31مارچ: غیر قانونی افغانوں کے لیے آخری تاریخ
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
شہباز حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے31مارچ2025ء آخری تاریخ ہے ۔ انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اِس تاریخ تک پاکستان میں مقیم افغانوں سمیت تمام غیر ملکی از خود نہ نکلے تو انھیں زبردستی ملک سے نکال باہر کیا جائے گا ۔
مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد حکومت تمام غیر ملکیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا عندیہ رکھتی ہے ۔ غیر ملکیوں ، خصوصاً غیر قانونی افغانوں ، نے مملکتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے ۔
پاکستان کی سلامتی ، سیکیورٹی اور معیشت کے منافی اِن غیر قانونی غیر ملکیوں کے اُٹھائے گئے متعدد اور متنوع اقدامات کے پس منظر میں سب پاکستانی بیک زبان کہہ رہے ہیں: Enough is Enoughسادہ الفاظ میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کی حرکات کے پیش منظر میں پاکستانی بیک زبان یوں کہہ رہے ہیں :بھئی ہماری تو بس ہو گئی ہے ، بہت ہو گئی مہمان نوازی ، اب تم سب بوریا بستر سمیٹو اور ہمارے ملک سے نکل جاؤ، جہاں تمہارے سینگ سماتے ہیں ، چلے جاؤ۔
31مارچ کے آنے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں ۔ عید الفطر بھی سر پر ہے ۔ پاکستان کے طاقتور حکام اور ذمے دار اداروں کو اپنے وعدے اور وارننگ کے مطابق، ہر صورت میں،31مارچ کے اعلان کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنا ہے۔ حالات جو بھی ہوں اور نام نہاد عالمی دباؤ خواہ کیسا ہی ہو، پاکستان کو 31مارچ کی تاریخ کو حتمی تاریخ سمجھ کر عمل کرنا چاہیے ۔
چارعشرے سے بھی زائد عرصہ قبل سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے جذبہ اخوت کے تحت 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ہاں اقامت کی اجازت دی تھی ۔ اسلامیانِ پاکستان نے انصار بن کر ان لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی ۔
اِن افغان مہمان مہاجرین نے مگر میزبان پاکستان اور پاکستانیوں کو بدلے میں ایک بھی اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔ احسان شناسی کی بجائے اِنھوں نے احسان فراموشی کی ہے۔ حقیقی بات کی جائے تو نام نہاد افغان جہاد پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب تو یہ بات کھلے بندوں کہی جارہی ہے کہ افغان جہاد، جہاد تھا ہی نہیں۔ یہ ایک نری جنگ تھی جو سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان لڑی گئی۔ہمارے وزیر دفاع اور ممتاز سیاستدان، جناب خواجہ محمد آصف، بار بار ٹی وی شو میں اقرار اور اصرار کے ساتھ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ افغان جہاد کا تصور غلط تھا۔
خاص طور پر پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میں خونریز دہشت گردی کے متعدد ایسے واقعات و سانحات جنم لے چکے ہیں جن میں افغان شہری اور افغان مہاجرین رنگے ہاتھوں ملوث پائے گئے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور میڈیا ان کے خونیں اور خوں آشام چہرے قوم کے سامنے پیش بھی کر چکے ہیں ؛ چنانچہ اب پاکستان میں یہ خیال مستحکم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام غیر قانونی افغانوں کے نکلنے ہی سے پاکستان مستحکم ہوگا اور ہم کامل امن کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔
اس لیے ہم سب پاکستانی 31مارچ کی تاریخ کا چہرہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کب یہ دن طلوع ہو اور کب ہماری جان اِن غیر قانونی افغانوں سے چھُوٹے۔ افغانوں سمیت جملہ غیر ملکی غیر قانونی مقیم افراد کا پاکستان سے انخلا از بس ضروری ہو چکا ہے ۔ اِن افغان مہاجرین کی لاتعداد قابلِ گرفت حرکات کے سبب حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ پاکستانی حکام نے اعلان کر دیا ہے کہ اب31مارچ کو پاکستان میں مقیم ’’افغان سٹیزن کارڈ‘‘ ہولڈرز کو بھی پاکستان سے نکلنا ہوگا ۔
پاکستان نے فیاضی اوراعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے ایک بار پھر تقریباً تین ماہ کا وقت دیا تھا کہ اِس دوران پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں سمیت تمام غیر ملکی نکل جائیں۔ جنوری2025ء میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو یہ وقت فراہم کیا تھا کہ اِس عرصے میں وہ باوقار انداز میں پاکستان سے نکل جائیں ۔
اب بھی اگر وہ ڈھٹائی سے نہ نکلے تو زبردستی اور گرفتاریوں کا عمل بروئے کار آئے گا ۔ غیر قانونی افغانوں کو پاکستانی حکام کو مزید کسی آزمائش میں ڈالنے سے اعراض اور گریز کرنا چاہیے ۔
بد مزگی اور تلخی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز مقررہ تاریخ تک پاکستان کی سرزمین چھوڑ دیں ۔ اِسی میں اُن کی اور ہماری بہتری ہے ۔ ہمارے آرمی چیف، جنرل عاصم منیر صاحب، بھی اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اب Soft State کی بجائے Hard State بننا ہے ؛ چنانچہ پاکستان کے مبینہ ’’سخت ریاست‘‘ بننے کے بھی تقاضے ہیں کہ پاکستان31مارچ کی ڈیڈ لائن پر عمل کرتے ہُوئے تمام غیر قانونی افغانوں کو ملک سے نکال باہر کرے۔
ایران بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران اپنے ہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو نکال چکا ہے ۔ جن افغانوں نے از خود ایران سے نکلنے سے انکار کیا ، اُن کے ساتھ سختی برتی گئی۔ اور یوں افغان طالبان حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیاں تلخی اور ناراضی بھی ہُوئی ہے ۔ ایران مگر اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا ہے ۔ اب تو ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی احکامات کے تحت امریکا میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو جہاز بھر بھر کر اُن کے آبائی وطنوں میں بھیجا جارہا ہے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 24 اپریل 2025ء تک امریکا میں مقیم 5لاکھ غیر قانونی تارکین ِ وطن امریکا سے از خود نکل جائیں ۔یہ تاریخ گزرنے کے بعداُن سے جو سلوک ہوگا، اس کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو نکالنے سے کوئی عالمی ادارہ( مثلاً UNCHR) یا نام نہاد انسانی حقوق کی کوئی تنظیم حکومتِ پاکستان کو کیسے روک سکتی ہے؟ ہمارے عمل کو کیسے غیر انسانی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مناسب موقع ہے کہ پاکستان میں عشروں سے رہائش پذیر افغانوں کو ہر صورت نکال دیا جائے۔
پاکستان میںمقیم کئی افغان اپنے افغان سٹیزن کارڈز میڈیا کو دکھا دکھا کر کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’ ہماری یہاں (پاکستان میں) دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہو رہی ہیں ، ہم اب کیسے افغانستان چلے جائیں؟۔‘‘ پاکستان اور پاکستانی اِس بودے اور بے بنیاد موقف کو تسلیم نہیں کرسکتے ۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ پاکستان نے اِن مبینہ دو افغان مہاجر نسلوں کا کمر توڑ اور پاکستان کی قومی سلامتی کے منافی بوجھ اُٹھانے کا مسلسل ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا ہے ۔
ایران میں بھی اِن افغان مہاجرین کی دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہُوئیں مگر ایران نے اِس کے باوصف، ہر دباؤ کو مسترد کرتے ہُوئے، اِنہیں ملک سے نکال دیا۔ افغان طالبان حکام نے پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کررکھا ہے اور جس طرح اپنے ہاں ٹی ٹی پی کو اپنی سرپرستی میں پاکستان مخالف خونریز کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھُوٹ دے رکھی ہے۔
اِس پس منظر میں پاکستانی حکام نے افغان طالبان حکمرانوں کی مذکورہ درخواست مسترد کرکے پاکستانی قوم کے آدرشوں کی ترجمانی کی ہے۔ اب افغان مہاجرین سے مزید کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے ۔ ماضی میں بار بار نرمیاں برت برت کر پاکستان نے اِن کے مہلک نتائج بھی دیکھ لیے ہیں۔اب ہر قسم کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے اور پاکستانیوں کا صبر بھی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں مقیم غیر قانونی پاکستان اور پاکستانی غیر قانونی افغانوں افغان سٹیزن کارڈ افغان مہاجرین میں پاکستان افغانوں کو کہ پاکستان پاکستان نے غیر ملکیوں اپنے ہاں چکے ہیں ن افغان رہے ہیں ملک سے سے نکل ہیں کہ
پڑھیں:
ایوارڈ اور ادھورا انصاف
ایوارڈ دینا ایک علامتی عمل ہوتا ہے، جو تاریخ میں کسی شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے مگرکیا یہ عمل حقیقی انصاف کا متبادل ہو سکتا ہے؟ ذوالفقارعلی بھٹوکو اس سال 23 مارچ کو بعد از مرگ ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا جانا، ان کے سیاسی سفرکا ایک باضابطہ اعتراف ضرور ہے لیکن اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان کے دورِ حکومت اور اس کے اثرات سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم نے اس تاریخ سے کچھ سبق حاصل کیا ہے یا ہم صرف ماضی کی شخصیات کو ایوارڈ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں؟
بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کی ایک نمایاں شخصیت تھے جنھوں نے عوامی سیاست کو فروغ دیا اور کچھ ایسے اقدامات کیے جنھوں نے ملک کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے پرگہرا اثر چھوڑا۔ ان کے حامی انھیں عوامی حقوق کے علمبردارکے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ناقدین ان کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔
وہ ایک متحرک سیاسی رہنما تھے لیکن ان کے طرزِ سیاست پر اختلافِ رائے موجود ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے پاکستانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی رہنماؤں کو پہلے متنازع بنایا گیا، پھر دہائیوں بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھیں ایک مقدمے کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
آج جب انھیں بعد از مرگ سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا ہے تو یہ ایک اہم موقع ضرور ہے مگر اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کے اعترافات ماضی کی غلطیوں کا حقیقی ازالہ کر سکتے ہیں؟ کیا صرف ایک سرکاری اعزاز دینے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں یا حقیقی انصاف کا مطلب کچھ اور ہے؟
پاکستان میں کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام عوامی مسائل اور جمہوری جدوجہد جاری رہی ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عام آدمی کے مسائل آج بھی کم و بیش وہی ہیں۔
سندھ میں پانی کے مسائل بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں محرومی کے احساس جیسے معاملات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ جب لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انھیں بعض اوقات ریاست مخالف عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں بھی ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے محض رسمی ایوارڈز کے ذریعے اعترافِ جرم کیا جاتا رہے گا؟
جمہوری حقوق کی بات کرنے والے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے اور ریاستی جبر پر سوال اٹھانے والے آج بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی طرزِ عمل دہرا رہے ہیں جس پر کئی بار تاریخ میں نظرثانی کی جا چکی ہے؟ بھٹو صاحب کو ’’ نشانِ پاکستان‘‘ دینا ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن کیا اس سے عام شہریوں کو کوئی عملی فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے بلوچستان میں برسوں سے اپنے لاپتہ پیاروں کا انتظار کرنے والی ماؤں کے آنسو خشک ہوں گے؟ کیا اس سے وہ مزدور خوشحال ہو جائے گا جو دن رات محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا ہے؟
اگر ہم پاکستانی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اقتدار ہمیشہ مخصوص حلقوں تک محدود رہا ہے۔ وہی جاگیردار، سرمایہ دار اور بااثر خاندان آج بھی سیاست پر غالب ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہے تو ضروری ہے کہ جمہوری اقدار کو مضبوط کیا جائے عوامی مسائل کو عملی طور پر حل کیا جائے اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی اور ایک دن وہی لوگ جو آج دبائے جا رہے ہیں مستقبل میں ایوارڈز کے حقدار قرار دیے جائیں گے، لیکن تب شاید وہ خود یا ان کے پیارے اس دنیا میں نہ ہوں۔
ایوارڈ دینا اور تقاریب منعقد کرنا ایک علامتی قدم ہو سکتا ہے لیکن اگر عملی اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ صرف ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گا، اگر ماضی کی قربانیوں کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام کے حقوق کو اولین ترجیح دی جائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جائے۔ ورنہ یہ سوال ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا کہ آیا ہماری ریاست کو حقیقی انصاف کی فکر ہے یا صرف وقت گزرنے کے بعد رسمی اعترافات کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف ماضی کے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کر کے اپنی ذمے داری پوری سمجھتے ہیں یا ہم حقیقی معنوں میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ اگر اس سمت میں عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ایوارڈز اور اعترافات محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائیں گے جب کہ عوام کے حقیقی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا صرف وقت کے ساتھ اپنے رہنماؤں کو یاد کر کے رسمی ذمے داری پوری کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بحث صرف بھٹو تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں جنھیں ان کے وقت میں پذیرائی نہ ملی لیکن بعد میں ان کے افکار اور نظریات کو تسلیم کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ یہی رویہ اپناتے رہیں گے؟ پہلے کسی کو اختلافِ رائے کی بنیاد پر دبائیں گے اور پھر کئی دہائیوں بعد انھیں اعزاز دے کر اپنی غلطیوں کو ماضی کا قصہ بنا دیں گے؟ کیا ہم نے واقعی ایک بہتر نظام کے قیام کے لیے کچھ سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟
اگر واقعی ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایوارڈ دینے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا، عدلیہ اور قانون کے نظام کو آزاد اور غیرجانبدار بنانا ہوگا اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے سیاسی و سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ جب تک ہم یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تب تک نہ تو ماضی کے رہنماؤں کی قربانیوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف ممکن ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں انصاف کا کوئی واضح راستہ نکل سکے گا۔
ہمیں اب ایوارڈز سے آگے سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو لوگ آج ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف لڑ رہے ہیں وہی کل کے ہیرو ہیں۔ اور ہمیں ان کی قدر آج کرنی ہوگی نہ کہ کئی دہائیوں بعد جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ تاریخ کے ماتھے پر تمغے سجانے کے بجائے آج کے ہیروز کے ہاتھ میں انصاف تھمانا ہوگا۔ یہی حقیقی خراج تحسین ہوگا اور یہی ایک بہتر اور منصفانہ پاکستان کی طرف پہلا قدم بھی۔