دفتر خارجہ نے یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں انتہائی غیر جانبداری کی پالیسی برقرار رکھی اور اس تناظر میں انہیں کوئی اسلحہ یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ماسکو نے پاکستان کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کردیا، روسی سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ماسکو کو یوکرین جنگ میں پاکستان کی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ روسی سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین میں پاکستانی اسلحے کے استعمال کے تاحال کوئی ثبوت نہیں ملے، یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ روسی سفارتی ذرائع کے مطابق یوکرین میں پاکستانی اسلحے کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق ماسکو ان الزامات کی بنیاد پر پاکستان کی قیادت سے رابطے میں تھا، ماسکو نے پاکستان کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی خبروں کے حوالے سے تحقیقات کیں، ماسکو کو پاکستان کے خلاف اب تک بلواسطہ یا بلا واسطہ کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی اسلحے یا گولہ بارود کے روس کے خلاف یوکرین میں استعمال کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے، ماسکو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ رابطے میں تھا۔ واضح رہے کہ بی بی سی نے نومبر 2023 میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے 2022 میں دو نجی امریکی کمپنیوں کے ذریعے 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے ہتھیار مبینہ طور پر روس کے ساتھ جنگ ​​کے لیے یوکرین کو بھیجے گئے۔

بی بی سی اردو کی خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مبینہ پیش رفت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دور حکومت میں ہوئی۔ پی ڈی ایم ایک کثیر الجماعتی اتحاد تھا جس نے اپریل 2022 میں عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کر دیا تھا، اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے، جو بعد ازاں نومبر 2022 میں ریٹائر ہوئے۔ روس اور یوکرین کا بحران 24 فروری 2022 کو شروع ہوا تھا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی فورسز کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا۔

دفتر خارجہ نے یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں انتہائی غیر جانبداری کی پالیسی برقرار رکھی اور اس تناظر میں انہیں کوئی اسلحہ یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا۔ بعدازاں نومبر 2023 میں یوکرین کے وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں لے رہے۔ پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے یوکرین کے وزیرخارجہ دیمترو کولیبا نے کہا تھا کہ روس-یوکرین جنگ کا کوئی جواز نہیں کہ یوکرین اپنے دوست ممالک سے تعلقات بھول جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پہلا یوکرینی وزیرخارجہ ہوں جو یوکرین کی آزادی کے بعد پاکستان آیا، میرے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان ایسے دورے ضروری ہیں۔ بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے 155 ایم ایم گولوں (شیلز) کی فروخت کے لیے گلوبل ملٹری اور نارتھروپ گرومین نامی امریکی کمپنیوں کے ساتھ دو معاہدے کیے، مزید بتایا گیا کہ دونوں معاہدوں پر دستخط 17 اگست 2022 کو ہوئے اور یہ معاہدہ خاص طور پر 155 ایم ایم گولوں کے لیے تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ گلوبل ملٹری کے ساتھ 23 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا معاہدہ جبکہ نارتھروپ گرومین کے ساتھ 13 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا ایک اور معاہدہ کیا گیا، بی بی سی اردو کے مطابق یہ معاہدے گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر 2023 میں ختم ہو گئے۔


پاکستان سے خفیہ پروازیں:
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ یہ ڈیلیوری نور خان ایئر بیس سے برطانوی فوجی کارگو طیارے میں کی گئی، جو 5 بار راولپنڈی میں اترا۔ اس طرح کا پہلا طیارہ اسی روز راولپنڈی میں اترا جس دن سابق آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینڈہرسٹ کی رائل ملٹری اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران پاک ۔ برطانیہ تعلقات کو ’تاریخی بلندیوں‘ تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہر بار طیارے نے نور خان ایئربیس سے قبرص میں برطانوی فوجی اڈے اور پھر رومانیہ کے لیے اڑان بھری، وہ بھی ایسے وقت میں جب روس، رومانیہ کے پڑوسی ملک یوکرین میں جنگ لڑ رہا تھا۔

بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں اپنے دعوے کے حق میں مزید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 23-2022 کے دوران ملک کی اسلحے کی برآمدات میں 3 ہزار فیصد اضافہ ہوا، پاکستان نے 22-2021 میں ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا جبکہ 23-2022 میں یہ برآمدات41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رپورٹ میں یوکرین سیکیورٹی اسسٹنس انیشی ایٹو کی ایک دستاویز کا بھی حوالہ دیا گیا، جو کہ یوکرین کے روس کے خلاف دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا امریکی محکمہ دفاع کا فنڈنگ ​​پروگرام ہے۔ اس دستاویز میں اگست 2022 میں یوکرین کو 155 ایم ایم گولوں کی فراہمی سے متعلق معاہدوں کو ظاہر کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی تھی کہ گلوبل ملٹری اور نارتھروپ کے ساتھ اگست 2022 میں پاکستان کے 155 ایم ایم گولوں کے دو معاہدوں کی مالیت بھی تقریباً 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کوئی ثبوت نہیں ملے تھا کہ پاکستان نے سفارتی ذرائع میں پاکستان پاکستان کی یوکرین میں پاکستان کے گولہ بارود کہا تھا کہ لاکھ ڈالر رپورٹ میں کے مطابق کے ساتھ کیا گیا کے لیے گیا کہ

پڑھیں:

جھوٹ کو سچ بنانے والے

پروپیگنڈا اس تھیوری کے تحت تخلیق ہوا تھا کہ اگر ایک ہی جھوٹ بہت سے لوگ بولیں اور بکثرت بولیں تو وہ سچ مان لیا جاتا ہے۔ تھیوری نے پریکٹیکل کا مرحلہ سر کرنا شروع کیا تو تھیوری درست ثابت ہوتی چلی گئی۔ مگر بات اتنی سادہ رہی نہیں جتنی تھیوری میں نظر آئی تھی۔ پروپیگنڈے کا ایک نتیجہ اور بھی نکلا جسے پہلے سے بھانپا نہ جاسکا تھا۔ اور یہ دوسرا نتیجہ ہی یورپ کے لیے فی الحال سزا بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی نہ بھانپ پایا تھا کہ اگر جھوٹ ’بکثرت‘ سے بھی زیادہ بولا جائے تو خود بولنے والا اس پر یقین کر بیٹھتا ہے اور اسے سچ مان لیتا ہے۔ ہماری داخلی سیاست میں جناب عمران خان کے یوتھیے اس کی سب سے موزوں مثال ہیں۔ خان صاحب نے ملکی معیشت کا بھٹا بٹھا دیا جو دیکھتی آنکھوں نظر آرہا ہے۔ مگر یوتھیا اب بھی ایمان کی حد کو پہنچا ہوا یقین رکھتا ہے کہ عمران خان ہی پاکستان کے تمام مسائل کا حل رکھتے ہیں۔ یوتھیے کے اس یقین کی وجہ بس اتنی سی ہے کہ یہ جھوٹ جملہ یوتھیوں نے بکثرت کی حد سے بھی آگے جا کر بولا ہے۔ صورتحال اس لیول پر پہنچ گئی ہے کہ اگر خود عمران خان بھی ان سے کہہ دیں کہ بھئی میرے پاس اس ملک کے مسائل کا کوئی حل نہیں، تو یوتھیا تب بھی نہیں مانے گا کہ خان صاحب ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس والے امریکا کو اپنے کمپلیکس کے مسلسل چلتے رہنے کے لیے مستقل بنیاد پر ’دشمن‘ کی ضرورت تھی۔ دشمن ہوگا تو ہتھیار کی ضرورت بھی رہے گی۔ چنانچہ اس منصب پر پہلے سوویت یونین اور پھر روس کو مستقل فائز کردیا گیا۔ اور مسلسل یہ جھوٹ بولاگیا کہ ہمیں روس سے خطرہ ہے۔ ساتھ ہی یورپ کو دگنا ڈرایا گیا کہ آپ تو بہت ہی قریب ہیں سو پہلا خطرہ آپ کو ہی لاحق ہے۔ یوں لگ بھگ پورا یورپ ہی امریکی اسلحے کا سب سے بڑا گاہک بن گیا۔ اگر آپ غور کیجیے تو یہ جھوٹ اپنی مدت کے لحاظ سے ہی ’بکثرت‘ والی حد پار کرچکا ہے۔ چنانچہ اب یورپ خود اپنے اس جھوٹ کو یوتھیے کی سطح پر جاکر سچ مان رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یورپ کا گریہ

یوکرین کے حوالے سے یورپ کو 2 خواب بیچے گئے۔ ایک یہ کہ یوکرین 15 ٹریلین ڈالرز مالیت کے معدنیات رکھنے والا ملک ہے۔ جب یہ نیٹو ممبر بنے گا تو اس کی معدنیات ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ اور یہیں تک نہ رہیں گے بلکہ ہم روس کو 5 ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کے تمام وسائل پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ لبرل شیخ چلیوں کے یہ خواب ’یوکرین پروجیکٹ‘ کہلاتے ہیں۔ 16 برس تک یہ  خواب اس تواتر سے دیکھا گیا کہ اسے خواب نہیں بلکہ حقیقت مان لیا گیا ۔ نتیجہ دیکھیے کہ  یورپ اس پر اس حد تک یقین کرگیا کہ جب روشین گیس سپلائی بند ہونے کے نتیجے میں ان کی معیشتوں کا جنازہ اٹھنے لگا تو انہوں نے یہ سوچ کر اسے بھی خندہ پیشانی سے قبول کرلیا کہ جب بہت جلد یوکرین اور روس کے وسائل ہمارے ہی قبضے میں ہوں گے تو اس عارضی بحران کی کیا ٹینشن ؟۔ اسی یقین کا ہی تو نتیجہ ہے کہ ان ممالک نے سنگین معاشی بحران دیکھ کر بھی قدم پیچھے ہٹانے میں ذرا دلچسپی نہ دکھائی۔

یوکرین پروجیکٹ کے ہی ذرا 3 ضمنی پروپیگنڈے بھی دیکھتے جائیے جن پر خود پروپیگنڈا کرنے والے یقین کر بیٹھے۔ پہلا پروپیگنڈہ بدنام زمانہ امریکی سینیٹر جان مکین نے کچھ یوں کیا تھا ’روس ایک گیس اسٹیشن ہے جس نے ملک کا روپ دھار رکھا ہے‘۔ 2015ء میں مکین کی کہی یہ بات بھی پچھلے 10 برسوں کے دوران مسلسل اچھالی گئی۔ اور اتنی اچھالی گئی کہ روس سے پنگا لینے والے یہی بھول گئے کہ روس گیس اسٹیشن نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بڑی سپر طاقت ہے۔ اور یہ میدان جنگ میں اتنی غیر متزلزل طاقت ہے کہ جب یہ سپر طاقت نہ تھا تب بھی اس نے 19 ویں صدی میں نپولین کا یہ حال کردیا تھا کہ وہ اپنی فوج چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہوگیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ 20ویں صدی کے وسط میں دوسری جنگ عظیم دوران اس نے 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کی قربانی دے کر برلن فتح کرلیا تھا۔ سو یوکرین جیسا پدی ملک اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

یوکرین پروجیکٹ کا دوسرا ضمنی پروپیگنڈا وہ تھا جو 2022ء میں خدا جانے کیا سونگھ کر یورپین یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل نے کیا۔ موصوف نے عجیب سرمستی کے عالم میں فرمایا ’یورپ ایک خوبصورت باغ ہے۔ اور اس باغ سے باہر جو بھی ہے وہ جنگل ہے۔ ہمارے باغ کو جنگل سے خطرہ ہے‘۔ تکبر ہمیشہ ہی گلے پڑتا ہے مگر یہ تکبر تو کچھ زیادہ ہی جلد گلے پڑ گیا۔ سال بھی نہ گزرا تھا کہ جوزف بوریل کا باغ اسی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوگیا جو لوڈشیڈنگ جنگل کے ایک حصے پاکستان میں ہوا کرتی تھی۔ اور باغ جیسے یورپ کا سب سے بڑا صنعتی ملک جرمنی ڈی انڈسٹرلائزیشن کا شکار ہوگیا۔

یوکرین پروجیکٹ کا تیسرا ضمنی پروپیگنڈہ یورپین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈرلین نے کچھ یوں فرمایا ’ہماری پابندیوں کے نتیجے میں روس کا برا حال ہے۔ وہ واشنگ مشینوں سے چپس نکال کر میزائلوں میں لگانے پر مجبور ہے‘۔ اگر آپ کو ہمارے کہے پر یقین نہیں تو یہ سارے پروپیگنڈے یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ ارسلا اس ملک سے متعلق یہ دعویٰ کر رہی تھیں جو خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے والا ہی نہیں بلکہ انسان بھیجنے والا بھی پہلا ملک ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس پروپیگنڈے پر بھی اس حد تک یقین کرلیا گیا کہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہیں بتا رہے ہیں کہ روس ایک بڑی سپر طاقت ہے۔ اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ یوکرین جنگ ہار چکا، اس کا نیٹو ممبر بننے کا کوئی امکان نہیں۔ اور یہ کہ امریکا روس کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کرنے جا رہا ہے، تو یورپ اس بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں۔ یورپ کے نزدیک اب بھی سچ یہی ہے کہ روس دشمن ہے۔ روس ایک گیس اسٹیشن ہے جس نے ملک کا روپ دھار رکھا ہے۔ یورپ ایک باغ ہے اور باقی دنیا جنگل۔ اور یہ کہ روس واشنگ مشینوں سے چپس نکال کر میزائلوں میں نصب کرنے پر مجبور ہے۔ لہٰذا اس کی شکست تو طے ہے۔

مزید پڑھیے: امریکی میڈیا، سچ اور معاشرتی علوم

اپنے طویل پروپیگنڈے کے سحر سے نہ نکل پانے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اب بھی اس ضد پر کھڑے ہیں کہ انہوں نے گیس اسٹیشن یعنی روس پر قبضہ کرنا ہے۔ یہ شدید قسم کی حیرت میں مبتلا ہیں کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ اس گیس اسٹیشن کے مالکان سے بات چیت کیوں کر رہے ہیں؟ اور حواس ان کے ایسے منتشر ہیں کہ جس سانس میں روس سے جنگ جاری رکھنے کی بات کرتے ہیں اسی سانس میں یہ بھی کہہ بیٹھتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر ہماری کرسی کیوں نہیں ؟ امریکا ہی نہیں روس بھی اس سوال کا بہت سادہ سا جواب دیتے ہیں، دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ بات چیت ہم دونوں ممالک کے باہمی امور سے متعلق ہو رہی ہے۔ اس سے یورپ کا کیا لینا دینا ؟ آپ اس جوابی سوال کی گہرائی سمجھ رہے ہیں ؟ امریکا ہی نہیں روس بھی درحقیقت یورپ سے یہ کہہ رہا ہے کہ مفادات بس سپر طاقتوں کے ہوتے ہیں، چمچوں کا کچھ نہیں ہوتا۔ چمچوں کو تو بس فالو کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگے کہ ہم مبالغہ کر رہے ہیں تو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی اس چٹکی کا لطف لے لیجیے جو اسی مسئلے پر انہوں نے یورپ کو بھری ہے۔

مارکو روبیو نے کہا، یورپ کو بھی مذاکرات کی میز پر سیٹ دی جائے گی۔ کیونکہ جب بات چیت کے نتیجے میں ہم روس پر عائد اپنی پابندیاں اٹھا لیں گے تو پیچھے یورپین پابندیاں رہ جائیں گی۔ تب ہم انہیں بلائیں گے اور میز پر بٹھائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس ارشاد کا سیاسی ترجمہ یہ ہے کہ جب ہم سارے فیصلے کرلیں گے تو پھر یورپ کو بھی کمرے میں بلا لیں گے اور ان سے پوچھیں گے، ہاں بھئی آپ لوگ پابندیاں کب اٹھا رہے ہیں؟ خود ہی سوچیے امریکی پابندیاں اٹھنے کے بعد یورپین پابندیاں برقرار رہ پائیں گی؟ امریکی پابندیاں اٹھنے کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا اور روس باہمی تجارت کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یورپ کے پاس کیا آپشن ہوگی؟ امریکا پر بھی پابندیاں لگائے گا ؟ذرا اس پہلو سے سوچیے کہ یوکرین کی جنگ میں معاشی نقصان کس کا ہوا ہے؟ امریکا کو تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اس کے بس ساڑھے 300 ارب ڈالر ہی خرچ ہوئے ہیں۔ روس کو تو نقصان کی بجائے فائدہ ہوا ، اور وہ بھی غیر معمولی۔ اس کی معیشت نے اس عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔جبکہ بیڑا صرف یوکرین اور یورپ کا غرق ہوا ہے۔ ایسے میں امریکا اور روس یورپ کے کسی دباؤ میں آئیں گے؟ یہ دونوں ہی ممالک یورپ سے بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ نہیں اٹھانی پابندیاں تو مت اٹھائیے، بھگتیے نتائج۔

ذرا صورتحال کا  یہ دلچسپ پہلو دیکھیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے ایک روز قبل تک یورپ یہ کہتا رہا کہ ویلادیمیر پیوٹن تنہا ہو گیا۔ اور صرف ایک ماہ بعد کی صورتحال یہ ہے کہ 24 فروری کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین نے روسی حملے کے 3 سال مکمل ہونے پر ایک مذمتی قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک میں امریکا، روس، جنوبی کوریا اور ہنگری قابل ذکر ہیں۔ کسی نے تصور بھی کیا تھا کہ یوکرین کے مسئلے پر امریکا، روس اور جنوبی کوریا ایک ہی کیمپ میں ہوں گے؟ صرف یہی نہیں، اسی روز سلامتی کونسل میں امریکا نے جنگ کے جلد خاتمے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے 3 بڑے ممالک امریکا، روس اور چین تھے۔ جبکہ برطانیہ اور فرانس سمیت 5 یورپین ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ذرا سوچیے تنہا کون ہوا؟ اگر امریکا ہی اس مسئلے پر گلوبل ساؤتھ سے جا ملا ہے تو یورپ کے پاس بچا کیا؟

مزید پڑھیں: مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین

ایک اور نہایت دلچسپ چیز دیکھیے۔ تقریباً ہفتہ ہونے کو ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر قرار دیا۔ 3 روز قبل فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی موجودگی میں فرانسیسی صحافی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا، کیا آپ پیوٹین کو ڈکٹیٹر مانتے ہیں؟ ٹرمپ نے نفی میں جواب دے کر میکرون کو جس طرح بدمزا کیا وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یوکرین کی جنگ سے نکلنے میں یورپ کو کوئی مشکل پیش آنی ہے؟ قطعاً نہیں، بلکہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ روس سے اس گیس کی سپلائی کھل سکتی ہے جس سے ان کی معیشتوں کی حیات جڑی ہے۔ تو پھر مشکل کیا ہے؟ مشکل یہ ہے کہ یورپ اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں سے نجات حاصل نہیں کر پا رہا۔ انہیں یورپین یوتھیے سمجھنا غلط نہ ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا جھوٹ بکثرت جھوٹا بیانیہ جھوٹا سچ روس یورپی یوتھیے یورپین یوتھیے یوکرین

متعلقہ مضامین

  • اس حکومت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، شیخ وقاص اکرم
  • کراچی ایک بار پھرایم کیو ایم سے پہلے والے کراچی کی طرف بڑھ رہاہے، خالد مقبول صدیقی
  • موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی اخلاقی، سیاسی و قانونی حیثیت نہیں ،اپوزیشن اتحادکی قومی کانفرنس کااعلامیہ جاری
  • پی پی سے اتحاد قائم رکھنا ان کی اور ہماری مجبوری ہے: رانا ثناء اللّٰہ
  • جھوٹ کو سچ بنانے والے
  • یوکرین تنازع میں عدم مداخلت پر پاکستان کے مشکورہیں،روس
  • یوکرین تنازع میں عدم مداخلت کے مؤقف پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، روسی سفیر
  • یوکرین تنازع میں عدم مداخلت کے مؤقف پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا شکریہ، روسی سفیر
  • ویڈیو میں نظر آنے والا لڑکا مصطفیٰ نہیں، کوئی اور ہے، اہل خانہ و پولیس کی تصدیق