گستاخوں کے سہولت کاروں کی سازشیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے اسلام اور پاکستان دشمن عناصر پوری طرح متحرک ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے انہوں نے بعض اداروں میں موجود اپنے سہولت کاروں کو استعمال کیا۔ اس حوالے سے اسپیشل برانچ لاہور پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹس کی مثالیں موجود ہیں۔اس کے بعد انہوں نے میڈیا میں موجود اپنے بعض ایجنٹوں کو استعمال کرکے اسپیشل برانچ لاہور پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی بے بنیاد،من گھڑت اور غیر قانونی رپورٹس کی بنیاد پر جھوٹا بیانیہ بنا کر اصل صورتحال سے لاعلم عوامی طبقے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اس کے بعد اب عدالتی کاندھے کو استعمال کرتے ہوئے مقدس ہستیوں کے بدترین گستاخوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو بھی متنازع بناکر انہیں غیر موثر کرنے کے لئے گھنائونے عمل کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی جارہی ہے۔
اس کی تفصیلات کچھ یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر جون 2021 ء سے لے کر اب تک گرفتار کئے جانے والے تقریباً پانچ سو گستاخوں میں سے 101 زیر حراست گستاخوں کے رشتہ داروں نے اسلام و پاکستان دشمن بیرونی عناصر کے ایما پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک مشترکہ رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔جس میں اسپیشل برانچ لاہور اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی مذکورہ بے بنیاد رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کررہے ہیں۔قانون کے مطابق پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کسی بھی عوامی اہمیت سے تعلق رکھنے والے معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا صوابدیدی اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔مذکورہ معاملے میں بھی ابتدائی طور پر وفاقی حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو اس بنیاد پر انکوائری کمیشن کے قیام سے انکار کرتی رہی کہ جن رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن قائم کرنے کا تقاضہ کیا جارہا ہے،ان رپورٹس کی بنیاد پر کمیشن قائم کرنے کا کوئی جواز اس لئے نہیں ہے کہ مذکورہ رپورٹس کی تائید میں کوئی ایک ثبوت بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔تاہم وفاقی حکومت کے اس موقف میں اچانک تبدیلی اس وقت آگئی کہ جب مورخہ 15 جنوری کو مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن،وفاقی سیکریٹری داخلہ،وفاقی سیکریٹری انسانی حقوق ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکام کو حکم دیا کہ وہ 17 جنوری کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔اس حکم نامہ کے جاری ہونے کے بعد نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ 16 جنوری کو عدالت عالیہ کی جانب سے مذکورہ وفاقی سیکریٹریز اور دیگر اعلیٰ حکام کو پیغام بھیج دیا گیا کہ انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔مورخہ 17 جنوری کو سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ فاضل جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اس بات پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے قیام پر قائل کریں۔اس موقع پر ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ مذکورہ تاریخ سماعت پر اسپیشل برانچ کی جانب سے پیش ہونے والے نمائندے سے فاضل جج نے استفسار کیا کہ جو رپورٹ اسپیشل برانچ نے مرتب کی ہے،اس رپورٹ کے حوالے سے کیا کوئی ثبوت بھی موجود ہے؟جس کے جواب میں اسپیشل برانچ کے نمائندے نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہماری رپورٹ سورس انفارمیشن کی بنیاد پر ہے۔رپورٹ میں جو الزامات عائد کئے گئے،اس سے متعلق کوئی دستاویزی شواہد موجود نہیں ہیں۔سورس انفارمیشن پر چھ ہزار ایسی رپورٹس مختلف اداروں کے حوالے سے صرف ڈسٹرکٹ راولپنڈی کی حدتک مرتب ہوتی ہیں‘‘۔کیا اسپیشل برانچ کے نمائندے کی جانب سے اس جواب کے بعد بھی ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر انکوائری کمیشن کے قیام کا کوئی جواز باقی رہتا ہے؟چاہئیے تو یہ تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اس کے بعد انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے دائر مذکورہ پٹیشن خارج کر دیتی۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔بلکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کر دی گئی کہ وہ 31 جنوری کو انکوائری کمیشن کے قیام کے حوالے سے وفاقی حکومت کے حتمی موقف سے عدالت کو آگاہ کرے۔چنانچہ 31 جنوری کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت انکوائری کمیشن بنانے کے لئے تیار ہے۔عدالت رہنمائی کرے کہ کمیشن کن افراد پر مشتمل ہو اور کمیشن کے ٹی او آرز کیا ہوں۔اس پر عدالت عالیہ نے تجویذ پیش کی کہ کمیشن چار رکنی ہو۔سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج،ایف آئی اے کا ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر،ایک روشن خیال عالم دین اور ایک آئی ٹی کا ماہر۔کمیشن کے ٹی او آرز کے حوالے سے عدالت نے یہ تجویز پیش کی کہ کمیشن اس بات کی تحقیقات کرے کہ جھوٹے مقدمات کے ذریعے توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کا کیا غلط استعمال ہو رہا ہے؟اگر ایسا ہو رہا ہے تو کون لوگ کس انداز میں ان قوانین کا غلط استعمال کر رہے ہیں؟اس کے علاوہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف مقدمات کے بعض مدعیان کی جانب سے عدالت میں موجود وکلا کی استدعا پر عدالت نے کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے پیچھے بیرونی عناصر کی کوئی منظم منصوبہ بندی اور مالی معاونت کا عنصر بھی ہے یا نہیں۔
عدالت عالیہ کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے سمری فوری طور پر تیار کرکے وفاقی کابینہ کو بھیجے۔سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو فوری طور پر وفاقی کابینہ کے ایجنڈے پر لائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلے سے آئندہ تاریخ سماعت سے قبل عدالت عالیہ کو آگاہ کریں۔مزید سماعت 28 فوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔۔اس تمام صورتحال سے واضح ہے کہ بغیر کسی آئینی و قانونی جواز کے اگر انکوائری کمیشن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے تو اس کے پیچھے بلاشبہ گھنائونے مقاصد ہیں۔خدشہ ہے کہ ایسے کمیشن کے ذریعے نہ صرف یہ کہ مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے رپورٹ مرتب کروائی جائے گی بلکہ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو غیر مثر کرنے کی جو سازشیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں،ان سازشوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔لہٰذا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں/تنظیموں کو چاہئیے کہ وہ بیدار رہیں اور ماضی کی طرح اب بھی ایسی ہر سازش کو ناکام بنا دیں،جو مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے اور توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو غیر موثر کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بنیاد پر انکوائری کمیشن گستاخوں کو تحفظ دینے کے انکوائری کمیشن کے قیام اسلام آباد ہائیکورٹ کے رپورٹس کی بنیاد پر گستاخانہ مواد کی اسپیشل برانچ وفاقی حکومت عدالت عالیہ مقدس ہستیوں کے حوالے سے کی جانب سے جنوری کو کو ہدایت کہ کمیشن کوشش کی کرنے کی کے لئے گئی ہے کے بعد کی گئی
پڑھیں:
جوڈیشل کمیشن اجلاس ملتوی کیا جائے،سینیٹر علی ظفر کا چیف جسٹس کو خط
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) جوڈیشل کمیشن کے رکن اور سینیٹر علی ظفر نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے رکن اور سینیٹر علی ظفر نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے خط میں مؤقف اختیار کیا کہ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا، اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے، ان کے مطابق، ججز کے حالیہ تبادلے سے ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ تبدیل ہو چکی ہے، جس سے عدالتی نظام پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ان تبادلوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ انتظام عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں کے لیے ایک خاص بندوبست ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے خط میں تجویز دی کہ جب تک ججز کی سنیارٹی کا معاملہ حل نہیں ہوتا، جوڈیشل کمیشن اجلاس کو ملتوی کرنا مناسب ہوگا، تاہم اگر اجلاس کرنا ناگزیر ہے تو حالیہ تبادلہ شدہ ججز کو زیر غور نہ لایا جائے۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج (پیر) ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس دن 2 بجے عدالت عظمیٰ کے کانفرنس روم میں ہوگا، جس میں عدالت عظمیٰ میں 8 نئے ججز کے لیے پانچوں ہائی کورٹس کے 5 سینئر ججز کے نام طلب کیے گئے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن