سپریم کورٹ آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر ملٹری کورٹس کیس مکمل کرنے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر ملٹری کورٹس کیس مکمل کرنے کا عندیہ WhatsAppFacebookTwitter 0 8 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس آئندہ دو سماعتوں پر مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ کوئی جذباتی ہونے کا نہیں ملکی سیکیورٹی کا معاملہ ہے، ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہماری عدالت کے دروازے ہے باہر ہو، اس پولیس والے کی ڈیوٹی ہوگی کہ کوئی اسلحہ سے لیس شخص عدالت داخل نہ ہو مگر وہ پولیس والا 5 منٹ کے لیے ادھر ادھر ہو جائے تو اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، کیا یہ سیکورٹی آف اسٹیٹ نہیں ہے؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 203 کے تاریخی پہلو پر بھی عدالت کو آگاہ کروں گا، آئین کے مطابق کورٹ مارشل کورٹس ہائیکورٹ کے ماتحت نہیں ہوتی، آئینی پر ویژن کورٹ مارشل کو سپورٹ کرتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے بھی عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا تھا جو ان کی تفہیم کے مطابق تھا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پیج 531 اور 533 بھی تھے جو سلمان اکرم راجہ کے خواب میں بھی آتے تھے، یہی پیجز نے انہوں نے بار بار پڑھے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اب ہمیں بھی خواب میں ایف بی علی کی شکل نظر آتی رہتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ ثابت ہونے کی بنیاد الزام کی نوعیت پر ہوگی۔
جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ کی بنیاد دفاع پاکستان سے متعلق ہوگی، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف آرمڈ فورسز کے ارکان کے لیے ہوگا کیونکہ اس فیصلے میں کہا گیا کہ جن پر آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی کا اطلاق ہوگا، ان پربقیہ ایکٹ نافذ نہیں ہوں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہو گا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے پر بھی آرمی ایکٹ کا نفاذ ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہکرمنل جسٹس سسٹم کو آرٹیکل 175 کی شق 3 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہیں ایک کنفیوژن ہے جس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، پریس والے بیٹھے ہیں نجانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے، کیا عام قانون سازی کرکے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے مزید کہا کہ کیا آئینی ترمیم کرکے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیئے تھا، بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ویسے اپیل کی حد تک تو اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، ان کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکم ناموں میں موجود ہے، بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔
آج کی سماعت کے دوران آئینی بینچ نے کیس آئندہ 2 سماعتوں پر مکمل کرنے کا عندیہ دیا، بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کو خود عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آرٹیکل 8 کی شق 3 اے کے تحت معاملہ عدالت آ ہی نہیں سکتا تو پھر بات ختم، پھر کیسی اپیل۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب پر دلائل جاری رکھیں گے۔
دوران سماعت سانحہ جعفر ایکسپریس کا تذکرہ
کیس کی سماعت کے دوران سانحہ جعفر ایکسپریس کا تذکرہ بھی ہوا، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 9 مئی کے جرائم ریاستی مفاد کے خلاف تھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی ریاستی مفاد کی خلاف ہوتی ہے، تمام جرائم ریاستی مفاد کے خلاف ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا بولان میں ہونے والا ٹرین کا واقعہ ریاستی مفاد کیخلاف نہیں تھا؟آرمڈ فورسزکا بنیادی کام دفاع پاکستان کا ہے، جس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ پھر ہم دفاع کیسے کریں گے جب پیچھے سے ہماری ٹانگیں کھینچی جائیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ کوئی جذباتی ہونے کا نہیں ملکی سیکیورٹی کا معاملہ ہے، ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہماری عدالت کے دروازے ہے باہر ہو، اس پولیس والے کی ڈیوٹی ہوگی کہ کوئی اسلحہ سے لیس شخص عدالت داخل نہ ہو مگر وہ پولیس والا پانچ منٹ کے لیے ادھر ادھر ہو جائے تو اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، کیا یہ سیکورٹی آف اسٹیٹ نہیں ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے اندر سول جرائم کی تعریف موجود ہے؟ کیا آرمی ایکٹ کی شق 59(4) کو کالعدم قرار دینے سے سویلین آرمی ایکٹ کے زمرے سے باہر ہوگئے؟ کیا سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کا اثر یہ ہوگا کہ اب کسی سویلین کا ٹرائل نہیں ہوگا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میرے خیال سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہی اثر ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صاف واضح ہے کہ اگر کوئی مستری فوج کے لیے کام کرہا ہے تو اس دوران جرم پر اس کا ملٹری ٹرائل ہوگا، مستری اگر ایک سال بعد فوج کی بجائے کسی اور کے ساتھ کام کرے تو اس پر سول ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آپ نے میرے سوال کا ابھی تک جواب نہیں دیا کہ خصوصی کورٹس آئین کی کونسی شق کے تحت ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خصوصی کورٹس ہر وقت دستیاب عدالت نہیں ہوتی، وقتاً فوقتاً بلائی جاتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی آرٹیکل 175 میں درج ہے کہ 14 سال میں عدلیہ ایکزیکٹیو سے الگ ہونا تھی، عدلیہ کو ایگزیکٹیو سے الگ کون کرے گا؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام تو ایگزیکٹو کا ہے۔
عدالت نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی جبکہ اٹارنی جنرل کو بھی کل پیش ہوکر کرائی گئی یقین دہانیوں پر جواب دینے کی ہدایت کی گئی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل خواجہ حارث نے کہا کہ جس پر خواجہ حارث نے مکمل کرنے کا عندیہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ریاستی مفاد وزارت دفاع سماعتوں پر ا رمی ایکٹ کا معاملہ کے مطابق کی خلاف ا رٹیکل کے خلاف اپیل کا کے لیے کورٹ ا
پڑھیں:
جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج، 4 ریٹائرڈ ججز کو جوڈیشل کمشن کا رکن بنانے کی منظوری
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمشن کے اہم اجلاس میں جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمشن نے لاہور ہائیکورٹ کے پانچ سینئر ججز کے ناموں پر تفصیلی غور کیا۔ جن ناموں پر تبادلہ خیال کیا گیا، ان میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس صداقت حسین شامل تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں خاص طور پر جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس صداقت حسین کے ناموں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ جسٹس باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری اکثریت سے ہوئی۔ باوثوق ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ارکان بیرسٹر گوہر اور علی ظفر نے بھی جسٹس باقر نجفی کے حق میں ووٹ دیا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری آئین پاکستان کے تحت جوڈیشل کمشن کی سفارشات کے بعد کی جاتی ہے، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ جوڈیشل کمشن نے چار ریٹائرڈ ججز کو بطور رکن جوڈیشل کمشن تعینات کرنے کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر اور اسلام آ باد ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کو جوڈیشل کمشن کا رکن مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان اور بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ نذیر لانگو کو بھی جوڈیشل کمشن کا رکن مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔اسلام آباد سے خصوصی رپورٹر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ سے صرف ایک جج جسٹس باقر نجفی کے نام پر اکثریتی ووٹ سے فیصلہ ہوا۔ جسٹس علی باقر نجفی کی بطور جج سپریم کورٹ تقرر 9 ممبران کی اکثریت سے کی گئی جبکہ 4ممبران نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی کے دو ممبران نے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں جسٹس علی باقر نجفی کی تقرری کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی حمایت بھی کی گئی۔ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی منظوری دے دی۔ جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔