارہ 1823ء میں سردار ہری سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔ 1920ء تک یہ ہندو مہنتوں کے قبضے میں رہا۔ سکھوں کی مزاحمت کے بعد دوسرے گردواروں کے ساتھ یہ بھی سکھوں کے زیرانتظام آگیا۔ اگرچہ کہ بابا ولی قندہاری اور بابا گرو نانک کے دور میں فرق ہے مگر پتھر پر موجود پنجے کے نشان کے متعلق یہی روایت بیان کی جاتی ہے۔ حسن ابدال سے نکلے تو ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن فقیر آباد آیا جس سے آگے پنجاب کا آخری جنکشن اٹک تھا جہاں عارف بھائی مونگ پھلی کے ساتھ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ یہ مونگ پھلی ایسی برکتوں والی مونگ پھلی تھی کہ ملتان تک ہمارے ساتھ ساتھ چلی۔

اگرچہ کہ اس کہانی میں چار درویش ہیں مگر حقیقی معنوں میں اگر کوئی درویش صفت انسان ہے تو وہ اٹک کے عارف بھائی ہیں۔ عارف بھائی کے ساتھ جب پچھلے برس میں نے اٹک کی ہی سات سرنگوں کا ٹریک کیا تھا، تو وہ میرے اور علی عمر کے لیے گھر سے دہی میں کیلے اور سیب ملا کر لائے تھے۔ نہ جانے اس میں ایسا کیا تھا کہ اس کا ذائقہ آج تک زبان پر ہے۔ اٹک شہر کی بنیادی طور پر وجہِ شہرت اٹک قلعہ ہے۔ افغانستان اور برصغیر میں انگریزوں سے پہلے کوئی باقاعدہ سرحد تو تھی نہیں، جس کا جہاں جی چاہا، قبضہ کر لیا۔ قبضہ مافیا والے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آتے رہتے تھے۔ لوٹ مار کرتے اور واپس اپنے اپنے بلِوں میں چلے جاتے۔ اکبر جب شہنشاہ ہندوستان بنا تو اپنے سوتیلے بھائی کے سپرد افغانستان کیا اور خود دلی میں بیٹھا رہا۔ سوتیلے بھائی کو عزت ہضم نہ ہوئی اور بغاوت کا اعلان کردیا۔ اکبر جب افغانستان سے اپنے ہی بھائی کی بغاوت کچل کر واپس آ رہا تھا تو اٹک کے مقام پر اسے ایک قلعہ تعمیر کرنے کا خیال آیا اور یوں 30 مئی 1581ء کو قلعہ اٹک کی بنیاد اکبر نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ اکبرنامہ میں ابوالفضل نے اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے-

قصہ مشائخ میں قلعہ اٹک کی تعمیر کے بارے میں بیان کچھ یوں ہے: اس زمانے میں اکبر بادشاہ اس علاقے میں آیا اور یہاں قلعہ اور شہر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور قلعے کے ایک برج کی بنیاد دریا کے بیچوں بیچ رکھی کیوں کہ قلعے کے چاروں طرف بے شمار دشمن ہیں شمال میں نو لاکھ یوسف زئی افغان مغرب میں خٹک افغان جنوب میں بھنگی خیل افغان اور قلعہ کے مشرق میں سرکانی، متانی، ترین اور غورغشتی وغیرہ اقوام آباد ہیں۔ ازراہ دوراندیشی برج قلعے کی بنیادیں دریا کے پانی سے اٹھائی گئیں تاکہ اگر دشمن کی وجہ سے قلعہ بند ہونا پڑے تو ساکنان قلعہ کو پانی کی محتاجی نہ ہو کیوں کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے قلعہ میں سوائے دریا کے پانی کے کنویں کا پانی حاصل ہونا ممکن نہیں۔ ہر چند کوشش کی گئی لیکن برج قلعہ کی بنیاد دریا میں قائم نہ ہوئی۔ اکبر اعظم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا حضرت ظل سبحانی نے فرمایا کہ اولیاء کی معاونت کے بغیر برج قائم ہونا مشکل ہے۔

بعض ارکان دولت جو حضرت شاہ صدر الدین اور شاہ عیسیٰ کی حقیقت حال سے واقف ہو چکے تھے انہوں نے عرض کیا فلاں فلاں دو بزرگ فلاں دامن کوہ میں ایک پشتے پر رہتے ہیں۔ حضرت ظل سبحانی نے فرمایا ان کو میرے پاس لایا جائے۔ بادشاہ کے آدمی انہیں بلانے کے لیے آئے۔ شاہ صدر الدین نے فرمایا کہ شاہ عیسیٰ کو بادشاہ کے پاس لے جاؤ جو مقصد ہوگا حق تعالٰی پورا فرمائے گا۔ شاہ صدر الدین کے فرمان کے مطابق شاہ عیسیٰ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ بادشاہ آپ کے ساتھ نہایت اعزاز و اکرام سے پیش آیا اور تمام حالات بیان کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت شاہ عیسیٰ دریا کے پانی میں گئے اور فرمایا کہ ”اے دریا کے پانی! برج بنانے کی جگہ چھوڑ دے کہ مسلمانوں نے بہت صعوبتیں اٹھائی ہیں“ اور وہاں اپنا عصا مبارک گاڑ دیا۔ دریا اس جگہ سے ہٹ گیا اور کاری گروں نے برج تعمیر کیا۔

اس وقت 991 ہجری تھی اور اب 1146 ہجری ہے قلعہ کا برج اسی استحکام سے دریا میں موجود ہے اور بزرگوں کی دعا کی برکت سے اس طرح مضبوط اور پُرقوت ہے کہ گویا حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہو۔“ (قصص مشائخ از خواجہ محمد زاہد اٹکی) ایک میں ایک علاقہ ملاحی ٹولہ ہے جو بگڑ کر ملائی ٹولہ بن چکا ہے۔ یہ ملاحوں کی بستی تھی جنھیں بنارس سے لا کر دریائے سندھ کنارے آباد کیا گیا تھا تاکہ یہ ملاح افواج کی دریا پار کرنے میں مدد کیا کریں۔ جیسا کہ پہلے بات ہوچکی کہ اٹک ایک جنکشن ہے۔ یہاں سے ایک لائن پشاور کو چلی جاتی ہے اور ایک لائن نیچے بسال، میاں والی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اٹک سے آگے پنجاب کا آخری اور انتہائی خوب صورت ریلوے اسٹیشن اٹک خورد یعنی چھوٹا اٹک ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن میرے پسندیدہ ترین ریلوے اسٹیشنوں میں سرِفہرست ہے۔ تھل ایکسپریس نے جو سیٹی بجائی تو ہم سب نے عارف بھائی کو الوداع کہا اور واپس اپنی بوگی میں آگئے۔

ہماری نشست کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کالا سا مسافر براجمان ہوچکا تھا۔ ہم چار درویشوں کا ہم سفر.

..بکرا۔ میں تھل ایکسپریس میں سوار ہوا تو سب سے پہلی نظر جن پر پڑی، وہ دو بھائی تھے۔ دو مسلی بھائی۔ بڑے بڑے گھیر والی شلوار سے صاف لگتا تھا کہ وسیب سے ہیں۔ شروع شروع میں تو مجھے ان سے بات کرنے کا موقع نہ ملا۔ ہم چاروں درویش آپس میں ہی مصروف رہے مگر جب دوپہر گزر چکی، ہم سب پر بھی تھکاوٹ کے اثرات نمودار ہونے لگے تو میں بھی آرام سے ایک جگہ بیٹھ گیا۔ اتفاق سے میرے ساتھ والی بینچ پر یہ دونوں مسلی بھائی بیٹھے تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ساتھ والی بینچ پر سوتے رہتے تھے۔ میں نے زیادہ وقت انھیں سوتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔ بات شروع کی تو معلوم ہوا کہ ایک کا نام قاسم تھا اور دوسرے کا جاسم۔ قاسم بڑا تھا جب کہ جاسم چھوٹا۔ دونوں ملتان کے رہائشی تھے اور شہرِاقتدار یعنی کہ راول پنڈی میں کام کرتے تھے اور اب دو ماہ کی چھٹی پر کچھ پیسے لے کر اپنے گھر ملتان واپس جا رہے تھے۔

جہاں ان کے مائی باپ ان کے منتظر تھے۔ ذات کے دونوں مسلی تھے۔ عمریں کسی صورت بھی دونوں کی بیس سال سے زیادہ نہ لگتی تھیں۔ بڑا مسلی زیادہ سے زیادہ بیس سال کا ہوگا اور چھوٹا مسلی اٹھارہ سال کا۔ میرے سوال پر کہ کام کیا کرتے ہو، کہنے لگے کہ جو بھی کام ملے پکڑ لیتے ہیں۔ ابھی آخری بار وہ دونوں کسی گھر میں سفیدیاں کرنے پر لگے ہوئے تھے۔ دو چار پیسے جمع ہوئے تو انھوں نے گھر جانے کا سوچا۔ گندے بالوں سے صاف لگتا تھا کہ بہت دنوں سے نہیں نہائے۔ تصویر بنوانے کے لیے میں نے بہ مشکل ان کے بال سیدھے کروائے، پھر تصویر بنائی۔

میں نے پوچھا ایک ہی جگہ آرام و سکون سے کام کیوں نہیں کرلیتے؟ چھوٹا مسکرا کر کہنے لگا، اَسی مسلی ہونے آں، اک جگہ ٹِک کے نہیں رہ سکدے۔ اب یہ نہ جانے کون سی منطق تھی۔ وہ لوگ جو ہندو دھرم کی آخری لڑی کے لوگ تھے جنہیں شودر، untouchable، کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ مرے جانوروں کی کھال اتارنے تھے، پیشاب پاخانہ اٹھانے کا فرض ادا کرتے تھے اور جب مسلمان ہوگئے تو مسلی کہلائے، ہندی کے اس لفظ کو معرب کر کے مصلی کردیا لیکن مسلیوں کی حیثیت وہی رکھی۔ اس مملکت خداداد میں بھی یہ نومسلم وہی پرانا کام کرتے، کوئی سماجی رتبہ نہیں۔ بقول چھوٹے مسلی جو ضرورت سے زیادہ ہی ہوشیار لگتا تھا، کہنے لگا کہ نہ ہم سے ایک جگہ رہا جاتا ہے اور نہ ہمیں کوئی زیادہ دیر برداشت کرپاتا ہے۔ سفیدی کا کام پکڑنے سے پہلے دونوں بھائی ایک سرکاری شخص کے یہاں ملازم تھے، جس کا نام بشارت تھا۔

ایک دن جو بشارت صبح سو کر اٹھا، قاسم کو ناشتے کے لیے پیسے دینے لگا تو معلوم ہوا کہ پیسے غائب ہیں۔ بشارت کا دل دھک سے دھڑکا اور اپنی بے پرواہی پر اپنے آپ کو ہی ہزار صلواتیں سنا ڈالیں۔ نچلے ہونٹ جو دانتوں میں دبا کر کچکچاتے ہوئے اس نے سوچا کہ اس میں بے پرواہی اور باخبری کا کیا سوال ہے اگر آپ ہی گھر میں اس طرح چوکنا رہنا پڑے تو پھر وہ اپنا گھر کیسا؟ جنگل اور گھر میں فرق کیا رہ گیا پھر؟ اوپر کی آمدنی اچھی خاصی تھی، اس لیے ملازمین کے طور پر اس نے کبھی بھی زیادہ سیانے لوگ ملازم نہ رکھے اور نہ ہی بینک میں کوئی کھاتہ رکھا۔ سرکاری تنخواہ میں آخر کتنا گزارا ہو سکتا تھا۔ روزانہ یاروں دوستوں کی دعوتیں اور پھر اکثر اعلیٰ افسران کی دعوتیں۔ تنخواہ سے زیادہ رقم تو اس کی یوں ہی دعوتوں میں اڑ جاتی تھی۔ اس نئے شیئر ہولڈر کو جو زبردستی اس کے گلے میں پڑ گیا تھا، سے نجات چاہتا تھا۔ کہیں کوئی پیسے رکھتا تو پیسے غائب ہوجاتے۔

بینک میں رکھتا تو پکڑا جاتا۔ یاروں دوستوں پر اسے اعتبار نہیں تھا۔ اعتبار کرتا تو اسے طرح طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ بشارت کے ذہن میں طرح طرح کے سوال آنے لگے کہ اس نے لوئیس کو آواز دی۔ لوئیس بڑے دن اور نئے سال کی چھٹی پر گھر گیا تھا اور آج صبح ہی بشارت نے اسے نئی جیکٹ میں دیکھا تھا۔ لوئیس کے آتے ہی بشارت سیدھا مدعے پر آیا اور اسے بتایا کہ اس کی جیب سے پانچ پانچ ہزار کے پانچ نوٹ غائب ہیں۔ لوئیس نے معصومیت سے انکار کردیا۔ کہنے لگا کہ وہ تو اس کے کمرے کی طرف آیا بھی نہیں مگر جاسم ضرور آیا تھا۔

بشارت نے لوئیس کو جاسم کو بھیجنے کا کہا۔ جاسم تم میرے کمرے میں آئے تھے؟ جی.... کس لئے؟ اخبار رکھنے... لوئیس کے آنے سے پہلے میرے پیسے چوری نہیں ہوتے تھے، مگر اب ہو رہے ہیں۔ جاسم تیرے خیال میں لوئیس میرے پیسے چوری کرتا ہے؟ میں کیا کہہ سکتا ہوں جناب۔ بشارت نے لوئیس کو بلایا اور اسے نوکری سے نکال دیا۔ بقول بشارت جتنی لوئیس کی تنخواہ ہے، اتنے میں بہ مشکل لوئیس کا گھر چل سکتا تھا مگر ایسے نئے کپڑے اور جیکٹ پہن کر کام پر آجانا، شک سیدھا لوئیس پر ہی جاتا تھا۔ بشارت نے ایک لمحے سے پہلے فیصلہ سنا دیا اور یوں اسی لمحے لوئیس بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگار بھی ہوگیا۔ دو چار روز بعد ہی بشارت نے لوئیس کو سامنے والے گھر سے نکلتے دیکھا۔ صبح کی سیر پر سامنے والے شکیل صاحب سے ملاقات ہوئی تو بشارت نے باتوں ہی باتوں میں پوچھ ہی لیا کہ کیا لوئیس اب ان کے یہاں کام کرتا ہے؟ شکیل صاحب نے نہ صرف اس بات کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتلانے لگے کہ قاسم نے ہی لوئیس کی سفارش کی تھی۔

انھوں نے چند دن پہلے قاسم سے کہا تھا کہ اس کی نظر میں اگر کوئی مناسب نوکر ہو تو بتائے۔ تین روز پہلے قاسم لوئیس کو لے کر شکیل صاحب کے یہاں گیا اور یوں لوئیس بشارت کی بجائے اب شکیل صاحب کا ملازم ہوگیا۔ بشارت کے پاس جیسے حرام کا پیسہ آتا، ویسے ہی اڑ بھی جاتا۔ جوئے کی لَت نئی نئی لگی تھی۔ بشارت ایک دن دوستوں کے ساتھ دعوت کے مزے اڑا رہا تھا کہ باتوں ہی باتوں میں جوئے کی بازی لگ گئی جو توقع کے مطابق بشارت ہار گیا۔ جیب سے پیسے نکالنے لگا تو جیب خالی تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ رات ہی ایک جگہ سے تگڑی رشوت ملی تھی اور اس نے پانچ پانچ ہزار کی گڈی کو کوٹ کی جیب میں ہی رکھ دیا تھا۔ بشارت شرمندگی کے مارے اٹھا اور سیدھا گھر آ گیا۔

اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس پر شک کرے۔ چور کم از کم لوئیس تو نہ تھا۔ قاسم جاسم پر اس کا شک کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ دونوں ہی ہمیشہ گندے رہتے تھے۔ نہ کبھی نئے کپڑے پہنے، نئے تو دور انھوں نے تو کبھی صاف کپڑے بھی نہ پہنے تھے۔ کچھ دنوں تک خالات ساز گار رہے۔ بشارت کا کوئی بھی سامان یا نقدی چوری نہیں ہوئی۔ مگر دو ماہ بعد پھر طوفان برپا ہوگیا۔ رشوت کے دو لاکھ روپے جو بشارت نے اپنی الماری میں بہت حفاظت سے رکھے تھے، غائب تھے۔ بشارت نے مالی کے کمرے کی تلاشی لی اور دو لاکھ روپے برآمد کرلیے۔ مگر بشارت کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ مالی کو پیسوں کا پتا کیسے چلا؟ بشارت نے پولیس کی دھمکی دی تو مالی نے منہ کھول دیا کہ یہ پیسے جاسم نے اسے دیے تھے۔ بشارت نے دونوں بھائیوں کو گلے سے پکڑلیا۔ قاسم بول پڑا کہ اسی نے دو لاکھ روپے بشارت کی الماری سے نکالے تھے۔

مالی کی بیٹی کی شادی تھی۔ شادی کا کھانا اور پھر دوسرے لوازمات بے چارا کہاں سے پورے کرتا۔ لوئیس کی ایک ہی بہن تھی، پورے سال معصوم کو نئے کپڑے نصیب نہ ہوئے۔ بڑے دن پر بھی گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ کہتا تھا کہ گھر کا راشن پورا کروں یا چھوٹی کو نئے کپڑے بنوا کر دوں۔ صاحب آپ کی رشوت کے پیسے کسی کے کام تو آنے ہی چاہیے تھے۔ ہم مسلیوں کا کیا ہے؟ کتنا بھی اچھا پہن لیں، مصلی کو مصلی ہی رہنا ہے۔ بشارت قاسم کے منہ سے رشوت کا لفظ سنا تو آگ بگولا ہوگیا۔ ذات کے مصلی اور مجھے نصیحت کرتا ہے۔ بشارت نے دونوں کو نوکری سے نکال دیا۔ تھل ایکسپریس رات کے اندھیرے میں کسی ریلوے اسٹیشن پر رکی اور وہ دونوں بھائی اپنی تصویریں بنانے کے لیے پلیٹ فارم پر اتر گئے۔

تھل ایکسپریس نے آہستہ آہستہ اٹک جنکشن سے سرکنا شروع کیا تو ہم سب اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے دروازے میں ہی کھڑے رہے۔ جوں ہی تھل ایکسپریس ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے ذرا باہر نکلی تو ہم نے اپنی آخری بوگی کا دروازہ پیچھے سے کھول دیا۔ ایک ریلوے لائن دائیں جانب اٹک خورد کو جا رہی تھی جسے آگے پشاور کو نکل جانا تھا جب کہ ایک لائن نیچے کی جانب اتر رہی تھی۔ تھل ایکسپریس نے اٹک اسٹیشن سے نکلتے ہی ایم ایل 1 کو چھوڑا اور ایم ایل 2 پر آ گئی۔ ایم ایل 1 وہ ہے جو کراچی سے شروع ہوتی ہے اور پشاور تک جاتی ہے جب کہ ایم ایل 2 کوٹری سے اٹک تک ہے۔

اب ہم نے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ایم ایل 2 پر سفر کرنا تھا۔ ہم چاروں درویشوں میں سے دو درویش تو پکے پکے فوٹوگرافر تھے اور دو درویش وہ تھے جو صرف سفر کا مزہ لینے کے لیے آئے تھے۔ اٹک ریلوے اسٹیشن کو چھوڑنے کے ٹھیک دس منٹ کے بعد پہلی سرنگ آ گئی اور اب یکے بعد دیگرے سات سرنگیں آنا تھیں۔ یہ سارا کالا چٹا پہاڑی سلسلہ ہے جو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ سات سرنگیں صرف پانچ کلومیٹر کے علاقے میں موجود ہیں۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر دوسری کے بعد تیسری سرنگ آتی ہے۔ دو سرنگیں تو اتنی قریب ہیں کہ ریل گاڑی کا انجن اور اگلی چند بوگیاں سرنگ میں ہوتی ہیں، درمیان کا کچھ حصہ کھلی فضا میں جب کہ آخری بوگیاں پچھلی سرنگ میں۔ یہ سات سرنگیں سات بہنوں کے نام سے مشہور ہیں۔

دو سال پہلے میں نے اپنے ایک رفیق علی عمر کے ساتھ تھل ایکسپریس پر ہی راول پنڈی سے جھلار تک کا سفر کیا تھا۔ مگر جھلار سے واپس ہم نے ٹریک کرتے ہوئے ان سات بہنوں کو پار کیا تھا۔ یاد رہے کہ ان سات بہنوں کو گنیز بک میں بھی درج کیا گیا ہے جن کی تعمیر 1897 میں ہوئی تھی۔ ہر سرنگ پر اس کا سنِ تعمیر لکھا ہے۔ کچھ سرنگیں بالکل سیدھی ہیں جب کہ کچھ خم دار ہیں۔ ریل گاڑی چلتی جاتی ہے۔ ایک بعد ایک سرنگ آتی ہے اور سات سرنگوں کو پار کرنے کے بعد آپ جھلار ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں۔ جھلار ریلوے اسٹیشن کیا ہے؟ ایک ایسا ریلوے اسٹیشن جہاں صرف اور صرف سکون ہے، سکوت ہے۔ اتنا سکوت کے یہاں ریل کے علاوہ کوئی مشینی آواز نہیں۔ دوردور تک کوئی سڑک نہیں۔ یہاں ریل کا اسٹاپ بھی نہیں مگر ریل یہاں رکتی ضرور ہے۔ ساتویں سرنگ سے نکلنے کے فوراً بعد ہی جھلار ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہاں مسلسل دو بار ریل کو مڑنا پڑتا ہے، پہلے بائیں اور پھر دائیں جانب اور ساتھ ہی ایک پل ہے۔

اس لیے ریل گاڑی پہلے بائیں جانب مڑتی ہے، دو منٹ سانس درست کرتی ہے اور پھر دائیں جانب مڑتے ہوئے جھلار کو چھوڑ کر آگے نکل جاتی ہے۔  اگر آپ اٹک کی طرف سے شروع کریں کہ پہلی سرنگ پر آپ کو گیارہ کا ہندسہ ملے گا اور اگلی سرنگ پر دس جب کہ جھلار سے ذرا پہلے جو سرنگ ہے اس پر چار کا ہندسہ درج ہے۔ اصل میں اس پورے پہاڑی سلسلے پر کُل گیارہ سرنگیں ہیں جن میں سے سات سرنگیں بالکل ایک ساتھ ہیں جب کہ باقی چار آگے سے فاصلے پر ہیں۔ تقریباً دس بجے کے قریب تھل ایکسپریس بسال ریلوے اسٹیشن سے پیچھے ہی رک گئی۔

معلوم پڑا کے سامنے سے کوہاٹ ایکسپریس آ رہی تھی جس نے راول پنڈی جانا تھا۔ بسال بھی ایک جنکشن ہے۔ یہاں آپ دائیں طرف کو مڑ جائیں تو فتح جنگ، ترنول سے ہوتے ہوئے گولڑہ شریف پہنچ جائیں گے اور ایک ٹریک وہ تھا جس پر ہم گولڑہ شریف اور اٹک ہوتے ہوئے بسال پہنچے تھے۔ بسال جو گاڑی کچھ دیر کو رکی تو ہم نے ریل یاترا کے بارے سوچا۔ آخری بوگی میں تو گنتی کی چند سیٹیں تھیں اور گنتی کے ہی چند ہم احباب تھے اور ایک ہمارے ساتھ کالا بکرا تھا مگر جوں ہی ہم آگے والی بوگی میں داخل ہوئے تو جیسے ایک الگ ہی شہر آباد تھا۔

بوگیاں بھری پڑی تھیں۔ لوگ گھروں سے ہی کھانے پینے کا کچھ سامان لائے ہوئے تھے۔ میری طرح کے نازک نازک کچھ افراد اوپر والی برتھ پر کمبل اوڑھے استراحت فرما رہے تھے۔ کہیں کوئی مونگ پھلی بیچ رہا تھا تو کہیں کوئی دال چنا۔ بچوں نے آفت ہی مچانی تھی، سو وہ مچا رہے تھے۔ لوگ ہمیں تقریباً آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہی دیکھ رہے تھے۔ ہم پوری تھل ایکسپریس پار کر کے لوکو موٹیو کے پاس پہنچ گئے۔ تصاویر بنواتے رہے، لوگوں سے گپ شپ کرتے رہے۔ تھل ایکسپریس میں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے ریلوے اسٹیشنوں کی دنیا بھی کیا لطف انگیز اور دل چسپ ہوتی ہے۔ میں اسے بے حد پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ مجھے ریل کے سفر سے دیوانگی کی حد تک عشق ہے۔ مجھے کسی بھی ریل گاڑی میں بٹھا دیں جو کہیں بھی جا رہی ہو تو دورانِ سفر مجھے تھکاوٹ ہو گی نہ ہی بوریت کا احساس ہو گا۔ جلد ہی دومیل ریلوے اسٹیشن آ گیا جس کا پلیٹ فارم قدرے بلند اور نیا بنا ہوا تھا۔ دیکھ کر جی خوش ہوا کہ ریلوے ان چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر کام کر رہی ہے مگر جلد ہی یہ خوشی مایوسی میں تبدیل ہوگئی جب ایک بورڈ نصب دیکھا کہ پلیٹ فارم کو مخیر حضرات کے تعاون سے بلند کیا گیا تھا اور مزید تعاون کے لیے بھی مسافروں کے لیے درخواست کی گئی تھی۔

ہم کس حد تک گر چکے ہیں کہ اپنی پٹری تو دور پلیٹ فارم بھی درست کرنے کے قابل نہیں رہے۔ تھل ایکسپریس جو دومیل سے چلی تو جنڈ جا کر رکی۔ یہاں اس کا قیام کافی زیادہ تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ جنڈ کے پکوڑے بہت مشہور ہیں، ضرور کھانے چاہییں مگر میری تو دو تین پکوڑے کھا کر ہی بس ہو گئی۔ عجیب و غریب سا ذائقہ تھا مگر چپاتی مزے کی تھی۔ میں نے آدھی چپاتی کے ساتھ دو تین پکوڑے کھائے اور بقیہ اپنے ایک درویش ساتھی کو واپس کردیے، جہاں ہم چاروں درویش جنڈ کے پکوڑے کھانے میں مصروف تھے، وہیں ہمارا بکرا اپنی پیٹ پوجا بھی کر رہا تھا۔ بکرے کا مالک بھی جنڈ جنکشن پر اترا اور پلیٹ فارم لگے درخت سے چند ٹہنیاں اپنے بکرے کے لیے توڑ لایا۔ بکرے کے تو مزے تھے۔ وہیں کھانا پیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے اپنا وزن بھی ہلکا کرلیا یعنی ہمارا بکرے ذرا بھی حساب کتاب نہ رکھتا تھا۔ یہاں اس نے جنڈ جنکشن سے کچھ لیا، اسی پل دوسرے ہاتھ اس نے جنڈ جنکشن کو لوٹا بھی دیا۔ جنڈ بھی ایک جنکشن ہے۔

یہاں سے ایک لائن دریائے سندھ کو پار کر کے کوہاٹ کی طرف چلی جاتی ہے جب کہ ہمیں سیدھا میاں والی کی طرف جانا تھا۔ ریل گاڑی صرف ایک دریافت نہیں ہے بلکہ پورا ایک سفری باب ہے جس کی لذتوں سے صرف وہ شخص آشنا ہو سکتا ہے جس کی سوچوں میں سفر کی لذتیں ہوں۔ ریل گاڑی کے سفر کی جزئیات جب تک سفر نامے میں شامل نہ ہوں تو یہ لطف نہیں دیتا۔ انجرا آیا تو ہم سب نے لوکو موٹیو میں جانے کا فیصلہ کیا اور خوش قسمتی سے ہمیں لوکو موٹیو میں جانے کی اجازت مل گئی۔ ریل گاڑی انتہائی سست رفتاری سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔

زیادہ سے زیادہ اس کی رفتار تیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ معلوم ہوا کہ پٹری کی حالت انتہائی نازک ہے۔ مناسب مرمت نہ ہونے کے باعث ریل گاڑی تیز نہیں چل سکتی، مبادا یہ الٹ نہ جائے۔ حالاں کہ یہ گاڑی انتہائی سست رفتار تھی پھر بھی بھری ہوئی تھی۔ تین خواتین سامنے سے لکڑیاں لے کر ریلوے ٹریک کے بالکل ساتھ ہی چل رہی تھیں۔ ریل گاڑی جب گولائی میں چلتی تو الگ سا لطف دیتی۔ آپ اگر ریل گاڑی کے اندر بیٹھے ہوں تو ریل گاڑی کے مڑنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ریل گاڑی چوں کہ مسلسل گولائی میں چل رہی ہوتی ہے، اس لیے اندر بیٹھے ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ سڑک کی نوعیت مختلف ہے۔ خاص کر چھوٹی گاڑیوں میں چوں کہ آپ فوراً سمت تبدیل کرتے ہیں، اس لیے آپ کو سمت بدلنے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ہمیں دور سے ہی میپل لیف سیمنٹ پلانٹ نظر آنے لگا جو داؤد خیل آنے کی چغلی کر رہا تھا۔ داؤدخیل میں صرف میپل لیف کا سیمنٹ پلانٹ ہی نہیں بلکہ کھاد بنانے کے ایک بڑے پلانٹ کے علاوہ چھوٹی بڑی فارماسیوٹیکل انڈسٹریز بھی ہیں۔

داؤد خیل ایک ریلوے جنکشن ہے جہاں سے ایک لائن ماڑی انڈس کی طرف مڑ جاتی ہے۔ ماڑی انڈس سے ہی نیرو گیج لائن شروع ہوکر کالا باغ، ترگ، کمر مشانی سے ہوتی ہوئی لکی مروت اور بنوں تک جاتی تھی۔ نیروگیج لائن کو بعد میں براڈگیج لائن میں تبدیل ہونا تھا مگر ہمیں یہ ذرا مشکل کام لگا جس کے مقابل ہم نے قدرے انسان کام کیا۔ ہم نے نیرو گیج لائن کو ہی اکھاڑ کر بیچ ڈالا۔ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔ نہ نیرو گیج لائن ہوگی اور نہ اسے براڈ گیج میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ داؤد خیل ریلوے اسٹیشن پر ہم لوکو موٹیو سے باہر نکلے تو نقوی صاحب فورٹر اور سموسوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ میں نے اپنے ایک پہلے کے سفر جو میں نے نیروگیج لائن کے ساتھ ساتھ کیا تھا اور پھر کافر کوٹ کی طرف بھی گیا، نقوی صاحب سے بہت راہ نمائی لی تھی۔ ان سے ملنے کی خواہش تھی جو داؤد خیل ریلوے اسٹیشن پر پوری ہوئی۔

داؤد خیل ریلوے اسٹیشن سے تھل ایکسپریس نکلی تو کچھ ہی دیر بعد پائی خیل ریلوے اسٹیشن آ گیا۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت دیکھ کر واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ اسے ایک قلعے کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ پائی خیل سے اگلا ریلوے اسٹیشن میاں والی ہے جو کہ ایک عرصے خیبر پختونخوا کا حصہ رہا مگر اب یہ پنجاب کا حصہ ہے۔ سکندراعظم سمیت بہت سے لوگ اسی علاقے سے گزر کر آگے گئے۔ میاں والی سے آگے ایک جنکشن کندیاں ہے، جہاں سے ایک لائن سرگودھا کی طرف چلی جاتی ہے۔ آپ اگر لاہور سے ریل گاڑی کے ذریعے میاں والی یا ماڑی انڈس جانا چاہتے ہوں تو لاہور سے چلنے والی میاں والی ایکسپریس سرگودھا سے ہوتی ہوئی کندیاں جنکشن سے ہی ایم ایل 2 کو جوائن کرتی ہے۔

کندیاں سے آگے علو والی اور پھر پیپلاں ہیں۔ یہیں آپ چشمہ بیراج اور فرانس کے تعاون سے بننے والے چشمہ نیو کلیئر پاور پلانٹ سے گزرتے ہیں۔ جوں ہی ریل چشمہ کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو آرمی کی ایک گاڑی آپ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیتی ہے اور چشمہ کی حدود سے نکلنے سے یہ آرمی کی یہ گاڑی ریل کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ایسا صرف چشمہ بیراج اور خاص کر چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ چشمہ بیراج پر کھڑے ہوکر جنوب کی طرف نظر دوڑائیں تو مشرق کی جانب آپ کو تھل کا وسیع ریگستان ملے گا اور مغرب کی جانب کوہِ خیسور کا پہاڑی سلسلہ۔ یہیں سے فقط چند کلو میٹر کے فاصلے پر کافر کوٹ شمالی اور کافر کوٹ جنوبی کے کھنڈرات موجود ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ صحرائے تھل پنجاب، پاکستان کے ایک صحرا کا نام ہے۔

یہ سلسلہ کوہ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی، بھکر، خوشاب جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں واقع ہے۔ اصل میں یہ تھل ان چھے اضلاع میں ایک مثلث بناتا ہے اور مظفر گڑھ جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس کی شروعات ضلع خوشاب کے صدرمقام جو ہر آباد سے ہوتی ہے اور تحصیل قائد آباد کے خوبصورت گاؤں اوکھلی موہلہ کے مقام پر شروع ہوتا ہے پھر ضلع میانوالی میں ہرنولی کے قریب سے شروع ہوجاتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن پر دریا کے پانی کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کیا گیا تھا نے لوئیس کو سے ایک لائن عارف بھائی سات سرنگیں ایک جنکشن حسن ابدال شکیل صاحب تعمیر کیا میاں والی پلیٹ فارم ایم ایل 2 داؤد خیل شاہ عیسی سے زیادہ جنکشن ہے نئے کپڑے گیج لائن تھا مگر ہوتی ہے رہی تھی نے اپنے کیا تھا تھے اور جاتا ہے اور پھر رہے تھے کے یہاں رہا تھا سے پہلے ساتھ ہی لالہ رخ میں ایک تھا اور اور ایک آیا اور کی طرف اس لیے نے ایک اور اس ہوا کہ ہم چار اٹک کی کے سفر ہے اور کے لیے کی ایک میں یہ پار کر کے پاس کے بعد اور وہ کام کر تھا کہ سے آگے ہوں تو

پڑھیں:

یمن پر امریکہ نے حملہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کیا، صیہونی میڈیا

اسرائیل ہیوم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے امریکہ کیلئے انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں۔ تاہم اسرائیلی میڈیا نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یمن آنے والے دنوں میں اس جارحیت کا جواب دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ یمن پر امریکہ نے حملہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کیا۔ اسرائیل ہیوم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے امریکہ کیلئے انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں۔ تاہم اسرائیلی میڈیا نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یمن آنے والے دنوں میں اس جارحیت کا جواب دے گا۔ یاد رہے کہ امریکی اور برطانوی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا، صعدہ، البیضاء اور دمار کو نشانہ بنایا، اتوار کی صبح اور ہفتے کی رات گئے فضائی حملوں میں ان تک 132 افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ دریں اثناء یمن کی انصار اللہ کے سینئر عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ صنعاء کبھی بھی غزہ کی حمایت سے ہرگز دستبردار نہیں ہو گا۔ یمنی حکومت کے میڈیا ونگ کے سربراہ زید الغرسی نے کہا کہ ملک کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا واشنگٹن کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے جب کہ گذشتہ رات کی جارحیت میں یمنی شہریوں کے مکانات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کو ہمارا جواب بالکل واضح ہے، ہم غزہ کی حمایت سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے اور یمن کے خلاف امریکی جارحیت سے غزہ کے لئے ہماری حمایت ہرگز متاثر نہیں ہو گی۔ الغرسی نے کہا کہ ہم اپنے دشمن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کی کمزوریوں اور ان سے نمٹنے کے طریقے بھی جانتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یمن پر امریکہ نے حملہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کیا، صیہونی میڈیا
  • آنکھ، دانت اور گردوں کا مفت علاج
  • تشدد کا معاملہ: گلوکارہ نصیبو لال کی شوہر کے ساتھ صلح ہوگئی، معاملہ ختم
  • منگیتر کا اپنی والدہ کے ساتھ مل کر گھر خریدنے پر دُلہن کا شادی سے انکار
  • نتیجہ خیز نتائج کے لیے آئی ایم ایف سے مشاورت جاری رہے گی، وزیرخزانہ
  • آئی ایم ایف پاکستان مذاکرات مثبت قرار،اعلامیہ جاری
  • پاکستان نے قرض پروگرام پرسختی سے عمل کیا، بات چیت مثبت رہی: آئی ایم ایف
  • ولادت باسعادت امام حسن علیہ السلام
  • ملک کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی