کامی کازے ڈرونز اور شمال مشرقی ایشیا کا نیا منظر نامہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کا عمومی تصور ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا جو جنگ کے ہولناک نتائج سے بخوبی واقف ہے اور تصادم کے بجائے مفاہمت کے راستے کو ترجیح دیتا ہے۔ جاپانی آئین کی اہم شق آرٹیکل نائن کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ: ’’جاپان ہمیشہ کے لیے جنگ کے حق سے دستبردار ہو گیا ہے اور کسی بھی بین الاقوامی تنازعے کو حل کرنے کے لیے جنگ یا فوجی طاقت استعمال نہیں کرے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت جاپان کو اپنی فوج برقرار رکھنے یا جارحانہ جنگ کے لیے ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا مقصد جاپان کو ایک پْرامن ملک کے طور پر قائم رکھنا ہے جو عالمی امن اور استحکام کے لیے کام کرتا ہے‘‘۔ لیکن جاپان کے حالیہ چند اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جاپانی دفاعی نظام اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی اور تزویراتی حکمت عملی کو مرکزی اہمیت دی جا رہی ہے۔ جاپانی حکومت نے 2026 کے مالی سال میں ’’کامی کازے’’ ڈرونز کو اپنی فوجی قوت میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ جدید ہتھیار، جو مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، جاپان کے دفاعی عزائم اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
’’کامی کازے‘‘ جاپانی زبان میں ’’الٰہی ہوا‘‘ یا ’’خدائی ہوا کے جھکڑ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اصطلاح جاپانی تاریخ کے دو اہم مواقع پر سامنے آئی۔ پہلی بار یہ اصطلاح 13 ویں صدی میں منگول حملوں کے دوران استعمال کی گئی، جب ایک طوفان نے جاپان پر حملہ کرنے والے منگول بیڑے کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی پائلٹس کے خودکش مشنز کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جاپان اپنے جنگی جہازوں میں یکطرفہ ایندھن بھر کر خودکش مشن کے لیے بھجواتا اور پائلٹس اپنے طیارے دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکرا کر خود کو قربان کردیتے۔ اور آج، یہ نام جدید ٹیکنالوجی کے ایک نئے ہتھیار، یعنی کامی کازے ڈرونز، کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو رہا ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق جاپان ایک پیچیدہ علاقائی ماحول میں گھرا ہوا ہے۔ چین مشرقی بحیرہ چین میں اپنی فوجی سرگرمیوں کو بڑھا رہا ہے، خاص طور پر متنازع سینکاکو جزائر کے ارد گرد۔ شمالی کوریا کے میزائل تجربات اور جوہری منصوبے بھی جاپان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ تزویراتی ماہرین کے مطابق، جاپان کا یہ اقدام ان خطرات کے تناظر میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ نانسی جزائر، جو کیوشو اور تائیوان کے درمیان واقع ہیں، جاپان کے لیے ایک اہم اسٹرٹیجک علاقہ ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے کامی کازے ڈرونز انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ جاپان کے دفاعی نظام میں ان ڈرونز کی شمولیت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ جاپانیوں کے مطابق، یہ جدید ہتھیار مہنگے اور زیادہ دیکھ بھال کے متقاضی ہیلی کاپٹروں پر انحصار کم کرنے میں مدد کریں گے۔ ان ڈرونز کی کم لاگت اور خود مختار کارکردگی انہیں موجودہ جنگی ضروریات کے لیے ایک عملی حل بناتی ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں جاپان کے اس اقدام سے خطے میں طاقت کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اس فیصلے کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف ایک مؤثر قدم کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک اسے جاپان کے دفاعی عزائم کے حوالے سے شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ چینی حکومت نے پہلے بھی جاپان کے دفاعی بجٹ میں اضافے اور جدید ہتھیاروں کی شمولیت پر تنقید کی ہے۔ تزویراتی ماہرین کے مطابق، جاپان کے اس فیصلے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات امن اور استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔
جاپانی حکومت کے مطابق، یہ اقدام خطے میں امن و امان قائم رکھنے اور اپنے عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جاپانی دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ صرف ایک دفاعی حکمت عملی نہیں بلکہ جاپان کی عالمی سطح پر ایک مؤثر اور ذمے دار اتحادی کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ ڈرونز نہ صرف جاپانی تاریخ کی یادگار ہیں بلکہ جدید جنگی حکمت عملی میں جاپان کی پیش رفت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جاپان کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ابتدائی طور پر 310 چھوٹے حملہ آور ڈرونز فوج میں شامل کیے جائیں گے۔ یہ ڈرونز بکتر بند گاڑیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں اور ان کی تیاری کے لیے اسرائیل، آسٹریلیا، اور اسپین سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے ماڈلز کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ تزویراتی نقطہ نگاہ سے، یہ ڈرونز جدید جنگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موزوں ہیں، جیسا کہ یوکرین تنازعے میں ڈرونز کے کلیدی کردار سے واضح ہوا۔
بین الاقوامی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جاپان کے دفاعی بجٹ کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جاپانی حکومت نے 2025 کے مالی سال میں اس منصوبے کے لیے 3.
جنگ مخالف گروپس اس عمل کو جاپانی آئین کے آرٹیکل نائن کا حوالہ دیتے ہوئے ہدف تنقید بنارہے ہیں، واضح رہے کہ آرٹیکل نائن جسے امن پسندی کی شق بھی کہا جاتا ہے، جاپان کو جنگ کے حق سے دستبردار ہونے اور کسی بھی قسم کی جارحانہ فوجی تیاری سے باز رہنے کا پابند کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت جاپان کی فوجی قوت کو صرف دفاعی مقاصد تک محدود رکھا گیا ہے۔ تاہم، کامی کازے ڈرونز کی شمولیت کو اس آئینی شق کی روح کے خلاف قرار دیا جارہا ہے۔
دفاعی تیاریوں کے ان مخالف دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جاپان کی امن پسندی کے بنیادی اصولوں سے انحراف کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے مطابق، جدید اور جارحانہ نوعیت کے ہتھیاروں کی تیاری یا حصول نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے خطے میں کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان کو ایسے اقدامات کے بجائے خطے میں امن و استحکام کے لیے سفارتی ذرائع کو فروغ دینا چاہیے۔ بعض ناقدین کے مطابق، یہ اقدامات جاپان کی دفاعی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ملک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جارحانہ دفاعی اقدامات کی طرف بڑھا رہا ہے۔ ان کے بقول، کامی کازے ڈرونز جیسے ہتھیار، جو مخصوص اہداف کو تباہ کرنے کے لیے خود مختار طور پر تیار کیے گئے ہیں، دفاعی سے زیادہ جارحانہ نوعیت کے ہیں، جو آئین کے آرٹیکل نائن کی بنیادی روح کے خلاف ہیں۔
دوسری جانب اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جاپانی آئین کے آرٹیکل نائن کی حالیہ تشریح اور اس میں نرمی لانے کی کوششیں جاپان کی بدلتی ہوئی جغرافیائی اور تزویراتی ضروریات کا نتیجہ ہیں۔ ماضی قریب میں سابق وزیر ِ اعظم شنزو آبے کی قیادت میں اس آئینی شق کی نئی تشریح کا عمل شروع ہوا، جس کے تحت جاپان کو اپنی ’’کلیکٹو سیلف ڈیفنس‘‘ کی صلاحیت بڑھانے کی اجازت دی گئی۔ 2015 میں جاپانی پارلیمنٹ نے ایک متنازع قانون منظور کیا جس کے تحت جاپان کی سیلف ڈیفنس فورسز کو اتحادیوں کے دفاع میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، حتیٰ کہ اگر خود جاپان پر حملہ نہ ہوا ہو۔ یہ اقدامات آبے حکومت کی جانب سے چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت، شمالی کوریا کے میزائل پروگرام، اور خطے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے ردعمل کے طور پر اٹھائے گئے۔ ان کا استدلال تھا کہ جاپان کو اپنی دفاعی حکمت عملی کو ان خطرات کے مطابق ڈھالنا ہوگا جو روایتی دفاعی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس نئی تشریح نے جاپان کو جدید ہتھیاروں کی تیاری اور حصول کی طرف بڑھنے کی راہ ہموار کی، جس میں کامی کازے ڈرونز جیسے نظام بھی شامل ہیں۔ تاہم، یہ تبدیلیاں نہ صرف داخلی طور پر تنقید کا باعث بنیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جاپان کی امن پسند پالیسیوں پر سوالات اٹھائے گئے، خاص طور پر ان ممالک کی جانب سے جو جاپان کی دوبارہ عسکری قوت کو خطے کے امن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ تنقید اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جاپان کی تزویراتی تبدیلیوں کے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر کیسے مختلف تاثرات پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ اس اقدام کے طویل مدتی اثرات پر ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کامی کازے ڈرونز ماہرین کے مطابق کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ا رٹیکل نائن کے تحت جاپان ہتھیاروں کی جدید ہتھیار حکمت عملی کی شمولیت کے طور پر سکتے ہیں جاپان کو کرتے ہیں ڈرونز کی یہ اقدام جاپان کی ایک اہم رہے ہیں کے خلاف کو اپنی اور اس جنگ کے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
بنگلہ دیشی کمانڈر کی پاکستانی بحریہ کے حکام سے ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2025ء) پاکستانی بحریہ نے بتایا کہ بنگلہ دیشی مسلح افواج کے ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف ایس ایم قمر الحسن نے اتوار کے روز پاک بحریہ کے سینیئر حکام سے ملاقات کی اور علاقائی میری ٹائم سکیورٹی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستانی نیوی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل حسن نے پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی کے دورے کے دوران پاکستانی بحریہ کے جہازوں اور یونٹس کا دورہ کیا۔
بنگلہ دیش کے سینیئر آرمی جنرل کا پاکستان کا غیر معمولی دورہ
پاکستانی بحریہ کے مطابق بنگلہ دیشی جنرل نے پاکستانی فلیٹ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل عبدالمنیب، کمانڈر کوسٹ، ریئر ایڈمرل فیصل امین اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس کے مینیجنگ ڈائریکٹر ریئر ایڈمرل سلمان الیاس سے ملاقاتیں کیں۔
(جاری ہے)
واضح رہے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن پاکستان کے غیر معمولی دورے پر ہیں اور انہوں نے گزشتہ منگل کو راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا تھا اور پاکستانی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔
بنگلہ دیش، پاکستان کے مابین مفاہمت کے بھارت پر ممکنہ اثرات
پاکستانی بحریہ نے میٹنگ کے حوالے سے کیا کہا؟ڈی جی پی آر نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، "ان مصروفیات کے دوران علاقائی میری ٹائم سکیورٹی اور دو طرفہ دفاعی تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے پیشہ ورانہ امور پر بات چیت کی گئی۔"
بیان میں مزید کہا گیا، "دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں، باہمی دورے اور تربیتی تبادلے جیسے پروگرام سمیت تعاون کے مختلف ممکنہ شعبوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
"ایک دور تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک قوم تھے، تاہم سن 1971 میں خونریز خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک دوسرے سے سے جدا ہو گئے اور اس طرح، جو حصہ مشرقی پاکستان کے نام سے معرف تھا، وہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک بن کر ابھرا۔
پاکستانی بنگلہ دیشی قربت، جنوبی ایشیائی سیاست میں نیا موڑ
اس کے بعد کے سے بنگلہ دیشی رہنماؤں، خاص طور پر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے، بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کا انتخاب کیا۔
البتہ گزشتہ اگست میں طلبا کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔اس تناظر میں پاک بحریہ نے کہا کہ "لیفٹینٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کے دورے سے دونوں برادر ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، تعاون کو بڑھانے اور پاکستان اور بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی توقع ہے۔
"تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں تعطل کا شکار رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر بار بار پاکستان کی طرف سے امن کی کوششوں کو مسترد کیا۔ لیکن ان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں واضح بہتری آئی ہے۔
دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران قیادت کی سطح پر کئی ملاقاتیں کی ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے پرعزم
تجارت کو فروغ دینے کے اقداماس سے قبل ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) نے ایک بیان میں کہا کہ وہ 19 اور 20 جنوری کے درمیان دو تجارتی وفود بنگلہ دیش بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ دوطرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کو بڑھایا جا سکے کیونکہ دونوں ممالک کشیدہ تعلقات درست ہونے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ٹی ڈی اے پی نے کہا، "کھجور کے 13 برآمد کنندگان پر مشتمل پہلا وفد 19 جنوری کو ایک ہفتہ کے دورے پر روانہ ہو گا، جبکہ لیموں کی تجارت پر مشتمل دوسرا وفد 20 جنوری کو بزنس ٹو بزنس میٹنگ کے لیے روانہ ہو گا۔"
بھارت: پاکستانی فوج کے 'ہتھیار ڈالنے' والی پینٹنگ پر تنازعہ کیا ہے؟
ادارے نے مزید کہا کہ یہ وفود تجارتی مواقع تلاش کریں گے، کاروباری شراکت داری کو فروغ دیں گے اور بنگلہ دیشی مارکیٹ میں پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو فروغ دیں گے۔
یہ پیشرفت پاکستان اور بنگلہ دیشی تاجروں کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کے چند دن بعد ہوئی ہے۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار بھی فروری کے آغاز میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ڈھاکہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)