UrduPoint:
2025-03-29@11:31:13 GMT

بھارت: 'مسلم خاندانوں میں ہندو محفوظ نہیں'، یوگی

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

بھارت: 'مسلم خاندانوں میں ہندو محفوظ نہیں'، یوگی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ہندوؤں کے درمیان مسلمان تو محفوظ ہیں، تاہم ہندو مسلم خاندانوں کے درمیان محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی مثال دی۔

متعدد بھارتی کارکنان اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارت، خاص طور پر ریاست یو پی میں، حکومت اور ہندو قوم پرست تنظیموں پر مسلمانوں کے خلاف زیادتیاں کرنے، مار پیٹ، ہجومی تشدد، پولیس کی کارروائیوں سمیت مختلف طرح کے ظلم و جبر کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کی فتح کا جشن، جھڑپوں میں چار افراد زخمی

مسلمانوں کی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں پر حملے بھی ایک عام بات ہیں، جس کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

ریاست بلڈوزر انصاف کے لیے بھی عالمی سطح پر 'معروف' ہے، تاہم ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا دعوی ہے کہ ان کی ریاست میں مسلمان پوری طرح سے محفوظ ہیں۔

انہوں نے ریاست میں ہندوؤں کے مندروں کی بحالی پر بھی زور دیا اور کہا کہ جو بھی ایسے پرانے مقامات ہیں، وہاں پر مندروں کو بحالی کا عمل جاری رہے گا۔

بھارت: ہولی ایک بار آتی ہے اور جمعہ کی نماز 52 بار، مسلمان گھروں میں رہیں

یوگی نے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا؟

یوگی آدتیہ ناتھ کا ایک پوڈ کاسٹ بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی پر نشر ہوا ہے، جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ ریاست یو پی میں اقلیتیں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔

ریاست اتر پردیش میں تقریبا چار کروڑ مسلمان آباد ہیں اور ان کے تحفظ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا، "100 ہندو خاندانوں میں ایک مسلمان خاندان سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ انہیں تمام مذہبی رسوم پر عمل کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ لیکن کیا 100 مسلم خاندانوں میں 50 ہندو محفوظ رہ سکتے ہیں؟ نہیں: بنگلہ دیش اس کی ایک مثال ہے، اس سے پہلے پاکستان کی مثال ہے، افغانستان میں کیا ہوا؟"

کسی کو 'میاں ٹیاں' یا 'پاکستانی' کہنا جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

انہوں نے مزید کہا، "اگر دھواں اٹھ رہا ہو، یا کسی کو نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو ہمیں مار کھانے سے پہلے ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

"

اتر پردیش میں مسلمانوں کے خلاف متعدد حملوں کی اطلاعات کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے، تاہم وزیر اعلیٰ نے دعوی کیا کہ سن 2017 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ریاست میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا، "اتر پردیش میں مسلمان سب سے زیادہ محفوظ ہیں، اگر ہندو محفوظ ہیں تو وہ بھی محفوظ ہیں۔

یوپی میں 2017 سے پہلے فسادات ہوئے تھے، تو اگر ہندو کی دکانیں جل رہی تھیں تو مسلمانوں کی دکانیں بھی جل رہی تھیں اور اگر ہندو کے گھر جل رہے تھے تو مسلمانوں کے گھر بھی جل رہے تھے۔ 2017 میں فسادات رک گئے۔" مسجد مندر تنازعات

ریاست میں مندر اور مسجد کے تنازعات پر آدتیہ ناتھ نے اپنے سخت گیر موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ "ہندو مقامات پر مساجد کی تعمیر" اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے سینیئر رہنما ہیں اور معروف گورکھ ناتھ مندر کے مہنت بھی ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں جاری ہیں، دھریندر جھا

انہوں نے دعوی کیا کہ ہندو مذہب کے اہم مقامات بھارت کی وراثت کی علامت ہیں، "اسلام کہتا ہے کہ ہندو مندروں کو تباہ کرنے کے بعد تعمیر ہونے والی عبادت گاہیں خدا کو قبول نہیں، پھر وہ کیوں بنائے گئے؟" انہوں نے کہا کہ حکومت ایسے مندروں کی بحالی جاری رکھے گی کیونکہ مزید شواہد ملے ہیں۔

"سائنسی شواہد موجود ہیں۔ ہم دکھا رہے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور ہم ایک ایک کر کے ان سب کا حساب کریں گے۔"

کمبھ کے تاریخی میلے میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی

متھرا کی معروف شاہی عید گاہ اور جامع مسجد تنازعہ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا، "ہم عدالت کے فیصلے کی پابندی کر رہے ہیں، ورنہ کون جانتا ہے کہ اب تک کیا ہو سکتا تھا؟"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی مسلمانوں کے محفوظ ہیں اتر پردیش ریاست میں انہوں نے کیا کہ کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

یوم القدس، بین الاقوامی برادری اور ہم

اسلام ٹائمز: رہبر معظم انقلاب ایک مقام پر فرماتے ہیں: "انکی پہلی شکست 7 اکتوبر اور طوفان الاقصیٰ میں ہوئی، جب ایک مزاحمتی گروہ نے محدود وسائل کے باوجود اس ریاست، جو خود کو خطے میں انٹیلیجنس اور فوجی برتری کا حامل سمجھتی تھی، اسکو بدترین انٹیلیجنس ناکامی سے دوچار کر دیا۔ یہ شکست اور صہیونی ریاست کی بے عزتی کبھی بحال نہیں ہوسکے گی۔" رہبر معظم انقلاب نے صہیونی ریاست کی دوسری شکست کو غزہ پر حملے کے باوجود اپنے اہداف حاصل نہ کر پانے سے تعبیر کیا اور امریکہ کی بھرپور فوجی، مالی اور سیاسی مدد کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا اور حالیہ قرارداد کو غیر مؤثر قرار دینا بھی شامل ہے، مزید فرمایا: "اتنی بھرپور امریکی حمایت کے باوجود، صہیونی حکومت اپنے کسی بھی اعلان کردہ ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ تحریر: نجیب الحسن زیدی

ایک بار پھر ہم ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں ایک ساتھ جمع ہو کر قدس کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ دوسری طرف فلسطین و غزہ کے حالات روز بروز بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ الجزیرہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق منگل کے دن اسرائیل نے وسطی غزہ میں تین مختلف ڈرون حملوں میں کم از کم 13 افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں ایک امدادی کچن اور بے گھر فلسطینیوں کے دو خیمہ کیمپ نشانہ بنے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے (اوچا) کے مطابق، اسرائیل کے 18 مارچ کو غزہ پر دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے 1,42,000 فلسطینی زبردستی بے گھر ہوچکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جنگ میں اب تک کم از کم 50,183 فلسطینی شہید اور 113,828 زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے شہید ہونیوالوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کرنے کی تصدیق کی ہے، جبکہ ملبے تلے دبے ہزاروں فلسطینیوں کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔ فلسطین میں جاری تنازعے کے نتیجے میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک المناک حقیقت ہے۔ طبی عملے اور اقوام متحدہ کے کارکنان بھی اس تشدد سے محفوظ نہیں رہے۔ ان ہلاکتوں کی روک تھام اور تنازعے کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ان میں کچھ اہم درج ذیل ہیں: 

سفارتی مداخلت اور مذاکرات:
عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ فوری طور پر فریقین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کریں، تاکہ ایک پائیدار اور منصفانہ حل تک پہنچا جا سکے۔
انسانی امداد کی فراہمی:
غزہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ زخمیوں کا علاج، بے گھر افراد کی بحالی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل ممکن ہوسکے۔
جنگی جرائم کی تحقیقات:
 بین الاقوامی عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیئے کہ ممکنہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کریں اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
اسلحے کی ترسیل پر پابندی:
ممالک کو چاہیئے کہ وہ ایسے اقدامات کریں، جو متحارب فریقین کو اسلحے کی فراہمی کو محدود کریں، تاکہ مزید تشدد اور ہلاکتوں کو روکا جا سکے۔

میڈیا اور معلومات تک رسائی:
آزاد صحافت اور اطلاعات کی آزادانہ ترسیل کو یقینی بنایا جائے، تاکہ عالمی برادری کو زمینی حقائق سے آگاہ رکھا جا سکے اور غلط معلومات کی روک تھام ہو۔ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنائے اور فلسطین میں جاری انسانی بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ صرف مذمتی بیانات کافی نہیں؛ عملی اور مؤثر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ یہ مندرجہ بالا کچھ چیزیں تو وہ ہیں، جنکا تعلق ہر انسان سے ہے اور پوری بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ غزہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرے، لیکن اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر بیداری ضروری ہے۔ یوم القدس بین الاقوامی سطح پر بیداری لانے کا ایک ذریعہ ہے۔

یوم القدس 1403 کی اہمیت کے چند پہلو:
45 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جب حضرت امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ یوم القدس 2025ء ہم ایسے وقت منا رہے ہیں، جب غزہ میں صہیونی ریاست کی نسل کشی  مختصر جنگ بندی کے بعد پھر شروع ہوچکی ہے۔ اس نسل کشی کے مختلف پہلوؤں نے یوم القدس 2025ء کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ صہیونی ریاست کے خبیث چہرے سے نقاب کشائی
مغربی دنیا نے اپنی طاقتور میڈیا مشینری کے ذریعے صہیونی ریاست کو ایک ایسے کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جو امن و سلامتی کا خواہاں ہے۔ بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور سفارتی دورے بھی اسی مقصد کے تحت کیے گئے۔ تاہم، گذشتہ چھ ماہ میں غزہ میں جاری قتلِ عام نے اس جعلی چہرے کو بے نقاب کر دیا اور دنیا کے سامنے صہیونی ریاست کا اصل چہرہ عیاں کر دیا۔ بیت المقدس کے المعمدانی اسپتال اور غزہ کے الشفاء اسپتال پر حملے صرف دو مثالیں ہیں، جو اس ریاست کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔ غزہ میں عوام بالخصوص بچوں کو بھوکا رکھنے کی پالیسی، طبی مراکز کا محاصرہ، مہاجر کیمپوں پر حملے اور دیگر مظالم صہیونی جرائم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ان مظالم نے ثابت کیا کہ مغربی استعماری قوتوں کے ہاتھوں تخلیق کی گئی، یہ جعلی ریاست خطے میں امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی صہیونی ریاست کی حقیقت واضح تھی، لیکن اس بار غزہ میں کھلی نسل کشی نے اس حقیقت کو پوری دنیا کے سامنے مزید نمایاں کر دیا ہے۔ یوم القدس ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ صہیونی ریاست کے اس خبیث چہرے کو ہم دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔

2۔ مغربی اقدار کے کھوکھلے پن کا انکشاف
یوم القدس 2025ء ایک اور اعتبار سے اس لئے اہم ہے کہ اس نے مغربی دنیا کے انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ مغرب ہمیشہ انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے اور اسی بہانے کئی آزاد اور خودمختار ممالک، بشمول ایران پر پابندیاں عائد کرتا رہا ہے۔ مغرب کے بعض مفکرین اور تجزیہ کار ہمیشہ اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ مغرب اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی اقدار کو قربان کر دیتا ہے، غزہ میں جاری نسل کشی نے اس حقیقت کو مزید نمایاں کر دیا۔ امریکہ، جو عالمی سطح پر اقدار اور اصولوں کا سب سے بڑا داعی ہے، اس نے غزہ میں قتل عام رکوانے کے لیے اقوام متحدہ کی تین قراردادوں کو ویٹو کر دیا، جبکہ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ غزہ میں صہیونی ریاست کا عمل "جائز دفاع" کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ نسل کشی مغرب کے انسانی حقوق کے دعوؤں پر ایک بدترین دھبہ ہے۔ رہبر  انقلاب اسلامی، آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا: "غزہ کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ دنیا میں کس قدر ظلم اور تاریکی مسلط ہے۔ یہ مغربی دنیا، جو خود کو مہذب کہتی ہے اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرتی ہے، اس کے نظریات، افکار اور اعمال پر ظلم کی حکمرانی ہے۔ تیس ہزار سے زائد معصوم افراد، جن میں نومولود بچے، نوجوان، بوڑھے، مرد، عورتیں اور بیمار سب شامل ہیں، وحشیانہ طریقے سے قتل کیے گئے۔ ان کے گھر تباہ کر دیئے گئے، ان کے ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا اور یہ نام نہاد مہذب دنیا اس ظلم کو دیکھتی رہی، بلکہ اس میں معاونت بھی کرتی رہی۔"

3۔ فلسطین کے حق میں عالمی بیداری
یوم القدس 2025ء کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں فلسطین کے حق میں عالمی سطح پر ایک بے مثال تحریک نے جنم لیا ہے۔ ماضی میں شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں فلسطین کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جاتے، لیکن حالیہ مہینوں میں ان ممالک میں لاکھوں افراد نے فلسطینی عوام کے حق میں اور صہیونی ریاست کے خلاف مظاہرے کیے۔ یہاں تک کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بھی فلسطین کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ اس عالمی بیداری کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی ریاست اور مغرب اپنی بیانیہ جنگ ہار چکے ہیں اور دنیا کی رائے عامہ اب فلسطین، بالخصوص غزہ کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے لگی ہے۔ یہ تحریک فلسطینی عوام کی مظلومیت کو تسلیم کیے جانے کی علامت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: "بین الاقوامی رائے عامہ اور خاص طور پر اسلامی دنیا، بالخصوص عرب ممالک میں، غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت نہایت اہم ہے۔ فلسطینی مزاحمت کی میڈیا اور تشہیراتی سرگرمیاں اب تک دشمن صہیونی ریاست سے کہیں آگے رہی ہیں، اور اس میدان میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔"

4۔ مزاحمت کی حقانیت کا اثبات
یوم القدس 2025ء کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سال مزاحمت کی برحق حیثیت پہلے سے زیادہ واضح ہوگئی ہے۔ غزہ میں صہیونی ریاست کی نسل کشی نے ثابت کر دیا کہ اس ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت فلسطینی عوام کے لیے امن و سلامتی نہیں لا سکتی، بلکہ اس کے برعکس، یہ ریاست کو مزید سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اسی طرح، غزہ میں جاری نسل کشی نے ثابت کیا کہ صہیونی ریاست کے جرائم کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ مزاحمت اور اس کی مضبوطی ہے۔ رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای، نے اس سلسلہ سے فرمایا تھا: "یہ معاملہ (غزہ کی نسل کشی) مزاحمت کے محاذ کے قیام کی برحق حیثیت کو ثابت کرتا ہے۔ بعض لوگ سوال اٹھاتے تھے کہ مغربی ایشیا میں مزاحمت کے محاذ کی کیا ضرورت تھی۔؟ مگر اب واضح ہوگیا کہ اس خطے میں مزاحمت کا محاذ تشکیل دینا سب سے اہم اور حیاتی معاملات میں سے ایک ہے اور اسے روز بروز مزید مضبوط ہونا چاہیئے۔ یہ فطری بات ہے کہ اس خطے میں وہ لوگ جو بیدار ضمیر رکھتے ہیں اور گذشتہ ستر سال سے صہیونی ظلم کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے، بلکہ وہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مزاحمت کا محاذ دراصل صہیونیوں کے مسلسل اور وحشیانہ ظلم و جبر کے خلاف فلسطینی عوام اور ان کے حامیوں کے دفاع کے لیے قائم کیا گیا ہے۔"

5۔ بحرانوں سے نکلنے میں صہیونی ریاست کی ناکامی کا اثبات
ہم یوم القدس 2025ء ایسے وقت منا رہے ہیں، جب صہیونی ریاست کی مصنوعی طاقت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ یہ ریاست غزہ کے دلدل میں بری طرح پھنس چکی ہے اور وہ اپنے اعلان کردہ فوجی مقاصد، جیسے کہ قیدیوں کی رہائی اور حماس کا خاتمہ، حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ یہ ریاست یہاں تک کہ غزہ سے رہی سہی ساکھ بچا کر بھی نکل پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اگرچہ اس نے غیر مساوی جنگ میں غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، لیکن اندھا دھند بمباری اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا فتح کی علامت نہیں بلکہ شکست کی دلیل ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونیوں کی نام نہاد عسکری اور انٹیلی جنس برتری کا دعویٰ محض ایک سراب تھا۔

رہبر معظم انقلاب ایک مقام پر فرماتے ہیں: "ان کی پہلی شکست 7 اکتوبر اور طوفان الاقصیٰ میں ہوئی، جب ایک مزاحمتی گروہ نے محدود وسائل کے باوجود اس ریاست، جو خود کو خطے میں انٹیلی جنس اور فوجی برتری کا حامل سمجھتی تھی، اس کو بدترین انٹیلی جنس ناکامی سے دوچار کر دیا۔ یہ شکست اور صہیونی ریاست کی بے عزتی کبھی بحال نہیں ہوسکے گی۔" رہبر معظم انقلاب نے صہیونی ریاست کی دوسری شکست کو غزہ پر حملے کے باوجود اپنے اہداف حاصل نہ کر پانے سے تعبیر کیا اور امریکہ کی بھرپور فوجی، مالی اور سیاسی مدد کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا اور حالیہ قرارداد کو غیر مؤثر قرار دینا بھی شامل ہے، مزید فرمایا: "اتنی بھرپور امریکی حمایت کے باوجود، صہیونی حکومت اپنے کسی بھی اعلان کردہ ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ وہ مزاحمت کو، خاص طور پر حماس کو نابود اور غیر فعال کرنا چاہتے تھے، لیکن آج بھی حماس، اسلامی جہاد اور غزہ میں موجود دیگر مزاحمتی گروہ تمام تر مشکلات کے باوجود صہیونی ریاست کو کاری ضربیں لگا رہے ہیں۔"

یہ چند وہ اسباب و محرکات ہیں، جنکی وجہ سے اس سال کا یوم القدس دیگر سالوں کی بہ نسبت بہت اہم ہے۔ یہ امام خمینی (رح) کا ایک ایسا تاریخی اقدام ہے، جسے لیکر صہیونی ریاست ہمیشہ سے خوفزدہ رہی ہے، کیونکہ اس دن دنیا بھر کے حریت پسند افراد فلسطینی عوام کی حمایت میں مظاہرے کرتے ہیں۔ اگر یہ مظاہرے اور یہ حمایتیں ایک عالمی تحریک کی صورت اختیار کر لیں تو یقیناً اس ظلم کی چلتی چکی کو روکا جا سکتا ہے، جو مسلسل بے گناہوں اور مظلوموں کو سامراج کی پشت پناہی میں بے خوف و خطر پیس رہی ہے۔ ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ قدس کے لئے گھر سے باہر نکلیں اور ان لوگوں کا ساتھ دیں، جو ہم سے پہلے سر سے کفن باندھ کر راہ آزادی قدس میں نکل چکے ہیں۔ نوٹ: اس تحریر کے بیشتر اعداد و شمار و مطالب "الجزیرہ" و مہر نیوز ایجنسی سے ماخوذ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اقلیت دشمن رویے پر غور کرنا چاہیے، ترجمان دفتر خارجہ
  • گورنر سندھ کی موجودگی میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ معاہدہ مکمل نہیں ہوسکتا، رہنما پی پی پی
  • وائٹ ہاوس میں مسلمانوں کی افطاری ، ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستانی سفیر کی موجودگی پر اظہار تشکر
  • پاکستانی اداکار کوئی دہشت گرد نہیں، بھارت انھیں ویزا جاری کرے، سلمان خان
  • ٹرمپ کا امریکی مسلمانوں کے بغیر افطار ڈنر متنازع بن گیا، وائٹ ہائوس کے باہر مظاہرہ
  • بھارتی سنسر بورڈ نے فلم ’سنتوش‘ پر پابندی کیوں لگائی؟
  • صحافی فرحان ملک کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ   
  • یوم القدس، بین الاقوامی برادری اور ہم
  • ریاست بہار میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں مسلم تنظیموں کا احتجاج
  • قبلہ اول اور فلسطین کی ریاست کے قیام کے معاملے پر ایران کا کردار