گزشتہ چند ہفتوں میں وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کی ٹھان لی ہے۔ ان کا حالیہ دورۂ باکو، جہاں تجارت اور توانائی کے کئی سنگِ میل عبور کیے گئے، درحقیقت خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ایک ایسی کروٹ جو پرانے رشتوں کو تازگی بخشنے اور اہم شراکت داروں کے ساتھ گہرے مراسم قائم کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔
آذربائیجان میں ہونے والی گفت و شنید کے دوران، وزیرِاعظم نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے۔ سب سے دلچسپ پیش رفت 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وہ معاہدہ ہے جو اپریل میں متوقع ہے، اور جس کا بیج صدر الہام علیئیف کے گزشتہ سال کے دورۂ پاکستان کے دوران بویا گیا تھا۔ آذربائیجان کی توانائی کی دنیا میں بڑھتی ہوئی اہمیت پاکستان کی توانائی ضروریات کے ساتھ نہایت موزوں انداز میں ہم آہنگ ہوتی نظر آرہی ہے۔
بجلی کی بدترین قلت کے اس دور میں، یہ معاہدہ نہ صرف توانائی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا بلکہ آذربائیجان کو ایک ایسے توانائی مرکز میں بدل دے گا جو علاقائی اور عالمی منڈیوں کے لیے ناگزیر ہوسکتا ہے۔
آذربائیجان کے بعد، شہباز شریف ازبکستان پہنچے، جہاں دو طرفہ تجارت کو 2ارب ڈالر تک بڑھانے کا معاہدہ طے پایا۔ بظاہر یہ تمام سرگرمیاں ایک عام معاشی تدبیر معلوم ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ پاکستان کی نحیف معیشت کو نئی سانسیں دینے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پرتھا، اور محض بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے آخری لمحے کے بیل آؤٹ پیکج نے اسے سہارا دیا۔ ایسے میں، یہ سفارتی سرگرمیاں محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک اہم پیش بندی کے مترادف ہیں۔
یہ تمام سفارتی جوڑ توڑ اُس وقت زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے جب اسے پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے مابین ابھرتے ہوئے سہ فریقی اتحاد کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حالیہ عرصے میں ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد اور اُن کا شاندار استقبال اس اتحاد کو نئی زندگی دیتا نظر آتا ہے۔ گارڈ آف آنر، 21 توپوں کی سلامی، اور F-16 طیاروں کی دل دہلا دینے والی فلائی پاسٹ—یہ سب ایک ایسے تعلق کی علامتیں ہیں جو نہ صرف تاریخی ہے بلکہ مستقبل میں مزید وسعت اختیار کرنے کو بے تاب بھی ہے۔
یہ تعلق محض رسمی نہیں بلکہ شریف خاندان اور ترک قیادت کے ذاتی مراسم نے اسے اور بھی مضبوط کردیا ہے۔ 2016 میں نواز شریف کی اردوان کی بیٹی کی شادی میں شرکت ہو یا 2022 کے تباہ کن سیلاب میں ترکیہ کا فوری ردِعمل، یہ وہ روابط ہیں جو وقت کے امتحان میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ترکیہ کے مقبول ڈرامے بھی پاکستانی عوام کے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں، جس سے اردوان کی مقبولیت کو مزید تقویت ملی ہے۔
آذربائیجان بھی پاکستان کے لیے ایک نیک خواہ دوست ثابت ہو رہا ہے۔ خاتونِ اول مہربان علیئیوا کے زیرِ قیادت حیدر علیئیف فاؤنڈیشن نے پاکستان میں تعلیمی اور سماجی ترقی کے بے شمار منصوبے متعارف کروائے ہیں، جو سافٹ پاور کے ذریعے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ ترکیہ کے علاقائی اثر و رسوخ کے عزائم پاکستان اور آذربائیجان کی اقتصادی استحکام کی خواہشات کے ساتھ نہایت موزوں انداز میں ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد ترکیہ اور پاکستان نے فوری طور پر آذربائیجان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا، اور آج یہ تعلق ایک تزویراتی شراکت داری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ٹرانس-کاسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ روٹ، جو وسطی ایشیا، قفقاز اور عالمی منڈیوں کو جوڑنے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے، اس اتحاد کی عملی تصویر ہے۔ اگر اس میں بحیرہ عرب کا اضافہ کر دیا جائے تو عالمی تجارت کی بساط پر ایک نیا کھیل شروع ہوسکتا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ، سدرن گیس کوریڈور آذربائیجان کی گیس کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جو پاکستان کے لیے توانائی کی متنوع فراہمی کا ایک اہم موقع فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان اور قازقستان کے درمیان نئے ٹرانس-افغان ملٹی ماڈل کوریڈور کی ترقی بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو خطے کا ایک تجارتی مرکز بنانا ہے۔ دفاع، تعلیم، اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ابھرتی ہوئی شراکت داری اس اتحاد کو مزید جامع بناتی ہے۔
2021 میں “تھری برادرز” نامی مشترکہ فوجی مشق اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ممالک اپنی علاقائی سلامتی کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ترکیہ سے MILGEM منصوبے کے تحت جنگی جہازوں کی خریداری اور پاکستان کا 2020 میں ترکیہ کے دفاعی برآمدات کا تیسرا سب سے بڑا خریدار بننا، اس اتحاد کی دفاعی مضبوطی کو واضح کرتا ہے۔
یہ اتحاد صرف ایک نئی اقتصادی جہت نہیں بلکہ ایک سفارتی اور جغرافیائی حکمتِ عملی کا حصہ بھی ہے۔ بھارت کی وسطی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور افغانستان میں اس کا اثر و رسوخ ایک چیلنج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا پاکستان کے اس اتحاد پر تنقید کر رہا ہے اور بھارت ترکیہ کو پاکستان سے دور رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اتحاد کی کامیابی اسی وقت ممکن ہوگی جب اسلام آباد داخلی سطح پر سرمایہ کاروں کے لیے ایک مضبوط اور پرکشش ماحول پیدا کرے۔ سفارتی طور پر، یہ ایک نایاب موقع ہے کہ یہ ممالک خود کو عالمی سیاست کے نئے توازن میں ایک مؤثر قوت کے طور پر منوائیں۔ ترکیہ نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا، پاکستان نے قبرص پر ترکیہ کے مؤقف کی حمایت کی، اور آرمینیا کے خلاف جنگ میں انقرہ اور اسلام آباد نے باکو کا ساتھ دیا۔
پاکستان طویل عرصے سے چین اور امریکا کے درمیان غیرجانبدار رہنے کی کوشش میں الجھا رہا ہے، مگر موجودہ خارجہ پالیسی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان اپنی بین الاقوامی پہچان کو ایک نئی سمت دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف علاقائی تعاون بلکہ اقتصادی استحکام کی ایک نئی راہ ہموار کرسکتا ہے، مگر اس کامیابی کے لیے مستقل مزاجی اور ٹھوس اقدامات درکار ہیں تاکہ یہ اتحاد 21ویں صدی کی ایک ناقابلِ تسخیر حقیقت بن سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کے اس اتحاد ترکیہ کے ایک نئی کے ساتھ کی ایک کو ایک رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کا آغاز
پاک بنگلہ دیش تجارتی تعلقات کا آغاز ہوچکا ہے، پی این ایس سی کا جہاز سرکاری کارگو لے کر روانہ، بنگلہ دیش پاکستان نے ماہ جنوری میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق 5 ماہ سے 8 لاکھ ٹن چاول کی بنگلہ دیش برآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ گزشتہ برس بھارت کی جانب سے چاول برآمد پر جزوی پابندی عائد تھی کیونکہ بھارت میں چاول کی کھپت کے لیے ملکی پیداوار کی برآمد کو روکنا پڑا جس سے پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں چاول کی برآمد کے کافی آرڈرز موصول ہوئے تھے، لیکن اب ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں یعنی جولائی تا جنوری 2025 کے دوران چاول کی برآمدات سے ملک کو 1.85 ارب ڈالرکا زرمبادلہ حاصل ہوا جو گزشتہ سال کے اسی مدت کے مقابلے میں 7 فی صد تک کم ہے، لیکن اب یہ حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کو بڑی تعداد میں چاول برآمد کرے گا۔ اس سے قبل بنگلہ دیش بھارت سے چاول درآمد کرتا تھا، اگرچہ بنگلہ دیش میں بڑی مقدار میں چاول کی کاشت بھی ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں بہہ کر آنے والے دریا سارا سال لبالب بھرے رہتے ہیں اور یہاں کی زمین بھی زرخیزی میں دنیا بھر میں مانی جاتی ہے اور اکثر و بیشتر یہ زمین سیلاب کے پانی میں گھر جاتی ہے۔ چاول کی فصل کو یوں بھی کافی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے آغاز سے ہی بنگلہ دیش کی معیشت دنیا کی کمزور ترین معیشت بن کر ابھری تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین معاشیات اور معیشت پر گہری نظر رکھنے والی ایجنسیاں اس بات کو یقینی سمجھ رہی تھیں کہ بنگلہ دیش کی معیشت ایک طویل مدت تک اپنے پیروں پر لڑکھڑاتی رہے گی، لیکن یہاں کے محنتی عوام نے ملک میں رہ کر اور بڑی تعداد میں بیرون ملک جا کر زرمبادلہ کما کر اپنے وطن بھجوانا شروع کیا۔ بنگلہ دیشیوں کی عادت یہ ہے کہ وہ یہاں بھی دیار غیر میں جا کر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں ان کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہاں پر اپنے ہم وطنوں اپنے عزیزوں کو بلا لیا جائے۔ سعودی عرب، دبئی اور دیگر ہر علاقے میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں سات آٹھ یا دس افراد رہائش رکھتے ہیں اس طرح فی کس کرائے کا بوجھ انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیشیوں کے برعکس پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش چاول کے علاوہ چائے کی پیداوار میں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ غالباً 200 سال قبل چائے کا پودا چین سے ہندوستان آیا تھا اور بڑے پیمانے پر اس کی کاشت کاری شروع کر دی گئی تھی اور 170 سال سے زائد کا عرصہ ہوا کہ بنگلہ دیش میں چائے کی پیداوار کا آغاز ہوا۔ وہاں کے اداروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں چائے کے 167 باغات ہیں اور 2 لاکھ 80 ہزار ایکڑ رقبے پر چائے کی پیداوار ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان سے گئے ہوئے کئی تاجر ایسے تھے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ضلع سلہٹ میں چائے کے باغات میں حصہ دار تھے۔
کراچی میں واقع کئی ٹی کمپنیاں بنگلہ دیش کے ساتھ چائے کی تجارت سے منسلک تھیں، لیکن 1971 کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا جسے اب دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے تاجر اور صنعت کار خاندان 1946 تک ہندوستان کے اس وقت کے سب سے بڑے تجارتی صنعتی شہر کلکتہ جا کر تجارت و صنعت کے کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔
1946 میں کلکتہ میں مسلم کش فسادات کے بعد یہ لوگ ڈھاکا منتقل ہو گئے پھر قیام پاکستان کے بعد یہاں سے مسلسل روزگار کی تلاش میں لوگ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں چٹاگانگ، کھلنا، راج شاہی، ڈھاکا منتقل ہونا شروع ہو گئے اور اکثریت وہاں تجارت سے وابستہ ہو گئی۔ اب وقت آیا ہے کہ ایسے خاندانوں کی موجودہ نسل کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ وہاں جا کر اپنے لیے نئے مواقعے تلاش کریں۔ حال ہی میں جو تجارتی وفد بنگلہ دیش گیا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ڈھاکا میں اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
بنگلہ دیش کی شرح پیداوار 1973074 میں 3.6 فی صد تھی اور غربت کی شرح 60 فی صد تھی اور فی کس آمدن 129 ڈالر تھی۔ اب اس کی برآمدات پاکستان سے دگنی ہیں اور 2035 کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت بن چکا ہوگا۔
گزشتہ دنوں 53 سالوں کے بعد پاکستان سے چینی کی ایک بڑی کھیپ بنگلہ دیش نے وصول کی۔ پاکستان کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ 6 لاکھ ٹن چینی برآمد کر دی جائے گی۔ اس سے قبل بنگلہ دیش بھارت سے چینی درآمد کرتا تھا۔ چینی برآمد کے فیصلے سے امید ہے کہ بنگلہ دیش کو مزید چینی برآمد کی جائے گی۔
یہاں پر ایک بات اور عرض کرنی ہے کہ 200 سال ہوئے چائے کی کاشت بھارت سے شروع کر دی گئی اس وقت انگریز اس کی کاشت پاکستان کے علاقوں میں بھی کرنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ البتہ برصغیرکے مشرقی علاقوں بنگلہ دیش وغیرہ میں 170 برس قبل چائے کی پیداوار شروع ہو گئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد کئی سروے رپورٹس تیار ہوئیں اور ہزارہ ڈویژن کے کئی علاقوں کے بارے میں بتایا گیا کہ چائے کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس قسم کا سروے پوٹھوہار کے علاقے میں بھی کرایا جائے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے پہاڑ واقع ہیں۔