جاوید میانداد: کرکٹ کا مزاحمتی ہیرو
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
انڈیا آج نیوزی لینڈ کے خلاف دبئی میں چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل کھیل رہا ہے۔ اس نے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر کیا اور پھر آسٹریلیا سے سیمی فائنل جیت کر فائنل بھی پاکستان کی حدود سے نکال کر دبئی لے گیا۔
ٹیموں کو چیمپیئنز ٹرافی میں زیرو زبر کرنے سے پہلے اس نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کرکے آئی سی سی اور پی سی بی کو زیر کیا، اب وہ میدان میں ہی نہیں میدان سے باہر بھی عالمی طاقت ہے اور ہم پامال نسخوں سے اصلاح کی تدبیر میں لگے ہیں جس کا نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔
حال سے مایوسی اور مستقبل سے ناامیدی کرکٹ کے اس پرستار کو ماضی میں لے جاتی ہے اور وہ اس زمانے کو یاد کرتا ہے جب پاکستان ٹیم انڈین ٹیم کو ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں آگے لگا لیتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں ناصر کاظمی کی ڈائری: ان بکھرے اوراق میں کیسے کیسے منظر سمٹے ہیں
انڈیا کے خلاف چیمپیئنز ٹرافی میں ڈرے ڈرے سہمے سہمے پاکستانی بلے بازوں کو دیکھ کر کہ جن کا حال غالب کے اس مصرعے کے مصداق ہے ’اڑنے سے پیش تر بھی مرا رنگ زرد تھا‘، مجھے اپنے ان بیٹرز کا خیال آتا رہا جو کھیل اور جارحانہ طرزِ عمل سے انڈین بولروں پر حاوی ہو کر ان کے لیے مسلسل درد سر بنے رہتے تھے۔ ایسے یکتا کھلاڑیوں کی فہرست میں سے ایک پاکستانی بیٹر چننا ہو تو میرا انتخاب جاوید میانداد ہوں گے جو انڈیا کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے میں بے مثال فائٹنگ اسپرٹ کے ساتھ کھیلتے تھے۔
جاوید میانداد کے لیے کرکٹ کھیل سے بڑھ کر یدھ کی صورت اختیار کر لیتا تھا، ان کے مسابقتی جذبے کے بے مثال ہونے کا اقرار اپنے ہی نہیں پرائے بھی کرتے ہیں اور ان میں کھلاڑی، مبصر اور شائقین ہی نہیں نامور انڈین تاریخ دان اور لکھاری بھی شامل ہیں جن میں سے دو کا حوالہ اس مضمون میں بھی آئے گا لیکن اس سے پہلے جاوید میانداد کی انڈیا سے پیکار کی بہت سی مثالوں میں سے چند ایک کا تذکرہ۔
1986 میں شارجہ میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں آخری گیند پر چھکا مار کر میچ جتوانے والی 116 رنز کی مزاحمتی اننگز کو کون بھول سکتا ہے، اس فتح سے پاکستانی ٹیم کو ایسی نفسیاتی برتری حاصل ہوئی کہ اس نے پھر عمران خان کی قیادت میں انڈیا میں 1987 میں ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی تھی۔
شارجہ میں 116 رنز بنانے سے پہلے میانداد کی ون ڈے میں دونوں سینچریاں انڈیا کے خلاف تھیں، ان میں بھی کوئی انڈین بولر میانداد کو آؤٹ نہیں کر سکا تھا۔
میانداد نے ون ڈے کرکٹ میں مسلسل 9 میچوں میں 50 سے اوپر رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا تو اس سلسلے کے پہلے 2 میچوں میں ناگپور اور جمشید پور میں 78،78 رنز بنائے۔
ٹیسٹ میں میانداد نے انڈیا کے خلاف کئی یادگار اننگز کھیلیں، 28 ٹیسٹ میچوں میں 67.
ایک ٹیسٹ میچ جس کی جاوید میانداد ہی نہیں پاکستان کرکٹ کے لیے بھی خاص اہمیت ہے وہ 1978 کا کراچی ٹیسٹ ہے، جس سے پاکستانی کپتان مشتاق محمد کی ذہنی براقی اور جارحانہ طرزِ فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان انڈیا میچ: دلی لاہور سے دور کیوں ہوگیا؟
قصہ کچھ یوں ہے کہ اس سے پہلے گزشتہ 2 ٹیسٹ سیریز میں پاکستانی اور انڈین کپتانوں کے ذہن پر شکست کا خوف مسلط رہا، اس لیے کوئی میچ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا، اس سیریز سے پہلے دونوں ٹیمیں مسلسل 13 بے نتیجہ ٹیسٹ کھیل چکی تھیں۔
1978 کی سیریز میں انڈیا کے ساتھ فیصل آباد ٹیسٹ ڈرا ہوا، لاہور ٹیسٹ جیت کر پاکستان نے ٹیسٹ سیریز میں برتری حاصل کی، کراچی میں تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں کپتان مشتاق محمد چاہتے تو پانچویں دن بڑی آسانی سے میچ ڈرا کرکے سیریز ایک صفر سے جیت سکتے تھے لیکن انہوں نے رسک لے کر میچ جیتنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس وقت کے لحاظ سے میچ کی چوتھی اننگز میں قومی ٹیم نے ون ڈے سے بھی کچھ زیادہ تیزی سے 26 اوورز میں 164 رنز بنانے تھے۔
مشتاق محمد نے اپنی کتاب ‘انسائیڈ آؤٹ’ میں لکھا ہے کہ ظہیر عباس کا خیال تھا کہ میچ ڈرا کرکے سیریز جیت لینی چاہیے کیوں کہ اگر اسکور کا تعاقب کرنے میں ٹیم آؤٹ ہوگئی تو کیا بنے گا؟ اس پر مشتاق محمد نے جواب دیا کہ اگر انڈین بولر ہمیں 26 اوورز میں آؤٹ کر لیتے ہیں تو پھر ہم میں سے کوئی بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا مستحق نہیں۔ ظہیر عباس کے تذبذب کی وجہ سے مشتاق نے ان کی جگہ نمبر تین پر میانداد کو بیٹنگ کے لیے پروموٹ کیا اور آصف اقبال کی تیز رننگ کے باعث انہیں ماجد خان کے ساتھ اوپننگ کا موقع دیا۔
ماجد خان کے 14 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد جاوید میانداد کھیلنے گئے۔ بیدی نے زیادہ تر فیلڈروں کو باؤنڈری لائن پر تعینات کردیا تھا۔ اس کے جواب میں آصف اقبال اور میانداد نے وکٹوں کے درمیان تیز رننگ سے رنز بٹورنا شروع کر دیے۔ بڑھتا اسکور دیکھ کر انڈین ٹیم پریشر میں آگئی اور اس کی دوڑیں لگ گئیں، دونوں نے 9 اوورز میں 97 رنز بنائے۔
پاکستان دھیرے دھیرے جیت کی طرف بڑھ رہا تھا، آصف اقبال 44 رنز پر آؤٹ ہوئے تو کپتان نے بیٹنگ آرڈر میں پھر تبدیلی کی اور چوتھے نمبر پر عمران خان بیٹنگ کرنے آئے جنہوں نے تیزی سے 31 رنز بنا ڈالے۔ بشن سنگھ بیدی کے ایک اوور میں 19 رنز بنا کر انہوں نے پاکستان کو جیت کی دہلیز پر پہنچا دیا، پاکستان نے ہدف 24.5 اوورز میں حاصل کرکے سیریز 0-2 سے جیت لی۔
مشتاق محمد کی حکمت عملی سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کامیاب کپتان لکیر کا فقیر نہیں ہوتا، اس کا ذہن اختراعی اور تخیلاتی ہوتا ہے، وہ چیلنج قبول کرنے والے کھلاڑیوں پر تکیہ کرتا ہے اور کٹھن صورت حال سے خوف زدہ ساتھیوں کو اپنی مہم جوئی کا حصہ نہیں بناتا۔ جاوید میانداد نے پہلی اننگز میں سینچری کی تھی اور اب بغیر آوٹ ہوئے 62 قیمتی رنز بنا کر ٹیم کو جتوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
میانداد نے 1976 میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں سینچری اور تیسرے میں ڈبل سینچری بنائی تھی۔ وہ انڈیا کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں ناقابلِ شکست 154 رنز بنا چکے تھے لیکن ان کے کرکٹ کیریئر میں کراچی ٹیسٹ اہم پڑاؤ ثابت ہوا کیوں کہ بڑا کھلاڑی صرف رن مشین نہیں ہوتا، اسے کڑے وقت مین چٹان بن کر کریز پر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ وہ ٹیم کی نیا بیچ بھنور میں چھوڑنے کے بجائے اسے کنارے پر پہنچاتا ہے۔ ہدف کے تعاقب میں آزمائش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ روایتی حریف کے ساتھ مقابلے میں مزید دباؤ سہارنا ہوتا ہے۔ ٹیم مین ایسے ہی کھلاڑی کو کہتے ہیں، ون ڈے میں شارجہ اور ٹیسٹ میں کراچی ٹیسٹ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
جاوید میانداد کی انڈیا کے خلاف چند اہم اننگز کے اجمالی تذکرے سے یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ کس اعلیٰ پائے کے کھلاڑی تھے۔
اب حریفوں کی نظر میں اس مزاحمتی ہیرو کی بے پناہ وقعت کا احوال بیان کرتے ہیں۔ یوں تو انڈیا کے بہت سے کھلاڑی میانداد کے قائل ہیں لیکن سنیل گواسکر اور روی شاستری تواتر سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں شاستری سے ان کے آل ٹائم فیورٹ پاکستانی کرکٹر کا پوچھا گیا تو انہوں نے جاوید میانداد کا نام لیا اور اپنی پسندیدگی کی وجوہات بھی گنوائیں۔
شاستری کے مطابق میانداد جب تک وکٹ پر موجود ہوتے کھیل ختم نہیں ہوتا تھا، کھیل میں گنی ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے میانداد کو ایک زبردست حریف گردانا جو ہمیشہ چھیڑ خانی کرتا اور جس کا مائنڈ گیم میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میانداد کی یہ تندی و تیزی کھیل تک محدود تھی، میدان سے باہر انڈین کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی بڑی یاری تھی۔ وسیم اکرم نے سنیل گواسکر کے ساتھ ایک مذاکرے میں بتایا کہ میچ کے دوران سب سے زیادہ جاوید میانداد اور دلیپ وینگسارکر کی لگتی تھی لیکن شام کو دونوں اکٹھے کھانا کھا رہے ہوتے تھے۔ اس موقعے پر سنیل گواسکر نے بتایا کہ وینگسارکر اور میانداد سلی پوائنٹ پر کھڑے ہوتے تھے۔ میانداد کی بیٹنگ کے دوران وینگسارکر انہیں تنگ کرنے کے لیے براہِ راست ان سے بات نہ کرتے اور وکٹ کیپر سے جاوید کے بارے میں کہتے یہ کمفرٹیبل نہیں ہے، یہ ابھی سویپ مارے گا، یہ اسپن اچھا نہیں کھیلتا اور دلیپ بیٹنگ کے لیے آتے تو جاوید بولر کو آواز لگاتے، ارے اسے سولہ نمبر ڈال، بارہ نمبر ڈال اسے۔ ارے کون سا بارہ نمبر، کون سا سولہ نمبر۔
سنیل گواسکر اور میانداد کا حوالہ ایک ساتھ آنے سے میرا ذہن 1987 کے بنگلور ٹیسٹ کی طرف منتقل ہورہا ہے جسے جیت کر پاکستان نے انڈیا کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں پہلی بار شکست دی تھی۔ عمران خان نے اس میچ میں سنیل گواسکر اور میانداد کی کارگزاری کا تذکرہ الگ الگ جگہوں پر کیا ہے جس کا تناظر مختلف ہے لیکن اس سے ایک کی کھیل میں عظمت ظاہر ہوتی ہے تو دوسرے کی اپنے ملک کی جیت کے لیے تڑپ۔
یہ بھی پڑھیں بشن سنگھ بیدی : پاکستانیوں کے دل میں گھر کرنے والے بھارتی لیجنڈ کرکٹر
عمران خان نے اپنی کتاب ‘آل راؤنڈ ویو’ میں سنیل گواسکر کی بڑی تعریف کی ہے اور بنگلور ٹیسٹ میں ان کی 96 رنز کی اننگز کو بہترین قرار دیا ہے۔ عمران خان نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس سے زیادہ مشکل پچز کم ہی دیکھی ہوں گی جہاں گیند بہت ٹرن ہو رہی تھی اور وہ کبھی بے ڈھب طریقے سے اوپر کو اٹھتی اور کبھی بہت نیچے رہتی۔ ان حالات میں گواسکر نے جو اننگز کھیلی اسے عمران خان نے ناقابلِ یقین قرار دیا ہے۔ گواسکر کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں آخری اننگز کے بارے میں حریف ٹیم کا کپتان رطب اللسان ہے۔
ادھر جاوید میانداد کا جیت کے لیے جان مارنا عمران خان کے ذہن میں ہمیشہ جاگزیں رہا، اس کے بارے میں انہوں نے 2016 میں کراچی میں جلسہ عام میں لوگوں کو بتایا جو بی بی سی اردو میں اس طرح رپورٹ ہوا۔
’میں سب پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب بھی مجھے کھیل کے میدان میں مشکل کا سامنا ہوتا تھا تو سب سے زیادہ جاوید میانداد لڑتا تھا۔‘
انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ انڈیا کے خلاف سیریز کا آخری اور فیصلہ کن میچ بنگلور میں تھا، انڈیا کے امپائر انڈین کھلاڑیوں کی مدد کررہے تھے۔
’جاوید میانداد بیٹسمین کے قریب فیلڈنگ کررہے تھے، اپیل ہوتی تھی اور امپائر ناٹ آؤٹ دے دیتا تھا، آہستہ آہستہ جاوید میانداد کو غصہ چڑھنے لگ گیا۔‘
عمران خان نے کہاکہ مجھے جاوید کی شکل سے خوف آرہا تھا، ’اپیل پر امپائر ناٹ آؤٹ دیتا تو جاوید کو اور غصہ چڑھ جاتا، میں سوچ رہا تھا کہ میچ جیتیں گے تو کل اخباروں میں ہماری جیت کی بات ہوگی، لیکن جب جاوید کی شکل دیکھی تو مجھے شک ہوا کہ کہیں کل اخباروں میں یہ نہ ہوکہ جاوید نے امپائر کو قتل کردیا۔‘
عمران نے قصہ سناتے ہوئے کہاکہ جب بھی اپیل ہوتی اور جاوید غصے میں امپائر کی جانب بڑھتے تو میں ان کے اور امپائر کے بیچ میں آجاتا۔’
کرکٹرز کے بعد اب ہم جاوید میانداد کو دو ممتاز انڈین تاریخ دانوں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
رام چندر گوہا نے اپنی کتابوں میں انڈیا کی سیاسی تاریخ نئے زاویوں سے دیکھنے کی سعی کی ہے، وہ کرکٹ کے بھی ایک بلند پایہ تاریخ دان ہیں، ان کی تصنیف ‘اے کارنر آف اے فارن فیلڈ’ کو کرکٹ پر لکھی گئی بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے میانداد کی بین الاقوامی کرکٹ کیریئر میں آخری اننگز کا احوال لکھا ہے۔
وہ 1996 کے ورلڈ کپ کے بنگلور میں ہونے والے کوارٹر فائنل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب جاوید میانداد رن آؤٹ ہونے کے بعد پویلین واپس لوٹ رہے تھے تو وہ ان کی تحسین کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
‘تم تالیاں کیوں بجا رہے ہو؟ ‘
‘پچھلی صف میں سے کسی بدتمیز شخص نے گوہا سے یہ کہا تو وہ بولے:
‘تم کو بھی تالی بجانی چاہیے’
‘وہ حقیقی معنوں میں عظیم کھلاڑی ہے اور ہم میں سے ہر کوئی اسے آخری دفعہ بیٹنگ کرتے دیکھے گا۔’
جس پر اس تماشائی نے جواب میں جاوید میانداد کو گالی دیتے ہوئے جواب دیا کہ، ‘بھگوان کا شکر ہے کہ میں اس… کو اب دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گا۔’
رام چندر گوہا نے لکھا ہے کہ بنگلور کے اس میچ کے دو مہینے بعد انڈین ٹیم انگلینڈ کے دورے پر آئی تو جاوید میانداد نیٹ پریکٹس کے دوران ان کی مدد کے لیے موجود تھا اور انگلینڈ کے ماحول سے حاصل شدہ طویل تجربہ برصغیر کے اپنے بھائی بندوں کو منتقل کررہا تھا۔
مکل کیسوان جامعہ ملیہ میں تاریخ کے استاد رہے، انگریزی میں ناول لکھ چکے ہیں، سیاسی مبصر اور کرکٹ کے عمدہ لکھاری ہیں۔ ‘مین ان وائٹ’ کرکٹ کے بارے میں ان کی قابلِ قدر کتاب ہے۔ اس میں ہمارے ممدوح میانداد کا تذکرہ سچن ٹندولکر سے موازنے کے ضمن میں آیا ہے جس میں مکل کیسوان نے دونوں میں تقابل کے بعد اپنا وزن جاوید میانداد کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں عمر بھر کے لیے دونوں میں سے کسی ایک کا کھیل دیکھنے کا انتخاب کرنا پڑے تو ٹندولکر کی بجائے جاوید میانداد ان کے چیمپیئن ہوں گے، ان کی دانست میں ٹندولکر کی اننگز ان کی جینیس کے اعتبار سے یادگار ہیں لیکن وہ انڈین ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ نہیں رکھتیں اور ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر وہ سولو پرفارمنس کے زمرے میں آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بالغ مقابلہ کرتے ہیں، بچے پرفارم کرتے ہیں، ان کے نزدیک میانداد ممتاز ہونے کے لیے بیٹنگ نہیں کرتا تھا بلکہ جیتنے کے لیے لڑتا تھا، وہ میانداد کو جنگجو قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں شاکر علی: دھوپ کا اک ٹکڑا
صاحبو! یہ جاوید میانداد جیسے کھلاڑی ہی ہوتے ہیں جو کسی ٹیم کو بلند مقام دلاتے ہیں، ان کے سر میں بس کرکٹ کا سودا سمایا ہوتا ہے اور میدان میں اترنے کے بعد وہ صرف ٹیم کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ کھیل میں صرف مہارت تامہ ہی کام نہیں آتی بلکہ اس کے لیے ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے مضبوط ہونا بھی از حد ضروری ہے۔ انہیں میدان کارزار میں اترنے والے سورما کی طرح اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حریف سے دب کر نہیں اس پر بڑھ کر وار کرنے سے کامیابی ملتی ہے۔ کوئی شعبہ ہو، اس میں عظمت کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ حریف کی نظر میں آپ کا رتبہ کیا ہے اور جاوید میانداد اس معاملے میں بڑے خوش نصیب ہیں کہ کرکٹ چھوڑنے کے 29 سال بعد بھی ان کے مدمقابل کرکٹ میں ان کی لیاقت کا چرچا کرتے ہیں اور ذہانت کا اعتراف!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی سی سی پاک بھارت حریف پاکستان کرکٹ پاکستان کرکٹ بورڈ پی سی بی جاوید میانداد روایتی حریف قومی کرکٹ ٹیم کرکٹ کرکٹ کا مزاحمتی ہیرو محمود الحسن نفسیاتی دباؤ وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت حریف پاکستان کرکٹ پاکستان کرکٹ بورڈ پی سی بی جاوید میانداد روایتی حریف قومی کرکٹ ٹیم کرکٹ کرکٹ کا مزاحمتی ہیرو محمود الحسن نفسیاتی دباؤ وی نیوز جاوید میانداد پاکستان کرکٹ اور میانداد سنیل گواسکر کے بارے میں میانداد کو میانداد کی میانداد کا مشتاق محمد میانداد نے میں انڈیا اوورز میں ٹیسٹ کرکٹ کرکٹ میں کرتے ہیں کا تذکرہ ٹیسٹ میں سے زیادہ ٹیسٹ میچ کے ساتھ ہوتا ہے رہا تھا ہونے کے لکھا ہے سے پہلے ہی نہیں کرکٹ کے کے لیے کے بعد ٹیم کو ہے اور
پڑھیں:
ثناء جاوید کا شعیب ملک سے محبت کا اظہار
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ثناء جاوید نے اپنے شوہر اور قومی کرکٹر شعیب ملک کے لیے محبت بھرا پیغام جاری کر دیا۔
ثناء جاوید پاکستان کی صفِ اوّل کی ٹیلی ویژن اداکارہ ہیں، جنہوں نے اپنی شاندار اداکاری کی بدولت لاکھوں مداحوں کے دل جیت لیے ہیں، ان کے انسٹاگرام پر 9.1 ملین سے زائد فالوورز موجود ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں ثناء جاوید نے اپنی شادی کی خبر مداحوں کے ساتھ شیئر کی اور قومی کرکٹر شعیب ملک کے ساتھ ازدواجی بندھن میں بندھنے کا اعلان کیا۔
دونوں کی پہلی ملاقات ایک گیم شو کے سیٹ پر ہوئی تھی، جہاں سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا اور پھر یہ خوبصورت رشتہ شادی میں تبدیل ہو گیا۔
ثناء جاوید نے انسٹاگرام پر اپنے شوہر کے لیے ایک دل کو چھو لینے والا محبت بھرا پیغام شیئر کیا۔
View this post on InstagramA post shared by Sana Shoaib Malik (@sanajaved.official)
انہوں نے اپنی اور شعیب ملک کی خوبصورت تصاویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ آج اور ہر دن آپ کو سیلیبریٹ کر رہی ہوں، آپ جادو کی طرح ہیں، شعیب ملک!
یہ محبت بھرا پیغام دیکھ کر مداح خوش ہو گئے اور اس جوڑے کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے لگے۔
ثناء جاوید اور شعیب ملک کی جوڑی کو سوشل میڈیا پر بے حد پسند کیا جاتا ہے اور ان کی تصاویر پر ہزاروں مداح محبت بھرے تبصرے کر تے ہیں۔