UrduPoint:
2025-02-22@07:02:30 GMT

معیشت میں بہتری کی دعویدار حکومت صنعتی پہیہ چلانے میں ناکام

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

معیشت میں بہتری کی دعویدار حکومت صنعتی پہیہ چلانے میں ناکام

لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 21 فروری 2025ء ) معیشت میں بہتری کی دعویدار حکومت صنعتی پہیہ چلانے میں ناکام، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار مزید کم ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں مزید کمی ہو جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے رواں مالی سال کی ششماہی رپورٹ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر میں سالانہ بنیادوں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 3.

73 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ نومبر کی نسبت دسمبر میں صنعتوں کی پیداوار 19.07 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر فرنیچر کی صنعتی پیداوار میں 61.06فیصد ، مشینری اور ایکوئپمنٹ کی صنعت سے پیداوار 27.88 فیصد ، الیکڑیکل ایکوئپمنٹ کی صنعتی پیداوار میں 19.10 فیصد کی کمی ہوئی۔

آئرن اینڈ سٹیل مصنوعات کی پیداوار 12.04فیصد ، کیمیکلز مصنوعات کی پیداوار میں 8.87فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جولائی تادسمبر آٹوموبیل سیکٹر کی پیداوار 50.16فیصد بڑھ گئیں، تمباکو کی صنعتی پیداوار میں 19.21 فیصد، پیپر اور بورڈ کی صنعتی پیداوار میں 2.81فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی عرصہ کے دوران فارماسوٹیکلز کی پیداوار 1.85فیصد، ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداوار میں 2.14فیصد، مشروبات کی صنعتی پیداوار 1.15 فیصد جبکہ لیدر مصنوعات کی صنعتی پیداوار میں 0.38فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل سیکٹر میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک کی ٹیکسٹائل صنعت میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کامران ارشد نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جبکہ باقی بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔

اپٹما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور اسپننگ انڈسٹری کو بچانے کے لیے فوری پالیسی اصلاحات کی جائیں۔ کامران ارشد کا کہنا ہے کہ دھاگے کی بے تحاشا درآمدات کے باعث مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مزید 100 سے زائد اسپننگ ملز بند ہو جائیں گی، جس سے لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

چئیرمین اپٹما کے مطابق غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور حکومتی پالیسیوں نے ٹیکسٹائل صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کامران ارشد نے کہا کہ پاکستان کی کاٹن اکانومی کو بچانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا دینے کے لیے سیلز ٹیکس اصلاحات کی جائیں، ورنہ یہ صنعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔

دوسری جانب ملک میں مہنگی بجلی و کاروباری مشکلات کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہونے کا انکشاف سامنے آگیا۔ دنیا نیوز کے مطابق مہنگی بجلی اور کاروباری مشکلات کی وجہ سے ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہو چکے ہیں، یعنی پاکستان کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 اب بند ہوچکی ہیں، ان میں سب سے زیادہ ملز پنجاب میں بند ہوئیں صوبے میں 147 ٹیکسٹائل ملز بندش کا شکار ہوئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 54 ملز بند ہوئی ہیں تو خیبرپختونخواہ میں 6 ملز بند ہو چکی ہیں، شہروں کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو قصور میں سب سے زیادہ 47 اور ملتان میں 33 فیکٹریاں بند ہوئی ہیں، فیصل آباد میں 31، شیخوپورہ میں 11 اور ساہیوال میں 17 ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں، ان ملز کی بندش کی وجہ مہنگی بجلی کے علاوہ ملک کی سخت معاشی صورتحال بھی بتائی گئی ہے۔

علاوہ ازیں عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں مسلسل گراوٹ کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ جاری کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ایکسپورٹ میں کمی کی بنیادی وجہ تجارتی پالیسی ہے جہاں دیگر ممالک تجارتی رکاوٹوں کو کم کر رہے ہیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی معیشتوں کو مربوط کر رہے ہیں، پاکستان مخالف سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اس وقت پاکستان کے ٹیرف عالمی اوسط سے کم از کم دو گنا اور مشرقی ایشیاء کے ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔

اسی حوالے سے ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان برآمدات کے شعبے میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے پیچھے رہ گیا ہے، پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور حتیٰ کہ مصر کی برآمدات بھی زیادہ ہیں، دیگر ممالک کی برآمدات جی ڈی پی کا 27 فی صد ہیں، جب کہ پاکستان کی برآمدات 10 فی صد تک محدود ہیں، 2010ء سے 2024ء تک ہر سال جی ڈی پی شرح کے لحاظ سے برآمدات کم ہوئی ہیں، 2010ء میں برآمدات جی ڈی پی کا 13 فی صد تھیں، 2024ء میں یہ 10 فیصد رہ گئیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی صنعتی پیداوار میں صنعتوں کی پیداوار کی پیداوار میں ادارہ شماریات ٹیکسٹائل صنعت بڑی صنعتوں کی ٹیکسٹائل ملز پاکستان کی کی جانب سے ملز بند ہو ریکارڈ کی کے مطابق برا مدات کی صنعت ملک کی کی گئی گیا ہے

پڑھیں:

عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی قرضوں میں 100 فیصد اضافہ

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 فروری2025ء) عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی قرضوں میں 100 فیصد اضافہ، پی ڈی ایم، نگران اور شہباز شریف حکومتوں کے دوران ملکی قرضے 44 ہزار ارب روپے بڑھ جانے کا انکشاف، پاکستان کا مجموعی قرضہ 88 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا، ایک سال کے دوران ملک کے قرضوں کے حجم میں 6 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو جانے کا انکشاف، ہر پاکستانی 3 لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہو گیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کے قرضوں کے حجم میں تشویش ناک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ایک سال میں پاکستان پر قرضے اور واجبات 6 ہزار 106 ارب روپے بڑھ کر ریکارڈ 88 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگئے۔ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2024 تک قرضوں اور واجبات کا ڈیٹا جاری کر دیا۔

(جاری ہے)

جاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں پاکستان پر قرضے اور واجبات کی مد میں 6 ہزار 106 ارب روپے بڑھ گئے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی(جولائی تا دسمبر 2024)میں قرضوں اور واجبات میں 2 ہزار 555 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

مرکزی بینک کی دستاویز کے مطابق دسمبر 2024 تک پاکستان پر قرضے اور واجبات 88 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔دسمبر 2024 تک ملک پر مقامی قرضہ 49 ہزار 883 ارب روپے تھا، جبکہ دسمبر 2024 تک غیرملکی قرضہ اور واجبات 36 ہزار 512 ارب روپے تھے۔ دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ دسمبر 2024 تک پاکستان پر غیر ملکی واجبات 3 ہزار 262 ارب روپے تھے۔ دستاویزکے مطابق دسمبر 2023 تک ملک پر قرضوں اور واجبات کا حجم 81 ہزار 904 ارب روپے تھا، جبکہ جون2024 تک پاکستان پرقرضے اور واجبات 85 ہزار 455 ارب روپے تھے۔

ملک کے قرضوں کے حجم میں تشویش ناک اضافے کی وجہ سے ہر پاکستانی 3 لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی قرضوں کے حجم میں خطرناک حد کا اضافہ حکومتی اخراجات کی وجہ سے ہے۔       

متعلقہ مضامین

  • حکومت مکمل ناکام، آئین توڑ کر ملک نہیں چل سکتے، شاہد خاقان عباسی
  • بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مجموعی طورپر 1.87 فیصد کمی
  • صارفین کے لیے خوشخبری، بجلی کی قیمت میں کمی کا امکان
  • بجلی کی قمیت میں کتنی کمی کا امکان ہے؟
  • بجلی کی قیمت میں 2 روپے فی یونٹ تک کمی کا امکان
  • سی پی پی اے کی بجلی کی قیمت میں کمی کیلئے نیپرا میں درخواست دائر
  • صارفین کے لیے خوش خبری، بجلی کی قیمت میں کمی کا امکان
  • ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا آئی ٹی پالیسی کے غلط استعمال کا انکشاف
  • عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی قرضوں میں 100 فیصد اضافہ