WE News:
2025-04-19@12:15:20 GMT

پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ کیوں آیا؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

دو تین ہفتے قبل وی نیوز کے لئے اپنے کالم میں پاکستان اور اٖفغانستان کے درمیان بڑھتی تلخی کے حوالے سے لکھا تھا، تب یہ ذکر کیا کہ اس ایشو پر افغان امور کے ایک بہت باخبر اور رموز شناس مفتی عبدالرحیم نے جو تفصیلی پوڈکاسٹ کئے ہیں، ان پر بھی بات کروں گا۔ ہوا مگر یہ کہ اس کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے ٹیرف وار مسلط کر کے پوری دنیا کو ہلا دیا، ہم لکھنے والوں کی توجہ بھی اسی طرف ہوگئی اور دیگر ایشوز پیچھے چلے گئے۔

اب زرا معاملہ کچھ دنوں کے لئے پرسکون ہوا ہے تو پھر سے افغان مہاجرین اور پاک افغان باڑ والا معاملہ یاد آیا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب افغانستان کے ایک بڑے محسن مولانا رشید احمد لدھیانوی مرحوم کے شاگرد رشید اور ان کی فکر کے وارث ہیں۔ جامعتہ الرشیدجیسی ممتاز دینی درسگاہ کے سربراہ اور نامور دینی سکالر ہیں۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کا افغانستان میں بہت وقت گزرا۔ طالبان کی پچھلی حکومت میں ان کے ساتھ گہرا تعلق رہا، طالبان کی تعمیر وترقی میں بہت مدد کی۔ امریکہ کے خلاف طالبان کی تحریک مزاحمت میں مفتی صاحب جیسے لوگ افغان طالبان کے ہمدرد اور معاون رہے۔ افغانستان کا چپہ چپہ انہوں نےدیکھا ہوا ہے اور وہاں کے حالات پر گہری نظر ہے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کے پوڈ کاسٹ “جے ٹی آر میڈیا” پر موجود ہیں، تین پارٹ ہیں، سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ افغان ایشو، پاکستان کی پوزیشن اور اس حوالے سے موجود نزاکتوں، پیچیدگیوں کو انہوں نے بڑے عام فہم اور سلیس انداز میں بیان کر دیا ہے۔ مفتی صاحب افغان طالبان اور پاک افغان تعلقات کے مختلف ادوار کے محرم راز ہیں، بہت سے اہم اور حساس راز ان کے سینے میں دفن ہیں۔ وہ معاملات کی نزاکت اور حساسیت کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور کبھی غیر ضروری نکتہ سنجی نہیں کرتے۔ اس بار مگر انہوں نے خاصا کھل کر گفتگو کی۔

ان پر یہ تنقید بھی ہوئی کہ انہوں نے اتنے عرصے بعد کیوں زبان کھولی ۔ اپنی گفتگو کی تیسری نشست میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بائیس تیئس سال خاموش رہے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو تب پاکستان اور افغانستان دونوں کو نقصان پہنچ جاتا۔ اب افغان طالبان اور امریکہ کی جنگ ختم ہوگئی، غیر ملکی افواج واپس چلی گئیں، صورتحال پہلے جیسی نہیں۔ اب بھی وہ مجبور ہو کر یہ چیزیں بیان کر رہے ہیں کیونکہ انہیں لگ رہا ہے کہ اگر خاموش رہے تو یہ غلط ہوگا اور گناہ کے زمرے میں آئے گا۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پاک افغان بارڈز پاکستانیوں کے لئے پاک بھارت بارڈر سے بھی زیادہ خطرناک اور پریشان کن ہے۔ پاک افغان بارڈر چھبیس سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، یہاں سے پاکستان کی سالمیت، معیشت اور امن وامان کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

مفتی عبدالرحیم نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں خاص کر سی آئی اے، ایف آئی اے ، ایم آئی سکس وغیرہ کا بہت اثرونفوذ ہوگیا تھا۔ صرف کراچی میں امریکیوں ایجنسیوں نے پانچ ہزار کے قریب نوجوان اپنے طور پر بھرتی کئے، اسی طرح تب جو فاٹا کہلاتا تھا، اس کی ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں بڑے پیمانے پر ان ایجنسیوں نے بھرتیاں کیں۔

مفتی صاحب کے مطابق امریکیوں نے کراچی کو برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس کو دے رکھا تھا، اسی ایجنسی ہی نے کراچی میں الطاف حسین وغیرہ سے اپنے راوبط استوار کئے اور دیگر معاملات بھی چلتے رہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حساس ادارے بہت پریشان اور مضطرب رہے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کے مطابق دو ہزار دس میں ایک بڑےپیمانے پر ایکسرسائز ہوئی، (مفتی صاحب نے اس کے لئے مشورہ کی اصطلاح استعمال کی جو دینی حلقوں میں زیادہ عام فہم اور مستعمل ہے۔)

پاکستانی حساس اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کو محدود تر کیا جائے اور پاک افغان بارڈر کو بھی پاک انڈیا بارڈر کی طرح سیل کر دیا جائے، باڑ لگائی جائے تاکہ آمدورفت کم ہو اور اسے ریگولرائز کیا جا سکے۔ باڑ لگانے کا فیصلہ تب ہی ہوگیا تھا، تاہم اس وقت حالات ایسے نہیں تھے، یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں امریکی ادارے اس خطے میں جم کر ہی نہ بیٹھ جائیں۔ پھر جب یہ یقین ہوگیا کہ امریکی جانے والے ہیں تو پھر باڑ لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ یہ بہت مشکل ٹاسک تھا جسے بڑی مہارت سے سرانجام دیا گیا۔

مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں پر ایک ایسی بات کہی، جس سے بعض کئی لوگ متفق نہیں ہوں گے، خاص کر مسلم لیگ ن کے لوگ۔ مفتی صاحب کے بقول جنرل کیانی، جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کو کریڈٹ دینا چاہیے (یہ تینوں یکے بعد دیگرے ڈی جی آئی ایس آئی رہے )کہ انہوں نے پاکستان سے غیر ملکی ایجنسیوں کے دائرہ کار کو محدود کیا، انہیں نکلنے پر مجبور کیا اور باڑ لگانے کا عمل بھی شروع کیا۔ جس کا جو کریڈٹ ہے ، وہ اسے ملنا چاہیے ۔

مفتی صاحب نے امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے برسبیل تذکرہ ایک فقرہ کہا کہ افغانستان میں امریکی بیس سال رہے، امریکیوں کے بقول ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی یہاں ہلاک ہوئے جبکہ آزاد ذرائع یہ تعداد بارہ تیرہ ہزار بتاتے ہیں ، بعض کے خیال میں انتالیس ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ بہرحال جتنی بھی اموات ہوئیں، امریکی میڈیا پر کسی ایک تابوت کی تصویر بھی نہیں دکھائی گئی کہ فوج کا مورال ڈائون نہ ہو۔ جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کیسا منفی اور کمزور رویہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہے۔

مفتی عبدالرحیم نے وہ چند وجوہات بیان کیں جن کے باعث پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ آیا اور بارڈر مینجمنٹ کا مشکل فیصلہ کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو بھرتیاں امریکی ، برطانوی خفیہ اداروں نے پاکستان میں کر رکھی تھیں، وہ بذات خود ایک خطرہ تھا۔ دوسرا امریکیوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے مراکز بنا کر ہزاروں لوگوں کو ٹرینڈ کیا تھا، وہ جو بیج بوئے گئے تھے، انہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ یہ پوٹینشل تھریٹ اتنا بڑا تھا کہ پاکستان کے اثآثہ جات کو اب خطرہ انڈیا سے زیادہ افغانستان سے ہے، وہاں کے لوگوں کی آمدورفت سے ہے، اس لئے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ پاکستان آنے والا کوئی افغان کس نیت سے آیا ہے؟

پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، گیارہ لاکھ، اکیس لاکھ وغیرہ، تاہم مفتی صاحب کے مطابق حقیقی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ سب خام اندازے ہیں۔ زیادہ امکانات ہیں کہ پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے کیونکہ مختلف ادوار میں افغان وہاں سے ہجرت کر کے یا پناہ لینے کی خاطر یہاں آتے رہے ہیں اور وہ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ جتنے لوگ پاکستان سے افغانستان گئے ہیں، اس سے زیادہ یہاں واپس آئے ہیں۔

سب سے اہم معاملہ پاک افغان بارڈر کراس کرنے والے سمگلروں کا ہے، یہ تین چار قسم کے ہیں۔ معیشت کی کمر توڑ دینے والی ڈالر کی سمگلنگ تھی۔ پاکستان سے سات ارب ڈالر سالانہ افغانستان جاتے رہے، جس سے ڈالر کرائسس آیا۔ آج کل ڈالر کنٹرول میں ہے تو سب سے بڑی وجہ اس سمگلنگ پر کنٹرول ہے۔ دوسری قسم اسلحے کے سمگلرز کی ہے،امریکہ یہاں پر سات ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ گیا، یہ سب سمگل ہو رہا ہے اور پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تیسری بڑی قسم منشیات کے سمگلرز ہیں۔ افغانستان کے کئی علاقوں میں پوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اعلانیہ کاشت ہوتی ہے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں ایک ایسی بات بتائی جو میرے لئے تو بالکل نئی ہے۔ان کے مطابق پوست کی کاشت علما میں ایک متنازع ایشو رہا ہے، بعض علما کا خیال ہے کہ جس چیز کے استعمال کے فوائد زیادہ ہوں، وہ جائز ہے، اسی بنیاد پر افغان علما کا فتویٰ تھا کہ پوست کی کاشت جائز ہے کیونکہ یہ ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ ویسے انڈیا میں بھی چار ارب ڈالر کے لگ بھگ پوست کاشت ہوتی ہے، مگر وہ تمام کی تمام ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ پوست کاشت جائز ہونے کا افغان علما کا پرانا فتویٰ تھا جو کہ بعد میں بھی جاری رہا۔

مفتی عبدالرحیم صاحب سے سوال پوچھا گیا کہ ملا عمر نے کیسے کاشت صفر کر دی تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ ملا عمر نےکاشت کو حرام نہیں قرار دیا۔ ملا عمر نے عقلمندی کی کہ فتوے کو چھیڑے بغیر انتظامی حکم جاری کیا کہ بے شک یہ جائز ہو مگر ہمارے لئے انتظامی مسائل ہیں اس لئے اس کی کاشت فوری روک دی جائے اور یوں ان کے حکم پر عملدرامد ہوا اور یہ کاشت صفر ہوگئی ۔ یہ ایک حیران کن انتظامی کامیابی تھی ۔

یہاں ایک اور نکتہ بھی بیان کرتا چلوں، اپنی جگہ یہ بھی دلچسپ بات ہے اور اگر اسے کلچرل حوالے سے دیکھاجائے، معروضی زمینی حقائق کے طور پر تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ جب پوست کی فصل تیار ہوجاتی ہے تو افغانستان کے مدارس میں ایک مہینے کے لئے چھٹی ہوجاتی ہے، طلبہ وہاں جا کر پوست کے ڈوڈے پر نیش لگاتے ہیں یعنی ایسا کٹ جس سے اس کا شیرہ بہہ کر جمع کیا جا سکے۔ یہ طلبہ ایک مہینہ یہ کام کر کے اپنا سال بھر کا خرچہ پورا کر لیتے ہیں۔

منشیات کا یہ مال پھر کانوائے کی صورت میں سمگل ہوتا ہے جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ ایران کے راستے بھی سمگل ہوتا ہے، پاکستان کے راستے بھی۔ ایران میں اس کی سزا پھانسی ہے اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ پاکستان میں قوانین اور ان پر عملدرآمد کمزور ہے تو یہ یہاں سے سمگلنگ کی کوشش کرتے ہیں۔

سمگلرز کی ایک قسم عام تجارت کا سامان سمگل کرنے والے ہیں،افغان ٹریڈ وار کے نام پر بھی بہت ساساماں منگوایا جاتا ہے جو دراصل پاکستان میں سمگل ہوتا ہے۔ ایک اورفیکٹر پاکستان میں آزاد قبائلی علاقہ تھا جہاں پر بہت سی بیرونی مداخلت ہوتی ہے، اس لئے ہمارے اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہوا، اب یہ سب ٹھیک کیا جائے، تب ہی فاٹا کا انضمام کے پی کے ساتھ ہوا تاکہ یہ سیف ہیون ختم کی جائے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب مختلف اعدادوشمار اور دلائل سے یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا، معاشی نقصان اور جانی بھی۔ اس وقت پاکستان میں جہاں کہیں شورش اور عسکریت پسندی چل رہی ہے ،ان سب کے پیچھے افغانستان ہے۔ یہ سب ایسی وجوہات تھیں جن کے باعث پاک افغان بارڈر کو کنٹرول کرنا لازمی ہوگیا تھا۔

بارڈر مینجمنٹ اور وہاں موجود باڑ کی یہ تمام مافیاز مخالفت کرتے ہیں، مگر پاکستان کی سالمیت ، ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت اور ملک میں امن وامان کے لئے ہمیں کسی نہ کسی طرح پاک افغان بارڈرز کو مکمل بند رکھتے ہوئے آمدورفت کو ریگولیٹ کرنا ہوگا، مقررہ راستوں کے ذریعے ہی آنا جانا۔ باڑ کو کاٹنے اور توڑپھوڑ کی بہت سی کوششیں کی گئیں۔ پاک فوج نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا مگر اب زیرو ٹالرنس ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے آئندہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کے بقول پاک افغان تعلقات میں شفٹ اسی وجہ سے آئی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ادارے اگر اپنے پاس موجود شواہد اور دلائل عوام کے سامنے رکھیں تو لوگ اسے سمجھ لیں گے۔ بات سادہ ہے۔ ایک ہمارا پڑوسی ملک ہے جو یہاں کے نوجوانوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے، وہاں سے ڈالر، اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ ہو رہی ہے، ہر قسم کے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی ہو رہی، افغان میڈیا اور سوشل میڈیا پاکستان کے اتنا شدید مخالف ہے کہ انڈین میڈیا بھی اتنی مخالفت نہیں کرتا۔ کسی کو یہ علم ہی نہیں کہ پاکستان میں کتنے افغان لوگ ہیں۔

ہمارے ملک میں جنگ کی سی صورتحال ہے اور ہمارے اندر اتنی بڑی تعداد میں افغان حکومت کے آلہ کار موجود ہوں تو کیسی بڑی بحرانی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک بھی ہیں، کیا وہاں انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ؟

ابھی ایران نے تیرہ لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے نکالا ہے، مگر ان کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ اس لئے بارڈر پر کنٹرول ہونا چاہیے۔پاکستان میں جو افغان موجود ہیں، ان کا ہمیں علم ہونا چاہیے ۔زیادہ سے زیادہ مسئلہ ان قبائل کا ہے جو سرحد کے دونوں اطراف میں رہتے ہیں، انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رجسٹرڈ کیا جائے، انہیں پرمٹ مل جائے اور وہ آتے جاتے رہیں۔

آخر میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے افغان طالبان حکومت کو ایک مفت مشورہ دیا کہ پاکستان میں ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسے جو بااثر ہیں اور جو یہ معاملات اچھے طریقے سے سیٹل کرا سکتے ہیں۔کاروباری لوگ بھی ہیں،ریٹائر حضرات بھی ، علما میں بھی ہیں۔

مفتی صاحب کے بقول مذہبی طبقات کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جو بے اثراور بے بس ہوں ، جبکہ وہ لوگ جو ان سے ہمدردی رکھتے ہوں اور جن کے اہم حلقوں میں روابط ہوں، ان پر مختلف الزامات لگا کر دور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ لڑائی کے بجائے یہ معاملات آرام سے حل ہوسکتے ہیں۔ ٍاگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کے ذمے دار خود افغان طالبان ہی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

افغان پالیسی افغانستان پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان پالیسی افغانستان پاکستان مفتی عبدالرحیم صاحب نے پاک افغان بارڈر افغانستان کے افغان طالبان مفتی صاحب کے پاکستان میں کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی حوالے سے انہوں نے کے مطابق غیر ملکی کے ساتھ کی کاشت پوست کی سمگل ہو اور پاک کے بقول ہوتی ہے ہوتا ہے اور وہ کیا کہ کے لئے رہا ہے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

بھارتی مسلمانوں کیساتھ کشمیری پنڈتوں جیسا سلوک نہ کریں، محبوبہ مفتی

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر نے کہا کہ بی جے پی حکومت کو احساس برتری اور تکبر سے باہر نکلنا چاہیئے اور کشمیر میں یو اے پی اے، پی ایس اے، لوگوں پر چھاپے، این آئی اے، پاسپورٹ سے انکار اور ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ روکنا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے آج بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر زور دیا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک بند کرے جس طرح عسکریت پسندوں نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کیا۔ محبوبہ مفتی نے سرینگر میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف پی ڈی پی کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی اس مشکل وقت میں ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ محبوبہ مفتی نے 1990ء کی دہائی میں وادی کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "میں بی جے پی کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک بند کرے جس طرح کشمیر میں عسکریت پسند نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کیا"۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی حکومت کو احساس برتری اور تکبر سے باہر نکلنا چاہیئے اور جموں و کشمیر میں یو اے پی اے، پی ایس اے، لوگوں پر چھاپے، این آئی اے، پاسپورٹ سے انکار اور ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ روکنا چاہیئے۔

پی ڈی پی نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی مخالفت کے لئے سرینگر میں ایک اجتماع کا اہتمام کیا، جسے حال ہی میں پارلیمنٹ نے منظور کیا گیا گیا۔ سینکڑوں پارٹی کارکن اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ احتجاجی کارکنان نے "ہم وقف ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں" جیسی تحریروں والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ عمر عبداللہ کی حکومت کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ اس مشکل وقت میں ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت نے نئے وقف قانون کے خلاف اسمبلی میں کوئی قرارداد پاس نہیں کی کیونکہ اسپیکر نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ این سی کے قانون سازوں نے بحث کے لئے زور دیا تھا، جب کہ اپوزیشن پی ڈی پی چاہتی تھی کہ مقننہ ایکٹ کی مخالفت میں قرارداد پاس کرے۔

جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر انہوں نے کہا کہ حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی پی کو وقف ترمیمی ایکٹ اور فلسطین کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وقف ایکٹ کے خلاف اور فلسطین کے لوگوں کے لئے احتجاج کرنا چاہتے تھے، لیکن اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے اگر ایک چھوٹا سا احتجاج جموں و کشمیر کا امن خراب کر سکتا ہے، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ صورت حال کیسی ہے۔ RAW کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت کی نئی کتاب "دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی" میں کئے گئے دعووں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ انکشافات نئے نہیں ہیں کیونکہ عبداللہ خاندان کے بی جے پی کے ساتھ تعلقات پرانے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!
  • ایس اے دلت کی کتاب کا حقیقت سے دور کا واسطہ نہیں ہے، عمر عبداللہ
  • پاکستان میں سالانہ ہزاروں مائیں اور لاکھوں بچے کیوں مر رہے ہیں؟
  • اور پھر بیاں اپنا ( پہلا حصہ)
  • دستور سے اقلیت کا لفظ حذف کر دیا جائے، مفتی منیب الرحمان
  • بھارتی مسلمانوں کیساتھ کشمیری پنڈتوں جیسا سلوک نہ کریں، محبوبہ مفتی
  • پاکستان کا ایران سے بارٹر پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ، 1200ایرانی ٹرک سرحد پر پھنس گئے
  • بیساکھی میلہ کیوں منایا جاتا ہے اور سکھ مذہب میں اس کی کیا اہمیت ہے؟
  • پاک ایران تبادلہ تجارت پالیسی ازسرنو مرتب کرنے پراتفاق