غزہ پٹی: حماس کا ایک اور اعلیٰ عہدیدار ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) غزہ پٹی پر قابض عسکریت پسند تنظیم حماس نے جمعرات کے دن تصدیق کر دی کہ اسرائیلی دفاعی افواج کے ایک تازہ فضائی حملے میں اس کے سرکاری ترجمان عبداللطیف القانوع ہلاک ہو گئے ہیں۔
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے بمباری کے نتیجے میں غزہ پٹی میں حماس کے متعدد اعلیٰ عہدیدار مارے جا چکے ہیں۔
القانوع حالیہ اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والے حماس کے ایک اور اہم اہلکار تھے۔حماس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ تنظیم کے ترجمان القانوع کی ''شہادت پر سوگوار ہے،‘‘ جو شمالی غزہ کے جبالیہ نامی علاقے میں ایک خیمے پر کیے گئے ''براہ راست‘‘ حملے میں مارے گئے۔
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد حملوں میں تیزیغزہ پٹی میں جنگ بندی عملاﹰ 18 مارچ کو ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد اسرائیل نے اس فلسطینی علاقے میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
(جاری ہے)
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سیزفائر ختم ہونے کے بعد سے اب تک مزید کم از کم 855 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے ایک فضائی حملے میں حماس کی داخلی سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ راشد جحجوح کو ہلاک کر دیا تھا۔
چند دن پہلے حماس نے اعلان کیا تھا کہ غزہ پٹی میں اس کی حکومت کے سربراہ عصام الدعالیس اور وزارت داخلہ کے سربراہ محمود ابو وتفہ سمیت کئی عہدیدار اسرائیلی حملوں میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس نے عصام الدعالیس کو ہلاک کیا، جو حماس کے سیاسی بیورو کے رکن تھے۔ وہ جون سن 2021 میں غزہ پٹی میں حماس کی انتظامیہ کے سربراہ بنائے گئے تھے۔
حماس اپنے سیاسی بیورو کے دو دیگر اراکین صلاح البردویل اور یاسر حرب کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر چکی ہے۔
تاہم اس جنگجو گروہ کا کہنا ہے، ''قابض فوج کی جانب سے تحریک کے رہنماؤں اور ترجمانوں کو نشانہ بنانا ہماری مزاحمت کو کمزور نہیں کرے گا۔
‘‘ یورہی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں پر بھی حملےلبنان نے جمعرات کے روز بتایا کہ نئے اسرائیلی حملوں میں اس ملک کے جنوب میں چار افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔
یہ حملے جنوبی لبنان میں جنگجوؤں کے خلاف جاری اسرائیلی حملوں کا تسلسل تھے، حالانکہ نومبر میں اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروہ حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی طے پائی تھی۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے، ''جنوبی لبنان کے یُحمر کے علاقے میں حزب اللہ کے متعدد دہشت گردوں کو ہتھیار منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا، تو انہیں نشانہ بنایا گیا۔‘‘
حزب اللہ کے ساتھ ستائیس نومبر کی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی دفاعی افواج لبنان میں حزب اللہ کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں، جو ان کے بقول جنگ بندی کی خلاف ورزی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس وقت سب سے شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی، جب اسرائیلی حملوں میں جنوبی لبنان میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ حملے اسرائیل پر راکٹ فائر کے جواب میں کیے گئے تھے۔
غزہ میں خوراک کی قلتاقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ میں لاکھوں انسان ایک بار پھرشدید بھوک اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں کیونکہ فوجی کارروائیوں میں توسیع کے باعث خوراک کی ترسیل کے لیے امدادی کارروائیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے جمعرات کے دن انتباہ جاری ہوئے کہا کہ گزشتہ تین ہفتوں سے غزہ پٹی میں امدادی خوراک کی نئی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔
اس ادارے نے مزید کہا کہ خوراک کے موجودہ ذخائر زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں تک غزہ پٹی کے باسیوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا، تو غزہ پٹی میں خوراک کی قلت کا بحران شدید تر ہو جائے گا۔
یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیل میں داخل ہو کر اچانک ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں عسکری آپریشن شروع کیا تھا، جو حالیہ سیزفائر تک جاری رہا تھا۔
غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے، جن میں سے بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
ادارت: عاطف توقیر، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے غزہ پٹی میں کے سربراہ خوراک کی حماس کے گئے تھے کے بعد
پڑھیں:
حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا وعدہ
مزاحمتی دھڑے کی وفاداری کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کے پاس جنوبی لبنان پر قبضے کے خاتمے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یا تو مذاکرات کے ذریعے، یا فوجی آپریشن کے ذریعے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان میں حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ نے زور دیا ہے کہ صہیونی حکومت کے پاس جنوبی لبنان سے قبضہ ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں؛ چاہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہو یا فوجی کارروائی کے ذریعے۔ فارس نیوز کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے وفاداری برائے مزاحمت بلاک کے سربراہ محمد رعد نے جمعرات کے روز اس بات پر تاکید کی کہ کسی بھی طریقے سے، صہیونی حکومت کے قبضے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے حزب اللہ کی خواتین عہدیداروں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ حزب اللہ لبنان میں موجود تھا، موجود ہے اور رہے گا۔ یہ قبضے، ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ 1982 میں اپنی تشکیل کے بعد سے لبنانی عوام کے لیے ایک کامیاب نمونہ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں کیونکہ اس نے 1993، 1996 اور 2000 میں دشمن کو شکست دی۔ اسی طرح 2006 میں عالمی جنگ کا سامنا کرتے ہوئے اسرائیل کو شکست دی۔ اس وقت اسرائیل لبنان میں پانچ پہاڑی علاقوں پر قابض ہے۔
صہیونیوں کا کہنا ہے کہ جب تک حزب اللہ اپنے ہتھیار نہیں ڈال دیتا اور لبنانی فوج سرحدی علاقوں کا کنٹرول نہیں سنبھال لیتی، وہ ان علاقوں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ لبنانی فوج نے ابھی تک صہیونیوں کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی، اور لبنانی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ صہیونی حکومت صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، اس لیے فوجی کارروائی کے ذریعے صہیونی افواج کو ان اسٹریٹجک علاقوں سے نکال باہر کرنا ہوگا۔
محمد رعد نے صہیونی حکومت کی جارحانہ اور نسل پرستانہ فطرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن (اکتوبر 2023) کو دشمن کے لیے ایک تکلیف دہ ضرب قرار دیا اور کہا کہ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ دشمن اپنی ہوش کھو بیٹھا۔ اس کے فوراً بعد امریکہ نے فضائی حملے شروع کیے، سیٹلائٹس اور اسمارٹ میزائل اسرائیل کی مدد کے لیے بھیجے گئے۔
نیٹو کے تمام رکن ممالک نے بھی اپنی خفیہ معلومات صہیونیوں کے ساتھ شیئر کیں تاکہ لبنان کے خلاف اسرائیلی حملوں میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی مزاحمت نے اسرائیل پر حملہ کرنے کا فیصلہ لبنان کے دفاع اور غزہ کے عوام کی حمایت میں کیا۔ اسرائیل نے لبنان پر بڑے پیمانے پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ حزب اللہ کو ختم کیا جا سکے، لیکن وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس لیے اس نے جنگ کو ملتوی کیا اور اسے پیجر بم دھماکوں جیسے حملوں کے ذریعے قتل و غارت کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔
27ستمبر کو لبنان میں ریڈیو کمیونیکیشن ڈیوائسز (پیجرز) کے دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد شہید اور 4000 سے زائد زخمی ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ لبنان میں دھماکوں کا سبب بننے والے پیجرز اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے تیار کردہ تھے اور انہیں اسرائیل میں اسمبل کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ یہ پیجرز اسرائیل میں بارودی مواد سے لیس کیے گئے تھے تاکہ استعمال کرنے والے افراد کے دونوں ہاتھ ضائع ہو جائیں اور وہ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے قابل نہ رہیں۔
محمد رعد نے مزید کہا کہ حزب اللہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ دشمن اس معاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔ حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور وہ ہر ممکن قدم اٹھائے گا تاکہ اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکالا جا سکے۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ موجودہ مرحلے میں حزب اللہ کی ترجیحات سفارت کاری، مزاحمت یا دونوں طریقوں سے قبضے کو مکمل طور پر ختم کرنا، لبنان کی تعمیر نو، لبنان کی خودمختاری کا تحفظ، ڈھانچے کی اصلاح اور قومی شراکت پر تاکید کرنا ہے۔