دینی مدارس کے اہداف و مقاصد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس پر وفد کے بعض پاکستانی حضرات نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جو کام حکومت کے سپرد ہو جاتا ہے اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے، اس حوالے سے مختلف محکموں کی مثالیں بھی دی گئیں۔ اس کی وجہ دریافت کی گئی تو میں نے وفد کے برطانوی ارکان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ حضرات اسے شکوہ نہ سمجھیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے کم و بیش دو سو برس اس خطے پرحکومت کی لیکن یہاں کے لوگوں کو اچھی طرح حکومت کرنا نہیں سکھایا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آپ لوگوں نے حکمرانی کی اچھی تعلیم نہیں دی یا ہمارے لوگوں نے اچھے طریقے سے تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن یہ حقیقت ہے ہمارے حکمران گروہ اور افراد آپ کے شاگرد ہیں اس لیے اس کا کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ دونوں آپ ہی کے کھاتے میں جاتے ہیں۔
وفد کے ارکان نے تصوف کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا گیا کہ اس مدرسہ کے بانی حضرت مولانا عبدالحمید خان سواتی خودصوفی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت کے داعی اور شارح ہیں اور تصوف میں بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وفد کےبعض حضرات کو تعجب ہوا کہ دیوبندی ہو کر آپ لوگ تصوف سے کیسے شغف رکھتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہم دیوبندی تو بڑے پکے صوفی ہوتے ہیں، ہم ذکر و اذکار کرتے ہیں، مختلف سلاسل سے تعلق رکھتے ہیں، میں خود نقشبندی اور قادری دونوں سلسلوں سے وابستہ ہوں، ہم ذکر کی محافل میں جاتے ہیں اور شریعت کی حدود میں تصوف کے تمام طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔
سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ میوزک نہ ہو اور غیر محرم عورت کی آواز نہ ہو تو حسن صوت، ترنم، شعر و شاعری اور سماع کو ہم جائز سمجھتے ہیں اور اس کے بہت سے طریقے استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ وفد نے عصری تعلیم کے حوالے سے دریافت کیا کہ مدارس میں اس کا اہتمام کیوں نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی وجوہ ہیں:
ایک یہ کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے افراد اسی شعبے میں رہیں اور مساجد و مدارس میں حافظ، قاری، امام، خطیب، مفتی اور مدرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں کیونکہ مساجد و مدارس کے نظام کو چلانے کے لیے یہ رجال کار کہیں اور سے فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے ہم نے بعض تحفظات اختیار کر رکھے ہیں تاکہ ہماری تیار کردہ کھیپ دوسرے شعبوں میں نہ چلی جائے اور ہم اپنی مساجد و مدارس میں افراد کار کی کمی کا شکار نہ ہو جائیں۔ یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے اور ہماری ضرورت ہے۔ دوسری وجہ اسباب کی کمی بھی ہے کہ دینی مدارس کو اس درجے کے اسباب و وسائل مہیا نہیں ہوتے کہ وہ ریاستی مدارس کی طرح عصری تعلیم کا اہتمام کر سکیں۔ اس لیے ہم عصری تعلیم کے لیے ریاستی اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور دینی مدارس کو دینی تعلیم کے اہداف تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروریات کی حد تک عصری تعلیم کا رجحان اب دینی مدارس میں پیدا ہو رہا ہے۔ میٹرک تک کے عصری نصاب کو درس نظامی کے ساتھ شامل کر لیاگیا ہےاور اس کے علاوہ مزید پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ضروریات کی حد تک اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس سے دینی تعلیم کے اصل اہداف متاثر نہ ہوں۔
دینی مدارس میں حکومت یا عالمی حلقوں کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کے بارے میں وفد نے دریافت کیا تو راقم الحروف نے گزارش کی کہ ان اصلاحات و تجاویز میں جو بات بھی ہمارے بنیادی اہداف و مقاصد اور ہمارے کردار میں بہتری پیدا کرنے والی ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس پر غور کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن جو بات ہمیں ہمارے اہداف و مقاصد سے ہٹانے اور ہمارے کردار کا رخ تبدیل کرنے کے لیے ہو وہ بات ہم سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ’’سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘‘ کے جملے پر بطور خاص توجہ دی گئی اور وفد کے ارکان نے دوبارہ مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی بات دہرائی کہ ہاں ہاں! ہم ایسی کسی بات کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مقصد دینی مدارس کا رخ ان کے اصل اہداف اور مقاصد سے ہٹانا ہو۔
معلوم نہیں دوسرے دوستوں کا تاثرکیا ہےلیکن میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ برطانوی وفد کا یہ دورہ ایک اچھی کوشش تھی، اس سے مغربی حکومتوں کو ہمارے مقاصد واہداف اور طریق کار کو براہ راست سمجھنے میں مدد ملے گی اور مغرب اسلام اور مغرب کے درمیان جس مکالمے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے اس حوالے سے بھی اسے اندازہ ہو جائے گا کہ مسلمانوں میں اسلام کی نمائندگی کرنے والا اصل طبقہ کون سا ہے اور اسے ’’مغرب اور اسلام‘‘ کے درمیان حقیقی مکالمے کے لیے کس سے بات کرنی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عصری تعلیم دریافت کیا دریافت کی کرتے ہیں تعلیم کے ہیں اور عرض کیا اور اس کیا کہ کے لیے وفد کے اور ہم
پڑھیں:
حکومت منشیات کے عادی افراد کی آباد کاری کرے،رفیع احمد
منشیات بلخصوص کراچی میں عام ہوتی جارہی ہے، اس وجہ سے جرائم بھی تشویش ناک حد تک پہنچ گئےہیں۔ یہ بات گزشتہ روز تنظیم فرینڈز آف اینٹی نارکوٹکس آف سندھ (فانوس) کے صدر رفیع احمد نے گزشتہ روز تحریک انسداد منشیات پاکستان،بلدیہ ٹاؤن میں چلنے والے آباد کاری سینٹر کے منشیات کے عادی افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ منشیات عام ہوتی جارہی ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کا پھیلاؤ تشویش ناک تک پہنچ گیا، اس کا سد باب حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ رفیع احمد نے منشیات کے عادی افراد سے کہا کہ آپ ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں لہذا آپ سچے دل سے اللّہ سے توبہ کریں اور معاشرے کا کار آمد انسان بنیں،کراچی شہر میں لاکھوں نشی افراد سڑکوں،نالوں اور پلوں کے نیچے تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ہمارے لیے بد نما داغ ہیں،حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑے پیمانے پر ان کی مستقل بنیادوں پر آباد کاری کرے۔ مرکزی مسلم لیگ کے رہنما شیخ منظور نے کہا کہ منشیات عالمی گیر مسئلہ بن چکا ہے لہذا ہم سب کو منشیات کے خاتمے کے لیے جہاد کرنا پڑے گا۔صدر جمہوری وطن پارٹی پاکستان محمد سلیم بلوچ نے انسداد منشیات کے سلسلے میں تنظیم فانوس کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں فانوس کے ساتھ ملکر اپنی نئی نسل کو منشیات سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کر نا چاہیے۔ ایم سائبان ٹرسٹ کے بانی محمد علی بلوچ نے کہا کہ منشیات کا پھیلاؤ بلخصوص بلدیہ،اورنگی اور لیاری میں بہت زیادہ بڑھ رہا ہے ، اس سلسلے میں پولیس اپنا کردار ادا کرے۔ بعد ازاں رفیع احمد نے منشیات کے عادی افراد سے وعدہ لیا کہ وہ اب زندگی بھر منشیات سے دور رہیں گے۔