Jasarat News:
2025-02-19@04:07:48 GMT

کوئٹہ کا ایک یادگار سفر، تدبیر کند بندہ، تقدیر زَندخندہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

کوئٹہ کا ایک یادگار سفر، تدبیر کند بندہ، تقدیر زَندخندہ

لگ بھگ 24 سال پہلے کا ذکر ہے کہ جب آتش نوجوان تو نہیں البتہ جوان ضرور تھا۔ عمر عزیز 25 تا 30 برس کے بین بین تھی۔ جیکب آباد جو صوبہ سندھ کا آخری شہر ہے، اس میں رہنے کے باوجود بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو اتنے عرصے میں دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا، حالاں کہ اپنی جنم بھومی جیکب آباد سے ملحق بلوچستان کے شہروں ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ الہ یار (المعروف جھٹ پٹ) اور روجھان جمالی جانے کا بارہا اتفاق ہو چکا تھا۔ دوست احباب اور جملہ ساتھی اکثر میری کوئٹہ یاترا نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اپنے ہم جماعت درجہ اوّل تا شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور اور اسلامیہ کالج سکھر محبوب لاشاری اور حافظ نور احمد لاشاری (حافظ صاحب کے ساتھ کوئٹہ کے میرے اس پہلے اور آخری سفر کے بعد دوبارہ کبھی ملاقات نہیں ہوسکی، معلوم نہیں وہ آج کل کہاں مقیم ہیں۔ تب بتایا کرتے تھے کہ کراچی کے ایک یتیم بچوں کے ادارے کے منتظم ہیں) کے ہمراہ یہ پروگرام تشکیل پایا کہ کوئٹہ کا ایک مختصر سا دورہ کیا جائے تا کہ مجھ پر لگا ہوا کم از کم یہ داغ تو کسی طور پر دُھل سکے کہ میں نے آج تک کوئٹہ نہیں دیکھا۔ کوئٹہ جانے سے پہلے تقریباً ہر ایک فرد کی زبان سے یہ سن رکھا تھا کہ اہل کوئٹہ بہت سخت اور اکھڑ مزاج ہیں اس لیے بہرحال ایک انجانا سا خوف بھی دل و دماغ پر طاری تھا کہ نامعلوم میرا یہ پہلا سفر کوئٹہ کتنا کامیاب ہوتا ہے، تاہم اس موقع پر میں یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیا کرتا تھا کہ اچھا! دیدہ خواہدشد (مطلب یہ ہے کہ جب موقع آئے گا تو تب دیکھا جائے گا)۔

کوئٹہ کے لیے سفر کرنے کی غرض سے ہمارے ساتھ ہلکا پھلکا سا سفری سامان تھا۔ صبح 10 بجے کے قریب ویگن جیکب آباد سے روانہ ہوئی اور مجھے کچھ یوں یاد پڑتا ہے کہ شاید شام 6 یا 7 بجے کوئٹہ پہنچی تھی۔ راستے میں دو تین مقامات پر کھانے اور نماز کے لیے اس نے اسٹاپ بھی کیا۔ کوئٹہ کے اس سفر میں روڈ کے دونوں اطراف سبی کے بعد ایسی بڑی بڑی کھائیاں تھیں کہ انہیں دیکھ کر محاورتاً نہیں بلکہ سچ مچ کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ انہیں دیکھ کر میں نے اپنے دونوں دوستوں کے سامنے واشگاف انداز میں یہ اعلان کیا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میں واپسی کا سفر بذریعہ ریل گاڑی ہی کروں گا۔ کوئٹہ کا یہ سارا سفر راستے کے دل دہلا دینے والے مذکورہ مناظر کی بنا پر اللہ کو یاد کرتے ہوئے ہی گزرا۔ ممکن ہے کہ اب کوئٹہ جانے کے لیے مسافروں کو راستے کے دونوں اطراف گہری کھائیوں کے مشاہدے کا موقع نہ ملتا ہو لیکن مجھے تو ان کی وجہ سے اپنا سفر بے حد دل دہلا دینے والا محسوس ہوا تھا۔ کوئٹہ پہنچ کر رات ہم نے محبوب لاشاری کے ایک قریبی رشتے دار کے مہمان خانے میں بسر کی۔ رات کا کھانا اور دوسری صبح کا ناشتہ بھی وہیں کیا جو خاصا پرتکلف تھا۔ اگلے دن کوئٹہ شہر گھومنے کے لیے نکلے جو اس وقت بہت اچھا تھا۔ روڈ راستے کشادہ تھے، اہل کوئٹہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو سب کے سب بے حد بااخلاق اور مہمان نواز تھے۔ توقع کے برعکس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے بے حد خوش گوار حیرت ہوئی اور سوچا کہ سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ کبھی سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت کوئٹہ میں کئی اچھے باغات تھے جو بڑے ہرے بھرے اور سرسبز تھے۔ لوگ بھی وجیہ و شکیل دکھائی دیے۔ ملیح چہرے دامنِ دل کو بے اختیار اپنی جانب کھینچتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ رات آئی تو ایک مقامی ہوٹل میں قیام کو ترجیح دی جس کا رہائشی کمرہ بڑا کشادہ اور صاف ستھرا تھا اور اس کی سروس بھی قابل تعریف تھی۔

دوسرے دن بھی خوب سیرو تفریح کرنے کا موقع ملا۔ واپسی کا سفر کیوں کہ بذریعہ ٹرین طے کرنے کا ارادہ تھا لہٰذا شام ہوئی تو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچے اور جیکب آباد جانے کے لیے ٹکٹ گھر سے ٹکٹیں حاصل کیں۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے حسب روایت دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی اور جب مچھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو پھر اس نے چلنے کا نام نہ لیا، جب پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ٹرین کا انجن فیل ہوگیا ہے، لہٰذا اب یہ ٹرین صبح ہی کو اس وقت روانہ ہوسکے گی جب سبی سے نیا تازہ دم ریلوے انجن یہاں پہنچے گا جو اسے اپنے ہمراہ کھینچ کر لے جائے گا۔ ابھی ہم آپس میں اس نازک بلکہ ناگہانی صورتحال پر باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہم تینوں کو اپنے شہر جیکب آباد کے بینک آفیسر جماعت اسلامی کے پرانے ساتھی غلام مصطفی سومرو دکھائی دیے جو اسی ٹرین پر سفر کررہے تھے۔ ہم سب آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے (غلام مصطفی سومرو آج کل صوبائی دفتر جماعت اسلامی سندھ کے قریب ہی مع خاندان رہائش پزیر ہیں)۔ اب ہم چاروں میں یہ طے پایا کہ ٹرین تو ویسے بھی اب کل صبح ہی مچھ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوگی لہٰذا کیوں نہ اسٹیشن سے کچھ دور واقع ہوٹل سے چائے وغیرہ پی لی جائے یا کھانا کھایا جائے۔ یہی سوچ کر ہم مذکورہ ہوٹل پر پہنچے۔ ابھی ہم نے چائے (یا پھر کھانے) کا آرڈر دیا ہی تھا کہ ہم نے ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے ہی ایک حیران کن منظر دیکھا کہ جس ٹرین کو انجن فیل ہوجانے کی وجہ سے کل صبح مچھ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونا تھا وہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوچکی تھی۔ ہم چاروں یہ نظارہ دیکھ کر اور ہوٹل والے سے معذرت کرکے جب بھاگم بھاگ مچھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو اس وقت تک کیوں کہ اس نے رفتار پکڑ لی تھی لہٰذا ہم باوجود سعی بسیار کے اس کو پکڑ نہ سکے اور اس پر سوار ہونے سے رہ گئے۔

ایسے میں ہمارے ہاتھ پائوں کا پھولنا فطری بھی تھا اور وقت کا تقاضا بھی کیوں کہ ہمارا سامان گاڑی میں تھا۔ اس لیے ہم کافی پریشان تھے۔ اس موقع پر وہاں کے مقامی افراد نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ اب آپ یوں کریں کہ مچھ سے کوئی پرائیویٹ جیپ یا کوئی اور گاڑی کروالیں تو اس صورت میں آپ سبی ریلوے اسٹیشن پر پہلے پہنچ کر ٹرین کو پا سکتے ہیں۔ تب ایک دو مقامی افراد کے ساتھ ہم نے ریلوے اسٹیشن سے ملحق اور قریب کے محلے سے کوئی پرائیویٹ گاڑی حاصل کرنے کے لیے متعدد ڈرائیور حضرات کے دروازوں پر دستک دی، لیکن پُرخطر راستے کے پیش نظر کوئی بھی ہمارے ساتھ جانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ آخر ایک گاڑی کے ڈرائیور کو ہماری حالت پر رحم آہی گیا اور وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ اس وین میں مجھے ڈرائیور کے ساتھ ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا موقع ملا کیوں کہ ہمیں ٹرین سے پہلے سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنا تھا لہٰذا گاڑی کے ڈرائیور نے بڑی تیزی کے ساتھ گاڑی چلائی اور روڈ کے دونوں اطراف منہ کھولے ہوئے گہری کھائیوں نے ہمیں ایک مرتبہ پھر دل سے اللہ کی یاد دلائی اور ہم نے واپسی کا سارا سفر آیات قرآنی کو پڑھتے ہوئے طے کیا اور الحمدللہ ٹرین کے پہنچنے سے لگ بھگ ایک گھنٹے قبل سبی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ جب ٹرین سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو ہم بھی اپنی مخصوص بوگی میں پہنچ گئے۔ جہاں ہم سب کا سامان بالکل محفوظ اور مامون تھا۔ ہم سب نے تہہ دل سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس موقع پر مجھے فارسی کے اس مقولے کا مفہوم بھی بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھ میں آگیا کہ ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ‘‘ یعنی انسان اپنی طرف سے تدبیر کررہا ہوتا ہے لیکن تقدیر کا فیصلہ کیوں کہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے لہٰذا وہ اس انسان پر ہنس رہی ہوتی ہے۔

کوئٹہ کے سفر کے دوران جاتے وقت گہری اور ہولناک کھائیوں کو راستے کے دونوں اطراف دیکھ کر میں نے اپنے دونوں ہم راہیوں کے سامنے واشگاف انداز میں بغیر ان شاء اللہ کہے جو یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اب کوئٹہ سے واپسی کا سفر کسی صورت بھی نہیں کروں گا شاید وہ اللہ کو ناپسند آیا تھا اور باوجود اس کے کہ ہم واپسی کے لیے بذریعہ ٹرین ہی روانہ ہوئے تھے مچھ ریلوے اسٹیشن پر انجن کی خرابی کی وجہ سے ہم ٹرین سے اُتر کر اسٹیشن سے قریب ہوٹل میں چلے گئے اور جس سے انجن میں بڑی خرابی کا بتایا گیا بعدازاں اس میں معمولی فالٹ نکلا وہی انجن ٹرین کو لے کر روانہ ہوگیا اور ہمیں بالآخر بذریعہ سڑک ہی مچھ تا سبی سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سبی ریلوے اسٹیشن ریلوے اسٹیشن پر ریلوے اسٹیشن سے کے دونوں اطراف جیکب ا باد کوئٹہ کے راستے کے واپسی کا سے روانہ کیوں کہ دیکھ کر کے ساتھ کا موقع میں یہ تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ، 18 افراد ہلاک، 12 زخمی

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ہفتہ کی رات کمبھ جانے والے مسافروں کی بڑی بھیڑ کے باعث بھگدڑ مچ گئی۔ حادثے میں 18 لوگ ہلاک اور 12 افراد زخمی ہوگئے۔ ان میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پریاگ راج (الہٰ آباد) ٹرین ہفتہ کی رات پلیٹ فارم نمبر 14 پر کھڑی تھی۔ اس پر سوار ہونے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ پہنچے تھے۔ دو دوسری ٹرینوں کی روانگی مین تاخیر کے باعث ان کے مسافر بھی پلیٹ فارم نمبر 12، 13 اور 14 پر موجود تھے۔ اسی دوران پریاگ راج ٹرین کے مزید مسافر آنا شروع ہو گئے۔ جس کی وجہ سے پلیٹ فارم نمبر 16 کے ایسکلیٹر کے قریب اور پلیٹ فارم نمبر 14 اور 15 پر بھگدڑ مچ گئی۔ خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد اس میں کچلے گئے۔

وزیر ریلوے نے اعلیٰ سطح تحقیقات کا حکم دے دیا

ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو نے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ این ڈی آر ایف کی ٹیم کو نئی دہلی اسٹیشن پر تعینات کیا گیا ہے۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے ڈاکٹروں اور عہدیداروں سے بات کی ہے اور مناسب ہدایات دی ہیں۔ دہلی کے چیف سیکریٹری نے ایک بڑی میڈیکل ٹیم کو مختلف اسپتالوں میں ڈیوٹی پر لگایا ہے۔

Distressed by the stampede at New Delhi Railway Station. My thoughts are with all those who have lost their loved ones. I pray that the injured have a speedy recovery. The authorities are assisting all those who have been affected by this stampede.

— Narendra Modi (@narendramodi) February 15, 2025

وزیراعظم مودی کا اظہارِ افسوس

بھارتی وزیراعظم مودی نے بھگدڑ پر غم کا اظہار کیا ہے۔ مودی نے ٹوئیٹر پر پوسٹ کیا کہ ’میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ سے غمزدہ ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کے ساتھ تعزیت کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ زخمی جلد صحت یاب ہوں۔ اہلکار ان تمام لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو بھگدڑ سے متاثر ہوئے ہیں۔‘

There has been an unfortunate incident at New Delhi Railway Station.
Have spoken to Chief Secretary & Police Commissioner and asked them to address the situation.

CS has been asked to deploy relief personnel.

Have instructed CS & CP to be at the site and take control of…

— LG Delhi (@LtGovDelhi) February 15, 2025

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے تباہ کن خبر آئی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا، ‘نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے تباہ کن خبر۔ ریلوے پلیٹ فارم پر بھگدڑ سے لوگوں کی موت سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت بھگدڑ پریاگ راج مودی نیو دہلی

متعلقہ مضامین

  • نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ حادثہ افسوسناک ہے، جماعت اسلامی ہند
  • نئی دہلی: ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ سے 18 افراد ہلاک، متعدد زخمی
  • ٹرین سے ٹکرانے والے ٹرالرڈرائیورکیخلاف مقدمہ درج
  • خان پور جنکشن، ماضی اور حال
  • دہلی بھگدڑ ریلوے کی ناکامی اور حکومت کی بے حسی کا ثبوت ہے، کانگریس
  • نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ میں اٹھارہ افراد ہلاک
  • کراچی: تیزرفتار ٹرالر مال بردار ٹرین سے ٹکرا گیا، مقدمہ درج
  • نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ، 18 افراد ہلاک
  • نئی دلی، ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ سے 15 افراد ہلاک
  • نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ، 18 افراد ہلاک، 12 زخمی