میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہلاکتیں 1644 سے متجاوز، گمشدہ افراد کی تلاش جاری
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
میانمار اور تھائی لینڈ میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار 644 سے تجاوز کر گئی، جبکہ امدادی کارکنوں کی جانب سے ملبے کو کھود کر زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وسطی میانمار کے شہر ساگانگ کے شمال مغرب میں 7.7 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے، جس کے چند منٹ بعد ہی 6.
زلزلے سے میانمار کے مختلف علاقوں میں عمارتیں تباہ ہوئیں، پُل منہدم ہو گئے اور سڑکیں منہدم ہو گئیں، جب کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈلے میں بڑے پیمانے پر تباہی دیکھی گئی۔
حکمران جنتا نے ایک بیان میں کہا کہ زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار 644ہو گئی ہے، جبکہ 3 ہزار 408 افراد زخمی اور کم از کم 139 اب بھی لاپتا ہیں۔
مواصلات بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے الگ تھلگ فوجی زیر اقتدار ریاست سے تباہی کے حقیقی اعداد و شمار ابھی تک سامنے نہیں آئے، اور ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔
امریکی ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک صدی سے زائد عرصے میں میانمار میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا اور زلزلے کے جھٹکے اتنے طاقتور تھے کہ زلزلے کے مرکز سے سیکڑوں کلومیٹر دور بینکاک میں عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔
منڈلے میں ’اے ایف پی‘ کے صحافیوں نے صدیوں پرانا بودھی پگوڈا دیکھا جو زلزلے کی وجہ سے ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
پگوڈا کے باہر سڑک پر ایک چیک پوسٹ پر موجود ایک فوجی نے کہا کہ پہلے تو یہ ہلنے لگا، پھر یہ منظر سنگین ہوگیا، یہ عمارت منہدم ہو گئی، ایک راہب بھی مر گیا، کچھ لوگ زخمی ہوئے، ہم نے کچھ لوگوں کو باہر نکالا اور انہیں ہسپتال لے گئے۔
خانقاہ میں بدھا کے مرکزی مجسمے کا سر گر گیا اور اس کے قدم پلیٹ فارم پر رکھے رہ گئے۔
ایسی عمارات میں بھی ہر کوئی اندر سونے کی ہمت نہیں کرتا، کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ ایک اور زلزلہ آسکتا ہے، میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسا کچھ محسوس نہیں کیا۔
منڈلے ہوائی اڈے کے محافظوں نے صحافیوں کو واپس بھیج دیا، ایک نے بتایا کہ یہ کل سے بند ہے، یہان ایک مقام پر چھت گر گئی لیکن کوئی زخمی نہیں ہوا۔
ہوائی اڈے کو پہنچنے والا نقصان ایک ایسے ملک میں امدادی کوششوں کو پیچیدہ بنا دے گا، جہاں 2021 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہونے والی 4 سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے امدادی خدمات اور صحت کا نظام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔
مدد کے لیے فوج کی نایاب درخواست
حکومت کے سربراہ من آنگ ہلائینگ نے بین الاقوامی امداد کے لیے غیر معمولی طور پر اپیل جاری کی جو اس آفت کی شدت کی نشاندہی کرتی ہے، پچھلی فوجی حکومتوں نے بڑی قدرتی آفات کے بعد بھی غیر ملکی امداد سے گریز کیا تھا۔
زلزلے کے بعد ملک میں 6 سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا تھا، اور دارالحکومت نیپیڈو کے ایک بڑے ہسپتال میں طبی عملے کو زخمیوں کا کھلی فضا میں علاج کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
ایک عہدیدار نے اسے ’بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا علاقہ‘ قرار دیا۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ’میں نے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا، ہم صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں اب بہت تھکا ہوا ہوں۔‘
17 لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر منڈلے بری طرح متاثر ہوا ہے، اے ایف پی کی تصاویر میں درجنوں عمارتوں کو ملبے میں تبدیل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک رہائشی نے فون پر بتایا کہ ایک ہسپتال اور ہوٹل تباہ ہو گئے اور شہر میں امدادی کارکنوں کی شدید کمی ہے۔
ہفتہ کی صبح دارالحکومت میں داخل ہونے کے لیے چیک پوائنٹ پر بسوں اور دیگر گاڑیوں کی بڑی قطار کھڑی تھی۔
غیر ملکی امداد کی پیشکشیں اس وقت آنا شروع ہوئیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز امریکی مدد کا وعدہ کیا۔
ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ میانمار کے فوجی حکمرانوں کی اپیل کا جواب دیں گے تو انہوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے کہا کہ ’یہ خوف ناک ہے، یہ واقعی ایک برا وقت ہے، اور ہم مدد کریں گے، ہم پہلے ہی ملک کے ساتھ بات کر چکے ہیں۔‘
پاکستان نے اعلان کیا کہ ینگون اور بینکاک میں سفارت خانے ہنگامی صورتحال کی صورت میں پاکستانیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔
بھارت سے حفظان صحت کی کٹس، کمبل، کھانے کے پارسل اور دیگر ضروری اشیا لے کر ایک ابتدائی پرواز ہفتہ کے روز تجارتی دارالحکومت ینگون پہنچی، چین کا کہنا ہے کہ اس نے امدادی کارکنوں کی 82 رکنی ٹیم میانمار بھیجی ہے۔
امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ میانمار اتنی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے، زلزلے سے پہلے ہی خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً 35 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے، جن میں سے کئی کو بھوک کا خطرہ لاحق تھا۔
بنکاک میں عمارت منہدم
بنکاک میں سرحد کے اس پار امدادی کارکن رات بھر اس وقت پھنسے ہوئے افراد کی تلاش میں مصروف رہے، جب ایک زیر تعمیر 30 منزلہ عمارت منہدم ہو گئی، جو چند سیکنڈوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی تھی۔
بنکاک کے گورنر چاڈ چارٹ سیٹی پنت نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ شہر بھر میں تقریباً 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن چتوچک ویک اینڈ مارکیٹ کے قریب واقع اس عمارت میں 100 کے قریب مزدور ابھی تک لاپتا ہیں، یہ عمارت سیاحوں کے لیے مقناطیسی حیثیت رکھتی ہے۔
چاڈچارٹ نے جائے وقوع پر صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اپنے پاس موجود وسائل کے ساتھ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ہر زندگی اہم ہے، ہماری ترجیح ان سب کو بچانے کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے کام کرنا ہے۔‘
بنکاک شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ 100 سے زائد انجینئرز کو عمارتوں کے معائنے کے لیے تعینات کریں گے۔
چیڈچارٹ نے کہا کہ تقریباً 400 افراد شہر کے پارکوں میں کھلی فضا میں رات گزارنے پر مجبور ہوئے، کیونکہ ان کا گھر واپس جانا محفوظ نہیں تھا۔
بنکاک میں زلزلے کے شدید جھٹکے شاذ و نادر ہی محسوس کیے جاتے ہیں اور جمعے کے روز آنے والے زلزلے کے جھٹکوں نے شہر بھر میں خریداروں اور کارکنوں کو خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
اگرچہ بڑے پیمانے پر کوئی تباہی نہیں ہوئی، لیکن زلزلے کے جھٹکوں نے شہر کے بہت سے بلند و بالا اپارٹمنٹ بلاکس اور ہوٹلوں کی چھتوں پر سوئمنگ پولوں کی کچھ ڈرامائی تصاویر سامنے لائیں۔
بنکاک میں ہسپتالوں کو بھی خالی کرا لیا گیا، ایک خاتون نے ہسپتال کی عمارت سے منتقل ہونے کے بعد اپنے بچے کو باہر جنم دیا، ایک ترجمان نے بتایا کہ ایک سرجن نے ہسپتال سے باہر بھی ایک مریض کا آپریشن جاری رکھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا اظہار افسوس
وزیراعظم شہباز شریف نے میانمار اور تھائی لینڈ میں آنے والے تباہ کن زلزلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا کہ ’میانمار اور تھائی لینڈ کے عوام مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، ہماری دعائیں دونوں ممالک کے عوام کے ساتھ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میانمار اور تھائی لینڈ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کھڑا ہے، اس مشکل صورتحال میں جو ممکن ہوئی، وہ مدد ہم کریں گے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میانمار اور تھائی لینڈ بنکاک میں اے ایف پی کی وجہ سے منہدم ہو زلزلے کے بتایا کہ زلزلے سے کے ساتھ کے لیے ہو گئی کہا کہ
پڑھیں:
میانمار میں زلزلے سے مصدقہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مارچ 2025ء) خانہ جنگی کے باعث بدحال ملک میانمار میں کئی رہائشی علاقوں میں سرچ آپریشن جاری ہیں جبکہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ دونوں ممالک میں زلزلے کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق اتوار کو میانمار کے شہر منڈالے میں 5.1 کی شدت کے زلزلےکا ایک بڑا ضمنی جھٹکا محسوس کیا گیا۔
میانمار کے پڑوسی ممالک نے امدادی سامان اور ریسکیو اہلکار وہاں بھیج رکھے ہیں جب ملک کے فوجی حکمرانوں نے بھی اس قدرتی آفت سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے مدد کی درخواست کر رکھی ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس نے میانمار میں زلزلے کو ایک انسانی بحران قرار دیتے ہوئے امدادی کاروائیوں کے لیے ایک سو ملین امریکی ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔
(جاری ہے)
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس نے امدادی کارروائیوں کے لیے فوری طور پر ڈھائی ملین یورو کی امداد جاری کر دی ہے۔میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1700 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور 3,400 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ تاہم ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اس زلزلے کو گزشتہ ایک صدی میں میانمار میں آنے والے سب سے طاقتور زلزلوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
میانمار میں یہ قدرتی آفت ایک ایسے موقع پر آئی، جب ملک پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ملکی فوج نے 2021 میں بغاوت کے بعد میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس نے ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس خانہ جنگی کے باعث 30 لاکھ سے زیادہ انسان بے گھر ہو چکے ہیں۔
فوجی جنتا جمعہ کے روز آنے والے زلزلے کے بعد سے تباہی کی شدت سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر ہنگامی غیر ملکی امداد ملک میں پہنچ بھی جائے، تو بھی وہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پائے گی۔
سرکاری میڈیا کے مطابق فوجی سربراہ سینئر جنرل من آنگ ہلینگ نے کہا، ''تمام فوجی اور سویلین ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو مؤثر طبی ردعمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط اور مؤثر انداز میں مل کر کام کرنا چاہیے۔
‘‘خبر رساں ادارے رؤئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق زلزلے سے شدید متاثرہ علاقوں میں مقامی رہائشی باشندے خود ہی امدادی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں حکومتی امداد ضرورت سے بہت کم ہے۔
زلزلے کے مرکز کے قریب واقع قصبے ساگانگ کے ایک رہائشی نے روئٹرز کو بتایا، ''ہمیں کوئی امداد نہیں ملی اور نہ ہی کوئی امدادی کارکن نظر آ رہا ہے۔
آفٹر شاکس کے سبب رسد میں کمی اور ریسکیو کی کوششوں میں تاخیرمیانمار کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے میں مقامی آبادی کو اب بھی طاقتور آفٹر شاکس کا سامنا ہے، اور یہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب مقامی لوگ بھاری مشینری کی عدم موجودگی میں اپنے پیاروں کو ملبے کے نیچے سے نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طبی آلات کی شدید کمی کی وجہ سےمیانمار کو زلزلےکی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ملکی فوجی حکمرانوں کے اتحادی روس اور چین ہفتے کے روز مدد بھیجنے والے پہلے ممالک میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور سمیت دیگر ممالک بھی امداد بجھوانے والوں میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر (اوچا) نے متنبہ کیا ہے کہ وسطی اور شمال مغربی میانمار کے شہروں منڈالے اور ساگانگ سمیت دیگر علاقوں میں ہسپتال زخمیوں کی بہت بڑی تعداد سے نمٹنے کی جدوجہد میں ہیں۔
تھائی لینڈ میں لاپتہ افراد کی تلاش جاریدریں اثنا تھائی لینڈ میں حکام نے کہا کہ زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد اب 17 ہو چکی ہے۔ یہ تمام اموات دارالحکومت بنکاک میں ہوئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں جمعے کے روز زلزلے میں منہدم ہونے والی ایک بلند و بالا عمارت میں ہوئیں۔ وہاں 80 سے زیادہ لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔
یہ تیس منزلہ عمارت زیر تعمیر تھی۔
اسی وجہ سے زیادہ تر مزدور ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی تلاش کے لیے اتوار کے روز بھی ریسکیو کوششیں جاری رہیں۔ اس مقصد کے لیے امدادی کارکنوں نے بڑے مکینیکل ڈگرز، سونگھنے کی مدد سے تلاش کرنے والے کتوں اور تھرمل امیجنگ ڈرونز کا استعمال کیا۔اس عمارت کے باہر موجود ایک 45 سالہ تھائی خاتون نارومول تھونگلیک نے روتے ہوئے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ یہاں کام کرنے والے اپنے پانچ دوستوں کے بارے میں خبروں کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں دعا کر رہی ہوں کہ وہ بچ جائیں، لیکن جب میں نے یہاں پہنچ کر تباہی دیکھی تو سوچا کہ وہ کہاں ہو سکتے ہیں؟‘‘
ش ر⁄ م م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)