اسلام ٹائمز: دھمکی آمیز بیانات میں کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم تحریک طالبان، کالعدم لشکر اسلام، کالعدم سپاہ صحابہ، لال مسجد، شہدا فاونڈیشن جیسے فتنۃ الخوارج گروہوں نے اپنے غیر قانونی کاموں کا اعتراف کرتے ہوئے سرکاری ایکشن کو کیوں چیلنج کیا ہے؟ فتنۃ الخوارج کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کے علاوہ کوئی بھی دیوبندی مذہبی سیاسی جماعت لال مسجد کی مہم جوئی کی کیوں حمایت نہیں کرتی؟ کیا ان دیوبندی علما اور جماعتوں کے پاکستانی ہونے میں شک ہے؟ واضح اور اعلانیہ دھمکیوں اور فتنۃ الخوارج کی سہولت کاری کے باوجود ان کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کے نام سے جلسے، جلوس، دھرنے، ریلیاں کیوں منعقد کر رہے ہیں؟ لال مسجد جیسا دہشت گردی کا اڈا عزیز برادران کے حوالے کیوں ہے؟ فتنۃ الخوارج ام حسان کو اپنی ماں کہہ رہے ہیں، پھر اسے اسلام آباد اور اسلام آباد کے مضافات اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں مدارس کے نام پر دہشت گردی کے اڈے اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بنانے اور چلانے کی اجازت کیوں حاصل ہے؟۔ اسلام آباد سے خصوصی رپورٹ:

پاکستان کے گلی کوچوں میں خودکش دھماکے اور قتل و غارت کس کو یاد نہیں، آج بھی آرمی پبلک اسکول پشاور سے لیکر پورے ملک کی مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور پارکوں میں زندہ انسانوں کے اڑتے ہوئے چیتھڑے، عورتوں بچوں کی آہ و بکاو اور بکھری لاشیں متعفن ذہنوں کے ایجاد کردہ دہشت گردوں کے کرتوتوں کی صورت میں ملک کے ہر حساس ذہن پر نقش ہیں۔ اس وحشت و بربریت میں سب سے بڑا کردار اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے مولویوں کا ہے۔ تقریبا دو عشرے قبل فوجی آپریشن کے ذریعے دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر ریاستی رٹ کو چیلنج کر کے ریاست کے اندر ریاست کا اعلان کرنیوالے دہشت گردوں کے مرکز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز کے باسی ان سے آج بھی پریشان ہیں۔

یہ دہشت گرد آج بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر شدت پسندی اور تشدد کو فروغ دینے کے لئے سوشل میڈیا کا بے مہابہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لال مسجد پر قابض گروپ کا فتنۃ الخوارج کالعدم تحریک طالبان کے تمام دھڑوں اور کالعدم تکفیری قاتل گروہ سپاہ صحابہ کیساتھ گہرا تعلق ہے۔ 20 فروری کو لال مسجد کے پلیٹ فارم سے کشمیر، مانسہرہ، سوات، مالاکنڈ، کرم ایجنسی، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، راجن پور، قلعہ سیف اللہ، تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان، پوٹھو ہار، چکوال، خوشاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں معصوم بچیوں اور مخصوص فکر کے حامل خاندانوں کو کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم تحریک طالبان کیساتھ مربوط کر کے ان گروہوں کو سہولت کاری فراہم کرنیوالی ام حسان کو اسلام آباد نے سنگین الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ عدالت میں پیشی ہوئی، جسمانی ریمانڈ لیا گیا، لیڈی پولیس کی حراست میں دیا گیا۔

اسلام آباد کی سڑکوں پر اسلحہ لہرا کر اہل سنت نوجوانوں کو پاکستانی ریاست کو کافر قرار دیکر دہشت گردی کے لئے اکسانے والی ام حسان پر لگائی گئی دفعات درج ذیل ہیں، جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
1.

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 (ATA - Anti-Terrorism Act, 1997)، دفعہ 7 ATA: دہشت گردی کے الزام میں سخت ترین سزاؤں کا نفاذ، دفعہ 11(X) ATA: کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کا الزام۔
2. غیر قانونی اجتماع اور عوامی نظم و ضبط ایکٹ 2024، دفعہ 8: غیر قانونی عوامی احتجاج اور دھرنے پر پابندی کی دفعات کا اطلاق۔
3. تعزیراتِ پاکستان کی دفعات، 395 PPC - ڈکیتی کا الزام، 324 PPC - اقدام قتل کا الزام، 342 PPC - غیر قانونی قید کا الزام، 341 PPC - راستہ روکنے کا الزام، 148 PPC - ہنگامہ آرائی میں ہتھیاروں کا استعمال، 149 PPC - غیر قانونی اجتماع میں شرکت، 353 PPC - سرکاری ملازم پر حملہ، 186 PPC - سرکاری امور میں مداخلت، 440 PPC - جان و مال کو نقصان پہنچانے کا الزام شامل ہے۔

دہشت گردی اور قتل و غارت کی دھمکیاں:
مشرف دور میں مسلح افواج، رینجرز، ریاستی اداروں، پولیس اور عوام نے اس دہشت گرد کیخلاف بے پناہ قربانیاں دیں، لیکن حالیہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس گروہ کو مکمل طور پر ختم کرنیکی بجائے نظرانداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا اسلام آباد کے اس گروہ اور نام بدل کر اہل سنت والجماعت کے ٹائٹل سے سرگرم لال مسجد سے وابستہ کالعدم سپاہ صحابہ جیسے دہشت گرد عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان کیخلاف زہر اگل رہا ہے کہ پاکستانی ریاستی ادارے ایسے خطرناک گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کے خام اذہان اپنی ریاست کے خلاف یہ الزامات قبول کر لیتے ہیں، کیونکہ وہ وفاقی دارالحکومت میں آئے روز یہ تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

مقتدر قوتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، صرف سرکاری ٹی وی پر دہشت گردوں کے بیانیہ کی کوریج روک کر یہ سمجھ لینا کہ اب دنیا سمجھے گی سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، کافی نہیں، زمانہ بدل چکا ہے۔ آئے روز ففتھ جنریشن وار کا ڈھول پیٹنے والوں کو سوشل میڈیا پر دہشت گردی پر مبنی پاکستان مخالف بیانیے کی گونج کیوں سنائی نہیں دیتی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ایک سرسری جھلک دیکھنے سے ہی پاکستانی شہریوں کو اپنے ادراوں کی اہلیت پہ شک ہونے لگتا ہے، حالانکہ کوئی دیہات، قصبہ اور شہر ایسا نہیں جہاں کی گلیوں میں مسلح افواج میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے والے سپاہیوں اور افسروں کی میتیں نہ آ رہی ہوں۔ افغان بارڈر کیساتھ ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جانیں دینے والے قوم کے سپوتوں کی مائیں، بیوائیں اور یتیم بچے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں ان کے قاتل کیوں دندنا رہے ہیں؟ 

ام حسان کی گرفتاری کا پس منظر، جامعہ حفصہ کی زبانی:
الٹا ریاست کیخلاف چارج شیٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں جامعہ مسجد مدنی اور مدرسۃ المسلم کا انہدام، ایک سازش کا تسلسل ہے، 20 فروری 2025 کو جامعہ سیدہ حفصہ کی پرنسپل حضرت اُم حسان صاحبہ کو اطلاع ملی کہ حکومت مری روڈ پر واقع جامعہ مسجد مدنی اور مدرسۃ المسلم کو گرا رہی ہے، اس مسجد میں ہزاروں مسلمان عبادات کرتے ہیں، یہ دین کا ایک اہم مرکز ہے، حکومت نے بغیر کسی شرعی جواز کے، اور علماء کرام سے مشورہ کیے بغیر، مسجد کو گرانا شروع کر دیا، حضرت اُم حسان صاحبہ اپنی چند معلمات اور طالبات کے ہمراہ موقع پر پہنچیں اور اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کو متنبہ کیا کہ یہ اقدام شرعی طور پر ناجائز اور غیر قانونی ہے، انہوں نے واضح کیا کہ مسجد کو شہید کرنا ایک دینی جرم ہے، اور اس فیصلے کو واپس لیا جانا چاہیے، انتظامیہ نے نہ صرف ان کی بات کو نظر انداز کیا، بلکہ طاقت کے نشے میں چور حکومتی اداروں نے انہیں زبردستی حراست میں لے لیا۔

قارئین مندرجہ بالا انداز تحریر کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کس طرح ایک معمولی حیثیت کا اقلیتی گروہ کس طرح 25 کروڑ مسلمانوں کے دین اور ایمان کا ٹھیکے دار بنا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان ممالک مساجد کی تعمیر سے لیکر لاوڈ اسپیکر کے استعمال تک قوانین اور ضابطہ اخلاق پر عمل کرتے ہیں۔ اسلام آباد دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں ریاست نے ایک دہشت گرد گروہ کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے کہ وہ صرف مخصوص سوچ، مخصوص منہج اور مخصوص فرقے کی مساجد میں اضافہ کریں، ان کے علاوہ کوئی اور مسلمان مسجد بنانے، مسجد چلانے اور اللہ کا نام لینے کی کوشش کرے تو واہی تباہی کر دیں۔ جس کو چاہیں اس کا کاروبار بند کروا دیں، محلوں میں جا کر دھمکیاں دیں، لوگوں کے راستے بند کردیں، گرین بیلٹس پر مدرسے تعمیر کردیں، رٹ چیلنج کریں، لیکن بے فکر رہیں۔ اگر ان کے ہاتھوں فوجی، رینجرز، پولیس اور کمانڈوز شہید بھی ہو جائیں تو سرکاری خرچ پر مسجد کو رنگ روغن کروا دیا جائیگا، لوگ چپ ہو جائیں گے کہ آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔

اسلام آباد سے لیکر افغانستان تک دہشت گردوں کے ہمنوا:  جب بھی لال مسجد اور اس سے منسلک لڑکوں اور لڑکیوں کے مدارس اسلام آباد انتظامیہ کی ناک میں دم کر دیتے ہیں تو بالآخر پولیس کاروائی کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کالعدم سپاہ صحابہ اور کالعدم ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دھمکیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ام حسان کی گرفتاری کیساتھ ہی ایک وقت میں کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ کے سرغنہ احمد لدھیانوی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے گروپوں کی جانب سے ریاست، ریاستی اداروں، وزارت داخلہ، اسلام آباد پولیس اور حکومت کو 2007 کی یاد دلاتے ہوئے للکارنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ ہم ام حسان کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، ہم سر پر گفن باندھ کر نکلیں گے اور پورے ملک کو آگ و خون میں غلطاں کر دینگے۔ جامعہ حفصہ اسلام آباد کی جانب سے خطرناک نتائج کی دھمکی:
اس وقت پوری آزادی کیساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر دہشت گرد تنظیموں کے پرچم لہرا کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ جامعہ حفصہ کے خلاف ریاستی جبر کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ریاستی جبر، ظلم اور وحشت کی علامت کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، 2007 میں لال مسجد پر ہونے والے سفاک آپریشن نے ملکی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا، اس ظلم نے پاکستان میں جہادیوں کے جذبۂ جہاد کو مزید تقویت دی، ملک کے اندر خونی انقلاب کی بنیاد رکھی، جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان صاحبہ کی بلاجواز گرفتاری نے ایک بار پھر ریاستی جبر کی یاد تازہ کر دی ہے، یہ گرفتاری ایسے وقت میں عمل میں آئی جب ملک پہلے ہی لال مسجد جیسے واقعات کے نتیجے میں جنگ زدہ ہے، ریاستی اداروں کی جانب سے جامعہ حفصہ اور اس سے منسلک شخصیات کے خلاف اقدامات اس تاثر کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ ریاست ان کو منظم طریقے سے نشانہ بنا رہی ہے، یہ اقدامات کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں اور ان کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے انتقام کی دھمکی: فتنۃ الخوارج کالعدم تحریک طالبان نے بھی مبینہ طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے دھمکی دی ہے کہ ہماری ماں ام حسان کی گرفتاری کی انتہائی افسوسناک خبریں موصول ہو رہی ہیں، ریاست پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بنات کے ایک عظیم جامعہ، جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان صاحبہ کو گرفتار کرلیا ہے، جس سے علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیلا، جبکہ احتجاج کی صورت بھی پیش آئی ہے، اس عمل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ہم پاکستانی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خاص طور پر لال مسجد و جامعہ حفصہ کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کو ایک بار پھر ظلم کرنے سے روک دیں۔ ریاست کیلئے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ اسی مقام پر 2007 میں انہی لوگوں کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف آپریشن سے ملک کی صورتحال کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی؟ لہذا ایسے اعمال سے اجتناب کریں، کہ پھر آپ ہی شکوہ کریں کہ "لوگ ریاست کے خلاف کیوں کھڑے ہوتے ہیں"؟۔ 2007 کے لال مسجد آپریشن کے بعد ہم نے ریاستی مظالم کا انتقام لینے کے لیے بھرپور کارروائیاں کیں تھیں اگر ریاست کی جانب سے موجودہ اقدامات میں بھی ظلم و جبر کا یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم دوبارہ جذبۂ انتقام سے سرشار ہو کر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے میدان میں اتریں گے، جو ریاست کے لیے کسی طور نیک شگون نہیں ہوگا۔

کالعدم لشکر جھنگوی کی دھمکی: کالعدم سپاہ صحابہ جو اہل سنت والجماعت، سنی علما کونسل، سنی رابطہ کونسل اور راہ حق جیسے ناموں کیساتھ فعال ہے، اور لشکر جھنگوی ان کا ایک ذیلی گروپ ہے، ان کی طرف سے غازی میڈیا نیٹ ورک کا ٹائٹل استعمال کرتے ہوئے یہ دھمکی آمیز بیان جاری کیا گیا ہے کہ 2007 میں اس قسم کے اقدامات نے پاکستان کے اندرونی حالات کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اب ریاست دوبارہ اس طرح کی کارروائیاں کر کے ایک ایسی آگ کو ہوا دینا چاہتی ہے جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں اور ریاستی جبر کے باعث پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے اگرچہ پیڈ (Paid) انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر ریاستی مظالم میں حکومتوں کی شراکت دار ہوتی ہیں، مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں عام عوام اور سول سوسائٹی کے نزدیک ایک جابرانہ ریاست کا وحشیانہ چہرہ مزید بے نقاب ہوگا۔   واضح رہے کہ چونکہ مقتدر سیاسی پارٹی نے ووٹوں کی خاطر ان گروپوں سے انتخابی اتحاد بنایا تھا اس لئے کالعدم لشکر جھنگوی نے سیاسی اور سماجی انتشار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ظالمانہ اقدامات سے ملک کے اندر سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں میں شدید اختلافات پیدا ہوں گے جو سماجی انتشار کو جنم دے کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں پاکستان پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اور ریاستی اداروں بالخصوص فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے خلاف بغاوت کا رجحان بڑھ رہا ہے ایسے اقدامات اس عمل کو مزید تیز کر دیں گے۔   بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاست نے ایک بار پھر طاقت کے وحشیانہ استعمال کا راستہ اختیار کیا ہے امِ حسان کی بلاجواز گرفتاری اور جامعہ حفصہ کے خلاف جاری کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں، مذہبی حلقوں میں اس ظلم کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جو مستقبل میں خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے، اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ مولانا عبدالعزیز غازی یا ان کا خاندان تنہا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ پاکستان کے تمام اسلام پسند، بالخصوص ہم مولانا صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے خلاف ہر ریاستی جبر کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
جاری کردہ غازی میڈیا نیٹ ورک، 22 شعبان المعظم 1446 ھ ق/ بمطابق 21 فروری 2025
فتنوں کا مرکز بننے والی لال مسجد انتظامیہ کا بیان:
بسم الله الرحمن الرحيم
جامعہ مسجد مدنی اور مدرسۃ المسلم کی شہادت، حضرت اُم حسان صاحبہ کی گرفتاری ظالمانہ نظام کے خلاف امتِ مسلمہ کی آزمائش ہے، پاکستان کی سرزمین، جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی تھی، آج انہی اسلامی اقدار کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے، وہ ملک جو لا إله إلا الله محمد رسول الله کے نعرے کے ساتھ وجود میں آیا، آج وہاں مساجد کو شہید کیا جا رہا ہے، معلمات کو زبردستی گرفتار کیا جا رہا ہے، اور اسلام کے داعیوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، یہ معاملہ صرف جامعہ مسجد مدنی اور مدرسۃ المسلم کی شہادت یا حضرت اُم حسان صاحبہ کی گرفتاری کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے مسلمانوں اور دینی طبقے کے لیے ایک آزمائش ہے، حضرت اُم حسان صاحبہ کی بے حرمتی جیسا یہ ظلم ناقابلِ برداشت ہے۔

یہ ناقابلِ قبول اور انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ لاکھوں بیٹیوں کی محترم استانی، ایک عظیم معلمہ اور مربیہ کو انتہائی بے دردی سے گرفتار کیا گیا، اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر عدالت میں پیش کیا گیا، یہ عدالتی نظام کے لیے ایک زوردار طمانچہ ہے کہ وہ کس طرح معلمات اور دینی شخصیات کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کر رہا ہے، جس خاتون نے لاکھوں بچیوں کو علم دیا، دینی شعور دیا، اسلام سکھایا، اس کے ساتھ ایسا سلوک حکومت اور عدالتی نظام کے گھٹیا پن کو ظاہر کرتا ہے، ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر، دہشت گردی عدالت میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر پیش کرنا اس قوم کے لیے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، یہ ظلم اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان میں انصاف صرف طاقتور کے لیے ہے، اور کمزوروں کے لیے صرف جیلیں اور تشدد باقی ہے۔

یہ وقت ہے کہ پورے پاکستان کے علماء اور عوام اس ظالمانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور تحریکِ نفاذِ قرآن و سنت شروع کریں۔ 
1. پاکستانی عدالتیں ظالمانہ، کفریہ، اور فسق و فجور پر مبنی ہیں، ہمیں ان عدالتوں میں اپنے مقدمات نہیں لے جانے چاہئیں۔
2. مساجد اور اسلامی تعلیم کے مراکز کی حفاظت کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو یکجا ہو کر ایک مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔
3. انگریزی قانون اور عدالتی نظام کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے، اور اس کی جگہ اسلامی عدل و انصاف کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے۔
4. پوری قوم ہر مسجد میں عہد کرے کہ ہم اپنے مقدمات کو ان جھوٹی عدالتوں میں نہیں لے کر جائیں گے، بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے اصولوں کو اپنائیں گے۔

دعا اور آخری پیغام: اللہ تعالیٰ حضرت اُم حسان صاحبہ، معلمات، اور طالبات کو جلد رہائی عطا فرمائے، جن ظالموں نے ان پر ظلم کیا، اگر ہدایت مقدر میں ہے تو ہدایت دے، ورنہ ان کا انجام جنرل پرویز مشرف جیسا کر دے، دنیا بھر میں اسلامی خلافت اور اسلامی عدل و انصاف کا نظام قائم ہو، اور ظلم کا مکمل خاتمہ ہو۔ یہ معاملہ صرف جامعہ مسجد مدنی یا حضرت اُم حسان صاحبہ کا نہیں، بلکہ یہ پورے پاکستان کے مسلمانوں اور علمائے کرام کے لیے ایک آزمائش ہے۔ اگر ہم نے ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل ہر مسجد، ہر عالم، اور ہر مسلمان ظلم کا شکار ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ظالمانہ نظام کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ وما علینا إلا البلاغ المبین، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کالعدم تحریک لشکر اسلام پاکستان کی دھمکی:  نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان صاحبہ کو گرفتار کرلیا ہے ان کی دینی خدمات کے بارے میں سب پاکستانیوں کو علم ہے کہ اس غلام اور ناپاک فوج کی ظلم کے باوجود بھی انہوں نے اپنی دینی خدمات جاری رکھی ہوئی ہیں۔ 2007 سے لے کر آج تک لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ساتھ جتنا ظلم پاکستانی ایجنسیوں اور ناپاک فوج نے کیا ہے تاریخ میں کسی اور کافر ملک نے نہیں کیا۔ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں قانون الہی کے نفاذ اور دینی بات کرنا جرم بن گیا ہے۔ انشاء اللہ ریاستی مظالم کے خلاف مجاہدین میں جذبہ انتقام اور بھی بڑھ جائے گا۔  ہم تحریک لشکر اسلام پاکستان جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان صاحبہ کی گرفتاری کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس طاغوتی نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہے تاکہ اس پاک سرزمین کو ناپاک وجود سے صاف کر کے شریعتِ محمدی کو نافذ کریں۔
 صلاح الدین ایوبی  ترجمان تحریک لشکر اسلام پاکستان، 22شعبان المعظم 1446 ھ، 21فروری 2025۔   لال مسجد کو قانونی امداد فراہم کرنیوالے ادارے شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان کا بیان: پرنسپل جامعہ سیدہ حفصہ ام حسان کو مارگلہ ٹاؤن اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا، خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کو مدنی مسجد مارگلہ ٹاؤن اسلام آباد کے امام و خطیب کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ ایس ایچ او مصباح نے بھاری پولیس کی نفری کے ہمراہ کاروائی کرتے ہوئے ام حسان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان (لال مسجد) کی جانب سے ام حسان کی گرفتاری کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔ پرنسپل جامعہ سیدہ حفصہ ام حسان کو گرفتار کرنا ملک میں بدامنی پیداء کرنے کی کوشش ہے۔   کچھ قوتیں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ملک میں انتشار پیداء کرنی کی کوشش کررہی ہیں۔ کبھی ختم نبوت و ناموس رسالت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے متعلقہ معاملات کو چھیڑا جاتا ہے۔ کبھی اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے وطن عزیز پاکستان میں مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، آج بھی مبینہ طور پر سی ڈی اے کی جانب سے مارگلہ ٹاؤن میں واقع مدنی مسجد کو شہید کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ مذکورہ واقعہ کی اطلاع موصول ہوتے ہی ام حسان جامعہ حفصہ کی چند معلمات کے ہمراہ نہتے مذکورہ مقام پر پہنچیں۔ سی ڈی اے کی جانب سے مذکورہ مسجد کو شہید کرنے کی مبینہ کوشش کے باوجود بھی ام حسان اور ان کی رفقاء نے کسی بھی قسم کا امن و امان کا کوئی مسئلہ پیداء نہیں کیا۔   مذکورہ مسجد کی انتظامیہ و ام حسان کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کے افسران مذاکرات کرتے رہے، جس کے نتیجے تقریباً معاملات پر امن طریقے سے طے پاچکے تھے، حالات بالکل معمول پر تھے، امن و امان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، ام حسان مذکورہ مسجد کے خطیب کی رہائش گاہ میں موجود تھیں، کس کے ایماء پر ام حسان کو چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مذکورہ مسجد کے خطیب کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا، آخر کس کے ایماء پر اسلام آباد میں ایک دفعہ پھر مساجد کو تجاوزات قرار دیکر شہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ماضی میں بھی اسلام آباد میں مساجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہی سانحہ لال مسجد و جامعہ حفصہ جیسا المناک سانحہ پیش آیا تھا۔ سانحہ لال مسجد کے بعد ملک میں آج تک امن قائم نہ ہو سکا۔ملک پہلے ہی بدامنی کا شکار ہے۔

ایسے حالات میں کون اس قسم کے اقدامات کرکے ملک کو مزید آگ میں دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ پرنسپل جامعہ سیدہ حفصہ ام حسان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔انہیں بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا گیا، ام حسان کی گرفتاری کسی طور پر بھی قابل قبول و قابل برداشت نہیں ہے۔اس عمل میں ملوث عناصر کسی طور پر بھی وطن عزیز پاکستان کے خیرخواہ نہیں ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پرنسپل جامعہ سیدہ حفصہ ام حسان کو فوری طور پر رہا کیا جائے، اگر ام حسان کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو امن و امان کے حوالے سے شدید مسئلہ پیداء ہو سکتا ہے، ام حسان کی عدم رہائی کی وجہ سے پیداء ہونے والی تمام تر صورتحال کی ذمہ داری انہی پر عائد ہو گی، جنہوں نے یہ اشتعال انگیز اقدام کیا ہے۔ اگر پرنسپل جامعہ حفصہ ام حسان کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام آپشنز کو استعمال کریں گے۔ 
حافظ احتشام احمد، مرکزی ترجمان شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان۔

مولوی عبدالعزیز کا وزیر داخلہ سید محسن نقوی کیخلاف بیاں:
کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش پاکستان، کالعدم ٹی ٹی پی، کالعدم لشکر جھنگوی کے نام نہاد سرپرست ملا عبد العزیز نے لال مسجد میں سرعام ہتھیار لٹکا کر شیعہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور نفرت آمیز ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے راستے میں رکاوٹین ڈالنا والا وزیر داخلہ ہے، جب سے یہ آیا ہے ایسی حرکتیں کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سید محسن نقوی شیعہ ہے۔ قارئیں ملاحظہ فرمائیں کیسے ایک غیر قانونی اور ریاست مخالف ایجنڈے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔

ریاست اور حکومت سے سوال:
مذکورہ بالا دھمکی آمیز بیانات میں کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم تحریک طالبان، کالعدم لشکر اسلام، کالعدم سپاہ صحابہ، لال مسجد، شہدا فاونڈیشن جیسے فتنۃ الخوارج گروہوں نے اپنے غیر قانونی کاموں کا اعتراف کرتے ہوئے سرکاری ایکشن کو کیوں چیلنج کیا ہے؟ فتنۃ الخوارج کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کے علاوہ کوئی بھی دیوبندی مذہبی سیاسی جماعت لال مسجد کی مہم جوئی کی کیوں حمایت نہیں کرتی؟ کیا ان دیوبندی علما اور جماعتوں کے پاکستانی ہونے میں شک ہے؟ واضح اور اعلانیہ دھمکیوں اور فتنۃ الخوارج کی سہولت کاری کے باوجود ان کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کے نام سے جلسے، جلوس، دھرنے، ریلیاں کیوں منعقد کر رہے ہیں؟ لال مسجد جیسا دہشت گردی کا اڈا عزیز برداران کے حوالے کیوں ہے؟ فتنۃ الخوارج ام حسان کو اپنی ماں کہہ رہے ہیں، پھر اسے اسلام آباد اور اسلام آباد کے مضافات اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں مدارس کے نام پر دہشت گردی کے اڈے اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بنانے اور چلانے کی اجازت کیوں حاصل ہے؟۔

پیغام پاکستان دستاویز کی خلاف ورزیاں کون کر رہا ہے؟ اسلام آباد میں اپنے کندھوں کیساتھ اسلحہ لٹکا کر ام حسان اور مولوی عبدالعزیز کو ریاست کے خلاف اسلام کے نام پر اکسانے کی اجازت کس نے دے رکھی ہے؟ پوری دنیا کو ان دہشت گردوں سے خطرہ ہے یہ اسلحہ اٹھا کر کیوں گھومتے ہیں، ان کو کسی سے کیا خطرہ ہے؟۔ تکفیری قاتل گروہ داعش کو دعوت کون دے رہا ہے؟ کیا یہ پاکستان کا امیج خراب نہیں کر رہے؟ کیا یہ ضرب عضب، ردالفساد، ردالفساد ٹو، عزم استحکام پاکستان آپریشنز کے نتائج کو خراب کرنے کی کوشش نہیں؟ کیا لال مسجد اور فتنۃ الخوارج کا سیاسی ونگ احمد لدھیانوی کی جماعت اہل سنت والجماعت اور معاویہ اعظم طارق کی جماعت راہ حق پارٹی کے پی سے لیکر کراچی تک کالعدم تحریک طالبان، جنوبی پنجاب میں کالعدم لشکر جھنگوی اور بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے ہمنوا اور سہولت کار نہیں؟ ان کے خلاف کارروائی کی جائے، رٹ بحال کی جائے، مین اسٹریمنگ کے نام پر سیاسی چہرہ ختم کیا جائے۔ ان گروہوں کو لگام ڈال کر کرم میں محصور شیعہ سنی عوام کی زندگی بحال کی جائے۔
نوٹ: فتنۃ الخوارج کے بیانات اور ان کا عکس پیش کرنیکا مقصد ان دہشت گرد گروپوں، ان کے سیاسی ونگ اور لال مسجد کے درمیان گہرے قریبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے حقائق بیان کرنا ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جامعہ مسجد مدنی اور مدرسۃ المسلم پرنسپل جامعہ سیدہ حفصہ ام حسان جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام کالعدم تحریک طالبان ام حسان کی گرفتاری اور اسلام آباد کے فتنۃ الخوارج کے حفصہ ام حسان کو م حسان صاحبہ کی اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا ریاستی اداروں دہشت گردوں کے جامعہ حفصہ کے کی گرفتاری کی خطرناک نتائج نظام کے خلاف دہشت گردی کے لال مسجد اور مذکورہ مسجد پاکستان میں لال مسجد کے کرتے ہیں کہ ریاستی جبر کہ پاکستان اور کالعدم پاکستان کی استعمال کر سوشل میڈیا پاکستان کے لشکر اسلام کر رہے ہیں کی جانب سے کے لیے ایک کو گرفتار کرتے ہوئے سے گرفتار گرفتار کر شہید کرنے کے باوجود جا رہا ہے کے خلاف ا اور ان کے کے نام پر اور عوام کی دھمکی کا الزام ریاست کے کے حوالے ریاست کی اسلام کے مسجد کو کو مزید مسجد کی کی کوشش کے ساتھ کو شہید ملک میں سے لیکر کرنے کی دیا جا نے ایک اور اس آج بھی کر دیا ملک کے گیا ہے کیا ہے کیا جا

پڑھیں:

ججزکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا بھی سپریم کورٹ سے رجوع، جسٹس ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے بھی ججز سینیارٹی لسٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

یہ بھی پڑھیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے سینیارٹی لسٹ کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ریاست علی آزاد نے آرٹیکل 3/184 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلوں کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دی جائے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز بھی نے اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسلام آباد ہائیکورٹ بار ججز ججز تبادلہ سپریم کورٹ سے رجوع سینیارٹی قائم مقام چیف جسٹس وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • فتنۃ الخوارج کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کا لال مسجد کے ساتھ گٹھ جوڑ، ریاست کی رٹ چیلنج
  • ام حسان! وزیر داخلہ کچھ تو خیال کرو یار
  • اسلام آباد ہائیکورٹ بار، ججز سینیارٹی لسٹ سپریم کورٹ میں چیلنج
  • فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 آئین سے متصادم ہونے پر کالعدم
  • اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے بھی ججز سینیارٹی لسٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی
  • ججزکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا بھی سپریم کورٹ سے رجوع، جسٹس ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
  • فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 کو آئین کے متضادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز سنیارٹی لسٹ سپریم کورٹ میں چیلنج
  • ججز سنیارٹی لسٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا