ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے سوا دنیا کے باقی ممالک پر ٹیرف تین ماہ کے لیے معطل کردیا ہے، تاہم اس دوران ان ممالک پر 10فیصد ٹیرف عائد رہے گا جب کہ چین پر ٹیرف میں فوری اضافہ کرتے ہوئے 125 فیصد کردیا ہے۔
امریکی صدر کے ٹیرف معطل کرنے کے فیصلے کے فوری بعد دنیا بھر میں تیل اور اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی، جوابی کارروائی کرتے ہوئے یورپی یونین نے بھی امریکا پر25 فیصد محصولات کی منظوری دیدی جن پر 15 اپریل سے عمل درآمد ہوگا۔
عالمی منڈیوں میں زبردست بحران کے سبب امریکی صدر نے بیشتر ممالک پر نوے دنوں کے لیے اضافی محصولات کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی انتہائی جارحانہ ٹیرف پالیسی اور پھر اس پر یوٹرن لینے کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ٹرمپ نے عالمی معیشت پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے بلیک میلنگ کی پالیسی اپنائی ہے لیکن جوابی وار کے طور پر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک نے شدید رد عمل دیا ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور مختلف ممالک کی جانب سے سخت رد عمل نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے؟ کیا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو مضبوط کر پائے گی یا کساد بازاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ کیا ٹیرف پالیسی امریکا کے بین الاقوامی تعلقات کو اس حد تک متاثر کرسکتی ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں سے الگ ہوکر تنہا بھی ہوسکتا ہے؟ وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔
مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں آمرانہ ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ڈالر کو کمزور کرنے کے کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے،کیونکہ ڈالر امریکا کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
برکس کے رکن ممالک کا امریکی ڈالر کو اپنے کاروباری لین دین میں استعمال کرنے سے انکار بالآخر امریکا کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا کی جانب سے ممالک کو ڈالر کے استعمال پر مجبور کرنے کے لیے طاقت اور پابندیوں کا سہارا لینا مہنگا پڑے گا۔ ڈالر کئی ممالک میں اپنی ویلیو کھو چکا ہے اور اس کی مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے۔
برکس اتحاد کا دائرہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے علاوہ 6 نئے اراکین ( سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر، ارجنٹائن، اور ایتھوپیا) تک پھیل چکا ہے جو دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور تقریباً دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ یہ بلاک 36% زمینی رقبہ پر محیط ہے، جو اس کے وسیع جغرافیائی اور آبادیاتی اثر کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ گروپ 7 کا حصہ آبادی اور زمین کے اعتبار سے بالترتیب تقریباً 9.
اقتصادی طور پر برکس 2023 میں تقریباً 30.8 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ تیزی سے مغربی ممالک کے لیے ایک کاؤنٹر بلاک کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بلاک میں دنیا کے تیل کے ذخائر کا تقریباً 44.4% ہے اور دنیا کی گندم کی پیداوار میں نمایاں حصہ (48.7%) ہے۔ یہ اثرات برکس کی معاشی طاقت اور قدرتی وسائل کو ظاہر کرتے ہیں جو موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، برکس کو دنیا میں ایک اہم اقتصادی اور سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس بلاک نے نہ صرف رکن ممالک کی اقتصادی ترقی کی سمت بلکہ امریکی بالادستی کے لیے ایک ممکنہ چیلنج کے طور پر کام کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم برکس کو عالمی اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ بلاک امریکی ڈالر پر رکن ممالک کے انحصار کو کم کرنے، مقامی کرنسیوں کو مضبوط بنانے اور کثیر قطبی نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ برکس کے اہم ارکان میں سے ایک چین ہے، جسے ٹرمپ امریکا کے سب سے بڑے اقتصادی اور جیو پولیٹکل حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران چین کے خلاف سخت تجارتی پالیسیاں، جیسے ٹیرف وار اور ٹیکنالوجی کی پابندیاں، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں ان کی تشویش کو ظاہر کرتی ہیں، چونکہ برکس میں چین کا مرکزی کردار ہے، اس لیے یہ تنظیم بھی بالواسطہ طور پر ٹرمپ کی دوسری صدارت میں ان کے حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ٹرمپ بخوبی سمجھ چکے ہیں وہ BRICS کے ساتھ زیادہ سنگین تصادم کا شکار ہوں گے، اس امید پرکہ شاید متضاد اتحادوں کو دھمکیاں دے کر منہدم ہوتی امریکی بالادستی کو بحال کیا جائے گا۔ ایک اور معاملہ ہے، خصوصی طور پر چین کی تجارت کا، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس ریلے کے سامنے امریکا بھی بے بس نظر آتا ہے۔
امریکا چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی طاقت کو روکنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے گا،کیونکہ چین نے جس انداز میں اپنی صنعت کو ترقی دی ہے اور جس طرح وہ کم لاگت کی مصنوعات تیارکرتا ہے اس کا مقابلہ امریکا سمیت دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں کرسکتی، لہٰذا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ چین کی بین الاقوامی تجارت خصوصی طور پر چین کا روس اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسلسل درد سر بنا رہے گا۔کووڈ 2019 سے لے کر امریکی معیشت مسلسل کساد بازاری کا شکار ہے سال 2023 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.5 فیصد رہا جب کہ 2024 کے آخری کوارٹر میں یہ 2.0 فی صد رہ گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ سال 2025 میں جی ڈی پی کی شرح 2 فیصد سے کم ہوکر 1.5 فیصد رہ جائے گی۔ وال اسٹریٹ بینک نے اپنے کلائنٹس کو خبردار کیا ہے کہ آیندہ آنے والے مہینوں کے اندر امریکی معیشت 20 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد تک کساد بازاری کا شکار رہے گی۔ امریکا کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹیرف کے خلاف مختلف ممالک کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں ٹیرف ادائیگی کے برعکس امریکا کے اندر تجارتی لین دین سے گریز اختیار کرسکتی ہیں۔
درحقیقت دوسرے ممالک جو بھی اقدام اٹھاتے ہیں، امریکا کی معیشت پر اس کا منفی اثر ہوگا۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ ان حالات میں چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ امریکا کی تجارت اگر رک جاتی ہے تو امریکی شہریوں کے لیے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا جس کے باعث امریکی جی ڈی پی میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جب کہ دوسری طرف چین کی معیشت مزید بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ساری دنیا کا مال امریکا میں فروخت ہوتا ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے امریکا کے لیے مزید خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔
اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطلب ہے کہ 60 فیصد تجارت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ جس سے امریکا کے اندر مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے جو ساری دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کیونکہ جوابا ٹیرف عائد کرنے پر امریکا نے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صورتحال دنیا کو ایک نئی معاشی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جس میں برکس ممالک کا رول مزید بہتر ہوکر سامنے آسکتا ہے، جہاں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی یورپ بھی برکس کی طرف جھکاؤ کرسکتا ہے۔
ڈبلیو ٹی او معاہدات کی ایک اہم شق یہ بھی ہے ٹیرف کو کم سے کم کیا جائے۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ان معاہدات کی بھی نفی ہے۔کیا ’’ لبریشن ڈے‘‘ امریکی معیشت کی تباہی و بربادی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے؟ ایسی رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم حالات کا رخ تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر رد عمل شدید آتا ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو امریکی معیشت کا متاثر ہونا لازمی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے عالمی برادری کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کی بجائے امریکا نے ساری دنیا کے خلاف محاذ بنا لیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ سامنے آسکتا ہے کہ آیندہ چل کر امریکا اپنے اتحادیوں سے علیحدہ بھی ہوسکتا ہے، جس کے باعث دنیا نیو ورلڈ کے برعکس ایک نئے معاشی آرڈرکی طرف بڑھ سکتی ہے، دنیا کا معاشی نظام جس طرح سے چل رہا تھا۔ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہاہے، اگر دنیا نئے معاشی آرڈر کی طرف بڑھتی ہے تو یہ امریکی چودھراہٹ کے ورلڈ آرڈر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا امریکا اور اس کے تھنک ٹینکس اتنی بڑی اسٹرٹیجک غلطی کرسکتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت مختلف ممالک امریکا کی امریکا کے کے طور پر ممالک کے جی ڈی پی سکتی ہے دنیا کی کرنے کے سکتا ہے کے ساتھ کیا ہے چین کی اور اس ہے اور کہ چین
پڑھیں:
امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ادارے ‘بین الاقوامی تجارتی مرکز’ (آئی ٹی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پامیلا کوک ہیملٹن نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دیگر ممالک پر تجارتی ٹیرف عائد کیے جانے سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔
جینیوا مین ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی اس پالیسی کا نتیجہ ٹیرف سے بچنے کے لیے طویل المدتی طور پر علاقائی تجارتی روابط کی تشکیل نو اور ان میں وسعت و مضبوطی کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔
ہیملٹن کے مطابق اس سے سپلائی چین میں تبدیلی اور بین الاقوامی تجارتی اتحادوں کی تجدید کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو امریکا کی جانب سے چین کے علاوہ بیشتر ممالک پر عائد کردہ تجارتی ٹیرف کے اطلاق میں 3 مہینے تاخیر کا اعلان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے ان فیصلوں سے میکسیکو، چین اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے علاوہ جنوبی افریقی ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے اور خود امریکا بھی ان فیصلوں کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔
انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تخمینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں چین اور امریکا کے مابین تجارت میں 80 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا
پامیلا کوک نے کہا کہ میکسیکو نے اپنی برآمدی اشیا کا رخ امریکا، چین، یورپ اور لاطینی امریکا کی اپنی روایتی منڈیوں سے ہٹا کر کینیڈا، برازیل اور کسی حد تک انڈیا کی جانب موڑ دیا ہے جو اس کے لیے قدرے فائدہ مند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیگر ممالک بھی میکسیکو کی تقلید کر رہے ہیں جن میں ویت نام بھی شامل ہے جس کی برآمدات اب امریکا، میکسیکو اور چین سے ہٹ کر یورپی یونین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کی جانب جا رہی ہیں۔
پامیلا کوک ہیملٹن نے واضح کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ٹیرف کے اطلاق کو 90 روز تک روکے جانے سے عالمی تجارت کو فائدہ نہیں ہو گا اور اس وقفے سے استحکام کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو پہلے بھی ایسے حالات کا سامنا ہو چکا ہے۔ گزشتہ 50 برس میں متعدد مواقع پر دنیا اس سے ملتے جلتے حالات سے گزر چکی ہے تاہم اس مرتبہ صورتحال قدرے زیادہ سخت اور متزلزل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
american tarrifs Trade اقوام متحدہ امریکی ٹیرف تجارت