صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد200کے قریب ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیئے ہیں ان کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے دوسرے روزبھی درجنوں ایگزیکٹو آرڈرزجاری کیئے جانے کا امکان ہے ان کے پہلے صدارتی احکامات میں سابق صدر جو بائیڈن کے درجنوں اقدامات کی منسوخی، آب و ہوا کے معاہدوں سے امریکہ کی علیحدگی اور ٹرمپ کے خلاف تمام مقدمات اور تحقیقات ختم کرنا شامل ہیں.
(جاری ہے)
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ایگزیکٹو آرڈرز کے علاوہ صدرٹرمپ نے سرحدی گزرگاہوں، تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار میں اضافے، تنوع اور فنڈنگ پر کنٹرول سے متعلق احکامات پر دستخط کیئے ہیںصدر ٹرمپ کے انتخابی وعدوں اور ری پبلکن پارٹی کی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کے ابتدائی اقدامات اور مستقبل کے منصوبوںکے مطابق انہوں نے کیپیٹل ون ایرینا میں ٹی وی کے لیے بنائے گئے اپنے پہلے ڈسپلے میں ایک علامتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جن کا تعلق وفاقی اداروں کو مہنگائی سے نمٹنے کی ہدایات سے ہے. ان احکامات میں سابق صدر بائیڈن کے متعدد اقدامات کی منسوخی، قدرتی گیس اور تیل پر محصولات میں کمی اور الاسکا سے تیل نکالنا شامل ہے تاہم ابھی انہوں نے چین، میکسیکو ، کینیڈا اور دیگر ممالک کی امریکہ بھیجنے والی مصنوعات پر نئے محصولات کا حکم ابھی نہیں دیا ہے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ خلیجِ میکسیکو کا نام بدل کر خلیجِ امریکہ بنانے کا حکم جاری کریں گے اس کے علاوہ امریکہ کی سب سے بلند پہاڑی چوٹی کا نام تبدیل کر کے ماﺅنٹ مک کینلی کر دیا جائے گا یہ ایگزیکٹو آرڈر ابھی جاری ہونا ہیں تاہم اپنے خطاب میں انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی کے نفاذاور تیل کی پیدوار میں اضافے کے لیے نئے ذخائرکی تلاش‘الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق صدربائیڈن کے احکامات کی منسوخی‘ملک میں صنعتی پیدوارمیں اضافہ‘مہنگائی میں کمی سمیت کئی اہم اعلانات کیئے ہیں. ٹرمپ نے بائیڈن دور کے متعدد امیگریشن احکامات کو تبدیل کر دیا ہے جن کے تحت امریکہ میں رہنے والے ہر غیر قانونی شخص کی ملک بدری اولین ترجیح ہو گی ٹرمپ امریکہ کی میکسیکو کی سرحد پر قومی ہنگامی حالت نافذ کرنے اور امیگریشن ایجنٹوں کی مدد کرنے والوں اور پناہ گزینوں کی تعداد محدود کرنے کے لیے فورسز استعمال کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں. ٹرمپ نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ پیدائش کی بنیاد پر شہریت کو ختم کر دیں گے تاہم اس بارے میں امریکی ماہرین قانون کہتے ہیں کہ یہ آئین میں دیا گیا بنیادی حق ہے جسے صدارتی حکم نامے سے ختم کرنا ممکن نہیں ٹرمپ بائیڈن دور کا سی بی پی ون ایپ کو بھی ختم کر رہے ہیں جس سے تقریباً 10 لاکھ تارکینِ وطن قانونی طور پر امریکہ داخل ہوئے تھے ٹرمپ نے توقع کے مطابق ان احکامات پر بھی دستخط کیے ہیں جس سے امریکہ باضاطہ طور پر پیرس کلائمٹ چینج کے معاہدوں سے نکل جائے گا انہوں نے اپنے عہدے کی پہلی مدت کے دوران بھی ایسا ہی کیا تھا جسے سابق صدر بائیڈن نے الٹ دیا تھا. ٹرمپ نے فوج اور کچھ حصوں کے علاوہ جن کے نام نہیں بتائے گے، وفاقی اداروں میں نئی بھرتیوں کو روک دیا ہے وہ وفاقی ملازمتوں میں ایک نیا نظام لانا چاہتے ہیں جس سے وفاقی کارکنوں کی برطرفی آسان ہو جائے گی ٹرمپ وفاقی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شنسی کے نام سے ایک بااختیار ادارہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کی قیادت دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کریں گے اس کا اعلان بھی انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں کیا ہے. ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی تقریر میں کہا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈز کو دیے جانے والے تحفظات واپس لے رہے ہیں اور وفاقی حکومت صرف مرد اور عورت کی جنس کو تسلیم کرے گی اس کے علاوہ وہ وفاقی حکومت کے تنوع اور مساوات کے پروگراموں کو بھی ختم کر رہے ہیں ٹرمپ نے کرونا وبا کے دوران ویکسین لگوانے سے انکار پر ملازمتوں سے برطرف کیئے گئے وفاقی ملازمین کو ان کی مراعات اور ترقیوں سمیت بحال کرنے کا بھی اعلان کیا ہے. ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے چھ جنوری 2021 پر کپیٹل بلڈنگ پر حملہ کرنے والے16سوافراد کے خلاف وفاقی مقدمات ختم کرنے کا حکم دیا ہے اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس حملے میں سزا پانے والوں کو معافی دے دیں گے تاہم اپنی افتتاحی تقریر میں انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا تھا. امریکا کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوراً بعدونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جو بائڈن کے دور اقتدار میں جاری کردہ 78 صدارتی حکم ناموں کو منسوخ بھی کیا ہے امریکہ میں کسی بھی نئے صدر کی جانب سے عہدہ سنبھالتے ہی ایگزیکٹیو حکم ناموں پر دستخط کرنا عام سی بات ہے لیکن امریکی میڈیا ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ وائٹ ہاﺅس میں اپنے پہلے ہی دن 200 سے زیادہ حکم ناموں پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںاور اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو یہ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی روز جاری کردہ حکم ناموں کی سب سے بڑی تعداد ہو گی. امریکی آئین کا آرٹیکل 2 صدر کو ایگزیکیٹیو آرڈر جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے کبھی کبھار اس نوعیت کے احکامات اندرونی بحران سے بچنے کے لیے یا جنگی صورتحال میں جاری کیے جاتے ہیں جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں فروری 1942 میں صدر فرینکلن ڈی روساویلٹ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ایک لاکھ 20 ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کے لیے حراستی مراکز بنانے کا حکم دیا تھا اس کے علاوہ 1952 میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے ہڑتال سے بچنے کے لیے صدر ہیری ٹرومین نے سٹیل انڈسٹری کو حکومتی کنٹرول میں دے دیا تھا صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں نے میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکمنامے پر دستخط کرتے ہوئے کہاکہ یہ بہت بڑا ہے انہوں نے چند مجرمانہ گروہوں کو دہشت گرد تنظیم نامزد قرار دیا ہے اور ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو حاصل شہریت کے حق سے متعلق حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں. ٹرمپ نے ایک ایسے حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت چار ماہ کے لیے امریکی پناہ گزینوں کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کیا گیا ہے اس فیصلے سے متعلق تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں ٹرمپ کے دستخط کردہ ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر میں امریکی فوج کو ملک کی سرحدیں سیل کرنے کا حکم دیا ہے یہ حکم نامہ جاری کرنے کے لیے منشیات کی ترسیل، انسانی سمگلنگ اور سرحدی علاقوں میں جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے صدر نے ایک ایسے حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت بین الاقوامی منشیات فروش اور جرائم پیشہ گروہوں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے سلواڈور کے پناہ گزینوں پر مشتمل گینگ ”ایم ایس 13 “اور وینزویلا کے گینگ”Tren de Aragua“ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنوبی سرحد پر اپنے ہنگامی اعلان کے ایک حصے کے طور پر صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ وہ امریکہ کی جنوبی سرحد کے ساتھ اضافی رکاوٹیں تعمیر کرنے کی کوششیں کا دوبارہ آغاز کریں یہ ہدایت کسی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت جاری نہیں کی گئی اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس کام کے لیے فنڈنگ کہاں سے حاصل کی جائے گی یاد رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں دیوار کی تعمیر کے لیے درکار فنڈز کا حصول ہی اس کام کو مکمل کرنے میں اہم رکاوٹ تھا. صدر ٹرمپ نے چینی ملکیت والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم’ ’ٹک ٹاک“ پر پابندی کے قانون کے نفاذ کو آئندہ 75 دنوں کے لیے ملتوی کرنے کے ہدایت نامے پر بھی دستخط کیے ہیں ٹک ٹاک انتظامیہ نے ٹرمپ کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے یاد رہے کہ ٹرمپ کے عہدے کا حلف اٹھانے سے کچھ دیر قبل ٹک ٹاک نے کچھ وقت کے لیے امریکہ میں اپنی سروسز کو بند کر دیا تھا تاہم یقین دہانی کے بعد سروسز کو بحال کر دیا گیا تھا. صدرٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے اس اقدام سے ٹک ٹاک انتظامیہ کو امریکہ میں اپنا پارٹنر تلاش کرنے کے لیے مزید وقت ملے گا تاہم فی الحال جس ہدایت نامے پر ٹرمپ نے دستخط کیے ہیں اس کی مزید تفصیلات واضح نہیں ہیں یاد رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں ٹک ٹاک پر پابندی کے حامی تھے تاہم اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی انتخابی مہم کے دوران ملنے والی بڑی مقبولیت کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا ہے. ٹرمپ نے ایک ایسے ہدایت نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشیئنسی تخلیق کیا جائے گا اس ادارے کا مقصد حکومت کی کارکردگی کو بہتر اور موثر بنانا ہے ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکاکی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کو اس نئی ایجنسی کے قیام کے بعد تقریباً 20 ملازمین اور نیا دفتر ملے گا ٹرمپ نے ایک اور دستاویز پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وفاق حکومت کے ملازمین کو ورک فرام ہوم یعنی گھروں سے کام کرنے کے بجائے آفس آ کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے. ڈونلڈ ٹرمپ نے آزادی اظہار کی بحالی اور حکومتی سنسرشپ کو روکنے کے لیے بھی ایک حکم نامہ جاری کیا ہے حکم نامے میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گذشتہ انتظامیہ کے دور میں محکمہ انصاف، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن جیسی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی سرگرمیوں کی چھان بین کرے نئے امریکی صدر کی جانب سے ایک ہدایت نامے پر دستخط کیے گئے ہیں جس کا مقصد سیاسی مخالفین کے خلاف حکومت کو بطور ہتھیار استعمال روکنے کی کوشش ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدہ ہونے کا عمل شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کو عالمی ادارہ صحت سے الگ کرنے کرنے کی کی دوسری کوشش ہے ٹرمپ کوویڈ 19 کے دوران عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے ناقد رہے ہیں وبائی امراض کے دوران بھی انہوں نے امریکہ کے ڈبلیو ایچ او چھوڑنے کا شروع کیا تھا تاہم ان کے بعد آنے والے صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا. ٹرمپ کی جانب سے دستخط کیے جانے والے پہلے ہدایات ناموں میں ایک دستاویز بائیڈن دور میں جاری ہونے والے تقریباً 80 ہدایت ناموں کو منسوخ کرنے کے متعلق ہے امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ منسوخ کیے گئے ضوابط کس بارے میں تھے ٹرمپ نے ایک ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے تمام وفاقی ایجنسیوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک کوئی بھی نئے ضوابط جاری کرنے سے روک دیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ صرف دو جنسوں کو تسلیم کرے گا مرد اور عورت تیسری کسی جنس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران تعلیمی اداروں ‘فوج اور حکومتی اداروں کو ہم جنس پرستوں سے پاک کرنے کی پالیسی کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں اس حکم نامے سے حکومتی مواصلات، شہری حقوق کے تحفظات اور وفاقی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ جیلوں کے حوالے سے ٹرانس جینڈر پالیسیاں متاثر ہوں گی اس سے پاسپورٹ اور ویزا جیسی سرکاری دستاویزات پر بھی اثر پڑے گا اسی حکم نامے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تمام سرکاری پروگراموں، پالیسیوں، بیانات اور مواصلات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے جو ”جنسی نظریہ“ کو فروغ دیتی ہیں یا اس کی حمایت کرتی ہیں. ایک علیحدہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ٹرمپ نے وفاقی حکومت کے تحت تمام ڈی ای آئی پروگراموں کو روکنے کا حکم دیا ہے ڈی ای آئی ایسے پروگرام ہیں جن کے تحت کام کی جگہوں پر شفافیت، عزت اور سب کی شمولیت جیسے عوامل کو فروغ دیا جاتا ہے ایک حکم نامے کے ذریعے صدر ٹرمپ نے تمام وفاقی اداروں اور ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عام امریکی شہریوں کی ”کاسٹ آف لیونگ‘ ‘یعنی گزر بسر کے لیے درکار اخراجات کو کم کرنے کی کوششیں کریں یہ واضح نہیں ہے کہ اس ضمن میں کس ادارے یا ایجنسی کو کیا کام تفویض کیا گیا ہے . صدر ٹرمپ نے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبرداری کے ایگزیکٹیو حکم نامے پر بھی دستخط کر دیے ہیں ٹرمپ نے ایک ایسے خط پر بھی دستخط کیے ہیں جو اقوام متحدہ کو بھیجا جائے گا اور جس میں امریکہ کے اس اقدام کی وجوہات درج ہوں گی ٹرمپ نے امریکہ میں تیل کے دستیاب سٹریٹجک ذخائر کو دوبارہ بھرنے کا وعدہ کرتے ہوئے قومی توانائی کے شعبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بھی کیا ہے. انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت ریاست الاسکا میں دستیاب غیر معمولی قدرتی وسائل کی صلاحیت سے مستفید ہونا ہے یہ حکم نامہ تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال قبل امریکی کیپیٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ملوث تقریباً 1600 افراد کے لیے معافی اور سزا میں کمی کا ایگزیکٹیو حکم بھی جاری کر دیا ہے اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ انصاف کو کیپیٹل ہل فسادات میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف تمام زیر التوا مقدمات ختم کر نے کا حکم جاری کیا ہے صدر ٹرمپ کی جانب سے جن افراد کو معافی دی گئی ہے ان میں اوتھ کیپر گروہ کے رہنما سٹیورٹ رہوڈز شامل ہیں جنہیں 2023 میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی پراوڈ بوائز کے سابق رہنما ہنری ٹیریو جنہیں بغاوت کی سازش کے الزام میں 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کی بھی رہائی کی امید ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نامے پر بھی دستخط کیے ہیں دستخط کیے ہیں جس کے تحت حکم نامے پر بھی دستخط ایگزیکٹو آرڈر ہدایت نامے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی اداروں کا حکم دیا ہے پر دستخط کیے سنبھالنے کے ٹرمپ نے ایک نے ایک ایسے اس کے علاوہ امریکی صدر امریکہ میں کیا گیا ہے کی جانب سے اپنے پہلے امریکہ کی کرتے ہوئے واضح نہیں امریکہ کے نے کا حکم انہوں نے کے ذریعے ہیں ٹرمپ کے مطابق کے دوران ہے کہ وہ دیا تھا ٹرمپ کے کرنے کا کرنے کے کے خلاف کی سرحد جائے گا نے والے کرنے کی رہے ہیں کیا ہے کے لیے صدر کی کے دور کر دیا ٹک ٹاک کے بعد
پڑھیں:
دنیا پر ٹرمپ کا قہر
جب امریکا کسی ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے، کسی پر پابندیاں لگا رہا ہے، کسی پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے گویا خود کو پوری دنیا کا مالک اور ٹھیکیدار سمجھ رہا ہے پھر اپنی ہر زیادتی کو اپنا استحقاق بھی سمجھ رہا ہے تو ایسے میں دنیا میں افراتفری، انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے پھر جب سب کچھ امریکا کو ہی کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
امریکا تو اپنی من مانی کر ہی رہا ہے، اس کا بغل بچہ اسرائیل اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہا ہے، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اسے روک یا ٹوک سکے۔ اقوام متحدہ میں حالانکہ اسرائیل کے خلاف اسے جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے آقا امریکا نے کسی کو پاس نہ ہونے دیا اور اگر کوئی پاس بھی ہو گئی تو اس پر عمل نہ ہونے دیا۔
چنانچہ غزہ کیا پورے فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے پہلے لوگ او آئی سی کو بے حس گھوڑا کہتے تھے مگر اب تو اقوام متحدہ کا اس سے بھی برا حال ہے اگر اقوام متحدہ امریکا کے آگے بے بس ہے تو پھر اسے بند ہی کر دینا چاہیے اور امریکا بہادر کو من مانی کرنے دی جائے۔
اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ تمام ہی ممالک امریکا سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سوچنا شروع کریں گے ابھی تو دنیا اپنے معاملات کے لیے یو این او کی جانب دیکھتی ہے مگر ان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کہ تمام معاملات کو UNOخود نہیں امریکی مرضی سے نمٹاتی ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا غلام ہے وہ صرف اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کو دیکھتا ہے اسے کسی ملک کی پریشانی یا مشکل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کے دائیں بازو کے حکمرانوں، مذہبی طبقے اور افغان مجاہدین کو خوب خوب استعمال کیا۔ پھر پاکستان نے امریکی گلوبل وار آن ٹیررزم میں ہزاروں جانیں گنوائیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست سے نکال کر چین سے تعلقات توڑنے پر زور دینے لگا۔
امریکی حکمرانوں کو اگر اپنے ہم وطنوں کے علاوہ کسی کی پرواہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ امریکی ویٹو پاور اسرائیل کے کھل کر کام آ رہی ہے۔ وہ امریکی سپورٹ کے بل بوتے پر عربوں کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اور کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے ذرا نہیں ہچکچا رہا ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ یہ حرکت کر سکتا ہے اور اگر ایران نے پلٹ کر وار کیا تو پھر امریکا اسے معاف نہیں کرے گا اور اسے اپنے مہلک ترین میزائلوں سے نشانہ بنا دے گا۔
اب بتائیے تقریباً دو سال سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر امریکا سمیت تمام یورپی ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں انھوں نے اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے کتنے ہی ممالک کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے، اگر اس کے مفادات اور برتری قائم رکھنے کے راستے میں روس اور چین آڑے نہ آتے تو وہ پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرا دیتا۔
دراصل امریکا کی برتری اس کی فوجی طاقت ہے۔ معیشت تو اس کی بھی ڈانواڈول ہے۔ وہ دنیا کو صرف اپنی فوجی طاقت سے ڈراتا رہتا ہے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس سے بڑا اس کے لیے اور کیا لمحہ فکریہ ہوگا کہ وہ خود 36 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکی معیشت روز بہ روز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھال کر امریکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ہی مختلف اقدام کیے ہیں جن میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ امریکی ایڈ ختم کرنے سے لے کر ٹیرف کا بڑھایا جانا انھی اقدام میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لگائے گئے ٹیرف کو امریکا کے لیے مفید قرار دے دیتے ہوئے تین روز قبل اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا کیا تو اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔
اسٹاک ایکسچینجوں میں لوگوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ، وال اسٹریٹ میں کہرام بپا ہوا۔ جب خود امریکی عوام ٹرمپ کے اس اقدام سے بے زارنظر آتے ہیں تو ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے ٹیرف کے نافذ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ،البتہ چین کے خلاف 125 فی صد ٹیرف برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اقدام سے خود پاکستان کے بری طرح متاثر ہونے کا امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور اس میں اسے کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں جس سے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو چلی تھی مگر ٹرمپ نے پاکستانی برآمدات پر29 فی صد بھاری محصول عائد کرکے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
دراصل امریکا پاکستانی مصنوعات کی ایک فائدہ مند منڈی ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کا آغاز کرنے جارہا ہے مگر یہاں تو دنیا کا ہر ملک ہی امریکی حکومت سے اس کے ٹیرف کو کم کرنے پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا ٹرمپ اپنے اعلان کردہ محصولات سے مستقل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ؟ان کی سخت طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں ہے مگر انھیں پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ خود امریکی معیشت پہلے سے زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔
اس وقت دنیا کی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت انجام پا رہی ہے اس کے اصول بنانے میں بھی امریکی ہاتھ تھا اب خود امریکا اپنے مفاد کی خاطر عالمی تجارت کو ایسا نقصان پہنچانے جا رہا ہے جس کا نقصان اسے خود بھی بھگتنا پڑے گا اور ٹرمپ کو عوامی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
انھیں چاہیے کہ امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسرے اقدام اٹھائیں۔ ٹیرف کے نفاذ کو اگر مناسب سطح پر بھی لے آئیں جس سے عالمی تجارت رواں دواں رہے اور چھوٹے ممالک کو نقصان نہ ہو تو اس سے نہ صرف امریکی امیج برقرار رہے گا بلکہ شاید اگلی بار انتخابات میں کامیابی ٹرمپ کا پھر مقدر بن جائے۔