تنازع فلسطین… اقوام عالم کی ذمے داری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی جارحیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے شروع ہوئی۔ جب یہ لڑائی شروع ہوئی، اس وقت جوبائیڈن امریکا کے صدر تھے۔ جوبائیڈن کی پالیسیوں پر ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدارتی امیدوار سخت تنقید کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی غزہ میں جنگ بند کروا دیں گے۔
اسی طرح وہ یوکرین ک بارے میں بھی دعویٰ کرتے تھے کہ وہ وہاں بھی جنگ بند کروا دیں گے۔ انھوں نے امریکی عوام سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ جنگیں بند کرانے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اس وقت امریکا کے عوام اور اقوام عالم کو یہ یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی دنیا میں قیام امن کی راہ ہموار کریں گے بلکہ غزہ میں تو فوری جنگ بند ہو جائے گی۔
لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کے اقدامات کی وجہ سے دنیا میں بے یقینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی ہوئی اور اس کا بھی بنیادی مقصد فریقین کے پاس جو یرغمالی موجود تھے، ان کی رہائی تھا۔ اب وہاں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔
میڈیا ی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی بمباری سے 60 کے قریب فلسطینی باشندے شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کا واحد کینسر اسپتال بھی مکمل تباہ کر دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے عرب میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ کے اس اسپتال کو 2017 میں ترکیہ کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا تھا اور اس کی لاگت 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی، یہ کینسر اسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوا تھا، جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
یہاں سالانہ 10 ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اب یہ ابک بار پھر تباہ ہو گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کس وسیع پیمانے پر تباہی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح میں بھی زمینی آپریشن کیا اور شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی جس پر فلسطینی پھر سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یوں غزہ میں عارضی جنگ بندی کی وجہ سے جو فلسطینی واپس آئے تھے، انھیں ایک بار پھر مہاجرت اختیار کرنی پڑ رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے چند دنوں کے دوران اس کے 5 امدادی کارکن بھی مارے جا چکے ہیں جس سے انروا کے ہلاک شدگان ارکان کی تعداد284 ہوگئی ہے جن میںزیادہ تر اساتذہ، ڈاکٹر ز اور نرسز ہیں۔ یہ حالت وہاں پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے والوں کی ہے۔
اسرائیلی فورسز کسی کا کوئی لحاظ نہیں کر رہیں۔ دنیا میں امدادی کارکنوں کی عزت کی جاتی ہے اور ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی فوج ان اخلاقی اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تقسیم کے لیے صرف 6 دن کا آٹا رہ گیا ہے۔ ان حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں جو لوگ رہ رہے ہیں، وہ کس خوف اور عذاب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن نیتن یاہو کی انتظامیہ کو بھی کوئی خوف نہیں ہے جب کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کو غزہ میں کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے اپنی تائید اور حمایت دے رہے ہیں۔
یونیسف کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں گزرے تین روز میں کم از کم 200 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طبی حکام کے مطابق اس دوران چھ سو فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حماس کے پاس بھی چھوٹی موٹی کارروائیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے غزہ سے تل ابیب پر متعدد راکٹ حملے کیے ہیں، ان راکٹ حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں خطرے کے سائرن بج گئے۔
اسرائیلی فوج نے 2 راکٹ مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کے شہری بھی متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ ان پر بھی مسلسل خوف کی کیفیت طاری ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ہے لیکن اصل مسئلہ پھر وہی آتا ہے کہ اقوام عالم خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پوری دنیا کو چیلنج کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے غزہ پر اسرائیل کی مہلک بمباری دوبارہ شروع کرنے اور فلسطینیوں کے اندھا دھند قتل کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس برطرفی پراسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی برطرفی کو اسرائیلی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کے اندر بھی چپقلش چل رہی ہے جب کہ عوام بھی نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ غزہ جنگ بندی کے لیے مصر اور قطر نے دوبارہ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
حماس کا وفد بھی قاہرہ پہنچ گیا لیکن مسئلہ تو پھر وہی ہے کہ امریکا اس حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی سوچ تو سب کے سامنے آ چکی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر دیں اور غزہ کا کنٹرول امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ جہاں وہ اس علاقے کو ایک کاروباری مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
فلسطینی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا اس منصوبے کے حق میں نہیں ہے۔ یوں یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ البتہ شام کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے شام کے دورے کے دوران دمشق میں جرمنی کا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
یہ سفارت خانہ 13 سال قبل شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی دنوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ جرمنی کا شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا، شام کی موجودہ حکومت کے لیے ایک بہتر فضا پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک جو ان دنوں دوسری بار شام کا دورہ کر رہی ہیں، انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ جرمنی سفارت کاروں کی ایک محدود تعداد دمشق میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گی، لیکن قونصلر کے کام، جیسے کہ ویزا جاری کرنا، پڑوسی ملک لبنان میں بیروت میں جاری رہے گا۔
یہ اقدام برلن اور دمشق میں قیادت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں ایک اہم قدم ہے، جو بشار الاسد کے خاتمے کے بعد ملک کی تعمیر نو کی کوششوں کے دوران انسانی اور سلامتی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے نے خونریز خانہ جنگی کے دوران اپنا وطن چھوڑ دیا تھا، اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔
بیئربوک نے شام کے عبوری رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ انھوں نے شامی رہنماؤں سے کہا کہ انھیں اس ماہ ہونے والے نسلی قتل عام میں ملوث انتہا پسند گروہوں کو قابو میں کرنا اور جرائم کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے دمشق میں عبوری صدر احمد الشرع کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا، ’’یہ ضروری ہے کہ انتہا پسند گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور جرائم کے ذمے داروں کا احتساب کیا جائے۔‘‘
مغربی یورپ کو غزہ میں قیام امن کے لیے بھی وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو اس نے یوکرین کے معاملے میں کیا ہے۔ امریکا کی پالیسی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقوام عالم کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن جب تک یورپی یونین، برطانیہ، چین، بھارت اور عرب ممالک ایک اتحاد کے ذریعے امریکا کے ساتھ معاملات آگے نہیں بڑھاتے، تنازع فلسطین کا حل ممکن نہیں ہو گا۔
روس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اس کی ترجیح یوکرین بن چکی ہے۔ اس بحران سے نکل کر ہی وہ فلسطین یا شام کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری یہی ہے کہ یورپی یونین خصوصاً جرمنی، فرانس، اسپین، برطانیہ، چین، ترکیہ، برازیل، جنوبی افریقہ، جاپان اور سعودی عرب کے درمیان تنازع فلسطین کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل نکلے، اس طریقے سے امریکا بھی فلسطین کا تنازع حل کرنے کے لیے آمادہ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے کہ اسرائیل اسرائیلی فوج اقوام عالم امریکا کے کی وجہ سے کے مطابق کے دوران انھوں نے کے حوالے حوالے سے کے لیے ا دیا گیا کے ساتھ کر دیا گیا ہے شام کے کہ غزہ کیا ہے
پڑھیں:
سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرے: پاکستان
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے کیونکہ اسرائیل مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔
نجی نیوز ایجنسی انڈیپینڈنٹ نیوز کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے کیونکہ اسرا
ئی
ل مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے ایکس اکاو¿نٹ پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جاری نسل کشی کو مغربی کنارے تک پھیلا دیا ہے، اور اگر اس وحشیانہ جنگ کو روکا نہ گیا تو طاقتور اور جارح ریاستوں کی بدترین فطرت بے نقاب ہو جائے گی، اقوام متحدہ کے چارٹر کے وہ اصول جنہیں جارحیت اور جنگ سے بچاو¿ کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، چکنا چور ہو جائیں گے اور دنیا ایک ہوبزیائی جہنم‘ (Hobbesian hell) میں تبدیل ہو جائے گی جہاں صرف تصادم اور تباہی کا راج ہوگا۔‘
بیان کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اسرائیل کی اس جاری نسل کشی کو دیکھتے نہ رہیں، کیونکہ اسرائیل اپنے اقدامات میں مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔‘
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورت حال پر پاکستان کا قومی بیان دیتے ہوئے اسرائیل کی حالیہ جارحیت، بشمول غزہ پر دوبارہ بمباری اور انسانی امداد کی منظم ناکہ بندی کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے 90 فیصد سے زائد غزہ کی آبادی بھوک کا شکار ہے۔ ’نوزائیدہ بچے مر رہے ہیں۔ سویلین عمارتوں جن میں ہسپتال، سکول اور مساجد شامل ہیں، جنگجوو¿ں کو نشانہ بنانے کے بہانے تباہ کی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی حقوق کے قوانین کے ہر اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘منیر اکرم نے زور دیا کہ اسرائیل نے واضح طور پر اعلان کر رکھا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں پر ہونے والے اثرات کی پروا کئے بغیر اپنی جارحیت جاری رکھے گا۔انہوں نے اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے فوجی چھاپے، آباد کاروں کے حملے اور غیر قانونی زمینوں کا انضمام فلسطینی عوام کو مغربی کنارے سے بے دخل کرنے کے ایک منظم منصوبے کا حصہ ہیں۔انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سات اکتوبر 2023 سے چار مارچ 2025 کے درمیان 896 فلسطینی، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی بیت المقدس میں قتل کئے گئے، ۔
سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے منتخب اراکین سے اپیل کی کہ وہ اس بربریت کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ ان منتخب اراکین کو جنرل اسمبلی کی جانب سے امن و سلامتی کے قیام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفاع کا براہ راست مینڈیٹ حاصل ہے۔انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں روکنی چاہئیں اور ایک مستقل فائر بندی قائم کی جانی چاہئے۔ غزہ پر انسانی امداد کی ناکہ بندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کو مکمل رسائی دی جائے تاکہ شہریوں کو فاقہ کشی سے بچایا جا سکے۔ 15 جنوری کے معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے، جس میں مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا شامل ہے جبکہ قطر، مصر اور امریکا جیسے ثالثوں کو اس عمل میں معاونت کرنی چاہئے۔ غزہ کی بحالی اور گورننس کے لئے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تاکہ دیرپا استحکام یقینی بنایا جا سکے۔ ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل شروع کیا جائے جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت کو روکنے، فائر بندی کو برقرار رکھنے اور انسانی بحران کے خاتمے میں کردار ادا کر سکے تو یہ اگلے جون میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں دو ریاستی حل کے لئے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔
نشئی کے ہاتھ میں دستی بم پھٹنے سے تین افراد جاں بحق
مزید :