الوداع رمضان، آمدِ امتحان
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اس جمعۃ الوداع کے بعد رمضان المبارک ہم سے بچھڑنے کو ہے۔ رمضان کے بعد دیکھتے ہیں کہ آپ کم کھاتے، کم سوتے، کم بولتے اور کیا اپنے نفس کی چوکی داری کرتے ہیں یا پہلے کی طرح پھر ویسے ہی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔
یاد رکھیے! اﷲ تعالی نے سورہ العمران میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اﷲ کی راہ میں نہ دے دو۔ کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟ کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔
کم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں؟ ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اﷲ تعالی انسان کی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایک انسان پورا مہینہ بہت کچھ نہ کھا کر اور نہ پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے؟ کم سے کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت میں اہتمام کرتے ہیں اور اﷲ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سر و پا محفلوں سے دامن بچا تے ہوئے، اﷲ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سورہ مزمل آیت6، مفہوم: ’’بے شک! رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو بالکل درست کر دینے والا ہے۔‘‘
سورہ ہود آیت114، مفہوم: ’’دن کے دونوں سروں پر نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔‘‘
سورہ الذاریات آیات16,17,18 مفہوم : ’’ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا اسے لے رہے ہوں گے وہ تو اس پہلے ہی نیک تھے وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘
کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں اعتکاف میں بیٹھنے میں کیا راز پوشیدہ ہے ؟ دراصل اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اﷲ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ غور کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ جیسے رمضان المبارک میں اپنے روزے کی حفاظت کے لیے اس بات کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں کہ آپ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو اﷲ کو ناپسند ہو مبادا آپ کا روزہ ضایع ہو جائے۔ بالکل اسی طرح غیر ِ رمضان آپ اپنے نفس کی اسی طرح کی چوکی داری کرتے ہیں یا نہیں ؟
سورہ یوسف آیت 23، مفہوم: ’’اس عورت نے کہ جس کے گھر میں یوسف تھا، یوسف کو ورغلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی: آجاؤ یوسف۔‘‘
اسی طرح کی نفس کی نگرانی اﷲ تعالی نے آپ کو تمام رمضان میں سکھائی ہے۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
سورہ النازغات آیت37 تا 40، مفہوم: ’’تو جس شخص نے سرکشی کی ہوگی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے مگر ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔‘‘
حضرت معاذ ؓ سے ابن ماجہ کی حدیث میں مروی ہے کہ آپؐ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: ’’اس کو روک رکھو۔ میں نے عرض کیا: کہ اے اﷲ کے نبیؐ! جو گفت گو ہم عام طور پر کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے معاذ! لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں (یعنی غیبت، بہتان، گالیوں بھری باتیں) ہی تو ہوں گی۔‘‘
سورہ بنی اسرائیل آیت 32 میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔ سورہ العمران آیت186، مفہوم: ’’یقیناً! تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔‘‘ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دوراہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں اور یہ سب تدریجاً ہوتا ہے۔
درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ اس سلسلے میں آپ تدریج کا راستہ بھی اپنا سکتے ہیں مگر پھر یہ بھی یاد رکھیں! شیطان بھی کہیں تدریج کے ساتھ آپ کو اپنے راستے پر نہ لے جائے۔ سورہ اعراف آیات 16,17,18، مفہوم: ’’پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تُونے ملعون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (انسانوں) کو گم راہ کرنے کے لیے بیٹھوں گا، پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شُکر گذار نہیں پائے گا۔ اﷲ نے فرمایا: یہاں سے نکل جا مردود ۔ جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں (ان کو اور تم سب کو) جہنم میں بھر دوں گا۔‘‘
جب بڑے بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحاں اور بھی سخت اور محتاط رویوں کا متقاضی ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک اپنے نفس کی اپنی زندگی کا مطلب یہ ہیں کہ ا پ چوکی داری اﷲ تعالی ہیں اور ا کرتے ہیں ہے کہ ا پ دیتے ہیں کے بعد کے لیے اپنے ا
پڑھیں:
ماحولیاتی نفسیات: انسان اور فطرت کا باہمی تعلق
ماحولیاتی نفسیات (Environmental Psychology) ایک بین الضابطہ (interdisciplinary) شعبہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ماحول انسان کی نفسیات اور طرز عمل کو کیسے متاثر کرتا ہے اور انسان کس طرح اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کرتا ہے۔
یہ علم ہمیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہمارے ارد گرد کی فطری اور مصنوعی دنیا ہمارے جذبات، رویے، صحت، اور سماجی تعلقات پر کیا اثر ڈالتی ہے۔
ماحولیاتی نفسیات (Environmental Psychology) کے بانیوں میں کئی ماہرین نفسیات اور محققین شامل ہیں جنھوں نے اس شعبے کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، چند نمایاں نام درج ذیل ہیں:
کرت لیوین کے مطابق انسانی رویہ فرد اور ماحول کے تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ راجر بارکر نے ''Ecological Psychology'' کے تحت مطالعہ کیا کہ ماحول انسانی طرزِ عمل پر کیسے اثر ڈالتا ہے۔
علاوہ ازیں روبن مور اور کلیر کوپر مارکوس نے تعمیر شدہ ماحول اور انسانی نفسیات، خاص طور پر بچوں کی کھیل کی جگہوں پر تحقیق کی۔ایگنس ویزل نے ''Probabilistic Functionalism'' کے ذریعے انسانی ادراک اور ماحول کے تعلق کو واضح کیا۔
ماحولیاتی نفسیات کا یہ شعبہ 1960-70 کی دہائی میں متعارف ہوا، اور اب نفسیات، سماجیات، شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی علوم کے حوالے سے موثر نتائج کا حامل ہے۔ موجودہ دور میں انسانی رویوں، مزاج اور شخصیت میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
جس میں دوسرے عوامل کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر بھی شامل ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، شدید گرمی اور موسموں کی شدت انسان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ اس حوالے سے اہم عناصر کی نشان دہی ضروری ہے تاکہ ہم ماحول اور ذہنی تناؤ کے پس منظر کو سمجھ سکیں۔
انسان ہمیشہ سے قدرتی ماحول کا حصہ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کھلے آسمان کے نیچے، درختوں اور دریاؤں کے قریب زندگی بسر کرتے تھے، اور ان کے طرز زندگی میں فطرت کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم تھا۔ جدید دور میں، شہروں کی بے ہنگم ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور مشینی طرز زندگی نے ہمیں فطرت سے دور کر دیا ہے۔
اس فاصلے نے ہماری ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو قدرتی ماحول میں زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں ذہنی سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیات زیادہ پائی جاتی ہیں۔
سبزہ، درخت، اور کھلی فضائیں ذہنی دباؤ (stress) کم کرنے، توجہ بڑھانے اور عمومی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ماحولیاتی نفسیات میں ان مختلف عوامل پر غور کیا جاتا ہے جو انسانی جذبات اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
قدرتی ماحول:سبزہ، پانی کے ذخائر، اور پہاڑ انسانی نفسیات پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔درختوں کے سائے میں وقت گزارنا بلڈ پریشر کم کرتا ہے اور دل کی صحت بہتر بناتا ہے۔ساحل سمندر پر چہل قدمی یا کسی پارک میں بیٹھنے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔
مصنوعی ماحول کے حوالے سے بات کی جائے تو شور، آلودگی، اور ہجوم ذہنی تناؤ بڑھاتے ہیں۔بڑی عمارتیں اور کنکریٹ کے جنگل انسان کو قدرت سے دور کر کے احساس محرومی پیدا کرتے ہیں۔روشن اور کھلی جگہوں میں کام کرنیوالے افراد زیادہ پیداواری (productive) ہوتے ہیں، جب کہ تاریک یا بند جگہوں میں رہنے والے لوگ جلدی افسردہ ہو سکتے ہیں۔
دھوپ والے دن انسان زیادہ خوش باش محسوس کرتا ہے، جب کہ مسلسل بارش یا سردی اداسی کو بڑھا سکتی ہے۔موسم کی تبدیلی ذہنی امراض جیسے کہ ''سیزنل ایفیکٹیو ڈس آرڈر'' (Seasonal Affective Disorder - SAD) کو جنم دے سکتی ہے۔
آلودگی اور ذہنی صحت:فضائی آلودگی یادداشت کو کمزور کر سکتی ہے اور ڈپریشن میں اضافہ کر سکتی ہے۔شور کی آلودگی نیند کے مسائل، چڑچڑاپن، اور ذہنی دباؤ پیدا کرتی ہے۔بڑے شہروں میں زندگی کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے لوگ مسلسل ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
یہاں ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی، اور حد سے زیادہ اسکرین کا استعمال لوگوں کے رویے پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ شہری آبادی میں بے چینی اور ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ قدرت سے دوری اور مسلسل مصروف زندگی ہے۔
چونکہ ماحولیاتی عوامل ہماری نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، اس لیے ان میں بہتری لا کر ہم اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ شہروں میں زیادہ سے زیادہ پارکس، باغات، اور درخت لگانے سے لوگوں کو سکون کا احساس ہو سکتا ہے۔
وقتاً فوقتاً قدرتی ماحول میں جانا، جیسے کہ پہاڑوں، جنگلات یا ساحل سمندر پر چھٹیاں گزارنا، ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔گھروں اور دفاتر میں زیادہ سے زیادہ قدرتی روشنی داخل ہونے دینی چاہیے، کیونکہ یہ خوشی کے ہارمون (serotonin) کو بڑھاتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ استعمال، گاڑیوں کی تعداد میں کمی، اور شور کی آلودگی کو کم کرنے کے اقدامات ضروری ہیں۔ماحول دوست طرزِ زندگی سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
ری سائیکلنگ، پانی اور بجلی کی بچت اور پلاسٹک کے کم استعمال سے نہ صرف قدرتی ماحول بہتر ہوگا بلکہ انسانوں کے اندر احساسِ ذمے داری بھی بڑھے گا۔ماحولیاتی نفسیات ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمارا ذہنی سکون صرف اندرونی عوامل پر نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد کے ماحول پر بھی منحصر ہے، اگر ہم اپنی زندگی میں فطرت کو زیادہ جگہ دیں، تو ہم نہ صرف خوش رہ سکتے ہیں بلکہ زیادہ تخلیقی اور مثبت طرزِ زندگی اپنا سکتے ہیں۔ انسان اور فطرت کا تعلق محض حیاتیاتی نہیں، بلکہ ایک گہرا نفسیاتی رشتہ ہے اور اسے برقرار رکھنا ہماری ذہنی صحت اور مجموعی فلاح کے لیے ضروری ہے۔