WE News:
2025-04-16@11:37:25 GMT

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

گزشتہ چند ہفتوں میں وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کی ٹھان لی ہے۔ ان کا حالیہ دورۂ باکو، جہاں تجارت اور توانائی کے کئی سنگِ میل عبور کیے گئے، درحقیقت خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ایک ایسی کروٹ جو پرانے رشتوں کو تازگی بخشنے اور اہم شراکت داروں کے ساتھ گہرے مراسم قائم کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔

آذربائیجان میں ہونے والی گفت و شنید کے دوران، وزیرِاعظم نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے۔ سب سے دلچسپ پیش رفت 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وہ معاہدہ ہے جو اپریل میں متوقع ہے، اور جس کا بیج صدر الہام علیئیف کے گزشتہ سال کے دورۂ پاکستان کے دوران بویا گیا تھا۔ آذربائیجان کی توانائی کی دنیا میں بڑھتی ہوئی اہمیت پاکستان کی توانائی ضروریات کے ساتھ نہایت موزوں انداز میں ہم آہنگ ہوتی نظر آرہی ہے۔

بجلی کی بدترین قلت کے اس دور میں، یہ معاہدہ نہ صرف توانائی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا بلکہ آذربائیجان کو ایک ایسے توانائی مرکز میں بدل دے گا جو علاقائی اور عالمی منڈیوں کے لیے ناگزیر ہوسکتا ہے۔
آذربائیجان کے بعد، شہباز شریف ازبکستان پہنچے، جہاں دو طرفہ تجارت کو 2ارب ڈالر تک بڑھانے کا معاہدہ طے پایا۔ بظاہر یہ تمام سرگرمیاں ایک عام معاشی تدبیر معلوم ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ پاکستان کی نحیف معیشت کو نئی سانسیں دینے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پرتھا، اور محض بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے آخری لمحے کے بیل آؤٹ پیکج نے اسے سہارا دیا۔ ایسے میں، یہ سفارتی سرگرمیاں محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک اہم پیش بندی کے مترادف ہیں۔

یہ تمام سفارتی جوڑ توڑ اُس وقت زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے جب اسے پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے مابین ابھرتے ہوئے سہ فریقی اتحاد کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حالیہ عرصے میں ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد اور اُن کا شاندار استقبال اس اتحاد کو نئی زندگی دیتا نظر آتا ہے۔ گارڈ آف آنر، 21 توپوں کی سلامی، اور F-16 طیاروں کی دل دہلا دینے والی فلائی پاسٹ—یہ سب ایک ایسے تعلق کی علامتیں ہیں جو نہ صرف تاریخی ہے بلکہ مستقبل میں مزید وسعت اختیار کرنے کو بے تاب بھی ہے۔

یہ تعلق محض رسمی نہیں بلکہ شریف خاندان اور ترک قیادت کے ذاتی مراسم نے اسے اور بھی مضبوط کردیا ہے۔ 2016 میں نواز شریف کی اردوان کی بیٹی کی شادی میں شرکت ہو یا 2022 کے تباہ کن سیلاب میں ترکیہ کا فوری ردِعمل، یہ وہ روابط ہیں جو وقت کے امتحان میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ترکیہ کے مقبول ڈرامے بھی پاکستانی عوام کے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں، جس سے اردوان کی مقبولیت کو مزید تقویت ملی ہے۔

آذربائیجان بھی پاکستان کے لیے ایک نیک خواہ دوست ثابت ہو رہا ہے۔ خاتونِ اول مہربان علیئیوا کے زیرِ قیادت حیدر علیئیف فاؤنڈیشن نے پاکستان میں تعلیمی اور سماجی ترقی کے بے شمار منصوبے متعارف کروائے ہیں، جو سافٹ پاور کے ذریعے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ ترکیہ کے علاقائی اثر و رسوخ کے عزائم پاکستان اور آذربائیجان کی اقتصادی استحکام کی خواہشات کے ساتھ نہایت موزوں انداز میں ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد ترکیہ اور پاکستان نے فوری طور پر آذربائیجان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا، اور آج یہ تعلق ایک تزویراتی شراکت داری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ٹرانس-کاسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ روٹ، جو وسطی ایشیا، قفقاز اور عالمی منڈیوں کو جوڑنے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے، اس اتحاد کی عملی تصویر ہے۔ اگر اس میں بحیرہ عرب کا اضافہ کر دیا جائے تو عالمی تجارت کی بساط پر ایک نیا کھیل شروع ہوسکتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ، سدرن گیس کوریڈور آذربائیجان کی گیس کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جو پاکستان کے لیے توانائی کی متنوع فراہمی کا ایک اہم موقع فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان اور قازقستان کے درمیان نئے ٹرانس-افغان ملٹی ماڈل کوریڈور کی ترقی بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو خطے کا ایک تجارتی مرکز بنانا ہے۔ دفاع، تعلیم، اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ابھرتی ہوئی شراکت داری اس اتحاد کو مزید جامع بناتی ہے۔

2021 میں “تھری برادرز” نامی مشترکہ فوجی مشق اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ممالک اپنی علاقائی سلامتی کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ترکیہ سے MILGEM منصوبے کے تحت جنگی جہازوں کی خریداری اور پاکستان کا 2020 میں ترکیہ کے دفاعی برآمدات کا تیسرا سب سے بڑا خریدار بننا، اس اتحاد کی دفاعی مضبوطی کو واضح کرتا ہے۔

یہ اتحاد صرف ایک نئی اقتصادی جہت نہیں بلکہ ایک سفارتی اور جغرافیائی حکمتِ عملی کا حصہ بھی ہے۔ بھارت کی وسطی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور افغانستان میں اس کا اثر و رسوخ ایک چیلنج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا پاکستان کے اس اتحاد پر تنقید کر رہا ہے اور بھارت ترکیہ کو پاکستان سے دور رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اتحاد کی کامیابی اسی وقت ممکن ہوگی جب اسلام آباد داخلی سطح پر سرمایہ کاروں کے لیے ایک مضبوط اور پرکشش ماحول پیدا کرے۔ سفارتی طور پر، یہ ایک نایاب موقع ہے کہ یہ ممالک خود کو عالمی سیاست کے نئے توازن میں ایک مؤثر قوت کے طور پر منوائیں۔ ترکیہ نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا، پاکستان نے قبرص پر ترکیہ کے مؤقف کی حمایت کی، اور آرمینیا کے خلاف جنگ میں انقرہ اور اسلام آباد نے باکو کا ساتھ دیا۔

پاکستان طویل عرصے سے چین اور امریکا کے درمیان غیرجانبدار رہنے کی کوشش میں الجھا رہا ہے، مگر موجودہ خارجہ پالیسی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان اپنی بین الاقوامی پہچان کو ایک نئی سمت دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف علاقائی تعاون بلکہ اقتصادی استحکام کی ایک نئی راہ ہموار کرسکتا ہے، مگر اس کامیابی کے لیے مستقل مزاجی اور ٹھوس اقدامات درکار ہیں تاکہ یہ اتحاد 21ویں صدی کی ایک ناقابلِ تسخیر حقیقت بن سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دُرِ اکرم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کے اس اتحاد ترکیہ کے ایک نئی کے ساتھ کی ایک کو ایک رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں

اسلام آباد:

چیف جسٹس یحییٰ افریدی سے ترکی اور ایران کے سفرا نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے دونوں ممالک کے سفرا کو خوش آمدید کہا جبکہ ملاقات میں ترکی اور ایران سے عدالتی تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔

اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کو ایرانی ہم منصب کی جانب سے دورے کی دعوت دی گئی جبکہ سفیر نے چیف جسٹس آف ایران کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو مبارک باد اور دورے کا دعوت نامہ پیش کیا۔

اعلامیے کے مطابق ترکی کے سفیر نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس ترکی کا خیرسگالی پیغام پہنچایا۔

اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی عدلیہ کو بھی عدالتی تعاون کا حصہ بنایا جائے۔ 

ملاقات میں ترکی کے عدالتی تجربات، AI ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل نظام سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ ترکی کی شریعت اکیڈمی کے ساتھ تعاون کو سراہا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعلیٰ سطح کے وفود کے تبادلے ادارہ جاتی روابط مضبوط بناتے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں ثقافتی ورثے اور عوامی سطح پر باہمی احترام کو بھی سراہا گیا جبکہ چیف جسٹس نے دونوں سفرا کو یادگاری تحائف پیش کیے جس پر ترکی اور ایران کے سفیروں نے بھی چیف جسٹس کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔ 

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں عدالتی شعبے میں دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا واقعی بشریٰ بی بی کے پاس جادو کی چھڑی ہے؟ عمران خان مرشد کیوں کہتے ہیں؟
  • یواے ای کی ایئرلائن کو کراچی کیلیے اضافی پروازوں کی اجازت
  • پی ڈی پی و بی جے پی کا اتحاد کشمیر کی بدحالی کا ذمہ دار ہے، تنویر صادق
  • چیف جسٹس سے ترکیہ اور ایران کے سفیر کی ملاقات، عدالتی شعبے میں تعلقات کوفروغ دینے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفیروں کی ملاقات، عدالتی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں
  • گندم بحران حل کیا جائے، کاشتکار 900 روپے فی من نقصان میں جارہے ہیں: صدر کسان اتحاد
  • پاکستان میں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ دیکھا، امریکی اراکین کانگریس
  • ’پاکستان میں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ دیکھا‘، امریکی اراکین کانگریس نے دورہ پاکستان کو کامیاب اور مثبت قرار دیدیا
  • اپوزیشن اتحاد کا 20 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا فیصلہ