اسلام آباد (اکمل شہزاد، سٹاف رپورٹر) جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ آئین کے تحت ایگزیکٹو کے ماتحت آرمڈ فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کر سکتی ہیں یا نہیں؟۔  وکیل عزیر بھنڈاری نے  موقف اپنایا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کر سکتیں، سلمان اکرم راجہ  نے جو مثال دی تھی وہ سویلینز میں ہی آئیں گے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ 83 اے کے تحت آرمڈ فورسز کے سٹیٹس کو دیکھنا ہوتا ہے، آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کی پروویشن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 243 کے مطابق اس کا اطلاق پہلے سے ہوتا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس پر آپ کی ججمنٹس موجود ہیں، ملزم کے اعتراف کے لیے سبجیکٹ کا ہونا ضروری ہے، کورٹ مارشل کے علاہ کوئی پروویشن نہیں ہے جو اس میں لگے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ وہ نہ لگے اس کا لگنا ضروری تو نہیں ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ یہ اتنا سادہ نہیں ہے، ایف بی علی نے سٹیٹس واضح کر دیا تھا، کوئی بھی ممبر جس کا تعلق ہو قانون کے مطابق اطلاق ہو گا، ٹو ون ڈی والے 83 اے میں نہیں آتے یہ ایف بی علی نے واضح کیا، اگر یہ اس میں آ گئے تو بنیادی حقوق دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، آرمی ایکٹ کا تعلق صرف ڈسپلن سے ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ شق سی کے مطابق جو ملازمین آتے ہیں وہ حلف نہیں لیتے ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ڈیکلریشن عدالتیں دیتی ہیں جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ ضیا دور کی ترامیم بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت نے کالعدم قرار دیں۔ پارلیمنٹ کو آئین سازی، ترمیم اور ترمیم واپس لینے کے اختیارات ہیں، اگر قانون غلط ہو تو لوگ عدالتوں میں اس کے خلاف آتے ہیں، اقبال ظفر جھگڑا کیس میں عدالت نے کولیکشن آف ٹیکس 1937 ختم کیا، کورٹ مارشل کا جو سسٹم موجود ہے وہ 175 اے میں نہیں آتا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر کوئی شخص 2 ون ڈی ون میں آتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟۔ عزیر بھنڈاری نے استدلال کیا کہ اس بنیاد پر آپ کورٹ مارشل سسٹم کو سٹرائیک ڈائون نہیں کر سکتے، ہمارا مدعا یہ ہے کہ کورٹ مارشل سسٹم میں عام سویلینز کو نہیں ڈالا جا سکتا، جن کو کورٹ مارشل سسٹم میں ڈالا گیا ان کو نہیں ڈالا جا سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل استفسار کیا کہ 2 ون ڈی ون کو نکال دیں تو پھر؟۔ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کا سسٹم پھر بھی چلے گا، ٹرین چل رہی ہے اس کو نہیں روکا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یعنی ٹرین کو چلنے دیا جائے اور ایک بوگی نکال دیں۔ عزیر بھنڈاری نے مقف اختیار کیا کہ جسٹس منیب اختر نے اپنے فیصلے میں کورٹ مارشل کا تاریخی تناظر پیش کیا، جسٹس منیب اختر نے بھی فیصلے میں لکھا کہ کورٹ مارشل کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن انہوں نے فیصلہ دیا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کے سلمان اکرم راجہ نے تو جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اور میرا موکل جسٹس منیب کے فیصلے سے قطعاً متفق نہیں، اگر سویلینز کا گٹھ جوڑ ہو تو پھر کیا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو گا؟۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ 2 ون ڈی ون کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا؟۔ عزیز بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جا سکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب کے فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگر چہ مارشل لا میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف 175 کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا (3) 8 کے مقصد کیلئے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کرسکتی ہیں؟۔ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟۔ کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 245 کے اطلاق کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اعتراز احسن کی درخواست میں موجود ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اعتزاز احسن نے تو سوال اٹھایا کہ یہ مقدمہ میرے نام سے کیوں نہیں، جواد ایس خواجہ کے نام سے کیوں ہے؟۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے آرٹیکل 245 کا نوٹیفکیشن نکالا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صرف پنجاب میں ہی 245 کا اطلاق ہوا۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ خیبر پی کے اور اسلام آباد میں بھی ہوا لیکن بلوچستان سے متعلق علم نہیں، آرٹیکل 245 کے دائرے کے باہر فوج نہیں جاسکتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 8 کی شق 3 اور 245 میں کیا تعلق ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیا کوئی کابینہ کا فیصلہ تھا؟۔ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی کی قراردادیں بھی اور کابینہ کا فیصلہ بھی موجود ہے، اس قرارداد میں تین قوانین کے تحت ملٹری ٹرائل کی حمایت کی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قرارداد اور کابینہ کا فیصلہ تو انتظامی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں آئین سازی کی پاور صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں انہوں نے صوبائی آئینی بنچز کی تشکیل صوبائی قراردادوں سے مشروط کی، 9 مئی سے متعلق ملٹری ٹرائل کی قرارداد سیاسی نوعیت کی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے تو 5 ججز کے فیصلے کے خلاف بھی قرارداد پاس کی۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ججز کے بارے میں تو پارلیمنٹ بہت کچھ کہتی رہتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 17 ممبر بنچ نے بھی یہی کہا تھا کہ ایف بی علی نے ٹھیک کہا ہے، ایٹ 3 اے ممبر آف آرمڈ فورسز پر لاگو ہوتا ہے۔ جسٹس امین نے ریمارکس دیے کہ پک اینڈ چوز ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے بعد ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پانچ ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے، اس میں سے 103 کو ملٹری کسٹڈی میں بھیجا گیا، کیا اے ٹی سی بھیجے گئے ملزموں پر بھی فوجی تنصیبات پر حملے کا الزام تھا؟ کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو ملٹری کسٹڈی والوں پر آئے؟۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے مقف اپنایا کہ ملٹری ٹرائل والوں پر کون سے چارجز آئے کسی کو نہیں پتا، نہ ہی وہ ریکارڈ پر موجود ہیں، 1973 کے آئین میں دیکھیں تو 8 تھری اے نہیں آتا، میں وکالت نامے پر دستخط کروانے گیا تھا اسی کیس میں مجھے بھی پکڑ کر لے گئے، مجھے بھی دو گھنٹے اندر رکھا گیا، ایف بی علی میں جو وجوہات دی گئیں وہ ٹھیک ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی علی کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے دن سے اسی پر بحث ہو رہی ہے، چھوڑ دیں اسے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ میری گزارش بس یہ ہے کہ آئندہ کے لئے راستہ بند کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس امین الدین خان نے عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عزیر بھنڈاری نے نے ریمارکس دیئے کہ ا ملٹری ٹرائل ا رمڈ فورسز نے کہا کہ ا کورٹ مارشل ایف بی علی کے فیصلے کے ماتحت کہ ا ئین ا رٹیکل نہیں ہے کو نہیں نہیں ا کیا کہ کے تحت

پڑھیں:

5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟ جسٹس مسرت ہلالی 

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ نے سماعت کی،بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری  نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ٹوون ڈی آئین کے آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے میں آتا ہے تو ایف بی علی کیس ختم کرنا پڑے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 17ممبر فل کورٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ ایف بی علی میں ٹھیک کہا گیا ہے،آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے ممبر آف آرمڈ فورسز پر لاگو ہوتی ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ جب تک اس فائنڈنگ کو ختم نہیں کرتے اس کی اجازت کیسے ہوگئی،جسٹس امین الدین نے کہاکہ انہوں نے کہا تو ہے بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔

پچھلے مالی سال میں حکومتی ملکیتی اداروں کا اوسط خسارہ 851 ارب روپے رہا

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کس اصول کے تحت پک اینڈ چوز کیاگیا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ پک اینڈ چوز ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے بعد ہوتی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ ملٹری ٹرائل والوں پر کون سے چارجز آئے کسی کو نہیں پتہ نہ ہی وہ ریکارڈ پر ہے،1973کے آئین میں دیکھیں تو 8تھری اے نہیں آتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ چاہے آپ جتنے مرضی خطرناک کیوں نہ ہوں؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ میں وکالت نامے پر دستخط کروانے گیا تھااسی کیس میں مجھے بھی پکڑ کر لے گئے،مجھے بھی دو گھنٹے اندر رکھا گیا، ایف بی علی کیس میں جووجوہات دی گئی وہ ٹھیک ہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ ایف بی علی کیس کسی کو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے دن سے اسی پر بحث ہورہی ہے ، چھوڑدیں اسے۔

جنرل ساحر شمشاد مرزا سے چیف آف سٹاف بحرین نیشنل گارڈ کی ملاقات،خطے کی بدلتی صورتحال اور سیکیورٹی سے متعلق امور پرگفتگو

مزید :

متعلقہ مضامین

  • کیا ایگزیکٹوکے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں؟جج آئینی بینچ
  • ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟جج آئینی بینچ
  • سویلنز کا ٹرائل صرف 175 کے تحت ہی ہو سکتا ہے، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کیا ایگزیکٹوکے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟ جج آئینی بینچ
  • 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟ جسٹس مسرت ہلالی 
  • آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں،کیا ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار استعمال کرسکتی ہیں؟جسٹس جمال مندوخیل کااستفسار
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کیا فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں؟ جج آئینی بینچ
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس: عمران خان کے وکیل کے دلائل جاری
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کا موقف