ڈاکٹر منظور اعجاز جو امریکا میں بھی برج والا سے دور نہیں تھے
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
پنجابی زبان کے مہان لکھاری اور دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز کی بزمِ جہاں سے رخصتی کے بعد مجھے ان کی یادداشتوں ’جندڑیئے: تن دیساں تیرا تانا (برج والا توں واشنگٹن تیکر)‘ کا خیال آیا جسے میں نے پہلے پنجابی میں پڑھا اور جب ’رو میں ہے رخش عمر‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ شائع ہوا تو بار دگر اس کا مطالعہ کیا۔
اس دلچسپ کتاب کو محمد عرفان نے اردو میں منتقل کیا ہے، اس وقت یہ ترجمہ ہمارے سامنے ہے جس کی مدد سے ہم ان کی زندگی کے متفرق گوشوں پر نظر ڈالیں گے۔
منظور اعجاز نے اس تصنیف میں بڑے سلیقے سے ذاتی زندگی کی کتھا کو اپنے زمانے کی کہانی بنا کر پیش کیا ہے جس میں ’ہڈ بیتی اور جگ بیتی‘ ساتھ ساتھ ہیں۔ وہ ذاتی المیوں کا ذکر کرتے ہوئے بھی معاشرت میں آنے والی تبدیلیوں کو وسیع تناظر میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی جیون کہانی کو ایک ٹھوس فکری تجزیے کا روپ دے کر اگلے منظر کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
دردمندوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منظور اعجاز کی اپنے درد لادوا کے ساتھ سنگت بچپن سے تھی، پولیو سے ایک ٹانگ متاثر ہونے کی وجہ سے ان کے کھیلنے کے دن بڑے آزار میں گزرے۔ ان کی معذوری رفع کرنے کے لیے بھانت بھانت کے حربے آزمائے گئے، کسی مسیحا کے پاس ان کے درد کا درماں نہیں تھا لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کی جو تفصیل بتائی ہے اس سے آپ یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ دیہات میں کسی بیمار کو کس طرح تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو منظور اعجاز کے والد انہیں کندھے پر اٹھا کر گھر سے میلوں دور ایک پیر کے ڈیرے پر لے گئے لیکن بے نیل مرام لوٹے۔ اس کے بعد ایک واقف کار ڈاکٹر نے دو روپے کے عوض ٹیکے لگانے شروع کیے لیکن ان کا بھی ذرا اثر نہ ہوا، پھر ایک حکیم صاحب نے گھر میں ڈیرے ڈالے۔ تندور نما بھٹی گرم کرکے اس میں ٹانگ سینکنے کی حکمت لڑائی اور یہ بھی لازم ٹھہرایا کہ مریض صرف مسالے میں بھنا مرغ مسلم ہی کھا سکتا ہے۔ یہ ٹوٹکا بھی اکارت گیا، سول اسپتال ساہیوال بھی گئے اور بابا فرید کی مزار پر بھی حاضری دی لیکن ٹانگ ٹھیک ہونی تھی نہ ہوئی۔ یہ سب حیلے اس واسطے ہو رہے تھے کہ گھر والوں کو یقین تھا کہ یہ بڑا بخار چڑیلوں نے چڑھایا ہے جس وجہ سے ٹانگ ناکارہ ہو گئی ہے۔
منظور اعجاز قصہ درد میں جہاں لوگوں کی فرسودہ سوچ سامنے لاتے ہیں وہیں سماج میں تبدیلی کی رفتار بھی زیر بحث آتی ہے۔ وہ گاؤں میں سنگر مشین کے انقلاب کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی تھا کہ کسی کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ بیساکھی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جس سے وہ گھسٹ گھسٹ کر چلنے کی اذیت سے نجات پا سکتے تھے۔ یہ تو اتفاق سے ان کے والد نے کسی کو بیساکھیوں کا استعمال کرتے دیکھ لیا اور یہ ان کی زندگی کا حصہ بن گئیں اور جب پہلی بار ان کا سہارا ملا تو انہیں لگا جیسے وہ ہوا میں اڑ رہے ہوں۔
ایک خاص پہلو سے یہ بیساکھی ان کے دانشورانہ تجزیے کی بنیاد بھی بن جاتی ہے۔
’موجودہ سماجی عالموں کو گاؤں کی تنہائی کی حدود کا کوئی علم نہیں، کارل مارکس کا ہمارے دیہات کے اکیلے پن کو ’ایشیاٹک موڈ آف پروڈکشن‘ کہہ کر یہ بتانا کہ ان دیہات کا باہر کی دنیا سے میل میلاپ اور تبادلہ خیالات نہ ہونے کے باعث ان کا پیداواری ڈھنگ نہ بدل سکا، اس بات پر بہت سارے دانشور مارکس کی بات پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالت اتنی بھی خراب نہیں تھی لیکن اگر آپ میرے کھاتے پیتے گاؤں میں بیساکھیوں کا پتا نہ ہونے کی مثال دیکھیں تو مارکس کی بات سچ نظر آتی ہے۔‘
منظور اعجاز کے گاؤں برج والا میں پڑھنے لکھنے کا چلن نہیں تھا، اس کی ایک وجہ ناداری تھی تو دوسرے کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکوں کی تعلیم سے عدم دلچسپی، اس ضمن میں وہ اپنے بھائیوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو والد کی کوششوں کے باوجود تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ منظور اعجاز کے بقول ’شاید اگر مجھے پولیو نہ ہوتا اور میں کاشتکاری کرنے کے لائق ہوتا تو میں بھی اپنے بھائیوں کی طرح ان پڑھ رہ جاتا۔‘
صاحبو! ترقی کی دوڑ میں ہم نے جو سب سے قیمتی اثاثہ گنوایا ہے وہ اسکولوں میں جان مار کر پڑھانے والے استاد ہیں، تدریس جن کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی تھی، منظور اعجاز نے کتاب میں ایسے چند عظیم کرداروں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک استاد ماسٹر عبداللہ عیدوی تھے جنہیں گرو کا درجہ حاصل تھا۔ منظور اعجاز نے ان سے بہت سیکھا، وہ اپنے قلم کار ہونے کا کریڈٹ انہی محترم استاد کو دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’ان وقتوں میں اسکولوں میں اس طرح کے گرو ماسٹر ہوتے تھے، جو دن رات دل و جان سے پڑھانے میں مصروف رہتے تھے، ان جیسے گرو استاد اس وقت اس لیے پیدا ہو جاتے تھے کہ ابھی گاؤں میں منڈی کی طاقتیں داخل نہیں ہوئی تھیں۔‘
ایک دوسرے ماسٹر صاحب جن کا ذکر انہوں نے بڑی اپنایت سے کیا ہے وہ یو پی کے مرزا شفیق بیگ تھے جو دل جمعی سے نور بصیرت عام کرتے تھے۔
منظور اعجاز لکھتے ہیں:
’اندر باہر سے پورے درویش تھے اور سارے علاقے میں انہیں پیروں کی طرح مانا جاتا تھا، خالص اردو بولتے تھے اور ایک لفظ پنجابی کا نہ بولنے کے باوجود لوگ انہیں بہت عزت و احترام دیتے تھے، ان کی درویشی کا یہ حال تھا کہ ایک بار چور ان کا گھر لوٹ کر لے گئے مگر انہیں سامان کے جانے کا افسوس نہیں تھا وہ بس اس سوال میں پھنس گئے تھے ’وہ فول میری عینکیں کیوں لے گئے۔‘
پڑھائی میں تیز ہونے کی وجہ سے وہ اساتذہ کے منظورِ نظر تھے، مڈل اسکول میں ایک دفعہ سال ڈیڑھ سال کے بعد اکٹھا وظیفہ ملا تو منظور اعجاز نے شہر کا رخ کیا اور کلائی کی گھڑی اور ریڈیو خریدا، اس سے قبل گاؤں بھر میں ریڈیو صرف ایک دکاندار کی ملکیت میں تھا۔
برج والا سے نکل کر وہ گورنمنٹ کالج ساہیوال پہنچے، کالج کی علمی فضا نے ذہن کے دریچے کھولے، انٹر میں وہ اور قاضی حبیب الرحمان کالج کے رسالے ’ساہیوال‘ کے نائب مدیر اور بی اے میں یہ جوڑی رسالے کی مدیر بن گئی۔ پنجابی سے وابستگی بھی اسی تعلیمی ادارے کی دین ہے جہاں انہوں نے محمد امین کے ساتھ مل کر پنجابی لٹریری سوسائٹی بنائی تھی۔ مظہر ترمذی سے دوستی کی بنا اسی زمانے میں پڑی، کالج سے باہر شہر کی ادبی فضا مجید امجد کے دم سے منور تھی، منظور اعجاز کی سوانح حیات میں مجید امجد کی شخصیت کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے، ان کے کلام سنانے کے انداز سے متعلق لکھتے ہیں:
’ان کا نظم پڑھنے کا یہ انداز تھا کہ جیسے ان کا پورا وجود کانپ رہا ہو اور وہ اس عمل میں چکنا چور ہو جائیں گے۔ مجید امجد قریباً ہر شام اسٹیڈیم ہوٹل پر بیٹھے ہماری کچی پکی نظمیں غزلیں سنتے تھے اور ہر ایک کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔‘
کالج کے زمانے کی طلبہ سیاست میں اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ کوئی اور طلبہ تنظیم نہیں تھی سو ان کی ہمدردی اسی کے ساتھ تھی، جمعیت نے اس زمانے میں ’چراغ راہ‘ رسالے کا سوشلزم مخالف نمبر نکالا، اس کے مشمولات سے منظور اعجاز سوشلزم سے متنفر ہونے کے بجائے اس فکر کے قریب آگئے۔
ساہیوال میں وہ ذہنی تبدیلی کے عمل سے گزرے جس کا ایک نتیجہ والدین سے کھنچے کھنچے رہنے کی صورت میں نکلا، ماں بولی کی طرف ملتفت ہوئے تو ماں سے تعلق کا نیا در کھلا جنہیں انہوں نے اپنا استاد ٹھہرا کر پنجابی کے بہت سے لفظوں کے معانی معلوم کیے، ماں باپ اور اولاد میں دوری کی وجہ سے ان کا خیال ہے: ’پتا نہیں پنجابیوں کی کتنی نسلیں برباد ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔‘
وہ صنعتی ترقی اور کاشتکاری میں نئی اشیا کا مصرف بڑھنے سے گاؤں کے لوگوں کی زندگی متاثر ہونے اور خود کفالتی نظام کے کمزور ہونے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، گاؤں سے ساہیوال آمد نے ہی ان کی ذہنی دنیا بدل کر رکھ دیا تھا اور جب وہ شہروں کے شہر لاہور آئے تو ان کی ذہنی کایا کلپ ہوگئی جس میں صحبت یاراں کے ساتھ ساتھ فلسفے کی تعلیم و تدریس کو بھی دخل تھا۔
لاہور میں ڈاکٹر عزیزالحق سے ملاقات نے ان کی فکر کا دھارا موڑ دیا۔
’فہیم جوزی فلسفے میں خاصے غرق تھے اور وجودیت کے حامی تھے، ان کے ساتھ کالج کے زمانے کی قربت کے باعث میں بھی وجودی فلسفے کا حامی بن گیا تھا، مگر ایک دن مولوی امین مجھے ڈاکٹر عزیزالحق سے ملوانے ان کے دفتر پی سی ایس آئی آر لے گئے، عزیزالحق کی فلسفے پر بڑی گرفت تھی اور وہ بھی وجودی خیالات کو تسلیم کرتے تھے مگر وہ اول و آخر مارکسسٹ تھے، میں نے ان کے نظریات کو تسلیم کرلیا اور میرا زندگی دیکھنے کا بنیادی نظریہ ہی بدل گیا۔‘
قیام پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کی پہلی طلبہ تنظیم نیشنلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ایس ایف) قائم ہوئی تو منظور اعجاز اس میں شامل تھے، پروفیسر عزیزالدین سے اختلافات کے بعد ڈاکٹر عزیزالحق نے ینگ پیپلز فرنٹ بنایا تو وہ اس کا حصہ بن گئے۔
لاہور میں منظور اعجاز پنجابی ادبی سنگت سے وابستہ ہوئے جہاں پنجابی زبان و ادب کی لیجنڈری شخصیت نجم حسین سید سے ان کا بحث مباحثہ ہوتا لیکن رفتہ رفتہ وہ ان کے قائل ہوگئے۔ اس قربت میں نجم صاحب کے ڈرامے ’تخت لہور‘ نے بنیادی کردار ادا کیا جسے سن کر ڈاکٹر منظور اعجاز کے بقول ان کا تعصب زمین بوس ہوگیا۔
’میں ان کی فنکاری اور دیہاتی سماج کے بارے میں جانکاری دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا تھا۔‘
یہ تو نجم حسین سید کے ڈرامے کے بارے میں ان کا تاثر تھا، کتاب میں انہوں نے ان کی شاعری کو بھی بہت سراہا ہے اور ان کی بعض نظموں کو گہرائی میں جا کر دیکھا ہے۔
نجم حسین سید کی اہلیہ ثمینہ حسن سید استاد چھوٹے غلام علی خان کی شاگرد تھیں تو ان کے وسیلے سے وہ اس مہان گائیک سے متعارف ہوئے۔ منظور اعجاز کی ان سے ہونے والی گفتگو کی روداد سے دنیائے موسیقی کے بارے میں بہت کچھ پتا چلتا ہے۔ اس حصے میں منظور اعجاز ہمیں نجم حسین سید کی اس رائے سے بھی آگاہ کرتے ہیں: ’نجم صاحب استاد چھوٹے غلام علی خان کو بڑے غلام علی خان سے بڑا گویا مانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ استاد بڑے غلام علی خان کی گلوکاری میں دربار کا سنگھار ہے مگر استاد چھوٹے غلام علی خان کے گانے میں عوامی زور ہے۔‘
نجم حسین سید اور منظور اعجاز کی پٹھانے خان کی گائیکی میں دلچسپی اس قدر تھی کہ یہ کن رس پکی ٹھٹھی میں موسیقی کے قیمتی ذخیرے کے مالک میاں اسلم رانجھا کے ہاں پٹھانے خان کی ریکارڈنگ سننے جاتے تھے۔ منظور اعجاز پنجاب یونیورسٹی میں تدریس سے متعلق ہوگئے تو پٹھانے خان اپنے یار یسین کے ساتھ ان کے پاس ہاسٹل نمبر دو میں ٹھہرنے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو ملتان سے نشر ہونے والی پٹھانے خان کی آواز دلوں کے تار چھوتی تھی اور ان کی آواز میں بلھے شاہ کی کافی ’چیناں انج چھڑیندا یار‘ کی بڑی دھوم تھی۔ مشتاق صوفی اور آصف شاہکار انہیں پی ٹی وی پر لے گئے تو ان کی شہرت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔
منظور اعجاز طالب علم اور پھر استاد کی حیثیت سے یونیورسٹی کی سیاست میں بڑے متحرک رہے جس کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلبہ ان کی بیری تھی۔ ایک دفعہ ان کے کمرے پر فائرنگ ہوئی اور معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یونیورسٹی سے اپنی مرضی کے کسی کالج میں ایک دو سال کے لیےتبادلہ کروا لیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ رد کردیا کہ یہ خود کو قصور وار ٹھہرانے والی بات تھی۔ ضیاالحق کے زمانے میں انصاف اور میرٹ کا خون کرکے یونیورسٹی میں اساتذہ کی بھرتی اور خلاصی کا نظام تو بعد میں متعارف ہوا لیکن بھٹو دور کے بارے میں منظور اعجاز کا یہ فقرہ بہت کچھ عیاں کرتا ہے: ’یونیورسٹی پر پیپلز پارٹی کی حکومت کا دباؤ تھا کہ بائیں بازو کے اساتذہ کو ادھر ادھر بھیج دیا جائے۔‘
یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 1971 کی جنگ ایسے بڑے واقعات کی وجہ سے نظر ذرا کم ہی کسی اور طرف جاتی ہے لیکن منظور اعجاز اس دور کے دیگر حالات کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ ان کی دانست میں یہ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کے لیے بہت بھیانک دور تھا جس میں یحیٰی خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نے تعلیمی اداروں اور میڈیا سے بائیں بازو کے لوگوں کو نکالا۔
اسی عہد میں پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر منظور اور امین مغل اسلامیہ کالج سے نکالے گئے اور انہوں نے شاہ حسین کالج کی بنیاد رکھی۔ اوروں کا تو مذکور ہی کیا خود منظور اعجاز اور شجاع الحق کو بھی ملٹری کورٹ کی چھلنی سے گزرنا پڑا۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلروں سے ان کا ٹاکرا بھی توجہ کا طالب ہے۔
علاؤ الدین صدیقی نے پیپلز پارٹی کے دور میں تبدیلی کی لہر کو محسوس کرتے ہوئے منظور اعجاز کو بتایا کہ وہ تو کافی عرصہ پہلے اسلامی سوشلزم کے حق میں لکھ چکے ہیں اور اس حوالے سے اپنی ایک کتاب بھی دکھائی۔ علامہ صاحب کی اس بات سے مجھے یاد آیا کہ اس درس گاہ کے ایک وائس چانسلر خیرات ابن رسا کے ذہن رسا میں ضیاالحق کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری خیرات کرنے کا خیال بھی آیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بھٹو صاحب ابھی جیل میں تھے، اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو سزا سنائی تو اس فیصلے کے خلاف ’ریلی لیڈ‘ کرنے کا اعزاز پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کے حصے میں آیا تھا۔
وائس چانسلروں سے ہمارے شکوے نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ بات چل رہی تھی منظور اعجاز کے لاہور میں گزرے ماہ و سال کی جس میں ذاتی طور پر میرے لیے سب سے متاثر کن چیز یہ ہے کہ دوست کس خلوص اور محبت سے دوست کی اعانت کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے، اس حسنِ عمل کی کئی مثالیں منظور اعجاز کی کتاب میں درج ہیں۔
یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد سر چھپانے کے لیے کہیں جگہ نہیں تھی، پس انداز بھی کچھ نہیں تھا، اس بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’میری ساری تنخواہ اسٹوڈنٹس اور یار دوست ہڑپ کر جاتے تھے۔‘ اس کڑے وقت میں نجم حسین سید نے اپنے گھر کے دروازے ان کے لیے کھولے اور وہ کئی ماہ ان کے ہاں مقیم رہے، مشتاق صوفی نے ٹی وی پروگرام کی کمپیئرنگ کاموقع فراہم کرکے یافت کی صورت پیدا کی۔
اسی طرح باہر جانے سے پہلے دوست ان کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہے۔ مثلاً بینک اکاؤنٹ میں پچاس ساٹھ ہزار کا بیلنس شو کرنا تھا تو ثمینہ سید نے ان کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم جمع کروا دی۔ یاروں نے ایئر لائن کے ٹکٹ کے لیے چندہ کیا۔ امریکا روانگی کے وقت ان کی جیب میں ہزار ڈالر تھے جو ان کے بقول ’سب کچھ دوستوں یاروں کی دین تھی۔‘
امریکا روانگی کے لیے کراچی گئے تو ڈاکٹر فیروز سے ملاقات کی جو انہیں شوکت صدیقی سے ملوانے لے گئے، گفتگو کے دوران اردو کے اس ممتاز فکشن نگار نے انہیں بھٹو کے الفاظ میں وزیراعظم کی اوقات بتائی، ’کیا آپ کو یہ نہیں پتا کہ وزیراعظم فوج کے ایک ٹرک کی مار ہے۔‘ برسوں پہلے راقم نے لاہور میں ایک تقریب میں اعتزاز احسن کے منہ سے اس سے ملتا جلتا جملہ سنا، جس میں ایک کی بجائے دو ٹرکوں کا ذکر تھا جن میں سے ایک نے وزیراعظم ہاؤس کا رخ کرنا ہوتا تھا اور دوسرے نے سوئے پی ٹی وی روانہ ہونا ہوتا تھا اور جمہوریت کا دھڑن تختہ ہو جاتا تھا۔
منظور اعجاز لاہور میں شادی کے بندھن میں بندھے، جس سے پہلے کئی نازک موڑ آئے جو اپنے اندر لطف کا سامان رکھتے ہیں۔
جس زمانے میں منظور اعجاز رحمان پورہ میں پروفیسر عبد المتین کے ہاں رہائش پذیر تھے وہاں کوکب عطیہ سے ان کی خوب بحث ہوتی تھی، ایک دن پروفیسر متین کی بھابھی نے نہ جانے کس ترنگ میں یہ کہہ دیا کہ دیکھ لینا یہ دونوں شادی کر لیں گے۔ شاید ان کا خیال ہو گا ’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘ منظور اعجاز کا پروپوز کرنے کا انداز بھی عجیب تھا، ایک دن وہ رکشے پر وحدت روڈ سے گزر رہے تھے کہ نقشہ اسٹاپ پر کوکب عطیہ کو کھڑے دیکھ کر رکشہ رکوایا اور اترتے ہی کہا کہ مجھ سے شادی کریں گی؟ اس کے بعد مزید گفتگو کے لیے وہ شاہ جمال کے کیفے میں آن براجے لیکن یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔ اس سلسلے کی دوسری ملاقات میں خاصی پیش رفت ہوئی اور جلد ہی سیتا پور کے مہاجر خاندان کی عطیہ کوکب سے برج والا کے منظور اعجاز کی شادی ہوگئی۔ عطیہ کوکب کے ساتھ وہ گاؤں گئے تو ایک خاتون نے دلہن کی ذات کے بارے میں پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ سید گھرانے سے ہے، اس پر دیہاتی خاتون نے سڑ کر کہا: ’کیا ارائنیں مر گئی تھیں۔‘
ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد اپنے لیے راستے مسدود دیکھ کر منظور اعجاز نے امریکا جانے کا فیصلہ کیا جہاں زندگی پھولوں کی سیج نہیں تھی لیکن لاہور کی طرح ادھر بھی چند مخلص لوگ ان کی مدد کو آئے۔ رفتہ رفتہ قدم جمنے لگے، غمِ روزگار کے باوجود علم اور ادب سے نظریاتی پختگی کے ساتھ وابستہ رہے۔ علم کی جستجو میں دھن کے ایسے پکے تھے کہ معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ ڈی مقالے کی کتابی صورت میں اشاعت کے قصے سے معلوم ہوا کہ امریکا میں بھی پاکستانی قماش کے پروفیسر پائے جاتے ہیں جو اصل مصنف کا نام نیچے کرکے اپنا نام اوپر کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر منظور اعجاز کی اور خوبی یہ تھی کہ وہ باہر جا کر اپنے خول میں بند ہو کر نہیں رہ گئے، پرانے ساتھیوں کو بھولے نہیں اور نئے دوست بنانے سے سے چوکے نہیں۔ معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے ایک دفعہ ممتاز نقاد شمیم حنفی سے کہا تھا کہ زندگی صرف ہم خیالوں کے ساتھ بسر نہیں کی جا سکتی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو منظور اعجاز کا مختلف الخیال اور مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں سے یارانہ تھا۔ اپنی یادداشتوں میں سندھ کے نامور سیاستدان اور دانش ور رسول بخش پلیجو کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ سے کیا ہے جن سے گفتگو میں اختلاف کے پہلو بھی نکل آتے تھے۔ پلیجو صاحب کی پنجابی کلاسیکی ادب سے گہری واقفیت تھی اور وہ پنجابی کے نسبتاً کم معروف شاعر ہاشم شاہ کی شاعری بھی انہیں سناتے تھے۔
انگریزی کے نامور فکشن نگار اور صحافی محمد حنیف سے ایک دفعہ کراچی میں انہوں نے شکوہ کیاکہ کسی سندھی ہندو سے تو انہوں نے ملوایا ہی نہیں، حنیف نے یہ شکوہ فوراً دور کر دیا:
’وہ ہنس کر کہنے لگے کہ آپ ساری شام جس سے باتیں کرتے رہے ہیں وہ ہندو ہی تو ہے، وہ مٹھی ضلع تھر پارکر کے ڈاکٹر کھٹاؤ مل تھے جن سے اس وقت کی دوستی اب تک قائم و دائم ہے۔‘
یہ کتاب شخصیات کا نگار خانہ ہے اس کی ایک بہت بڑی خوبی جو اصل میں اس کے مصنف کی خوبی ہے کہ دوستوں کے احسانات کا اس میں بہت ذکر ہے، اگرچہ اس کے ساتھ انہیں نامساعد حالات کا حوالہ بھی دینا پڑتا ہے جس میں انہیں کوئی عار نہیں۔ انسانی تعلقات کے ضمن میں وہ ’وفاداری بشرطِ استواری‘ کے قائل ہیں، اسیر عابد نے غالب کے ان الفاظ کو پنجابی میں یوں ترجمہ کیا تھا۔ ’جنہوں پھڑنا پکا پھڑنا۔‘ نظریہ ہو یا کوئی فرد منظور اعجاز نے دونوں کو ہی پکا ہاتھ ڈالا۔
ڈاکٹر منظور اعجاز نے امریکا میں رہ کر پنجابی زبان و ادب کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔ اکیڈمی آف پنجاب ان نارتھ امریکا (اپنا) کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو وہ پنجابی میں علمی، تخلیقی اور تحقیقی نوعیت کا کام برابر کرتے رہے۔ کبھی ان کی شاعری کا مجموعہ سامنے آجاتا، کبھی تخلیقی اظہار ڈرامے کی صورت میں ہوتا اور کبھی پنجاب کی لوک تاریخ بیان کرتے۔ ہیر کی پانچ جلدوں میں ’وارث نامہ‘ کے عنوان سے تشریح کی جس کا انداز یہ تھا کہ اشعار کے نیچے مشکل الفاظ کے معنی اور پھر اس کا ’سیدھا مطلب اور کھلا رواں مطب بتایا جاتا۔ ’غالب نامہ‘ بھی ان کی کتاب ہے، یادداشتیں اور مضامین کی کتابیں بھی منصہ شہود پر آئیں۔ اس سب پر مستزاد معروف انگریزی اور اردو اخبارات میں کئی سال کالم لکھا۔ ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ پنجابی کا تحریری سرمایہ ہے لیکن اردو اور انگریزی میں بھی سہولت سے لکھتے تھے۔ کتنے بہت سے کام کر چکے تھے اور کتنے ہی مزید کرنا چاہتے تھے کہ اجل آپہنچی۔
ساہیوال سے 13 میل دور برج والا کے اس قصباتی نے 46 برس امریکا میں گزارے لیکن کبھی وطن، اہل وطن، آبائی گاؤں اور اپنی مادری زبان کی محبت سے غافل نہیں رہا۔ ان سب باتوں کا ثبوت فکری و عملی حوالے سے وہ متنوع کام ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews ادب امریکا پٹھانے خان پنجابی محمودالحسن منظور اعجاز وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پٹھانے خان محمودالحسن وی نیوز ڈاکٹر منظور اعجاز پنجاب یونیورسٹی منظور اعجاز کی تو منظور اعجاز منظور اعجاز کے غلام علی خان کے بارے میں پٹھانے خان امریکا میں لاہور میں کی وجہ سے برج والا نہیں تھی نہیں تھا ایک دفعہ انہوں نے سے ان کا میں ایک کے بقول کے ساتھ کا خیال کی کتاب میں بھی تھے اور کا ذکر کیا ہے سے ایک میں وہ کے لیے کے بعد اور ان تھا کہ تھے کہ اور وہ گئے تو کی بات لے گئے خان کی
پڑھیں:
آصف علی زرداری کی صحت بارے سوشل میڈیا اور بھارتی چینلز جھوٹی خبریں چلا رہے ہیں، ڈاکٹر عاصم
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے معالج کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کے ٹیسٹ ہوئے جن سے پتہ چلا کہ ان کو کورونا ہوگیا ہے، ان کی طبیعت بتدریج بہتر ہو رہی ہے، یہ کہنا کہ صدر کو کورونا نہیں ہوا بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت سے ملاقاتوں پر پابندی برقرار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر مملکت کے معالج ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا اور بھارتی چینلز من گھڑت خبریں چلا رہے ہیں۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کے ٹیسٹ ہوئے جن سے پتہ چلا کہ کورونا ہوگیا ہے، ان کی طبیعت بتدریج بہتر ہو رہی ہے، یہ کہنا کہ صدر کو کورونا نہیں ہوا بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری سے ملاقاتوں پر پابندی برقرار ہے، کورونا کی شدت اب ویسی نہیں ہے جبکہ صدر کے اہل خانہ کو مکمل آگاہی فراہم کی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے ان کی کوئی فوٹیج جاری کریں یا نہیں۔
واضح رہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کورونا کا شکار ہونے کی وجہ سے کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے فون پر صدر مملکت کی خیریت دریافت کی تھی، اور ان کی صحت سے متعلق دریافت کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔