امریکی اقدامات پر عالمی ہیجان
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایک چُومکھی لڑائی ہے، جو نئے امریکی صدر نے اقتدار میں آتے ہی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران انکے بارے میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی محسوسات امید افزا تھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں امن کا پیغام لے کر آئیں گے، لیکن کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی موصوف نے جو احمقانہ اقدامات اٹھائے اور احکامات جاری کئے ہیں، وہ اسکی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کے الٹ ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
دنیا بھر میں امریکہ کے بارے میں عام تاثر تبدیل نہیں ہوا کہ طاقت کے نشے میں یہ ایک بڑی حکومت ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ مزید اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ انسانی حقوق، سفارتی آداب اور دوسری اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کے حیا و شرم کا تو اس کے پاس سے گزر تک نہیں ہوا۔ ایک چُومکھی لڑائی ہے، جو نئے امریکی صدر نے اقتدار میں آتے ہی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران ان کے بارے میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی محسوسات امید افزا تھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں امن کا پیغام لے کر آئیں گے، لیکن کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی موصوف نے جو احمقانہ اقدامات اٹھائے اور احکامات جاری کئے ہیں، وہ اس کی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کے الٹ ہیں۔ آتے ہی ہر کسی کیساتھ پنگے بازی شروع کر دی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی بیان میں کینیڈا کو 51ویں امریکی ریاست بنانے کا عندیہ دیا، پانامہ کینال اور گرین لینڈز کو بھی اپنے قبضے میں لینے کا اعلان کیا۔ البتہ اس نے ایران کیساتھ جنگ کی بجائے مذاکرات کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا، لیکن پھر دھمکیوں پر اتر آیا۔ یعنی چوری اور پھر سینہ زوری۔ مختلف مواقع پر اپنی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس کی حکومت سب سے پہلے امریکی مفادات کا تحفظ کرے گی، یہ ہر حکومت کا حق ہے، مگر یہ حق امریکہ کو باقی ممالک کے بارے میں بھی تسلیم کرنا چاہیئے۔ مگر چند مہینوں میں ہی اس نے اپنی تمام ابتدائی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دوسرے ممالک سے تجارت کے حوالے سے جس قسم کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ ٹیرف کا اعلان کیا ہے، دنیا میں اس پر شدید تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی اسٹاک ایکسچینج میں مندی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔
علاوہ اس کے صدر ٹرمپ نے روس یوکرائین جنگ کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفونک گفتگو خوشگوار ماحول میں کی، لیکن آج ان محبتوں اور خوشگوار تعلقات کو آگے بڑھانے کی بجائے دونوں ممالک میں پہلے سے بڑی خلیج پیدا ہوچکی ہے۔ انہی ایام میں امریکہ نے تیل کے حوالے سے جو روش اختیار کی ہے، اس کا ٹارگٹ فلسطینی کاز کیلئے میدان میں کھڑا ہونیوالا صرف ایک اسلامی ملک ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ دن بدن بدلتی جا رہی ہے، گذشتہ چند دنوں میں بین الاقوامی منڈی میں پانچ ڈالر فی بیرل یومیہ کروڈ آئل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور اب یہ قیمت 65/60 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہیں۔ ہمارے ماہرین اقتصادیات پُراُمید ہیں کہ قیمتیں کم ہونا پاکستان کیلئے بہتری کی نشاندہی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ ریلیف پاکستانی عوام کو پٹرولیم مصنوعات میں ملنے کا بھی امکان ہے۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت کو 50 ڈالر سے بھی کم پر لایا جائے گا۔ بات تو یہ درست ہے کہ جب ہم تیل درآمد کرتے ہیں تو زیادہ قیمت کی وجہ سے ہمارا زرمبادلہ زیادہ خرچ ہوتا ہے، جبکہ کم بین الاقوامی قیمت کی وجہ سے ہمارے اوپر اقتصادی بوجھ کم ہو جائے گا، لیکن کچھ ماہرین یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ ان اقدامات سے تیل پیدا کرنے اور مہیا کرنیوالے ممالک اور کمپنیوں کو نقصان اور غریب ممالک کے عوام کو تیل سستا ہونے کی وجہ سے ریلیف ملے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی حکومت کی پالیسی کے پیچھے اس کی منفی چال میں صرف ایک ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے کہ جو عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث اپنا تیل مزید کم قیمت پر فروخت کر رہا ہے۔
کم قیمتوں کے مطالبے کے پیچھے امریکی حکومت کی چال اور سوچ ہے، اس لیے کہ ایران تیل کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کم سے کم زر مبادلہ حاصل کرسکے، جس کی وجہ سے وہ اپنی حمایتی مزاحمتی تحریکوں کو مختلف ذرائع سے مدد کرتا ہے، رک جائے گا یا کم ہو جائے گا اور یقینی طور پر فلسطینی محاذ کو شدید نقصان ہوگا۔ دوسری طرف سے مختلف ممالک پر عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے پیدا شدہ ہیجان اور مایوسی کی صورتحال کی وجہ سے تمام بین الاقوامی اقتصادی قوتیں ٹرمپ کے ان منفی اقدامات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور شدید ردعمل کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ انہوں نے امریکہ پر اسی طرح کی جوابی اقدامات اٹھانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ چونکہ امریکہ نے مختلف ممالک پر جو ٹیرف عائد کیا ہے، دنیا کے اقتصادی نظام کو درہم برہم کر رہا ہے۔
میں کسی خاص ملک کے بارے میں تفصیلی بات کسی اور موقع پر کروں گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کی وجہ سے آج خود امریکہ اور کئی دیگر ممالک کے اندر بھی اشیائے خورد و نوش کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ خاص طور پر برطانیہ میں انڈے گوشت تک ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گوشت، خوردنی تیل کی بھی قلت کا سامنا شروع ہوچکا ہے۔ ان بین الاقوامی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے غریبوں کی مشکلات کا جو دروازہ کھل رہا ہے، وہ بھی تشویشناک ہے۔ میں حکمرانوں سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ نئے بین الاقوامی حالات میں اپنے ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو قابو کریں اور دستیابی کو یقینی بنائیں۔
میں اس موقع پر افواج پاکستان سے بھی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ملک میں افراتفری پھیلانے والی منفی قوتوں اور کالعدم تنظیموں کو لگام دیں۔ دہشت گرد خوارج کیخلاف سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے، مظلوم عوام کیساتھ بہت ہوچکا ہے۔ ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ پاکستان کے عوام بے خوف و خطر سفر کریں اور زندگی گزار سکیں۔ بہت برداشت کیا جا چکا ہے، اب دہشت گردوں کے ہاتھوں ملک کو یرغمال نہیں ہونا چاہیئے۔ بلوچستان کے حالات سے کون واقف نہیں۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ فوجی جوانوں پر حملوں کے ساتھ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی اور مسافروں کو یرغمال بنانے، پنجابی مزدوروں کی شہادت اور ایران عراق سے واپس آنیوالے زائرین پر دوبارہ حملوں کا آغاز دہشتگردوں کا معمول بنتا جا رہا ہے۔
عیدالفطر سے پہلے ایرانی بارڈر سے آنیوالی بس پر چھ پنجابی مسافروں کو شناخت کرکے باہر نکالا گیا اور پھر ان کو قتل کیا گیا، ان مقتول شہداء میں سے جامعۃ المنتظر کے پہلے پرنسپل علامہ شیخ اختر عباس نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے عبدالزہراء بھی شامل تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ انہیں بہت اذیتیں دے کر شہید کیا گیا۔ اسی طرح سے پاراچنار کے لوگوں نے بھی جس انداز سے عید گزاری ہے، وہ ہم سب پاکستانیوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ جس طرح کی عید غزہ کے فلسطینی عوام نے گزاری اور پوری امت مسلمہ سوائے دعا کے کچھ نہ کرسکی، اسی طرح کے حالات کا ضلع کرم کے عوام کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ دونوں مقامات کے عوام یرغمالی بنے رہے۔ راستے بند ہیں خوراک ان پر بند ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کو خوراک نہیں پہنچنے دے رہا تو پاراچنار کے راستے میں بیٹھے دہشتگرد بھی پٹرول ڈیزل اشیائے خورد و نوش سبزیاں پہنچنے نہیں دے رہے، جس کی وجہ سے گذشتہ سال اکتوبر سے تعلیمی ادارے اور بازار بند ہیں۔ لوگ 24 گھنٹے میں ایک وقت کا کھانا کھا کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ کوئی روزگار کے لیے دوسرے شہر نہیں جا سکتا، سکول نہیں کھل رہے، جبکہ عید کے موقع پر مختلف شہروں میں پاراچنار سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم طلباء و طالبات بھی اپنے گھروں کو واپس عید منانے کیلئے اپنے عزیز و اقارب کے پاس نہیں جا سکے، جبکہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد پشاور، کوہاٹ، اسلام آباد اور دیگر شہروں کے ہوٹلوں میں محصور ہے، کہ کب پاراچنار کے حالات ٹھیک ہوں اور وہ واپس اپنے گھروں کو جائیں۔ گویا ایک خوف کا عالم ہے، لہٰذا حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاراچنار کے عوام کو تحفظ فراہم کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انتخابی مہم کے دوران بین الاقوامی پاراچنار کے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے کا اعلان عوام کو کی قیمت جائے گا کے عوام ہیں کہ رہا ہے
پڑھیں:
امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز
حافظ نعیم الرحمن نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلاتمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط لکھ کر ان کی توجہ غزہ میں جاری صہیونی سفاکیت کی طرف دلائی ہے اور اہل فلسطین کی مدد کے لیے عملی اقدامات کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل جمعہ کو عالمی سطح پر یوم احتجاج منانے کی بھی تجویز دی ہے۔ مسلم سربراہان کے نام جاری خطوط میں انھوں نے کہا کہ وہ آپ کو غزہ میں جاری ہولناک انسانی بحران پر گہرے دکھ اور تشویش کے ساتھ یہ خط لکھ رہے ہیں۔ تباہی اور انسانی تکالیف کی شدت عالمی برادری کی فوری اور مشترکہ کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب ہولوکاسٹ، بوسنیا کی نسل کشی، یا کوسوو کے تنازعے جیسے شدید انسانی بحران پیش آئے، تو دنیا نے اہم موڑ پر انسانی وقار اور انصاف کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر قدم اٹھایا۔
انھوں نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلا تمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر جاری قتل عام کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔ جدید ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت جو اسرائیل کو آزادی سے اور غیرمتناسب طور پر میسر ہے، سوشل میڈیا اور براہِ راست نشریات کے ذریعے آج دنیا ان مظالم کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر شعور بے مثال ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اور امن پسند لوگ غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور درد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے ملک کے عوام بھی ہمارے درد اور غم میں برابر کے شریک ہیں، جیسا کہ دنیا کے بے شمار دوسرے لوگ بھی۔
انھوں نے مسلم سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جو جرات مندانہ اور اخلاقی قیادت کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم آپ سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر مسلم ممالک کے رہنماوں کا اجلاس بلایا جائے تاکہ ایک واضح اور اجتماعی حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ہم ایک اور انسانی ناکامی کے باب پر افسوس کرتے رہ جائیں گے بالکل جیسے روانڈا میں ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار پوری دنیا یہ سب براہِ راست دیکھ رہی ہے۔ ہم یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ تمام ریاستی سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے جس کا واحد ایجنڈا غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنا ہو۔ تعمیر نو اور بحالی کے اقدامات بعد میں کیے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے اس خونریزی کا خاتمہ ضروری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی سطح پر بین الاقوامی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے مثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ مزید برآں ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جمعہ، 20 اپریل کو سرکاری طور پر یوم عالمی احتجاج قرار دیا جائے۔ اس دن کو ریلیوں، جلوسوں، خصوصی دعاوں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی مظاہروں سے منایا جانا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اس اتحاد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے دن کی توثیق کریں۔