عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر سفری پابندیوں میں تین ماہ کی توسیع کر دی
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 اپریل ۔2025 )عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو نے پاکستان پر سفری پابندیوں میں توسیع کی سفارش تھی جس پر پاکستان پر عائد مشروط عالمی سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے.
(جاری ہے)
ڈبلیو ایچ او ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کا 41 واں اجلاس 6 مارچ کو ہوا تھا پولیو سے متاثرہ ممالک کے حکام نے ویڈیو لنک کے ذریعے ہنگامی کمیٹی اجلاس میں شرکت کی جس میں پولیو کے عالمی پھیلا ﺅکی صورت حال پر غور کیا گیا کمیٹی نے پاکستان میں پولیو کی صورت حال اور حکومتی اقدامات پر بھی غور کیا ڈبلیو ایچ او کے اعلامیے کے مطابق پاکستان اور افغانستان پولیو وائرس کے عالمی پھیلا ﺅکے لیے بدستور خطرہ ہیں، یہ دونوں ممالک پولیو وائرس کے عالمی پھیلا ﺅکے ذمہ دار قرار دیے جاتے ہیں تاہم ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں انسداد پولیو کے اقدامات پر اظہار اطمینان کیا اور پولیو مہمات کے معیار پر اعتماد کا اظہار کیا. اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صوبائی، ضلعی سطح پر انسداد پولیو اقدامات میں بہتری ممکن ہے کیوں کہ پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے 2023-24 سے پاکستان میں پولیو کیسز میں 12 گنا اضافہ ہوا اور 2024 میں پاکستان سے 628 پولیو پازیٹیو سیوریج سیمپلز رپورٹ ہوئے اور پاکستان کے نئے اضلاع بھی وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر ہوئے. عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو وائرس وائے بی تھری اے فور اے، بی کلسٹر ایکٹیو ہے جب کہ کے پی، سندھ، بلوچستان پولیو کے حوالے سے حساس ہیں کراچی، پشاور، کوئٹہ بلاک وائلڈ پولیو وائرس ون کے گڑھ بن چکے ہیں اور پاکستان کے وسطی ایریاز، جنوبی کے پی میں ڈبلیو پی وی ون پھیل رہا ہے ڈبلیو ایچ او نے پاکستان، افغانستان میں وائلڈ پولیو وائرس کے پھیلا ﺅپر اظہار تشویش کیااور بتایا گیا کہ عالمی سطح پر وائلڈ پولیو وائرس ون پاکستان اور افغانستان تک محدود ہے پاکستان میں ڈبلیو پی وی ون کا پھیلاﺅ ایمونائزیشن معیار پر سوالات اٹھا رہا ہے لو ٹرانسمیشن سیزن میں ڈبلیو پی وی وائرس کا پھیلا تشویشناک ہے جب کہ ہائی ٹرانسمیشن سیزن میں ڈبلیو پولیو وائرس کے پھیلا میں اضافے کا خدشہ ہے. اعلامیے میں ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستان پولیو کے حساس علاقوں میں موثر مہمات کا انعقاد یقینی بنائے‘ پاکستان اور افغانستان کے مابین پولیو وائرس کی منتقلی جنوبی کے پی اور کوئٹہ بلاک سے ہو رہی ہے پولیو کے حوالے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے خطرہ ہیں دونوں ممالک میں پولیو وائے بی تھری اے فور اے کلسٹر پھیل رہا ہے ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں پولیو ویکسین سے محروم بچے پاکستان کے لیے خطرہ ہیں پاک افغان باہمی آمد و رفت پولیو کے پھیلا کا اہم ذریعہ ہے، بے گھر مہاجرین کی نقل و حمل سے پولیو وائرس پھیل رہا ہے اس لیے پاک افغان کراسنگ پوائنٹس پر پولیو ویکسینیشن بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور انسداد پولیو کے لیے پاک افغان باہمی تعاون کا فروغ ناگزیر ہے. ڈبلیو ایچ او نے جنوبی کے پی، بلوچستان میں پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں انسداد پولیو ٹیموں پر حملے انتہائی تشویش ناک ہیں سیکیورٹی وجوہات، بائیکاٹ کے باعث بچے پولیو ویکسین سے محروم ہیں 2024 کی آخری مہم میں جنوبی کے پی کے 2 لاکھ بچے ویکسین سے محروم رہے اور کوئٹہ بلاک کے 50 ہزار بچے ویکسین سے محروم رہے. عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیو بارے سرویلنس مزید 3 ماہ جاری رہے گی پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کی پولیو ویکسینیشن لازم ہوگی ڈبلیو ایچ او 3 ماہ بعد انسداد پولیو کے لیے پاکستانی اقدامات جائزہ لے گا واضح رہے کہ پاکستان پر پولیو کی وجہ سے سفری پابندیاں مئی 2014 میں عائد ہوئی تھیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ویکسین سے محروم عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے پولیو وائرس کے ہے کہ پاکستان انسداد پولیو پولیو ویکسین پاکستان میں جنوبی کے پی نے پاکستان پاکستان پر میں پولیو میں ڈبلیو پولیو کے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایرانی دارالحکومت تہران سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق خلیجی ریاست عمان کی ثالثی میں مسقط میں امریکہ اور ایران کے مابین بالواسطہ بات چیت کا، جو اولین مرحلہ کل ہفتہ 12 اپریل کو مکمل ہوا، اس کے اختتام پر یہ اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے وفود سات دن بعد دوبارہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے ملیں گے۔
اس مکالمت میں پیش رفت کے بارے میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سرکاری ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ ویک اینڈ پر اگلی بات چیت میں بھی ثالثی عمان ہی کرے گا جبکہ تہران اور واشنگٹن کے مذاکراتی نمائندوں کے مابین براہ راست کوئی بات چیت عمل میں نہیں آئے گی۔
اسماعیل بقائی نے کہا، ''اس بات چیت میں توجہ صرف ایرانی جوہری پروگرام پر اور تہران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز رہے گی۔
(جاری ہے)
‘‘ یہ اگلی بات چیت ہفتہ 19 اپریل کے روز ہو گی۔ساتھ ہی اسماعیل بقائی نے کہا، ''یہ طے ہے کہ ثالثی عمان ہی کرے گا۔ تاہم ہم مستقبل میں مزید مذاکرات کے لیے جگہ کے انتخاب پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔‘‘
کل ہونے والی بات چیت کا خاص پہلومسقط میں ہفتہ 12 اپریل کو تہران اور واشنگٹن کے مابین جو بالواسطہ بات چیت ہوئی، اس میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔
اس مکالمت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ، اور ایران کے مابین ہونے والے اولین مذاکرات تھے۔ ایسی کوئی بھی دوطرفہ بات چیت صدر ٹرمپ کے 2017ء سے لے کر 2021ء تک جاری رہنے والے پہلے دور صدارت میں ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔
اس مکالمت کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے وفود ایک ہی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ وہ دو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے آپس میں پیغامات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
اگر ایران نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام نہ چھوڑا تو اسرائیل ’حملے کی قیادت‘ کرے گا، ٹرمپ
اولین رابطوں کے بعد ابتدائی ردعملامریکہ اور ایران دونوں نے ہی پہلے مرحلے کی اس بات چیت کو تعمیری قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ واقعی کسی نہ کسی حل تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ایسا حقیقتاﹰ کب تک ممکن ہو پاتا ہے۔
ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: معاہدہ یا پابندیاں، ٹرمپ
مسقط مذاکرات کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ ایران کے ساتھ امریکہ کی اس بالواسطہ بات چیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، ''میرے خیال میں یہ بات چیت ٹھیک چل رہی ہے۔ ویسے، جب تک آپ کچھ کر نہ چکیں، تب تک کچھ بھی زیادہ اہم نہیں ہوتا۔‘‘
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو سرکاری میڈیا نے دو دیرینہ حریف ممالک کے مابین شاذ و نادر ہی ہونے والی اس بات چیت کو سراہا اور اسے تہران اور واشنگٹن کے تعلقات میں ایک ''تاریخی موڑ‘‘ کا نام دیا۔
ادارت: امتیاز احمد