فاتح خیبر‘ خلیفہ چہارم امیر المومنین سید نا حضرت علی المرتضی ؓ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
جہیز ۔ حضرت فاطمہ الزہراہؓ کو اپنے میکے سے جو جہیز ملا اسکی کل تفصیل یہ تھی ، ایک پلنگ ، ایک بستر ، ایک چادر ، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ چیزیں زندگی بھر حضرت فاطمہؓ کی رفیق رہیں اور حضرت علیؓ تمام عمر اس میں کوئی اضافہ نہ کر سکے۔
ایک مرتبہ شدت بھوک میں گھر سے باہر نکلے کہ محنت مزدوری کر کے کچھ لائیں۔ آبادی کے قریب دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت کچھ اینٹ پتھر جمع کر رہی ہے۔ اسکے قریب جا کر پوچھا کیا کرنا چاہتی ہے ، بولی اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہوں۔ آپؓ نے اجرت طے کی اور پانی سینچنے لگے۔ اتنا پانی سینچا کہ ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے۔ اور اجرت کیا ملی مٹھی بھر کھجوریں۔ تنہا خوری کی عادت نہ تھی اسلئے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے پوری کیفیت سنائی۔ حضورؐ نے کھانے میں آپؓ کا ساتھ دیا۔
حضرت علی المرتضیٰؓ نے محنت مزدوری میں کبھی عار نہیں کیا۔ لوگ مسائل پوچھنے آتے تو آپؓ کبھی جوتا سیتے ، کبھی اونٹ چراتے اور کبھی زمین کھودتے تھے۔ سادگی اور بے تکلفی کا یہ عالم تھا کہ اکثر فرش خاک پر سو جاتے۔ ایک دفعہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام آپؓ کو تلاش کرتے ہوئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ دیکھا کہ حضرت علیؓ بڑی بے تکلفی سے زمین پر پڑے سو رہے ہیں۔ چادر پیٹھ کے نیچے سے سرک گئی اور پورا جسم گردوغبار سے اٹا ہوا ہے۔ حضور علیہ السلام کو یہ سادگی بے حد پسند آئی۔ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے حضرت علیؓ کا بدن صاف کیا اور محبت آمیز لہجہ میں بولے ’’قم یا اباتراب‘‘ اے مٹی والے ۔ اب اٹھ، زبان نبویؐ کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علیؓ کو اتنی پسند آئی کہ جب کوئی آپؓ کو اس کنیت کے ساتھ خطاب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تبسم کی لہر دور جاتی۔
در دولت پر نہ کوئی خادم تھا نہ دربان، شاہانہ تزک و حشم کا تو بھلا وہاں کیا گزر جب قیصر و کسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کیلئے زرو جواہر اگل رہی تھی اسلام کا خلیفہ اس وقت بھی ایک غریب اور عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتا تھا۔ بسا اوقات خلیفہ وقت کو فقروفاقہ کی نوبت آجاتی تھی۔ ایک دفعہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔
’’ میری تلوار کا کون خریدار ہے؟ خدا کی قسم اگر میرے پاس ایک تہبند کی قیمت ہوتی تو میں اسکو فروخت نہ کرتا۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا ۔ امیر المومنین تہ بند کی جتنی قیمت ہے میں اتنا قرض دیتا ہوں۔
امانت و دیانت ۔ آپؓ ایک امین و صادق کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے اسلئے ابتداء ہی سے امین تھے۔ آنحضرتؐ کے پاس قریش کی امانتیں تھیں۔ جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تو تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کر آئے۔ مکہ سے حضورؐ کی روانگی کے بعد حضرت علیؓ نے لوگوں کو ان کی امانتیں اور قرضے واپس کئے۔
عہد خلافت میں آپؓ نے بیت المال کی جس طرح دیکھ بھال اور امانتداری کی اس کا اندازہ حضرت ام کلثومؓ کے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ ’’ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے ایک نارنگی اٹھالی۔ امیر المومنین نے دیکھا تو فوراـ چھین کر لوگوں میں تقسیم کر دی۔ ایک بار بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کر کے اس میں جھاڑو دی اور دو رکعت نماز ادا کی تاکہ وہ قیامت میں ان کی امانت و دیانت کی گواہ رہے۔
ذوق عبادت ۔ عبادت کا آپؓ کو بے حد ذوق و شوق تھا۔ گویا عبادت آپؓ کا مشغلہ ء حیات تھی۔ قرآن کریم خود اسکا شاہد عادل ہے۔ قرآن کریم کا ارشا د ہے۔
ترجمہ ۔ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں جو انکے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں نرم اور رحم دل ہیں، تم انہیں دیکھتے ہو کہ بہت رکوع اور بہت سجود کر کے خدا کا فضل اور اسکی خوشنودگی کی جستجو کر تے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ ’’ والذین معہ‘‘ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ مراد ہیں ’’ اشداء علی الکفار‘‘ سے حضرت عمر بن الخطابؓ مراد ہیں ’’ رحماء بینھم‘‘ سے حضرت عثمان غنیؓ مراد ہیں ’’ رکعا سجدا‘‘ سے حضرت علیؓ ’’ یبتغون فضلاً من اللہ و رضوانا ‘‘ سے عام صحابہؓ مراد ہیں۔ اس سے عبادات میں حضرت علیؓ کی تمام صحابہ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ رکوع و سجود اور فرائض و نوافل کی پابندی تمام صحابہ کا مشترکہ و صف تھی۔ پھر اس اشتراک میں تخصیص اس بات کی علامت ہے کہ اس بارے میں حضرت علیؓ کو باقی پر کچھ امتیاز حاصل ہے۔ قرآن حکیم کے اس اشارے کے علاوہ خود صحابہؓ کی زبانیں حضرت علیؓ کے اس امتیازی وصف کی گواہ ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں۔
ترجمہ ۔ جہاں تک میرے علم میں ہے حضرت علیؓ بہت روزہ رکھنے والے اور بے حد عبادت گزار ہیں۔ زہیر بن ؓ سعید کہتے ہیں :
ترجمہ ۔ میںنے کسی ہاشمی کو نہیں دیکھا جوان سے زیادہ خدا کا عبادت گزار ہو۔
حضرت علیؓ نے بچپن سے دامن نبوت میں پرورش اور تعلیم و تربیت پائی ۔ جوانی میں نبیؐ کی دامادی کے شرف سے سرفرا ز ہوئے ان خصوصیات کے علاوہ آپؓ میں تحصیل علم اور کسب کمال کی فطری صلاحیت اور ذوق تھا اسلئے مکتب نبوت سے جو فیض آپؓ کو پہنچا وہ کم لوگوں ِکا نصیبہ بن سکا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ جنکا علم اور تفقہ صحابہؓ میں مسلم تھا وہ فرمایا کرتے تھے۔ ’’ علم کے دس حصوں میں خدانے علیؓ کو نوحصے عطا کئے ہیں‘‘ زبان نبوت نے آپؓ کو ’’ انا مدینہ العلم و علی بابھا‘‘
ترجمہ : میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اسکا دروازہ ہے‘‘ کی سند عطاء کی تھی کلام اللہ پر آپؓ کی نظر اتنی گہری اور وسیع تھی کہ کسی آیت کا کوئی پہلو آپؓ کی نظر سے مخفی نہ تھا آپؓ خود فرمایا کرتے تھے۔ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ یہ کب، کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی اور اسکا شان نزول کیا ہے۔
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے اقضانا علی واقرانا ابی ، یعنی ہم میں مقدمات کے فیصلے کیلئے سب سے موزوں حضرت علیؓ ہیں اور سب سے بہتر قاری حضرت عبداللہ بن ابی ؓ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے کہ ہم ( صحابہؓ) میں سب سے زیادہ صحیح فیصلے کرنے والے حضرت علیؓ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جن پر فقہ حنفی کا مدار ہے اور جن کو علماء نے ’’ فقیہ الامت‘‘ کے لقب سے نوازا حضرت علیؓ ہی کے فیض یافتہ تھے۔ آپؓ نے فقہی احکام کی حدیتوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا جسکا نام ’’ صحیفہ‘‘ تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عبداللہ بن کرتے تھے حضرت علی مراد ہیں
پڑھیں:
حضرت علی کی سیرت میں علم، عدل، شجاعت، تقوی اور انسانیت کی خدمت کی بے شمار مثالیں ہیں، متحدہ مسلم موومنٹ
ضلع کچہری ملتان میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام کا کہنا تھا کہ آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں وقف کیا اور حق و انصاف کے قیام کے لیے بے شمار قربانیاں دیں، آپ کا عدل و انصاف ایک مثال کے طور پر مسلمانوں کے دلوں میں نقش ہے، دور خلافت میں عدل و انصاف کو اولیت دی، جس سے آپ کا دور حکومت ایک شاندار دور ثابت ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ مسلم موومنٹ پاکستان کے زیراہتمام یوم شہادت شیر خدا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مناسبت سے ضلع کچہری ملتان ایڈووکیٹ سید اطہر شاہ بخاری کے چیمبر میں سیمینار کا انعقاد ہوا، جس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے محمد ایوب مغل نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعلیمات پوری مسلم امہ کے لیے مشعل راہ ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے جس طرح دین اسلام کیلئے اپنی زندگی کو وقف اور دشمنان اسلام کا خاتمہ کیا وہ اسلامی تاریخ کے سنہری الفاظ میں تاقیامت موجود رہے گا، خلیفہ چہارم کی زندگی اسلامی تاریخ بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے۔
علامہ عبد الحق مجاہد، ایڈووکیٹ حافظ اللہ دتہ کاشف بوسن، ایڈووکیٹ سید اطہر شاہ بخاری، ایڈووکیٹ وسیم ممتاز، ایڈووکیٹ ملک فاروق اور ایڈووکیٹ ملک تصور حسین اعوان نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہہ کی سیرت میں علم، عدل، شجاعت، تقوی اور انسانیت کی خدمت کی بے شمار مثالیں ہیں، آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں وقف کیا اور حق و انصاف کے قیام کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ آپ کا عدل و انصاف ایک مثال کے طور پر مسلمانوں کے دلوں میں نقش ہے، دور خلافت میں عدل و انصاف کو اولیت دی، جس سے آپ کا دور حکومت ایک شاندار دور ثابت ہوا۔
ایڈووکیٹ ملک سرفراز حسین جڑھ، ایڈووکیٹ خضر حیات قریشی، ایڈووکیٹ حضیر احمد زبیری اور ایڈووکیٹ فہیم ممتاز نے کہا کہ حضرت علی کی شہادت نہ صرف ایک المیہ تھی بلکہ یہ ایک عظیم پیغام بھی چھوڑ کر گئی ہے، آپ کی قربانی نے اس بات کو واضح کیا کہ اسلام کی اصل روح عدل، انصاف اور انسانیت کی خدمت میں ہے اور اسی راستے پر چلتے ہوئے ہی دنیا میں امن اور بھائی چارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ سیمنیار میں ایڈووکیٹ چوہدری حسین طالب، دلشاد اسد، محمد اکرم بھٹی، زبیر احمد شیخ، حق نواز اور محمد اشفاق سعیدی بھی شریک ہوئے اور اس موقع پر ملکی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعا بھی کرائی گئی۔