افتخار گیلانی

ترکیہ کی سیاست ایک ہنگامہ خیز مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ، جہاں ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے میئر اکرم امام اولو کی ڈرامائی گرفتاری نے ملک بھر میں اضطراب اور بے چینی کی لہر کو جنم دیا ہے ۔ امام اولو، جنہیں صدررجب طیب اردوان کا سب سے مؤثر سیاسی حریف تصور کیا جاتا ہے ، اس وقت بدعنوانی، رشوت خوری اور سرکاری فنڈز کی خردبرد جیسے الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اگرچہ استغاثہ نے ان پر دہشت گردی سے متعلق الزامات بھی عائد کیے تھے ، مگرعدالت نے وہ الزامات مسترد کر دیے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ چند ماہ قبل ان کی اپنی ہی پارٹی اپوزیشن، ریپبلکن پیپلز پارٹی جس کا ترکی زبان میں مخفف جہے پے اور انگریزی میں سی ایچ پی ہے ، کے اعلیٰ لیڈروں نے ہی بدعنوانی اور خرد برد کے الزامات عائد کئے تھے اور تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔پارٹی کے سابق سربراہ کمال کلیچی داراولو، جو پچھلے صدارتی انتخاب میں اردوان کے خلاف میدان میں تھے ، نے الزام لگایا کہ سی ایچ پی کے پرائمری یعنی پارٹی کے اندرونی انتخابات میں رقوم بانٹی جا رہی ہیں۔گرفتاری سے ایک روز قبل استنبول یونیورسٹی نے امام اولو کی گریجویشن کی ڈگری کالعدم قرار دی۔ ترکیہ کے آئین کے مطابق ایک گریجویٹ شخص ہی صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑا ہوسکتا ہے ۔ یعنی اب وہ فی الحال 2028 میں اردوان کی حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی، جس کا مخفف آق پارٹی ہے ، کے امیدوار کو ٹکر نہیں دے پائیں گے ۔
دراصل یہ مطالبہ بھی طلبہ تنظیموں کی طرف سے کئی برسوں سے کیا جا رہا تھا کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے مائگریشن کا روٹ اختیار کرکے جو ترک شہری ملک کی مایہ ناز یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں اس کو بند کیا جائے اور اس کی تفتیش کی جائے ۔استنبول یونیورسٹی نے جب تفتیش شروع کی، تو 28 ایسے افراد کے کیس سامنے آئے ، جو استنبول یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں ناکام ہو ئے تھے اور پھر انہوں نے شمالی قبرص کی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر پھر وہاں سے مائگریشن کے ذریعے استنبول یونیورسٹی میں داخلہ لیاتھا۔ان 28 افراد کی فہرست میں امام اولو کا بھی نام تھا، جنہوں نے 1992 میں اسی قبرص روٹ سے گریجویشن کی تھی۔ ان سبھی افرد کی ڈگریوں کو رد کر دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے گو کہ یہ آفت اپوزیشن نے خود ہی اپنے سرلاد دی، مگر اردوان نے اس کو ایک دوسری انتہا تک لے جا کر امام اولو کی گرفتاری میں رول ادا کیا۔ ان کی گرفتاری نے گزشتہ دس برسوں میں حکومت مخالف سب سے بڑے مظاہروں کو جنم دیا ہے ، جس نے ترکی کے جمہوری مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھا دیے ہیں۔اتوار کی شب استنبول کے علاقے ساراچانے ، جہاں استنبول بلدیہ کا دفتر ہے ، بارش کے باوجود کئی لاکھ افراد جمع ہو گئے تھے ۔ افطار کے بعد دیر رات تک پچھلے کئی روز سے ترکیہ کے بڑے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ دارالحکومت انقرہ کے سٹی سینٹر کزلائی میں بھی پچھلی کئی راتوں سے مظاہرین سحری تک ڈٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ترکیہ میں اس طرح کے مناظر 2013 کی غازی پارک تحریک کے وقت پیش آئے تھے ۔ وہ مظاہرے استنبول میں تقسیم چوک کے پاس غازی پارک کی تعمیر نو اور ایک شاپنگ مال کی تعمیر کے خلاف شروع ہو گئی تھی اور اس میں پھر دیگر عوامل بھی شامل ہوتے گئے ۔یہ مظاہرے دو ماہ تک جاری رہے ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً ایک ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ مظاہرین امام اولو کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سی ایچ پی کے سربراہ اوزگور اوزال نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ جمہوری طور پر منتخب شدہ میئر کی حمایت میں سڑکوں پر نکلیں۔ اوزال نے اعلان کیا ہر رات ساڑھے آٹھ بجے ، ترکی بھر میں اور استنبول کے مختلف چوراہوں اور میدانوں میں لوگ جمع ہونگے اور امام اولو کو بطور صدارتی امیدوار بحال کروائیں گے ۔موجودہ احتجاج میں یونیورسٹی کے طلبہ اور نسلِ نو یعنی ‘جنریشن زی’ پیش پیش ہے ۔ مصنف سیلم کورو کے مطابق یہ سچ ہے کہ 2003میں اقتدار میں آنے کے بعد اردوان نے تعمیر و ترقی کے نئے باب سے ترکیہ کو روشناس کرواکر اس کو یورپ کے ہم پلہ بنا دیا۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دوران ترکیہ خطے میں ایک بڑی طاقت کے روپ میں ابھرا اور دفاعی صلاحیت میں کلیدی پوزیشن حاصل کی۔
اردوان کا تعلق چونکہ خود بحیرہ اسود کے ساحل سے لگے پسماندہ علاقہ سے تھا، اس لئے اس نے اس علاقہ اور اناطولیہ کو اشرافیہ کے علاقوں استبنول، ازمیر اور انطالیہ کے ہم پلہ بنادیا۔ ترکیہ کے کسی دور دراز شہر کا بنیادی ڈھانچہ اب تقریبا ایسا ہی ہے ، جیسا کہ انقرہ یا استنبول کا ہے ۔مگر اب اکثر ترکوں کا خیال ہے کہ اردوان جس قدر خدمت ترکیہ کی کرسکتے تھے ، وہ انہوں نے کی ہے ۔ اب ان کے پاس کوئی اور تخلیقی مواد نہیں بچا ہے ، جس کو وہ بروئے کار لاکر مزیدخدمت کے اہل ہو سکیں۔ چونکہ یہ جنریشن زی 2003 کے بعد کی ہی پیداوار ہے ، اس لیے ان کو یہ معلوم بھی نہیں ہے کہ ترکیہ کی ان کے پیدا ہونے سے قبل کیا پوزیشن تھی۔ ابھی تک اردوان نے اپنے جانشین کا بھی اعلان نہیں کیا ہے ، جو 2028 میں ان کی جگہ لے سکے ۔ کیونکہ آئین کے مطابق وہ تیسری بار صدراتی انتخابا ت میں قسمت آزمائی نہیں کرسکتے ہیں۔اس تذبذب کی وجہ سے بھی ترکیہ کی سیاست اضطراب کا شکار ہے ۔ دوسری طرف فی الوقت عوام شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور قوتِ خرید روز بروز گھٹتی جا رہی ہے ۔
پانی کا کین جو چار سال قبل 14لیرا کا تھا، اب 120لیرا سے تجاوز کر گیا ہے ۔ ایک ڈالر کی قیمت جو چار لیرا ہوتی تھی اب 36 لیرا تک پہنچ گیا ہے ۔ زلزلہ کے بعد مکانوں کے کرایہ میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ معاشی بحران نے عوامی مظاہروں میں ایک نئی شدت پیدا کر دی ہے ۔ اس کے ساتھ امام اولو کے لیے ایک ہمدردی پیدا کر دی ہے ۔اس کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اپوزیشن نے پرائمری انتخابات منعقد کرکے نہ صرف اپنے پارٹی کے اراکین، بلکہ سبھی شہریوں کو ملک بھر میں پارٹی دفاتر میں مدعو کرکے ووٹنگ میں حصہ لینے کی اپیل کی۔اطلاعات کے مطابق، تقریباً ڈیڑھ کروڑ ترک شہریوں نے امام اولو کو صدرارتی امیدوار بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ صدر اردوان اور ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے عروج کے درمیان خاصی مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ سن 2001 میں گجرات کے بھُج میں آنے والے زلزلے نے قریب 20 ہزار افراد کی جان لی، مگر اس انسانی المیے کے سیاسی نتائج بھی کم نہ تھے ۔اس حادثے کے بعد وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کو استعفیٰ دینا پڑا، اور نریندر مودی، جو اُس وقت ریاستی سیاست میں نوارد تھے ، کو گجرات کا وزیرِ اعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔
ماہرِ انسانیات ایڈورڈ سمپسن اپنی کتاب ‘دی پولیٹیکل بایوگرافی آف این ارتھ کوئیک’ میں لکھتے ہیں کہ یہ بحران نہ صرف مودی کے لیے اقتدار کا راستہ تھا بلکہ ایک مضبوط سیاسی بنیاد استوار کرنے کا موقع بھی تھا۔ وقت گزرا، اور 2014 میں وہ وزیرِ اعظم بن گئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اسی طرح 1999 میں ترکیہ کے ازمیت میں آنے والے زلزلے ، جس میں تقریباً 20 ہزار افراد جان سے گئے ، نے بھی ترکیہ کی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ پیدا کیا۔ اسٹیفن کنزر اپنی معروف کتاب ‘کریسنٹ اینڈ اسٹار: ترکی بیٹوین ٹو ورلڈز’ میں لکھتے ہیں کہ ترکیہ کی تاریخ کو اس زلزلے سے پہلے اور بعد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں؛ ‘زلزلے نے لاکھوں ترکوں کو اُن اداروں پر سوال اٹھانے پر مجبور کیا جنہیں وہ کبھی چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ اس انتشار کے عالم میں اردوان توانائی کے ساتھ منظرِ عام پر آئے ۔جس طرح آج امام اولو زیر عتاب ہیں بالکل اسی طرح اردوان کو بھی 1998 میں قید کی سزا سنائی گئی تھی جب وہ استنبول کے میئر تھے ۔ انہوں نے ایک عوامی جلسے میں ایک نظم پڑھی تھی، جو ضیاء گوک لپ کی نظم ‘سپاہی کی دعا’ کا ترمیم شدہ نسخہ تھی، جسے ترک عدالتوں نے اشتعال انگیز قرار دیا۔اُنہیں ایک سال قید اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کی سزا سنائی گئی۔ مگر تقدیر کا کھیل دیکھیے آج وہی اردوان اقتدار کے عروج پر ہیں، اور امام اولو موجودہ استنبول کے میئر جیل میں ہیں، اور ان پر بھی عوامی عہدے سے نااہلی کا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ استنبول کا میئر صرف ایک شہر کا منتظم نہیں ہوتا۔ ترکیہ میں ہندوستان یا پاکستان کی طرح صوبائی حکومتیں نہیں ہیں۔یہاں صوبائی حکومتوں کے کام بلدیہ کرتی ہیں۔ ایسے میں استنبول جو ملک کا معاشی، ثقافتی اور آبادیاتی مرکز ہے کا میئر بے پناہ اختیارات رکھتا ہے ۔دو کروڑ سے زائد کی آبادی اور اربوں ڈالرز کے سرکاری وسائل پر اختیار کے ساتھ، یہ منصب ترکی میں صدارت کے بعد سب سے طاقتور عہدہ سمجھا جاتا ہے ۔اس کی تشبیہ ہندوستان میں اتر پردیش اور پاکستان میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ دی جاسکتی ہے ۔ جو بھی استنبول پر حکومت کرتا ہے ، اُسے اکثر ایک ممکنہ قومی رہنما تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ بات اردوان کے بارے میں درست ثابت ہوئی اور اب امام اولو کے بارے میں بھی یہی گمان ہے ۔
امام اولو کی پارٹی سی ایچ پی ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی قائم کردہ جماعت ہے ۔ گو کہ پچھلی کئی دہائیوں سے وہ اقتدار سے باہر ہے ، مگر ہندوستان کی کانگریس کی طرح آزادی کے بعد اس نے بیشتر وقت حکومت کی سربراہی کی ہے ۔ 2002 سے یہ جماعت اقتدار سے باہر ہے ، اور اس کی آخری اپنے بل بوتے پر حکومت 1979 میں تھی۔یہ صورتحال ہندوستان میں کانگریس پارٹی کی یاد دلاتی ہے ، جو 2014 سے مرکز میں اقتدار سے باہر ہے ، اور 1989 کے بعد سے اکیلے حکومت نہیں بنا سکی۔سی ایچ پی اپنے سیکولر اور کمالسٹ نظریات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے ۔ مگر اب اس کی صفوں میں کئی دائیں بازو کے افراد بھی شامل ہیں۔ خود امام اولو قران اسکول سے فارغ ہیں اور ترگت اوزال کی مدر لینڈ پارٹی سے انہوں نے سیاست کی شروعات کی تھی۔ سی ایچ پی کے ایک اور لیڈر جن کے بھی صدرارتی امیدوار بننے کے چانس ہیں وہ انقرہ کے میر منصور یاواش ہیں، ان کا سیاسی بیک گراونڈ بھی دائیں بازو کا ہے ۔
پچھلے انتخابات میں اپوزیشن کا جو اتحاد وجود میں آیا تھا، ترکیہ کی سب سے بڑی اسلام پسند تنظیم سعادت پارٹی، جو اخوان المسلون کی ہمعصر ہے ، نے اردوان کے خلاف سی ایچ پی کا ساتھ دیا۔ بلکہ سعادت پارٹی نے ہی مفاہمت کرواکے کلیچی داراولو کو مشترکہ صدارتی امیدوار بنانے پر دیگر پارٹیوں کو راضی کروالیا تھا۔پچھلے سال کے بلدیاتی انتخابات نے سی ایچ پی میں نئی روح پھونکی ہے ۔ اگرچہ نو ماہ قبل صدارتی انتخاب میں اسے شکست ہوئی تھی، مگر بلدیاتی انتخابات میں یہ پارٹی 14 بڑے شہروں، 21 صوبوں اور 337 ضلعی کونسلوں میں کامیابی کے ساتھ ابھری ہے ، اور ووٹ شیئر میں 15 فیصد اضافہ ہوکر اس نے 35.

48 فیصد ووٹ بٹورے ۔ حکمران آق پارٹی محض 32.38 فیصد ووٹ لے سکی۔
اروغان کی آق پارٹی گو کہ نجم الدین اربکان کی اسلام پسند رفاء پارٹی کی کوکھ سے نکلی ہے ، مگر وہ اب ایک ایسے اتحاد کی قیادت کرتی ہے ، جس میں ترک قوم پرست ایم ایچ پی، اور بائیں بازو کی ڈیموکرٹیک لیفٹ پارٹی بھی شامل ہے ۔انقرہ سے شائع ہونے والے اردو نیوز پورٹل ترکی اردو کے ایڈیٹر فرقان حمید کے مطابق، اگرچہ اردوان کی جماعت کے پاس اب بھی بڑا ووٹ بینک ہے لیکن ان کی اصل کمزوری خراب ہوتی معیشت ہے ، نہ کہ متحدہ حزبِ اختلاف۔اردوان خود تو خاصے راسخ العقیدہ مسلمان اور صوم و صلوة کے پابند ہیں، مگر انہوں نے اسلامی شعار اپنانے پر کسی کو مجبور کیا نہ کوئی ایسے فرمان جاری کیے ۔ اپنی پارٹی کو بھی انہوں نے مذہبی جامہ نہیں پہنایا۔ ملک میں سول کوڈ تو یورپ کے قوانین کی ہی نقل ہے ۔ ترکیہ میں نائٹ کلب، کیسینو، شراب کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے ، بلکہ کئی مقامات پر یہ مساجد کے بالکل مقابل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں جگہوں پر جم غفیر ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو کوئی چھیڑتا نہیں ہے ۔
اردوان نے خواتین کے حجاب پہننے پر جو سختی کے ساتھ پابندی عائد تھی، اس کو خواتین کی چوائس اور آزادی کی آڑ میں ختم کروایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سیاست میں فوج کی عملداری بند کروادی اور ان کو بیرکوں تک محدود کروادیا۔ پاکستان کی طرح ترکیہ میں بھی فوج نے چار بار حکومت کا تختہ پلٹ کر زمام کار سنبھالی ہے ۔ اردوان کی آمد کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔چونکہ اردوان نے ابھی تک اپنا کوئی جانشین نامزد نہیں کیا ہے ، اس لیے غالب امکان ہے کہ وہ شاید ایک بار پھر صدارت کے لیے قسمت آزمائی کریں گے ، مگر اس کے لیے ان کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ترکی کی 600 رکنی پارلیامنٹ میں میں سی ایچ پی کے پاس اس وقت 134 نشستیں ہیں۔ حکمران آق پارٹی کے پاس 272 سیٹیں ہیں، اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کے پاس 324 ارکان کی حمایت حاصل ہے جو حکومت سازی کے لیے کافی ہے ، مگر 400 نشستوں کی اُس حد سے کم ہے جو آئین میں ترمیم کے لیے درکار ہے ۔
یہ پارلیامانی گنتی اردوان کو ترکی کے سیاسی نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے سے روکتی ہے ۔ترکیہ کے سینئر صحافی مہمت اوز ترک کے مطابق اگر اردوان قبل ازوقت پارلیامنٹ کو تحلیل کرتے ہیں تو وہ تیسری بار انتخاب لڑنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے بھی پارلیامنٹ سے منظوری لازمی ہے اور اس آپشن پر شایداپوزیشن تیار ہو سکتی ہے ، کیونکہ اس کے لیڈران بھی جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کو جو چیز سب سے زیادہ حیرت میں ڈال رہی ہے وہ ہے اردوان نے اپوزیشن کے خلاف جارحانہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا، جب ان کی طاقت عروج پر ہے شام میں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے ، کرد علیحدگی پسند گروہ پی کے کے سے ایک ممکنہ امن معاہدہ، اور غزہ جنگ سے حاصل ہونے والا سیاسی فائدہ سب کچھ اردوان کی خارجہ و داخلی پالیسی کو ایک کامیاب تاثر دے رہے تھے ۔پی کے کے کی جانب سے تنظیم کو معدوم کر کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا عندیہ ایک تاریخی پیش رفت تھی، جس سے کئی دہائیوں پر محیط خونریز شورش کے خاتمے کی امید بندھی۔یہ سب ایسے مواقع تھے جن کے ذریعے اردوان اپنا سیاسی ورثہ سنوار سکتے تھے اور جیسا کہ انہوں نے پہلے اشارہ دیا تھا، 2028 میں ایک باعزت ریٹائرمنٹ کی تیاری کر سکتے تھے ۔مگر ایسا لگتا ہے ان کامیابیوں کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ، اردوان نے ایک سیاسی چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے ۔ امام اولو کو گرفتار کر کے انہوں نے اندرونِ ملک اپنی مقبولیت کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا۔ بظاہر یہ قدم ان کی طاقت کے لیے فوری خطرہ نہیں، مگر عام ترک شہری کے لیے یہ ‘حد سے تجاوز’ کا اشارہ بن چکا ہے ۔
اگرچہ اردوان نے 2023 میں اعلان کیا تھا کہ وہ 2028 میں ریٹائر ہو جائیں گے ، لیکن ان کے حالیہ اقدامات اس کے برعکس اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ تاثر اب زور پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اقتدار میں اپنی گرفت کو برقرار رکھنے اور ممکنہ طور پر طوالت دینے کے خواہاں ہیں۔اگرچہ اندرونِ ملک مخالفت بڑھ رہی ہے ، مگر اردوان کو بین الاقوامی سطح پر کسی بڑے دباؤ کا سامنا نہیں کر نا پڑ رہا ہے ، جیسا 2013 میں غازی پارک مظاہروں کے دوران کرنا پڑ رہا تھا۔
ترکی کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ عالمی طاقتیں فی الوقت اسے ناراض کرنے سے گریز کرتی ہیں۔امریکہ اس وقت اپنے اندرونی و بیرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے ، اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اردوان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اس لیے امریکہ کی طرف سے ترکی کی اندرونی سیاست میں مداخلت کا امکان کم ہے ۔یورپی یونین کو ترکیہ کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ سے یورپ آنے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے تعاون درکار ہے ، اس لیے وہ بھی اردوان کو ناپسند کرنے کے باوجود اس کی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے سے گریزاں رہیں گے ۔روس اور چین ترک سیاست پر تبصرہ کرنے یا مداخلت سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے لیے ترکی ایک طاقتور اور مستحکم اتحادی ہے ، جو خطے اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔عرب دنیا کے کئی ممالک بھی ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات رکھتے ہیں، چاہے وہ اقتصادی ہوں یا سکیورٹی سے متعلق۔ چنانچہ وہ بھی اردوان کی حمایت میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ترکیہ کی جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت نے اردوان کو ایک غیر معمولی برتری عطا کر رکھی ہے ۔ نیٹو کا رکن ملک، مشرق وسطیٰ میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا، توانائی اور مہاجرین کی راہداری یہ تمام پہلو ترکیہ کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک ناقابلِ نظرانداز حقیقت بنا دیتے ہیں۔ اردوان ان سب شعبوں پر اپنی گرفت کے باعث ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو انہیں کسی بڑے بین الاقوامی ردعمل کا سامنا کیے بغیر اپنے ملک کے اندر طاقت کے ارتکاز کی اجازت دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے طرزِ حکمرانی کو آمرانہ قرار دیا جا رہا ہے ، مگر ان کی بین الاقوامی افادیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کے اقدامات پر محتاط رویہ اپنائیں۔
یورپی یونین، امریکہ، روس اور حتیٰ کہ عرب ممالک سب ہی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اردوان کی قیادت میں ایک مستحکم ترکی، ان کے مفادات کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے ۔ عالمی روابط گو کہ اردوان کو وقتی تحفظ فراہم کر رہے ہوں، مگر ملک کے اندر عوامی ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ترکیہ میں سیاسی فضا تیزی سے بدل رہی ہے ، اور وہ شاید اس بار کسی شدید داخلی مزاحمت کا سامنا نہ کر پائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اردوان کی یہ سیاسی بازی کامیاب ہوگی اورکس طرح وہ اپنا نام تاریخ میں درج کروائیں گے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: استنبول یونیورسٹی انتخابات میں سی ایچ پی کے استنبول کے سیاست میں اردوان کو اردوان نے اردوان کے کہ اردوان ترکیہ میں اردوان کی پارٹی کے سکتے تھے انہوں نے ترکیہ کے کے مطابق آق پارٹی ترکیہ کی نہیں ہے کے ساتھ میں ایک کے خلاف ترکی کے رہی ہے اس لیے کے بعد ہے اور اور اس کو ایک کے پاس رہا ہے کیا جا اور ان کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی بلوچستان کے جیالے مایوسی کا شکار، وزراء کرپشن میں ملوث ہیں، یوسف خلجی

اپنے بیان میں لالا یوسف خلجی نے کہا کہ جیالوں کو لوگوں کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں، یہی صورتحال رہی تو بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان امن جرگے کے سربراہ لالہ یوسف خلجی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزراء کرپشن میں ملوث اور جیالے و پارٹی رہنماء مایوسی کا شکار ہیں۔ جیالوں کے کام تو نہیں ہو رہے ہیں الٹا انہیں عوام کے طعنے سننے کو مل رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اپنے جاری بیان میں لالہ یوسف خلجی نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت ہے اور نصف درجن کے قریب پارٹی کے وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریز ہونے کے باوجود پارٹی کے ورکروں اور رہنماؤں کے کام نہیں ہو رہے ہیں۔ جس سے ان میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریز کا پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ رویہ بھی درست نہیں ہے اور وزراء کرپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث ہیں، جو قابل مذمت عمل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کس کی گرفتاری ہونے والی ہے؟ پیغام جاری کردیا
  • پیپلز پارٹی نہریں نکالنے کی مخالف نہیں، یوسف رضا گیلانی
  • عید کے روز عمران خان سے ملاقات کے لیے کوئی فیملی ممبر یا پارٹی رہنما جیل نہ پہنچا
  • عمران خان سے عید کے روز ملاقات کیلئے کوئی فیملی ممبر یا پارٹی رہنما اڈیالہ جیل نہیں پہنچا
  • وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلیفونک گفتگو
  • وزیراعظم کی ترکیہ کے صدر کوٹیلی فون، عید الفطر کی مبارکباد
  • پیپلز پارٹی بلوچستان کے جیالے مایوسی کا شکار، وزراء کرپشن میں ملوث ہیں، یوسف خلجی
  • ترکیہ میں میئر امام اوغلو کی گرفتاری پر احتجاج، استنبول میں لاکھوں افراد کا مظاہرہ
  • میئر امام اوغلو کی گرفتاری پر ترکی بھر میں احتجاج، استنبول میں لاکھوں افراد کا مظاہرہ