پختون بچوں کی ظریفانہ شاعری
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
شاعری ایک قدرتی طبعی افتاد ہے جس کی بنا پر شاعر شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن خیبرپختون خوا کے پختون بچے اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ کسی جذبہ یا احساس کے بغیر شعرگوئی کرتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ بچوں کی یہ شاعری قاعدہ کے مطابق ہو یا ردیف اور قافیہ کے اندر ہو بلکہ وہ والہانہ بے ساختہ اشعار ہوتے ہیں جو دل میں آیا وہی شعر کے سانچے میں ڈھلوا دیا۔ اب وہ شعری معیار کے مطابق ہو یا نہ ہو ۔ لیکن بچوں کی دلی واردات کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔ طبعی طور پر کچھ زیرک اور حساس بچے بھی ہوتے ہیں جو ماحول اور معاشرہ سے متاثر ہوا کرتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی تمام شاعری ان حساس بچوں کی تصنیف کردہ ہے۔ جن میں مشاہداتی طور پر وہ اپنی واردات قلبی بلاکم وکاست بلا جھجک بیان کرتے ہیں۔
جسے باقی بچے مزے لے لے کر بولتے ہیں۔ بچوں کے ذہن پر معصومانہ خواہشات کے ساتھ مشاہداتی حس بھی جاگ جاتی ہے۔ ہر بچے کا رجحان طبع مسخرہ پن اور ظریفانہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے شعر سب کے سب فکاہاتی رنگ میں ڈوبے ہوتے ہیں جسے سن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے اور اس کی شعرگوئی پر بے اختیار داد دینا پڑتی ہے، بچے معاشرہ اور ماحول کے صحیح ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں عمیق مشاہدہ کے بعد کہتے ہیں۔ مگر بڑے ہو کر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی تو کبھی بچے تھے۔ طرح طرح کی شرارتیں،کھیل کود، جھوٹ اور اپنی طرف سے بے سروپا قصے کہانیاں گھڑتے تھے۔ پشتو کا ایک ٹپہ اس نفسیاتی کیفیت کا بہترین عکاس اور ترجمان ہے کہ
وار می د خپلے زوانئی تیر شو……اوس چہ واڑہ لوبے کوی بدی می شینہ
یعنی میری اپنی جوانی کا دور گزر چکا اب جس وقت بچے کھیلتے کودتے ہیں تو مجھے بہت بُرے لگتے ہیں ۔ بچوں کے نزدیک اوٹ پٹانگ جیسی چیزیں مسخرہ پن سے کم نہیں لگتیں جسے وہ معصومانہ جذبات و احساسات کیساتھ سیدھے سادے انداز میں شعری جامہ پہناتے ہیں مثلاً اونٹ اور گدھے میں بچوں کو خاصی دلچسپی ہوتی ہے۔ خصوصاً اونٹ کی لمبی گردن اور بے ڈھنگی رفتار سے وہ بہت زیادہ محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ہمارے دیہی علاقوں میں گڑُ کی بوریوں سے لدی اونٹوں کی قطار دیکھ کر بعض بچے چوری چھپے چاقو چھری سے ان بوریوں میں سوراخ کر کے نہ صرف گُڑ کی چکیاں لے جاتے تھے بلکہ اونٹوں پر نظر پڑتے ہی سب بچے اکٹھے ہو کر ان الفاظ میں ان کا استقبال کیا کرتے تھے
اوخہ اوخہ ڈانگہ……لویہ دے غڑانگہ
بیرہ کے ٹال واچوہ……بیگاسبا پرے زانگہ
ترجمہ۔ اونٹ رے اونٹ،تیری یہ لمبوتری گردن، اور اوٹ پٹانگ رفتار جاؤ کسی بیری کے درخت میں رسی ڈال کر جھومتے رہو، صبح وشام ۔
اوخہ اوخہ لگ لگے۔ پلار دے پہ ٹوپک لگے
مور درباندے بورہ شہ۔خواخے دے رنزورہ شہ
ترجمہ۔ اونٹ رے اونٹ۔ لگے رہو۔ تیرا باپ بندوق سے مارا جائے۔ تیری ماں بے اولاد ہو جائے۔ تیری ساس بیمار ہو جائے ۔
اکثر اشعار بچے کے معصومانہ جذبات وا حساسات ظاہر کرتے ہیں، ہر بچے کے دل میں جنت کی خواہش ضرور ہوتی ہے، نیز انہیں بہن بھائیوں سے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ اسکے بہن بھائی کو ذرا بھی کوفت پہنچے تو وہ غم زدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جنت میں جانے کا خیال کچھ ڈھارس دیتا ہے ۔ دیکھیے ان اشعار میں ایک بچے نے اپنے معصومانہ جذبات کو کس قدر پاکیزہ الفاظ میں پیش کیا ہے ۔ جسے بڑے سن کر متاثر ہوں گے ۔
پلار حلالومہ، مورتہ ورتہ نیولمہ ۔ کشرہ خور می خہ وہ کوزنڑنئی کے ئے ساتلمہ
ھلتہ کوزنڑئی کے بیا زہ رو رو لویدلمہ ، آخر شین طوطا شومہ جنت تہ والوتلمہ
ترجمہ ۔ باپ مجھے ذبح کر رہا تھا۔ ماں نے ذبح کے لیے باندھ دیا، چھوٹی بہن اچھی تھی۔ اس نے مجھے کوزے میں محفوظ کیا۔ پھر پودے کی شکل میں کوزے کے اندر پروان چڑھتا رہا۔ پھر آخر سبز طوطے کی شکل میں اڑ کر جنت پہنچ گیا ۔
معصوم بچہ نے کس خوبصورت شاعرانہ انداز میں اپنے مرنے اور پھر طوطا بن کر جنت کے باغ میں پہنچنے کی کیفیت بیان کی ہے۔ بچے فطرتاً بہت شریر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بڑی عمر کے بزرگ لوگوں کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں۔ دل چسپ فکاہاتی انداز میں۔ ایک بچے کے طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں بڑی عمر کے ایک آدمی کی خبر لی ہے۔ یہ فکاہاتی اشعار دو بچے آپس میں سوالاً جواباً ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ۔
سوال۔ بابا لہ کومے؟ جواب۔ لہ کلابٹہ
سوال۔ پہ سر ئے سہ دی۔ جواب ۔ د دالو سٹہ
سوال۔ نوڑئی ئے سومرہ ۔ جواب۔ دسیر نہ غٹہ
سوال۔ منڈہ ئے پہ سہ۔ جواب۔ د خرہ پہ لتہ
دونوں ایک ساتھ ۔ حاجیہ سلامتہ حاجیہ سلامتہ
ترجمہ ۔۔۔ سوال ۔بابا کہاں سے آئے ۔ جواب ۔کلابٹ سے
سوال۔ سرپرکیا رکھا ہے۔ جواب ۔ دال کی گٹھری
سوال۔کتنا لقمہ نگلتا ہے۔ جواب۔ سیر سے بھی زیادہ
سوال۔ کیسے نگلتا ہے؟۔ جواب۔گدھے کی ٹانگ سے۔ حاجی سلامت ہو
دیکھا آپ نے اچھے خاصے بوڑھے بابا کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ان اشعار میں شوخ و شریر لڑکے اپنی پوری شرارت اور شیطانیت کیساتھ جلوہ گر ہیں۔ گنجے لوگ بچوں کے لیے اچھا خاصا مسخرہ بن جاتے۔ بچوں کی محفل میں جب کوئی گنجا آکر شامل ہو جاتا ہے۔ باقی بچے اسے بہت تنگ کرتے ہیں۔ اس پر فقرے کستے ہیں۔ اور سر پر دھول بھی مارتے ہیں۔ پھر گنجا غصہ ہوکر سب کو گالیاں سناتا ہے۔ اور باقی بچے اونچی آواز میں ان کا ہجوہ سناتے ہیں۔ اور سب مل کر کہتے ہیں
گنجہ پہ سر ونجہ ۔ گنجے اوس راغے د جنجہ ۔ توت لاندے اودہ ۔ د مچانو پرے وادہ شو ۔ ٹول خلق غزا لہ زی ۔ گنجے سرکوزے غلا لہ زی
ترجمہ ۔گنجوہ سر وگنجوہ ۔گنجا بارات سے واپس آگیا۔ توت کے درخت کے سایہ میں سوگیا۔ اوپر سے مکھیوں کا جمگٹھا لگ گیا۔ سب لوگ غزا کرنے جاتے ہیں۔ ناہنجار گنجا لوگوں کے گھروں سے چوری کرنے نکلتا ہے۔ دوسرے بچے تالیاں بجا کر ہمنوا ہو کر ایک ساتھ یہ کہنا شروع کرتے ہیں ۔
گنجا پلاتی۔ پہ غرمو باندے کڑہ پیتی۔ یوگوٹ ترے ماتہ راکا۔ نور شو ستا د پڑپتی ۔
ترجمہ۔ اوگنجے دوپہر ڈھل گئی۔ دال کی ہنڈیا چڑھاو۔ ایک گھونٹ ہم کو دو۔ باقی تمہاری۔
چھوٹے بچے بارش میں بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ جب آسمان پر بادل ہو اور بارش برسنے کی امید بندھ جاتی ہے۔ تو سب بچے نعروں اور چیخوں کے ساتھ باہر میدان میں آکر جمع ہو جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں او۔ غم غمباکہ،کھلیں۔ غم غمباکہ دراصل بارش کے لیے ایک دعائیہ جلوس ہوتا ہے جو لڑکے اس طرح ترتیب کرتے ہیں کہ ایک بچہ آگے اور دوسرا پیچھے کھڑے ہو جاتاہے۔
مانیٹر لڑکا دونوں لڑکوں کے پیٹ کے ساتھ ایک چادر باندھ دیتا ہے۔ اور بیچ میں ایک جھولا سا بن جاتا ہے۔ پھر دوسرا لڑکا آگے والے لڑکے کے منہ پر کوئلہ ملتا ہے۔ اس طرح اس کا منہ مضحکہ خیز تک کالا ہو جاتا ہے۔ اصطلاح میں اس لڑکے کو’’تورمخے بابا‘‘ کہتے ہیں یعنی کالے منہ والا بابا ۔ پھر تورمخی بابا کے پیچھے باقی بچے ہجوم کی شکل میں گھر گھر جا کر بارش کے لیے دعائیہ اشعار کہتے ہیں ۔ اور گھر والوں سے بارش کی خراج وصول کرتے ہیں ۔ بچوں کا ہجوم دروازے پر کھڑے ہوکر زور زور سے یہ اشعار سناتے ہیں اور خیرات طلب کرتے ہیں ۔
غم غمباکہ ۔ سویا سویاناکہ ۔ یو چونگ دانے راوچوئی ۔ چہ خدائے مو غلے ڈیرے کڑی ۔ کندو تہ لاس کا ۔ سرہ گوتہ پہ لاس کا ۔ چہ خدائے مو غلے ڈیرے کڑی ۔ تور مخے بابا جاڑی ۔ پہ مخ سپیڑہ غواڑی ۔
ترجمہ ۔ غوم غومباکہ ۔ سویا سویا ناکہ ۔ (یہ بچوں کا اپنا اصطلاح ہے جس کا کوئی ترجمہ نہیں ہو سکتا) چُلو بھر اناج مانگتے ہیں ۔ اللہ غلے میں برکت دے ۔ سونے کی انگوٹھی پہن کر توشہ خانے میں ہاتھ ڈالیں، نہیں تو تورمخے بابا (کالے منہ والا)روئے گا ۔ وہ منہ پر تھپڑ برداشت کر سکتا ہے۔ کچھ دو نہیں تو گر پڑے گا۔ گھر والے خیرات دیتے وقت تورمخے بابا پر پانی ڈالتے ہیں، تاکہ بارش ہو جائے۔ یہ سب خیرات بچے بازار لے جا کر فروخت کردیتے ہیں ۔ اور ان پیسوں سے من پسند چیزیں خرید کر گلچھڑے اڑاتے ہیں ۔
چھوٹے بچے جب شرارت پر آجاتے ہیں تو بڑوں کا بھی ناک میں دم کر دیتے ہیں ۔ راجہ نامی ایک شخص کسی مسجد کا رکھوالا تھا ۔ اور بچے روز روز مسجد میں جا کر شرارتیں کرتے تھے ۔ جب راجہ آجاتا تو ان سب کو بھگا دیتے ۔ گویا راجہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا تھا ۔ خدا کا کرنا ایک دن ایسا ہوا کہ راجہ کسی کے پستول کے اچانک چل جانے سے فوت ہوگیا۔ جب بچوں کو ان کے مرنے کا علم ہوا تو بہت خوش ہوئے ایک جگہ اکٹھے ہو کر سب نے سوالاً جواباً راجہ کی موت کی کفیت یوں بیان کی ۔
سوال ۔ خبر ئے کہ نہ ۔ جواب ۔ لہ سہ ۔ سوال ۔ راجہ چہ مڑ شو ۔ سوال ۔ پہ سہ ۔ جواب پہ تکہ تورہ طمانچہ ۔ پھر سب نے مل کر اونچی آواز سے کہا ۔ ہلہ بین باجہ ۔ ہلہ بین باجہ ۔۔
ترجمہ۔ پتہ ہے کیا ہواَ؟ ۔ کیا ہوا۔ راجہ مر گیا۔ کس طرح؟ کالے رنگ والے پستول سے ۔ سب لڑکے ایک ساتھ۔ جلدی کرو بینڈ باجے لے آو (یعنی جشن کرو)
بہت چھوٹے بچوں کے جذبات و احساسات اس سے مختلف ہیں ، چھوٹے بچوں میں ڈر اور خوف زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا ان کے فکاہیات میں خوف کا غلبہ ہوتا ہے۔ شام کے بعد چھوٹے بچے گھر سے نہیں نکلتے۔ انہیں جن بھوت اور بلاوں کا خوف لگا رہتا ہے ۔ اس لیے علی پمپاسہ بہن سے ۔ دوسری بہن کو ان الفاظ میں دروازہ کھولنے کی درخواست کرتی ہے ۔
علی پمپاسے خورے ۔ ور سرہ کڑہ نور پہ ڈوبیدو دے ۔
ترجمہ۔ علی پمپاس بہن ۔ کنڈی کھولنا ۔ سورج ڈوبنے والا ہے ۔ چھوٹے بچوں کے جذبات و احساسات بہت ہی سادہ اور پاکیزہ ہوتے ہیں ۔ جب ان کی کوئی چیز گم ہو جاتی ہے ۔ تو اس کے خیال میں یہ جنات کی کارستانی ہوتی ہے جس کے پانے کے لیے نہایت ہی معصومانہ انداز میں آنکھیں بند کر کے جن ماموں سے اس چیز کو واپس دلانے کے لیے یوں درخواست کرتے ہیں ۔
پیریانو ماما گانو ۔ تاسو خپلہ کڈہ واخلئی ۔ مالا خپلہ کڈہ راکئی ۔
ترجمہ ۔ جن ماموں صاحب برائے مہربانی مری گمشدہ چیز واپس کر دیں ۔ آپ اپنا سامان لے لیں مجھے اپنا لوٹا دیں ۔ دیکھو اس فقرے میں کیا ہی معصومانہ خیال اور عجز و انکسار ظاہر کیا ہے ۔ جو معصوم بچے کی ذہنی افتاد کا آئینہ دار ہے، جس میں طبعی سادگی بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ چھوٹے بچے نازک مزاج اور ڈرپوک ہوتے ہیں ۔ ان کے ذہن کے پردے پر کہیں آفت اور بلائیں موجود ہوتی ہیں ۔ خصوصاً جنات اور بالوں سے بہت ڈرتے ہیں ۔ جب تیز آندھی چلتی ہے تو چھوٹے بچے بہت ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں آندھی میں زمین پر بلائیں اترتی ہیں ۔ لہذا ان سے بچنے کے لیے وہ دعائیں مانگتے ہیں ۔ ایک دعا ملاحظہ ہو ،
ہرہ بلا ٹال تو ۔ صاحب کمال تو ۔ قدرت جلال تو ۔ یا حبیب اللہ ۔ تپہ کڑے بلا ۔
ترجمہ۔ یا خدا ہر بلا کو ٹال دے ۔ تو صاحب کمال اور قدرت والا خدا ہے یانبی یا حبیبی ۔ اس آفت کو ٹال دے ۔ ایک بچے کا دادا اسے ہر روز روٹی گوشت کھلاتا ہے جب وہ فوت ہوا تو حسب عادت بچے نے روٹی گوشت کا تقاضا شروع کیا ۔ تو اس کی ماں نے اسے کہا، بیٹے صحن میں’’چورلک‘‘ کرو دادا جان ’’چورلک‘‘ میں آکر تم کو روٹی گوشت دے گا۔ چنانچہ بچے نے میدان میں چورلک (گھومنا) شروع کیا۔ اور ساتھ ساتھ یہ الفاظ کہتے جا رہا تھا
چورلا بابا چورلا۔ غوخہ روٹئی راوڑہ ۔ چورلم باباجانہ ۔
ترجمہ۔باباجان میں گھوم رہا ہوں،گوشت روٹی ضرور لانا۔ اس لڑکے کو دیکھتے دیکھتے یہی الفاظ باقی بچوں نے بھی اپنائے۔ بعد میں یہ بچوں کا محبوب کھیل بن گیا، جو تقریباً صوبے کے ہر علاقے اور ہر طبقہ کے بچوں میں مقبول ہو گیا۔ موسم سرد میں جب لمبی بارشیں شروع ہو جاتی ہیں تو لوگ تنگ آجاتے ہیں ۔ بچے بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ تب سب بچے اکٹھے ہوکر بیک آواز یہ گیت گاتے ہیں ۔
یا اللہ تہ شین کڑے۔ د شین غوئی پتون کڑے۔ بیرتہ زر راستون کڑے۔ یا اللہ تہ شین کڑے
ترجمہ ۔ یا اللہ تو برش رکوا دے۔ جیسے ہرے بیل کی طرح۔ تو ایسے واپس کر دے۔ یا اللہ تو آسمان کو صاف کر دے
اور جب خشک سالی کے بعد باران رحمت برسنی شروع ہو جاتی ہے تو سب بچے خوشی کے باہر نکلتے ہیں اور خوش ہو کر ایک ساتھ بولتے ہیں ۔
یااللہ باران کڑو ۔ شین بوٹے ئے ودان کڑو۔ راغے پہ چم چم باران۔ سین شو د اوبو روان۔ اوس بہ سوکڑہ لاڑہ شی۔ غنہ بہ اوچہ جاڑہ شی۔ بیا اللہ باران کڑو ۔
ترجمہ۔ پھر اللہ نے بارش برسائی۔ پودے سیراب ہو گئے۔ جم جم کر بارش برس رہی ہے ۔ پانی کا ایک سیلاب سا آگیا۔ اب خشک سالی ختم ہو گی۔ کھیت ہرے ہو جائیں گے ۔
اس طرح بچوں کے بہت سے اشعار فقرے اور نظمیں موجود ہیں۔ جن سے معصوم بچوں کی ذہنی افتاد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے جو فقرے اور نظمیں لکھے یہ تو صرف ہمارے ہی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام فکاہاتی نظموں، کلمات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کریکجا کریں۔ یہ پشتو میں بچوں کا بہترین مزاحیہ ادب ہے۔ تاہم اسے یکجا کرنے اور کتابی صورت میں چھاپنے کی ضرورت ہے۔ مانا کہ آج کے بچوں کے مشاغل بدل چکے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بچوں کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ ویڈیوگیمز، ٹک ٹاک، طرح طرح کے کارٹونز وغیرہ۔ لیکن بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کے معصومانہ جذبات واحساسات کی بہت قدر و قیمت ہے۔ اگر بچوں کی یہ ظریفانہ شاعری جمع کر کے کتابی صورت میں شائع کی جائے تو یہ بھی پشتو ادب میں قابل قدر اضاٖفہ ہو گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معصومانہ جذبات ہو جاتے ہیں چھوٹے بچوں ہو جاتا ہے ایک ساتھ باقی بچے ہوتے ہیں کہتے ہیں کرتے ہیں بچوں کی بچوں کا ہوتی ہے ہوتا ہے جاتی ہے بچوں کے سب بچے ہیں تو
پڑھیں:
غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل 50 افغان بچے، بچیاں افغان حکام کے حوالے
غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے 50 افغان بچوں اور بچیوں کو طورخم سرحد پر افغان حکام کے حوالے کردیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان بچے طورخم کے راستے اسمگلنگ کرتے ہیں۔
ایف سی حکام نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ بچوں کو آہنی باڑ توڑ کر پاکستان میں داخلے سے روکیں ۔