Jasarat News:
2025-04-15@09:52:09 GMT

کوئٹہ کا ایک یادگار سفر، تدبیر کند بندہ، تقدیر زَندخندہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

کوئٹہ کا ایک یادگار سفر، تدبیر کند بندہ، تقدیر زَندخندہ

لگ بھگ 24 سال پہلے کا ذکر ہے کہ جب آتش نوجوان تو نہیں البتہ جوان ضرور تھا۔ عمر عزیز 25 تا 30 برس کے بین بین تھی۔ جیکب آباد جو صوبہ سندھ کا آخری شہر ہے، اس میں رہنے کے باوجود بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو اتنے عرصے میں دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا، حالاں کہ اپنی جنم بھومی جیکب آباد سے ملحق بلوچستان کے شہروں ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ الہ یار (المعروف جھٹ پٹ) اور روجھان جمالی جانے کا بارہا اتفاق ہو چکا تھا۔ دوست احباب اور جملہ ساتھی اکثر میری کوئٹہ یاترا نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اپنے ہم جماعت درجہ اوّل تا شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور اور اسلامیہ کالج سکھر محبوب لاشاری اور حافظ نور احمد لاشاری (حافظ صاحب کے ساتھ کوئٹہ کے میرے اس پہلے اور آخری سفر کے بعد دوبارہ کبھی ملاقات نہیں ہوسکی، معلوم نہیں وہ آج کل کہاں مقیم ہیں۔ تب بتایا کرتے تھے کہ کراچی کے ایک یتیم بچوں کے ادارے کے منتظم ہیں) کے ہمراہ یہ پروگرام تشکیل پایا کہ کوئٹہ کا ایک مختصر سا دورہ کیا جائے تا کہ مجھ پر لگا ہوا کم از کم یہ داغ تو کسی طور پر دُھل سکے کہ میں نے آج تک کوئٹہ نہیں دیکھا۔ کوئٹہ جانے سے پہلے تقریباً ہر ایک فرد کی زبان سے یہ سن رکھا تھا کہ اہل کوئٹہ بہت سخت اور اکھڑ مزاج ہیں اس لیے بہرحال ایک انجانا سا خوف بھی دل و دماغ پر طاری تھا کہ نامعلوم میرا یہ پہلا سفر کوئٹہ کتنا کامیاب ہوتا ہے، تاہم اس موقع پر میں یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیا کرتا تھا کہ اچھا! دیدہ خواہدشد (مطلب یہ ہے کہ جب موقع آئے گا تو تب دیکھا جائے گا)۔

کوئٹہ کے لیے سفر کرنے کی غرض سے ہمارے ساتھ ہلکا پھلکا سا سفری سامان تھا۔ صبح 10 بجے کے قریب ویگن جیکب آباد سے روانہ ہوئی اور مجھے کچھ یوں یاد پڑتا ہے کہ شاید شام 6 یا 7 بجے کوئٹہ پہنچی تھی۔ راستے میں دو تین مقامات پر کھانے اور نماز کے لیے اس نے اسٹاپ بھی کیا۔ کوئٹہ کے اس سفر میں روڈ کے دونوں اطراف سبی کے بعد ایسی بڑی بڑی کھائیاں تھیں کہ انہیں دیکھ کر محاورتاً نہیں بلکہ سچ مچ کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ انہیں دیکھ کر میں نے اپنے دونوں دوستوں کے سامنے واشگاف انداز میں یہ اعلان کیا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میں واپسی کا سفر بذریعہ ریل گاڑی ہی کروں گا۔ کوئٹہ کا یہ سارا سفر راستے کے دل دہلا دینے والے مذکورہ مناظر کی بنا پر اللہ کو یاد کرتے ہوئے ہی گزرا۔ ممکن ہے کہ اب کوئٹہ جانے کے لیے مسافروں کو راستے کے دونوں اطراف گہری کھائیوں کے مشاہدے کا موقع نہ ملتا ہو لیکن مجھے تو ان کی وجہ سے اپنا سفر بے حد دل دہلا دینے والا محسوس ہوا تھا۔ کوئٹہ پہنچ کر رات ہم نے محبوب لاشاری کے ایک قریبی رشتے دار کے مہمان خانے میں بسر کی۔ رات کا کھانا اور دوسری صبح کا ناشتہ بھی وہیں کیا جو خاصا پرتکلف تھا۔ اگلے دن کوئٹہ شہر گھومنے کے لیے نکلے جو اس وقت بہت اچھا تھا۔ روڈ راستے کشادہ تھے، اہل کوئٹہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو سب کے سب بے حد بااخلاق اور مہمان نواز تھے۔ توقع کے برعکس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے بے حد خوش گوار حیرت ہوئی اور سوچا کہ سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ کبھی سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت کوئٹہ میں کئی اچھے باغات تھے جو بڑے ہرے بھرے اور سرسبز تھے۔ لوگ بھی وجیہ و شکیل دکھائی دیے۔ ملیح چہرے دامنِ دل کو بے اختیار اپنی جانب کھینچتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ رات آئی تو ایک مقامی ہوٹل میں قیام کو ترجیح دی جس کا رہائشی کمرہ بڑا کشادہ اور صاف ستھرا تھا اور اس کی سروس بھی قابل تعریف تھی۔

دوسرے دن بھی خوب سیرو تفریح کرنے کا موقع ملا۔ واپسی کا سفر کیوں کہ بذریعہ ٹرین طے کرنے کا ارادہ تھا لہٰذا شام ہوئی تو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچے اور جیکب آباد جانے کے لیے ٹکٹ گھر سے ٹکٹیں حاصل کیں۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے حسب روایت دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی اور جب مچھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو پھر اس نے چلنے کا نام نہ لیا، جب پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ٹرین کا انجن فیل ہوگیا ہے، لہٰذا اب یہ ٹرین صبح ہی کو اس وقت روانہ ہوسکے گی جب سبی سے نیا تازہ دم ریلوے انجن یہاں پہنچے گا جو اسے اپنے ہمراہ کھینچ کر لے جائے گا۔ ابھی ہم آپس میں اس نازک بلکہ ناگہانی صورتحال پر باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہم تینوں کو اپنے شہر جیکب آباد کے بینک آفیسر جماعت اسلامی کے پرانے ساتھی غلام مصطفی سومرو دکھائی دیے جو اسی ٹرین پر سفر کررہے تھے۔ ہم سب آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے (غلام مصطفی سومرو آج کل صوبائی دفتر جماعت اسلامی سندھ کے قریب ہی مع خاندان رہائش پزیر ہیں)۔ اب ہم چاروں میں یہ طے پایا کہ ٹرین تو ویسے بھی اب کل صبح ہی مچھ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوگی لہٰذا کیوں نہ اسٹیشن سے کچھ دور واقع ہوٹل سے چائے وغیرہ پی لی جائے یا کھانا کھایا جائے۔ یہی سوچ کر ہم مذکورہ ہوٹل پر پہنچے۔ ابھی ہم نے چائے (یا پھر کھانے) کا آرڈر دیا ہی تھا کہ ہم نے ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے ہی ایک حیران کن منظر دیکھا کہ جس ٹرین کو انجن فیل ہوجانے کی وجہ سے کل صبح مچھ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونا تھا وہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوچکی تھی۔ ہم چاروں یہ نظارہ دیکھ کر اور ہوٹل والے سے معذرت کرکے جب بھاگم بھاگ مچھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو اس وقت تک کیوں کہ اس نے رفتار پکڑ لی تھی لہٰذا ہم باوجود سعی بسیار کے اس کو پکڑ نہ سکے اور اس پر سوار ہونے سے رہ گئے۔

ایسے میں ہمارے ہاتھ پائوں کا پھولنا فطری بھی تھا اور وقت کا تقاضا بھی کیوں کہ ہمارا سامان گاڑی میں تھا۔ اس لیے ہم کافی پریشان تھے۔ اس موقع پر وہاں کے مقامی افراد نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ اب آپ یوں کریں کہ مچھ سے کوئی پرائیویٹ جیپ یا کوئی اور گاڑی کروالیں تو اس صورت میں آپ سبی ریلوے اسٹیشن پر پہلے پہنچ کر ٹرین کو پا سکتے ہیں۔ تب ایک دو مقامی افراد کے ساتھ ہم نے ریلوے اسٹیشن سے ملحق اور قریب کے محلے سے کوئی پرائیویٹ گاڑی حاصل کرنے کے لیے متعدد ڈرائیور حضرات کے دروازوں پر دستک دی، لیکن پُرخطر راستے کے پیش نظر کوئی بھی ہمارے ساتھ جانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ آخر ایک گاڑی کے ڈرائیور کو ہماری حالت پر رحم آہی گیا اور وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ اس وین میں مجھے ڈرائیور کے ساتھ ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا موقع ملا کیوں کہ ہمیں ٹرین سے پہلے سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنا تھا لہٰذا گاڑی کے ڈرائیور نے بڑی تیزی کے ساتھ گاڑی چلائی اور روڈ کے دونوں اطراف منہ کھولے ہوئے گہری کھائیوں نے ہمیں ایک مرتبہ پھر دل سے اللہ کی یاد دلائی اور ہم نے واپسی کا سارا سفر آیات قرآنی کو پڑھتے ہوئے طے کیا اور الحمدللہ ٹرین کے پہنچنے سے لگ بھگ ایک گھنٹے قبل سبی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ جب ٹرین سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو ہم بھی اپنی مخصوص بوگی میں پہنچ گئے۔ جہاں ہم سب کا سامان بالکل محفوظ اور مامون تھا۔ ہم سب نے تہہ دل سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس موقع پر مجھے فارسی کے اس مقولے کا مفہوم بھی بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھ میں آگیا کہ ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ‘‘ یعنی انسان اپنی طرف سے تدبیر کررہا ہوتا ہے لیکن تقدیر کا فیصلہ کیوں کہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے لہٰذا وہ اس انسان پر ہنس رہی ہوتی ہے۔

کوئٹہ کے سفر کے دوران جاتے وقت گہری اور ہولناک کھائیوں کو راستے کے دونوں اطراف دیکھ کر میں نے اپنے دونوں ہم راہیوں کے سامنے واشگاف انداز میں بغیر ان شاء اللہ کہے جو یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اب کوئٹہ سے واپسی کا سفر کسی صورت بھی نہیں کروں گا شاید وہ اللہ کو ناپسند آیا تھا اور باوجود اس کے کہ ہم واپسی کے لیے بذریعہ ٹرین ہی روانہ ہوئے تھے مچھ ریلوے اسٹیشن پر انجن کی خرابی کی وجہ سے ہم ٹرین سے اُتر کر اسٹیشن سے قریب ہوٹل میں چلے گئے اور جس سے انجن میں بڑی خرابی کا بتایا گیا بعدازاں اس میں معمولی فالٹ نکلا وہی انجن ٹرین کو لے کر روانہ ہوگیا اور ہمیں بالآخر بذریعہ سڑک ہی مچھ تا سبی سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سبی ریلوے اسٹیشن ریلوے اسٹیشن پر ریلوے اسٹیشن سے کے دونوں اطراف جیکب ا باد کوئٹہ کے راستے کے واپسی کا سے روانہ کیوں کہ دیکھ کر کے ساتھ کا موقع میں یہ تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

دنیا کا سب سے بڑا فارم ہاؤس، جو 49 ممالک سے بھی بڑا ہے

سڈنی (نیوز ڈیسک)دنیا کا سب سے بڑا زرعی فارم، انا کریک اسٹیشن، جنوبی آسٹریلیا کے مرکز میں واقع ہے اور 15,746 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا رقبہ ہالینڈ سے زیادہ طویل، ویلز سے زیادہ چوڑا اور اسرائیل سے بڑا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وسیع رقبے پر صرف 11 افراد کام کرتے ہیں، جن میں ایک مینیجر، آٹھ اسٹیشن ہینڈز، ایک پلانٹ آپریٹر اور ایک باورچی شامل ہیں۔​

دنیا میں مختلف زرعی رقبے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آسٹریلیا کا انا کریک اسٹیشن ان سب میں نمایاں ہے۔ یہ ایک ایسی زرعی زمین ہے جو تمام پہلوؤں میں نمایاں ہے سائز، آبادی اور سب سے اہم عملے کی تعداد۔

یہ کیٹل اسٹیشن اتنا وسیع ہے کہ اس کا رقبہ 49 مختلف ممالک سے بھی زیادہ ہے، اور اس کی شہرت عالمی سطح پر پھیل چکی ہے۔

انا کریک اسٹیشن کا موسم انتہائی سخت ہے۔ یہاں سالانہ اوسطاً صرف 20 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے، اور گرمیوں میں درجہ حرارت 55°C تک پہنچ سکتا ہے۔

گھاس کی کمی کی وجہ سے، اس وسیع علاقے میں 17,000 مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے دور دراز سے چلنے والے واٹر پمپ اور کم اڑنے والے ہوائی جہاز۔ مویشیوں کی نگرانی کے لیے موٹر سائیکلوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔​
مزیدپڑھیں:کیا سشمیتا سین پاکستانی فلم میں کام کر رہی ہیں؟ اداکارہ نے خاموشی توڑ دی

متعلقہ مضامین

  • ملتان سے لاہور آنے والا ٹرین مسافر طبیعت خراب ہونے پر انتقال کر گیا
  • بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات، بولان میل کی وقت تبدیل
  • نیتو کپور نے رشی کپور کیساتھ منگنی کی یادگار تصویر شیئر کردی
  • کوئٹہ، کیچی بیگ پولیس اسٹیشن کے قریب دستی بم دھماکہ، ایک راہگیر زخمی
  • سیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے پرکراچی سے کوئٹہ جانیوالی بولان میل کو جیکب آباد اسٹیشن پر روک لیا گیا
  • کوئٹہ جانے والی بولان میل جیکب آباد پر روک دی گئی، مسافر رُل گئے
  • ڈی جی خان تا ملتان شٹل ٹرین چلانے کا فیصلہ
  • ریلوے کا ڈی جی خان تا ملتان 16 اپریل سے شٹل ٹرین چلانے کا فیصلہ
  • جنوبی پنجاب کے مسافروں کیلئے خوشخبری
  • دنیا کا سب سے بڑا فارم ہاؤس، جو 49 ممالک سے بھی بڑا ہے