WE News:
2025-02-06@06:10:44 GMT

شاکر علی: دھوپ کا اک ٹکڑا

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

1952 میں ممتاز مصور شاکر علی کی کراچی سے لاہور آمد سے اس شہر میں مصوروں، ادیبوں اور شاعروں کی دوستی کی روایت میں نئی جان پڑ گئی۔ ادبی برادری نے ان کا بڑی محبت سے خیر مقدم کیا اور تعلقات کا یہ سلسلہ پھر عمر بھر ہی رہا۔ صفدر میر کے بقول ’میں نے ایسا کوئی فنکار نہیں دیکھا جس سے اس کے ہم عصروں نے اتنی الفت کا اظہار کیا ہو جتنا مصوروں اور قلم کاروں نے لاہور میں شاکر علی سے کیا۔‘

رام پور کے شاکر علی زندگی کے مختلف مراحل میں دہلی، نینی تال، بمبئی، لندن، پیرس، پراگ اور کراچی میں قیام کے بعد لاہور میں میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوئے تھے۔ یہ ان کے حق میں بہت بہتر ہوا کیوں کہ کراچی میں وہ ایک اسکول میں معمولی سی تنخواہ پر ڈرائنگ ماسٹر تھے۔ ان کے لاہور آنے کی خبر نے یہاں کی فضا پر کیسا اثر مرتب کیا اس کے لیے مظفر علی سید کی کتاب ’یادوں کی سرگم‘ سے رجوع کرتے ہیں:

’اس خبر نے نوجوان مصوروں اور دانشوروں میں ایک سنسنی سی دوڑا دی جیسے کہ سبھی لوگ ایک ایسے ہی آدمی کے منتظر تھے۔ جسے دیکھو شاکر صاحب سے ملنے جارہا ہے اور انہیں ساتھ لے کر قہوہ خانے اور چائے خانے کے دوستوں سے ملانے لا رہا ہے۔ بس ذرا سی دیر میں شاکر علی لاہور کے نوجوان مصوروں میں ایسے گھل مل گئے جیسے کے ہمیشہ سے یہیں کے باشندے ہوں۔‘

ادبی دنیا میں ان کے باقاعدہ تعارف کا ذریعہ انتظار حسین کا ’خیال‘ بنا تھا جس میں شاکر علی کے فن کے دو نمونے شامل ہوئے اور مظفر علی سید نے اپنے مضمون ’شد کلا‘ میں ان کی مصوری کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ اس شمارے میں مصور رحیل اکبر جاوید کا افسانہ بھی شامل تھا اور ایک دوسرے مصور انور جلال شمزا کے ناول ’جینیس‘ پر تبصرہ بھی۔ مصوروں کی فکشن نگاری کی بات ہے تو لگے ہاتھوں یہ بتاتے چلیں کہ تقسیم سے پہلے شاکر علی رامپوری کے افسانے بھی معتبر ادبی جریدوں میں شائع ہوتے رہے تھے۔

شاکر علی آرٹ اور ادب کے ارتباط پر یقین رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان نے ان کے بارے میں مضمون ’درخت کی حقیقت‘ میں لکھا ہے:

’وہ شاعروں اور دوسرے فنکاروں کی دوستی پسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ تمام فنکار ہم سفر ہوتے ہیں اور ان میں میڈیم ہی کا فرق ہوتا ہے۔ اس نظریے یا خیال کو وہ عملی طور پر ثابت بھی کرتے تھے۔ ہمارے عہد کے بہت کم مصور ہوں گے جنہوں نے اپنے عہد کے شاعروں اور دوسرے تخلیقی فنون کے نمائندوں سے شاکر صاحب جتنا گہرا ربط رکھا ہو۔‘

اہل ادب سے شاکر علی کے ربط ضبط کے سلسلے میں سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ داستان ہمارے پاس محمد حسن عسکری، مظفر علی سید، انتظار حسین، صفدر میر، انور سجاد، جاوید شاہین، صلاح الدین محمود، کشور ناہید اور سہیل احمد خان کی تحریروں کی صورت میں محفوظ ہے۔

27 جنوری کو شاکر علی کے انتقال کو 50 سال پورے ہوئے، اس عرصے میں ادب سے وابستہ ان کے بہت سے دوست رخصت ہوگئے ہیں۔ لاہور میں ان سے مستقل ملنے والوں میں اب کشور ناہید اور احمد مشتاق ہی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

کشور ناہید کے دو مضمون ’تنہا شاکر‘ اور ’دل کی چڑیا‘ کتابوں کا حصہ ہیں اور ان کی آپ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے مگر شاکر علی سے احمد مشتاق کے تعلق خاطر کی کہانی کہیں بیان نہیں ہوئی جس کی کچھ تلافی زیر نظر مضمون کے ذریعے ہو سکے گی۔

شاکر علی کو دنیا سے گزرے نصف صدی گزری ہے تو احمد مشتاق کو لاہور سے امریکا گئے چار دہائیوں سے اوپر ہوگئے لیکن دونوں کے روابط کا احوال اب بھی سننے پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ نامور ماہر تعمیرات نیر علی دادا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے شاکر صاحب کے ہاں جمنے والی اس منڈلی کا ذکر کیا جس کے احمد مشتاق رکن رکین تھے۔ ادھر چند ماہ پہلے ادبی جریدے ’سائبان‘ میں نذیر احمد کے شاکر علی پر طویل مضمون میں ان کے مستقل ملاقاتیوں کے تذکرے میں احمد مشتاق کا حوالہ موجود تھا اور ان کی کتاب ’مجموعہ‘ کے اس سرورق کا ذکر بھی جو شاکر علی کی تخلیق تھا۔

سرورق تو شاکر صاحب نے ناصر کاظمی کی پہلی کتاب ’برگ نے‘ کا بھی بنایا تھا لیکن بیچ میں حنیف رامے نے کھنڈت ڈال دی تھی۔ اس قضیے کے بارے میں انتظار حسین نے ’جستجو کیا ہے؟ ’میں لکھا ہے:

’ہاں جب ناصر کی ’برگ نے‘ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔ شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔ سو ’برگ نے‘ حنیف رامے کے سرورق کے ساتھ شائع ہوئی۔ لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑھ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی۔ بس دب گئی۔‘

اس پس منظر میں احمد مشتاق نے شاکر علی سے ’مجموعہ‘ کا سرورق بنانے کی درخواست کی تو انہوں نے اس کی حامی بھرتے ہوئے کہاکہ یہ نہ ہو کہ بعد میں حنیف رامے اپنا حق جتانے لگے۔ احمد مشتاق نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ شاکر علی نے جو خدشہ ظاہر کیا وہ ’برگ نے‘ کے تجربے کی وجہ سے بھی تھا اور دوسرے اس باعث بھی کہ ’مجموعہ‘ کے تو ناشر بھی حنیف رامے تھے۔

شاکر علی کے بارے میں احمد مشتاق سے میری نومبر 2023 میں لاہور میں ہونے والی گفتگو میں ایک بہت خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ انہوں نے شاکر صاحب کے بارے میں ایک شعر بھی کہہ رکھا ہے جس کی شان نزول یہ تھی کہ شاکر صاحب کے انتقال کے وقت وہ کراچی میں تھے جہاں سے واپس لوٹے تو شاکر علی کے بغیر لاہور انہیں بہت سونا سونا محسوس ہوا اور اس کیفیت میں یہ شعر انہوں نے کہا:

جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا

لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا

مشتاق صاحب سے بات چیت میں اس شعر کا پس منظر ہی معلوم نہیں ہوا بلکہ یہ بھی جانا کہ شاکر علی کو ان کا یہ شعر بہت پسند تھا:

کوئی شرر نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں

ہم نفسانِ شُعلہ خُو، آگ نئی جلائیے

کسی دوست کے بزمِ جہاں سے رخصت ہونے پر ادب میں اسے یاد کرنے کے مختلف رنگ ہیں۔ احمد مشتاق اپنے تعلق کا اظہار بامعنی اور منفرد ڈھب سے کرتے ہیں جس کی ایک مثال ناصر کاظمی کے بارے میں ان کی مرتب کردہ کتاب ’ہجر کی رات کا ستارا‘ ہے جو اپنی اشاعت کے 49 سال بعد بھی ناصر شناسی میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ شاکر علی کی جدائی میں تخلیقی اظہار بصورتِ شعر ہوا جس کے بعد انہوں نے شاکر صاحب کے انگریزی مضمون کا ترجمہ کیا جو اپریل 1975 میں معروف ادبی جریدے ’سویرا‘ میں ’میرا فن‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں مصور کے نظریہ فن کے ساتھ ساتھ لاہور میں بیتے ابتدائی زمانے کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔

’اس شہر کی صورت میں مجھے اپنا پہلا گھر نہ سہی، دوسرا گھر ضرور مل گیا۔ مجھے وہ لوگ مل گئے جن سے میں اپنے دل کی بات کہہ سکتا تھا، نہ صرف مصوروں میں بلکہ ادیبوں اور شاعروں میں بھی۔ میرے کچھ ساتھی یہاں موجود ہیں۔ ان میں انتظار حسین ہے صفدر میر ہے، ناصر کاظمی ہے۔ وہ پاکستان کے ابتدائی ایام تھے اور ہم ان گنت خواب دیکھا کرتے تھے۔ ہم تصویریں بناتے تھے، نثر لکھتے تھے، شاعری کرتے تھے۔ ہم کافی ہاؤس اور ٹی ہاؤس میں بیٹھتے تھے جہاں ہم بحثیں کرتے اور نشوونما پاتے رہے۔‘

اور پھر جب احمد مشتاق نے سہیل احمد خان کے ساتھ مل کر ’محراب‘ نکالا تو اس کے پہلے پرچے میں انتظار حسین کا خاکہ ’شاکر صاحب‘ شامل تھا۔

احمد مشتاق نے بتایا کہ ایک زمانے میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس میں مصوری کے ایک کورس کے لیے داخلہ لیا تھا تو انہیں شاکر صاحب کا رسمی شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

شاکر علی کی سبط حسن سے گہری دوستی تھی۔ یار عزیز کے لیے انہوں نے ایک دفعہ اپنے ہاں محرم میں مجلس بھی کروائی۔ اس کے سلسلے میں احمد مشتاق کس طرح ان کے کام آئے یہ کہانی انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھی ہے:

’وہ عاشور کی دوپہرتھی، میں، ناصر کاظمی اور احمد مشتاق ٹی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ انیس کی ایک جلد ہمارے بیچ رکھی تھی۔ مظفرعلی سید کی فراہم کردہ۔ اس جلد کو مشتاق نے ان تاریخوں میں کس خضوع و خشوع سے پڑھا تھا۔ اچانک شاکر صاحب وارد ہوئے۔ نہ دعا نہ سلام ’اٹھو اٹھو یار، ہمارے گھرچلو مجلس کرنی ہے۔‘

’مجلس‘ ہم تینوں نے شاکر صاحب کو تعجب سے دیکھا۔

’ہاں یار، سبطے میرے گھر بیٹھا ہے۔ کہتا ہے آج عاشور کا دن ہے۔ کچھ ماتم مرثیہ ہونا چاہیے۔ یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے۔ کوئی سوز، کوئی نوحہ۔ ‘

مشتاق بولا ’انیس جو موجود ہے۔‘

شاکر صاحب نے انیس کی جلد کو دیکھا، ’بس بس کام بن گیا۔ اٹھو، چلو جلدی سے۔‘

سو ہم شاکر صاحب کے یہاں پہنچے۔ سبط حسن وہاں سچی مچی محرمی صورت لیے بیٹھے تھے۔ مراثی انیس کی جلد اس وقت انہیں بہت بڑی نعمت نظر آئی۔ کس رقت بھری کیفیت میں انہوں نے سوز خوانی شروع کی۔ بازو کے طور پر دائیں احمد مشتاق اور بائیں خورشید شاہد۔

پاک ٹی ہاؤس کی تاریخ میں وہ وقت بھی آیا ہے جب شاکر علی کے ادھورے فقرے پورے کرنے کی ذمہ داری احمد مشتاق نے بطریق احسن نبھائی۔ انتظار حسین کے بقول ’مشتاق کے لیے ان کا بولا ہوا آدھا فقرہ بہت تھا۔ وہ بیان اس طرح مکمل کرتا کہ شاکر صاحب سمجھتے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔‘

احمد مشتاق صاحب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شاکر علی سے دوستی تھی اور انہوں نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے لاہور میں ان کی نمائش کا افتتاح بھی کیا تھا۔ اس تعلق میں ان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی فرق نہ آیا۔

احمد مشتاق کا سمن آباد میں شاکر علی کے گھر بھی جانا رہا، لیکن ان سے یادگار ملاقاتوں کا زمانہ وہی تھا جب وہ ایم اے او کالج کے پیچھے ساندہ روڈ پر نیشنل کالج آف آرٹس کے ہاسٹل میں رہنے لگے اور یہ جگہ ادیبوں، شاعروں اور شاکر علی کے شاگردوں کی آماجگاہ بن گئی۔ یہ جگہ کرشن نگر میں احمد مشتاق کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ ان کی کس رہائش سے دریا دکھائی دیتا تھا تو انہوں نے بتایا کہ کرشن نگر والے مکان سے:

یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں

مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے

ریٹائرمنٹ کے بعد شاکر علی گارڈن ٹاؤن میں ذاتی گھر میں منتقل ہوگئے جہاں انہیں زیادہ عرصہ رہنا نصیب نہیں ہوا۔ ان کے انتقال سے چند ماہ پہلے انتظار حسین، احمد مشتاق اور سہیل احمد خان اس گھر گئے اور کافی وقت معزز میزبان کے ساتھ گزارا۔ شاکر صاحب نے اس دن بے تکان گفتگو کی۔ اپنے پرکھوں مولانا محمد علی اور شوکت علی کا تذکرہ کرتے رہے۔ مختلف اسفار کے تجربات بیان کیے۔ ابتدائی زندگی میں مہاتما گاندھی کی سوانح سے متاثر ہونے کا بتایا۔ انتظار حسین کے پوچھنے پر کہ اس میں انہیں کیا خاص چیز نظر آئی تو جواب دیا: ’اپنی روح سے کشمکش اور ریاضت۔ یہ چیزیں مجھے اچھی لگی تھیں۔‘

سہیل احمد خان نے اس ملاقات کے حوالے سے لکھا تھا:

’یہ ہماری ان سے آخری ملاقات تھی کیوں کہ شاکر صاحب شاید اپنے باطن اور اپنی ذات کے ازل کو دریافت کرچکے تھے۔ اب وہ اپنی شخصیت کے بیج کو توڑ کر اسی عدم میں مل گئے ہیں جسے اپنشد کے مکالمے میں شجر کی اصل حقیقت کہا گیا ہے۔ اب وہ نظر نہیں آتے لیکن ہم جو ان کے نیاز مند ہیں ہماری شخصیت کے شجر کی نمو ان کے تصور کے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘

1975 میں جنوری کا مہینہ پاکستان آرٹ کے لیے بہت بھاری پڑا۔ 17 جنوری کو عبد الرحمان چغتائی دنیا سے سدھارے اور دس دن بعد شاکر علی کی سناؤنی آگئی۔ 22 جنوری کو طبیعت بگڑنے سے پہلے ان کی آخری مصروفیت چغتائی کی یاد میں حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ ان کا یہ عمل ادب اور آرٹ کی یکجائی کی قدر پر ان کے پختہ یقین اور شہر کی ثقافتی زندگی سے جڑت کا آخری مظہر بن گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews ادیب اہل ادب جنوری کا مہینہ شاعر شاکر علی محمودالحسن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اہل ادب جنوری کا مہینہ شاکر علی محمودالحسن وی نیوز میں احمد مشتاق احمد مشتاق نے سہیل احمد خان نے شاکر صاحب شاکر صاحب نے میں شاکر علی شاکر صاحب کے شاکر علی کی شاکر علی سے شاکر علی کے کے بارے میں ناصر کاظمی حنیف رامے لاہور میں کرتے تھے انہوں نے کے ساتھ کہ شاکر شائع ہو علی سید اور ان کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ٹنڈوآدم،ٹرین کی زد میں آکرنوجوان ہلاک

ٹنڈوآدم( نمائندہ جسارت) ٹنڈوآدم ریلوے اسٹیشن کے قریب پنجاب سے کراچی جانے والی مال بردار ٹرین کی زد میں آکرجوہرآباد کا رہائشی 25 سالہ نوجوان نذیر احمد ہلاک ہوگیا متوفی کی نعش ریلوے چوکی انچارج رائو شفیق احمد نے ضروری کارروائی کے ورثا کے حوالے کردی نعش گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھیانی تحریک کا خواتین کے قتل اورتشدد پرتشویش کا اظہار
  • امریکا میں گھر پر گرا برف کا پراسرار ٹکڑا، تحقیقات کا آغاز
  • آرمی چیف کو بانیٔ پی ٹی آئی کے خط پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں: ملک احمد بھچر
  • داستاں سرائے، راجا گدھ اور بانو آپا
  • عمران خان 3 سال فوج کے خلاف رہے، اب مدد مانگ رہے ہیں، ملک احمد خان
  • عمران خان کوشش تھی کہ سیاسی قوتیں ، سرجوڑ کر بیٹھیں ، خود مسائل کا حل نکالنے کی سعی کریں: علی محمد خان
  • کھانے کا وقت، میاں محمد شریف اور ڈاکٹر شہریار احمد
  • ٹنڈوآدم،ٹرین کی زد میں آکرنوجوان ہلاک
  • ’امریکی خاتون آنے کے بعد چھیپا صاحب کی انگریزی بہتر ہوگئی‘، ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کی ویڈیو وائرل