کعبے میں ولادت۔۔۔۔ فضیلت کے مقابلے میں افسانہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہمارا مقصد یہ یاد دلانا تھا کہ یاد رکھئے! جعلی کرنسی وہی ہوتی ہے، جو حقیقی کرنسی کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ جعلی کرنسی جتنی زیادہ حقیقی کرنسی کے مشابہ بنائی جائے گی، اُسی قدر لوگ اُس سے زیادہ دھوکہ کھائیں گے۔ لہذا دھوکہ نہ کھائیے اور آزادانہ طور پر تاریخ اسلام کو مسلمات اور عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھئے۔ تاریخِ علم نیز عقل و منطق کے مطابق کوئی بھی بات اس لئے درست نہیں ہوتی کہ فلاں شخص نے کہی یا اپنی کتاب میں لکھی ہے بلکہ اُس کا حقیقت ہونا ٹھوس شواہد سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ تحریر: نذر حافی
سب سے پہلے آج کرنسی کی بات کرتے ہیں۔ جعلی کرنسی وہی ہوتی ہے، جو حقیقی کرنسی کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ جعلی کرنسی جتنی زیادہ حقیقی کرنسی کے مشابہ بنائی جائے گی، اُسی قدر لوگ اُس سے زیادہ دھوکہ کھائیں گے۔ ایسا ہی دینِ اسلام کے ساتھ ہوا۔ احادیث اور تاریخِ اسلام کے حوالے سے بہت زیادہ ایسے واقعات، مفروضات اور بیانات گھڑ لئے گئے ہیں، جو قرآن و سُنّت نیز قطعیّاتِ تاریخ و عقل سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسی خلاف حقیقت اور خلافِ عقل باتوں کے اسلامی کتابوں میں پائے جانے اور ان پر اسلام کی مُہر لگنے کی وجہ سے عام لوگ انہیں اسلامی مسلمات میں شامل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جسے اسلامی سال کہتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلامی سال کا آغاز نبیؐ کی ہجرت سے ہوا۔ حالانکہ نبی ؐ کے زمانے میں اور خلیفہ اوّل کے سارے دور میں کسی اسلامی سال کا تصوّر ہی نہیں تھا۔ نہ ہی نئے اسلامی سال کی مبارکبادیں دینے کی کہیں فضیلت نقل ہوئی ہے اور نہ ہی کسی سال کو قرآن و حدیث میں اسلامی کہا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نبی ؐ نے ہجرت بھی محرم الحرام کے بجائے ربیع الاوّل میں کی ہے۔
اب جن لوگوں نے محرم الحرام سے شروع ہونے والے مہینے کو اسلامی سال کہنا شروع کیا ہے، ان کی اس فکر کا اسلامی ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں، ان کا محرک کچھ اور ہے، جس کی الگ سے تحقیق کی جانی چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کے ہاں اسرائیلیات کا رواج بھی جعلیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اسرائیلیات وہ معلومات اور روایات ہیں، جو اسلامی متون، خاص طور پر قرآن و حدیث میں غیر مسلم مصادر، خصوصاً یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے شامل ہوگئی ہیں۔ یہ معلومات عام طور پر تورات، انجیل اور دیگر یہودی و عیسائی کتابوں سے اخذ ماخوذ ہیں، یہ غیر مستند تو ہوتی ہی ہیں اور بعض اوقات افسانوی قالب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان ایسی من گھڑت معلومات کتب تاریخ، احادیث یا تفسیر کے ذیل میں شامل ہیں۔ نمونے کے طور پر قصص انبیاء کے واقعات میں بہت سارے انبیاء کے ایسے حالات کو بیان کیا گیا ہے، جو قرآن مجید یا مستند احادیث میں کہیں بھی ذکر نہیں ہوئے۔ علوم حدیث میں ایسی خامیوں کی نشاندہی کیلئے متعدد اصطلاحات رائج ہیں۔ جیسے: موضوع، ضعیف، منکر، معلق، متنازعہ، مردود، منسوب، موصول، غریب، مقلوب۔۔۔۔
مذکورہ بالا مقدمے کا مقصد فقط یہ واضح کرنا تھا کہ مسلمانوں کی بنیادی کتابوں میں جعلسازی کا وجود ایک حقیقت ہے۔ جعلسازی کے یہ محرکات اسلام کے ابتدائی دور سے ہی موجود تھے اور اس جعلسازی کے کئی مقاصد تھے۔ بعض اوقات غلط عقائد کی ترویج، سیاسی مقاصد کی تکمیل یا ذاتی مفاد حاصل کرنا بھی ہوتا تھا۔ مسلم سکالرز نے کبھی بھی اس جعلسازی کو تقدس کا درجہ نہیں دیا بلکہ مختلف اصطلاحات کے ساتھ کی نشاندہی کی ہے۔ اب آئیے اس جعلسازی کے محرکات میں سے ایک بڑے محرک کا تجزیہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اسرائیلیات اور دیگر غیر حقیقی متون کی نشر و اشاعت کے کئی اسباب ہیں۔ ان سب پر تو اس وقت روشنی نہیں ڈالی جا سکتی، لیکن چند ایک اسباب کا ہم مختصراً ذکر کئے دیتے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی مختلف سیاسی گروہ اور حکمران اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور اپنے مخالفین کے خلاف دلیل پیش کرنے کے لیے کبھی احادیث لکھنے سے منع کرتے تھے اور کبھی جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی باتیں آج بھی مشہور ہیں، جو صحابہ کرام کے عہد میں اصلاً وجود ہی نہیں رکھتی تھیں:
۱۔ خود کسی بھی صحابی نے خود کو اہل بیتِ رسول ؐ سے افضل کہنا تو دور کی بات اپنے آپ کو اہلِ بیت کے برابر بھی نہیں کہا، بلکہ صحابہ کرام اپنے آپ کو اہلِ بیت کا خادم اور غلام کہنے میں فخر کرتے تھے، لیکن اہلِ بیت کے مقابلے میں جعلی فضائل و مناقب گھڑنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے صحابہ کراؓم کو اہلِ بیت سے افضل یا اہلِ بیتؑ کے برابر کہنا شروع کر دیا۔ حتی کہ کچھ لوگوں نے درود شریف میں بھی اصحاب کو شامل کر لیا جبکہ ایسا درود شریف کبھی بھی نبی اکرم ؐ یا صحابہ کرام ؓ کی زبانوں پر جاری نہیں ہوا۔
۲۔ ہم فلاں نبی کی اولاد میں سے ہیں، اللہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہمارے برے اعمال ہمارے اباواجداد کی وجہ سے بخش دیئے جائیں گے، ہمیں اچھے اعمال کی کوئی ضرورت نہیں اور ہم سیدھے جنّت میں چلے جائیں گے۔ یہ سراسر بنی اسرائیل کا باطل عقیدہ ہے اور قرآن مجید نے متعدد آیات میں اس عقیدے کی نفی کی ہے۔ اسلامی کتابوں میں جعلیات و اسرائیلیات کی وجہ سے ابھی بھی بہت سارے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم بغیر اعمالِ حسنہ کے جنت میں جائیں گے۔ اسلامی معاشرے میں بعض اوقات غیر مسلم ثقافتوں اور روایات کا اثر بھی جعلی روایات کی تخلیق کا سبب بنا۔ خصوصاً اسرائیلیات (یہودی اور عیسائی روایات) کو بعض اسلامی متون میں شامل کیا گیا، جو بعد میں جعلی روایات کے طور پر پھیل گئیں۔
۳۔ مختلف فرقوں کے درمیان اپنے عقائد کو جواز فراہم کرنے کے لیے جعلی روایات یا احادیث گھڑی گئیں۔ متعدد فرقے اپنے عقائد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایسے افسانے یا جھوٹے بیانات ایجاد کرتے رہے، جو ان کے نظریات کی حمایت کرتے تھے۔
۴۔ ذاتی مفاد اور شہرت
علمِ رجال کے مطابق بعض افراد یا راوی اپنے ذاتی مفاد یا شہرت کے لیے جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ وہ کسی خاص شخصیت کے حوالے سے روایات بناتے، تاکہ اپنی شناخت یا مقام کو بڑھا سکیں۔ بعض اوقات لوگ اسلامی شخصیات کے بارے میں معجزات اور غیر معمولی واقعات کی کہانیاں گھڑتے تھے، تاکہ لوگوں میں ان شخصیتوں کے بارے میں عقیدت اور احترام پیدا کرسکیں۔ اموی اور عباسی بادشاہوں سے انعامات لینے کیلئے اہلِ بیت ؑ کے مقابلے میں بعض صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرضی معجزات اور غیر معمولی واقعات کی جھوٹی روایات وضع کی گئیں۔
۵۔ دینی تعلیمات کی ترویج یا تشہیر
بعض اوقات لوگوں نے اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں کو پھیلانے کے لیے جعلی احادیث گھڑیں، جن میں نیکی کرنے، صدقہ دینے، کثرت سے تلاوت کرنے یا مستحب عبادت کی اہمیت پر زور دیا جاتا تھا۔ لوگوں کو زیادہ عبادت یا صدقہ دینے کی ترغیب دینے کے لیے جعلی روایات گھڑی گئیں، جن میں بتایا گیا کہ زیادہ نیک عمل کرنے سے خدا کی طرف سے بڑے بڑے درجات و انعامات ملتے ہیں۔
۶۔ غفلت اور کمزور حافظہ
بعض اوقات جعلی احادیث صرف راویوں کی غفلت یا کمزور حافظے کی وجہ سے بھی اسلامی متون میں شامل ہوئیں۔ بعض اوقات راوی کسی حدیث کو سن کر اسے اس طرح بیان کرتا تھا کہ وہ اصل حقیقت سے ہٹ جاتی تھی۔
مذکورہ بالا تمام عوامل اپنی جگہ بجا ہیں، لیکن ان سب سے ایک بڑا عامل خود فضائل و مناقب علی ابن ابیطالبؑ کے مدّمقابل فضائل و مناقب تراشنے کی کارروائی ہے۔ حضرت علی ؑ اپنی جامعیّت کے اعتبار سے اہلِ بیت میں سے بھی ہیں اور صحابہ کرام میں سے بھی۔ ایک طرف تو آپ کی شخصیت اتنی جامع ہے کہ آپ اہلِ بیت، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین میں سے ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ فضال و مناقب میں کوئی بھی دوسری شخصیت آپ کی گردِ پا کو نہیں پہنچتی، خواہ وہ شخصیت اہل بیت میں سے ہو، صحابہ کرام میں سے ہو یا خلفائے راشدین میں سے۔
صدرِ اسلام میں ہی یہ حقیقت واضح تھی کہ جہانِ علم و عمل میں آپ جیسی جامعیّت کسی کو حاصل نہیں۔ سو آپ کے معنوی و ایمانی قد و کاٹھ کے مطابق آپ کے حریفوں کیلئے کوئی دوسری شخصیت تراشنا ممکن ہی نہیں تھا، سو آپ اور اہلِ بیتِ رسول کے ہاتھوں شکست خوردہ گروہوں نے آپ کی ہر فضیلت کے مقابلے میں کسی نہ کسی کی ایک فضیلت ضرور گھڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے فضائل میں سے ایک آپ کا مولودِ کعبہ ہونا ہے۔ سو آپ کے حریف گروہوں نے ایک مرتبہ پھر جلد بازی اور عجلت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ حکیم بن حِزام بھی کعبے میں متولد ہوئے۔ فریقِ مخالف کا مقصد فقط یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت علی ؑ کا کعبے میں پیدا ہونا کوئی فضیلت نہیں اور اگر ہے تو پھر حکیم بن حِزام بھی اس فضیلت کے حامل ہیں۔ بلاشُبہ ایسی فضیلت گھڑنے سے حضرت حکیم بن حِزامؓ کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ جعلی افسانہ بھی دیگر اسلامی افسانوں کی مانند اہلِ بیتؑ کے مخالفین نے گھڑا ہے۔ آئیے اس افسانے کا تجزیہ کرکے دیکھتے ہیں کہ حقیقتِ حال کیا ہے:
حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبے میں متولد ہونے کی نفی ایک تو خود علوم حدیث کی رو سے ہی ہو جاتی ہے۔ لہذا جن لوگوں نے حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبے میں متولد ہونے کی بات کی ہے، انہوں نے اس پر جرح و تعدیل نہیں کی بلکہ فقط یہ کہہ کر گزارہ کیا ہے کہ فلاں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ فلاں بات درست ہے، چونکہ ارسطو نے کہی ہے۔ خود سے تحقیق کئے بغیر فقط ارسطو کی بات کہہ کر کسی بات کو درست یا غلط کہہ دینا یہ علمی و تحقیقی روش نہیں۔ دوسری اور اس سے بھی محکم ترین دلیل یہ ہے کہ تمام تر تاریخی اسناد اور قطعیات کے مطابق زمانہ جاہلیت میں حاملہ عورتوں کا کعبے کے اندر داخل ہونا ممنوع تھا۔ جن لوگوں نے حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبے میں متولد ہونے کا لکھا ہے، انہوں نے دروازے سے داخل ہونا لکھا ہے، جو کہ زمانہ جاہلیت میں ممنوع تھا۔ لہذا مادرِ حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبے میں داخل ہونا ممکن ہی نہیں۔
لیکن حضرت علی ؑ کی مادرِ گرامی کا کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ دروازے سے داخل ہوئیں بلکہ سب نے لکھا کہ مادرِ علیؑ نے دیوارِ کعبہ کو پکڑ کر خدا سے دعا کی، جس کے بعد دیوارِ کعبہ شق ہوئی اور آپ دیوار سے داخل ہوئیں۔ پس اس سے ہر صاحبِ شعور کیلئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مادرِ علی ؑ کا دیوارِ کعبہ سے کعبے میں داخل ہونا تاریخ اسلام کے مسلمات اور معجزات میں سے ہے، جبکہ حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبے میں تولد کی داستان دیگر جعلی روایتوں کی مانند گھڑی گئی ہے۔ ایسی کئی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں، جیسے اگر یہ حدیث ہے کہ حسنؑ و حسین ؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، تو کچھ لوگوں نے عجلت میں یہ بھی اضافہ کر دیا کہ فلاں فلاں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جنت میں بڑھاپے کا عارضہ قابلِ تصوّر نہیں ہے۔
اسی طرح اگر یہ حدیث موجود تھی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے تو کچھ لوگوں نے اس میں یہ اضافہ کر دیا کہ کوئی اس شہر کی کھڑکی ہے، کوئی چھت ہے اور کوئی روشندان۔ صاحبانِ عقل بخوبی جانتے ہیں کہ شہر کی چھت، کھڑکی یا روشندان نہیں ہوتے۔ بہرحال جو لوگ خانہ کعبے میں حضرت علی ؑ کی ولادت کا اس لئے انکار کرتے تھے کہ کعبے کی بلند و بالا عمارت میں کوئی عورت کیسے داخل ہوسکتی ہے اور حاملہ عورتوں کے کعبے کے نزدیک ہونے کی ممانعت کے باعث کوئی عورت کیسے کعبے کے نزدیک ہوسکتی ہے تو حضرت حکیم بن حِزامؓ کی ولادت کا افسانہ تراش کر انہوں نے خود ہی یہ مان لیا ہے کہ اُس زمانے میں حاملہ خواتین کیلئے خانہ کعبے کے نزدیک جانے کی ممانعت نہیں تھی۔
دیوارِ کعبہ کو پکڑ کر حضرت فاطمہ بنتِ اسد کی خدا سے دعا، پھر اللہ نے مادرِ علی ابن ابیطالبؑ کو دروازے کے بجائے دیوار سے اپنے گھر میں بلا کر قیامت تک کیلئے یہ ثابت کر دیا کہ علی ابن ابیطالبؑ کی کعبے میں ولادت ایک ٹھوس سچائی ہے اور حضرت علیؑ اپنے فضائل و مناقب میں لاشریک ہیں۔ کوئی دوسرا چاہے اہلِ بیت ؑ سے ہو، صحابہ کرام سے یا خلفائے راشدین سے کوئی بھی فضائل و مناقب میں حضرت علیؑ کا شریک یا برابر نہیں۔ آخر میں صاحبانِ جرح و تعدیل کیلئے ہم بغیر سُنّی و شیعہ، وہابی و دیوبندی یا اہلِ حدیث یا سلفی کی کسی تفریق کے چند مستند منابع حضرت امام علی ؑ کے مولودِ کعبہ ہونے کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں۔ تمام منصف مزاج انسان تحقیق کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ آپ آزادانہ کسی بھی مسلک کے رجالی اصولوں پر اس واقعے کو پرکھیں اور خود فیصلہ کریں:
1.
2. سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، ۱۴۰۱ق، ص۲۰
3. ابن صباغ، الفصول المهمة، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۷۱
4. حلبی، السیرة الحلبیة، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۲۶
5. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۴۸۳
6. گنجی شافعی، کفایة الطالب، ۱۴۰۴ق، ص۷۰۷
7. ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی طالب، ۱۴۲۴ق، ص۵۸-۵۹؛ ابن حاتم شامی، الدر النظیم، ۱۴۲۰ق، ص۲۲۵
8. شیخ صدوق، علل الشرائع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۳۵
9. شیخ صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۶۲
10. شیخ صدوق، الأمالی، ۱۳۷۶ش، ص۱۳۲
11. محمدی ری شهری، دانش نامه امیرالمؤمنین ،۱۳۸۹ش، ج۱، ص۷۸
12. طبری، تحفة الابرار، ۱۳۷۶ش، ص۱۶۵-۱۶۴
13. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۵، ص۹
14. قرشی اسدی، جمهرة نسب قریش و اخبارها، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۳
15. مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۵
اب دوسری طرف اسی طرح ہم حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے واقعہ کے حوالے سے سب سے پہلی حدیث کو ہی آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں، باقی کا جائزہ آپ خود علمِ رجال کی روشنی میں کر لیجئے۔ حضرت حکیم بن حِزامؓ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں پہلی روایت "وحکیم بن حزام بن خویلد، عاش عشرین ومئة سنة، وکانت أمه ولدته فی الکعبة" حکیم بن حزام نے ۱۲۰ سال زندگی کی اور ان کی ماں نے انہیں کعبے میں جنم دیا۔ یہ جملہ هشام بن محمد بن سائب کلبی متوفای (204 ه. ق) کی کتاب میں ہے۔ (کلبی، جمهره انساب العرب، ص 13) پھر باقی بعد والوں نے اسی کتاب سے آگے اس جملے کو نقل کرنا شروع کر دیا۔ یعنی یہاں وہی رویّہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ارسطو نے کہہ دیا سو اب یہی درست ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کلبی کو اہل سنّت علمائے رجال بطورِ شیعہ اور غالی بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ کلبی کی کتاب میں یہ کلبی نے لکھا ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ کلبی کی کتاب میں حسن بن حسین سکری (212-275 ه. ق) نے ابی جعفر محمد بن حبیب بن امیه بغدادی (ت 245 ه) کے واسطے سے یہ بات نقل کی ہے۔ ایک تو یہ متن بتا رہا ہے کہ کلبی کی اصل عبارت "وحکیم بن حزام بن خویلد، عاش عشرین ومئة سنة" حکیم بن حزام نے ۱۲۰ سال عمر کی" کے ساتھ بعد میں "وکانت أمه ولدته فی الکعبة" ان کی ماں نے اُنہیں کعبے میں جنم دیا" کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کلبی اور سکری خود تیسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے جبکہ حکیم بن حِزم کی ولادت زمانہ جاہلیت میں عام الفیل سے بھی پہلے کی ہے۔ یوں یہ سند کلبی اور سکری پر ہی ختم ہو جاتی ہے، جس کے بعد یہ عبارت علم حدیث کی رو سے تمام علماء کے نزدیک معتبر نہیں رہتی۔
اب آگے جو لوگ اپنی کتابوں میں نقل کرتے گئے، بغیر سوچے سمجھے اور بغیر پرکھے ہی کرتے گئے، ورنہ کسی بھی صورت میں کلبی کی کتاب، سند یا روایت اہلِ سُنّت کے علمائے رجال کے نزدیک معبتر نہیں ہے۔ بہرحال ہمارا مقصد یہ یاد دلانا تھا کہ یاد رکھئے! جعلی کرنسی وہی ہوتی ہے، جو حقیقی کرنسی کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ جعلی کرنسی جتنی زیادہ حقیقی کرنسی کے مشابہ بنائی جائے گی، اُسی قدر لوگ اُس سے زیادہ دھوکہ کھائیں گے۔ لہذا دھوکہ نہ کھائیے اور آزادانہ طور پر تاریخ اسلام کو مسلمات اور عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھئے۔ تاریخِ علم نیز عقل و منطق کے مطابق کوئی بھی بات اس لئے درست نہیں ہوتی کہ فلاں شخص نے کہی یا اپنی کتاب میں لکھی ہے بلکہ اُس کا حقیقت ہونا ٹھوس شواہد سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ نوٹ: حضرت حکیم بن حِزامؓ کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون ہم الگ سے لکھیں گے، تاکہ صاحبانِ علم و تحقیق کیلئے یہ حقیقت مزید روشن ہو جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حضرت حکیم بن ح زام کعبے میں متولد حقیقی کرنسی کے کے مقابلے میں حکیم بن حزام جعلی احادیث مسلمانوں کے کے حوالے سے کے کعبے میں کے بارے میں کے لیے جعلی کتابوں میں اسلامی سال جعلی کرنسی بعض اوقات داخل ہونا کے درمیان بہت زیادہ اپنی کتاب کی وجہ سے حضرت علی کے نزدیک میں پیدا کوئی بھی کرتے تھے کتاب میں اسلام کے کے مطابق لوگوں نے کے ساتھ ہیں اور ہی نہیں کی کتاب کعبے کے کہ کلبی کہ فلاں کلبی کی کر دیا کی بات سے بھی کو اہل ہے اور میں یہ ہیں کہ دیا کہ تھا کہ
پڑھیں:
شب معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی
لاہور(آئی این پی )رحمتوں اور برکتوں والی رات شبِ معراج ملک بھر میں انتہائی مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی ۔ شب معراج کے موقع پر ملک بھر میں مساجد کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا ، مساجد میں چراغاں، خصوصی محافل اور عبادات کا اہتمام کیا گیا جس میں علمائے کرام اور مقررین واقعہ معراج اور اس کی فضلیت پر روشنی ڈ الی ۔
محفل معراج النبیؓ میں نعت خواہاں حضور اکرمﷺ کی شان مبارک میں ہدیہ عقیدت و نعت پیش کیا ۔یاد رہے کہ 27 رجب المرجب کی شب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا، جب حضرت جبرائیل براق لے کر سرکار دو عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ، آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔
سیکیورٹی خدشات، رات کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ٹرین نہیں چلا سکتے، ریلوے حکام کا قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف، بریفنگ طلب
اس مقدس سفر کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے، آپﷺ مکہ سے مسجد اقصی گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی، پھر آپ کو آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرانے کیلئے لے جایا گیا، وہاں رسول اکرمﷺ کو جنت اور دوزخ بھی دکھائی گئی ۔
مزید :