فیصلہ حکومت کیخلاف ہونے کا خدشہ ہو تو بینچ سے کیس ہی واپس لے لیا جاتا ہے.جسٹس منصورعلی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )سپریم کورٹ نے بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس میں سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کر دیا جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان سے بھی معاونت طلب کرلی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی، جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہے تو بینچ سے کیس ہی واپس لے لیا جاتا ہے.
(جاری ہے)
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بینچز کے اختیارات کا کیس مقررنہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے عدالت نے استفسار کیا بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار سپریم کورٹ نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا غلطی سے ریگولربینچ میں لگ گیا تھا جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کے ساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا. جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھاگیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے عدالت نے ریمارکس دیے ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا جس پر رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کردیا جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا اس میں آپ لکھ رہے ہیں16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے. رجسٹرار نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایا آئینی بینچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آگیا تو کمیٹی کا کام ختم کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہے تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جاتا ہے یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے. جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا پہلے تو شور ڈلا ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا ٹیکس کے کیس میں کونسا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا؟ اس موقع پر عدالت کی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو فوری طور پر طلب کر لیا گیا جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے دفاع میں پیش کیے جانے والے موقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟. رجسٹرار سپریم کورٹ نے موقف اپنایا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے اس کیس میں کہ وہ واپس لے سکتی ہے یا نہیں میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں سترہ جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے مجھے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا گیا میں نے جواب دیا جوڈیشل آرڈر دے چکا ہوں کمیٹی میں بیٹھنا مناسب نہیں پھر 17 جنوری کو ہی آرٹیکل 191 اے 4 کے تحت آئینی بینچز ججز کمیٹی کا اجلاس ہو اجس وقت عدالتی بینچ میں کیس تھا اس وقت دو اجلاس ایک ہی دن ہوئے. جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک ہے جب کیس چل پڑے اس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہوجاتا ہے کہا گیا معاملہ ریسرچر کے پاس چلا گیا ہے رجسٹرار نے بتایا کہ ریسرچر کا روز ذکر آرہا ہے یہ ایک شخص نہیں پورا سیل ہے سپریم کورٹ میں ریسرچ سیل موجود ہے یہ آپ کے علم میں ہے اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں علم تھاآپ کے اندر ایک وکیل بھی ہے ہم تو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو سننا چاہتے تھے جس نے یہ سب کیا آپ انتظامی افسر ہیں آپ کو پتہ نہیں اس معاملے میں کیوں لایا جا رہا ہے؟رجسٹرار نے کہا ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل بیماری کے باعث رخصت پر ہیں جب وہ واپس آئیں گے تو وہ بھی عدالت کو جواب دیں گے. جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ بینچ کا مستقبل کیا ہوگا آج کیس سن رہے ہیں ہو سکتا ہے کل یہ بینچ بھی نہ ہو کوئی تیکھا سوال پوچھیں تو شاید یہ بینچ بھی ختم کر دیا جائے رجسٹرار صاحب کیا پتا نوٹ لکھ دیں کہ اس بینچ کو ختم کیا جائے توہین عدالت کے کیس میں ممکنہ احکامات کی جاری کر سکتے ہیں جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے جو کمیٹی آرڈرز اپنے دفاع میں پیش کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ لیں گے . اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بینچ کو جانا چاہیے کیس آئینی بینچ میں سناجانے والا ہے یا نہیں تعین کرنا عدالت کا کام ہے سندھ ہائی کورٹ میں آئے روز نارمل اور آئینی بینچز ایک دوسرے کو مقدمات بھجوا رہے ہوتے ہیں کمیٹی کے جاری احکامات کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بینچز کے اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ میں مقرر کر دیا جائے. جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا کوئی بینچ عدالتی حکم کے تحت نیا بینچ تشکیل دے سکتا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا عدالت ماضی میں انتظامی پروسیجر پورا کرنے کے لیے چیف جسٹس یا کمیٹی کو کیسز بھجواتی رہی ہے چیف جسٹس ہوں یا کمیٹی عدالتی احکامات کے پابند ہی ہوتے ہیں عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بینچز اختیار کا کیس جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کو بھیج سکتے ہیں؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ کے اختیارات محدود نہیں کرتا یہ عدالت 26 ویں ترمیم کے تحت بینچز اختیارات کا کیس فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے ماضی میں جب بھی کسی بینچ نے آرڈر سے بڑے بینچ کے لیے فائل بھیجی اس پر عمل ہوا. جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا اس وقت بینچز اختیارات کا کیس مگر ہمارے سامنے نہیں کیا ہم توہین عدالت کا کیس سنتے ہوئے ایسا جوڈیشل آرڈر کر سکتے ہیں؟ ٹیکس مقدمہ میں ایک فریق کے وکیل شاہد جمیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے معاملہ فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا نوٹس بھی 3 رکنی بینچ نے کیا تھا کیا پہلے یہ کیس واپس 3 رکنی بینچ کو نہ بھیجا جائے؟ جسٹس عائشہ اس کیس کو کافی حد تک سن چکی تھیں کمیٹی کا فیصلہ موجود ہے ہم یہاں کیا کر سکتے ہیں؟ توہین کرنے والے نے کہا ہے کہ یہ اس لیے کیا کہ کمیٹی کے احکامات تھے. وکیل شاہد جمیل نے موقف اپنایا اس توہین کا تعلق کافی حد تک آرٹیکل ایک سو ستاسی سے ہے بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کیس کی سماعتوں کے بیچ میں بینچ تبدیل نہیں کیا جا سکتا عدالت نے سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کر دیا عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا کو کل سنیں گے یہ اہم معاملہ ہے کہ ججز کمیٹی بینچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں. ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اس نقطے پر بھی معاونت کروں گا کہ توہین عدالت کیس میں کمیٹی کے فیصلوں کو جائزہ لیا جا سکتا یا نہیں اس وقت عدالت کے سامنے صرف توہین عدالت کا کیس ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے رجسٹرار نے کمیٹی فیصلے کو اپنے دفاع میں پیش کیا ہے وہ کمیٹی فیصلہ درست تھا یا نہیں ہم اس کا جائزہ لے سکتے ہیں اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ماضی کے فیصلے پیش کرنا چاہتا ہوں جب جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ بنی قاضی فائز عیسی کیس، افتخار چوہدری کیس، ملک ایس علی کیس کی نظیر موجود ہے عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے بیرسٹر صلاح الدین نے رجسٹرار سپریم کورٹ اختیارات کا کیس نے استفسار کیا ہے جسٹس منصور اٹارنی جنرل جوڈیشل آرڈر کے اختیارات توہین عدالت واپس لے لیا ہے یا نہیں ججز کمیٹی کمیٹی کے عدالت کا کمیٹی کو نے کمیٹی کمیٹی کا عدالت کی عدالت نے جنوری کو سکتے ہیں کورٹ میں رہے ہیں فل کورٹ کیس میں سکتا ہے سکتی ہے لیا جا کر دیا کیس کی یہ کیس اس کیس کا کام کے لیے کو بھی کیا کہ
پڑھیں:
بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس کو خط
سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے پر تینوں ججز کی طرف سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھ دیا۔ تینوں ججز نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے۔ خط کے متن کے مطابق ریاست بنام دیوان موٹرز کے کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کر سکتا ہے۔؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی تھی۔ 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کر دیا گیا، جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے۔ خط میں کہا گیا کہ ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے پیش کیا جائے، آج ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے۔
متن کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کر دیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی۔ آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت آج کے لیے مقرر کر سکتی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کر سکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ آج 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آسر کے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کئے گئے آرڈر پر عمل درامد ہونا چاہئے۔ آفس کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ آج ایک بجے مذکورہ کیس کو فکس کرے۔