سائیکل سڑکوں پر کم، یادوں میں زیادہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
آجا نی بہہ جا سیکل تے
آجا نی بہہ جا سیکل تے
آجا نی بہہ جا سیکل تے
پچیس برس پرانا یہ گیت آج بھی سنیں تو دل جھوم جاتا ہے۔ محبوب سے پیار کے اظہار کے لیے ابرار الحق نے سائیکل کا کیا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ پچارو یا کرولا نہیں، گلوکار نے اپنی محبت کی کہانی آگے بڑھانے کے لیے سائیکل کا انتخاب کیا۔
سائیکل ایک ہلکی پھلکی سواری ہے، یہ یاری خوب نبھاتی ہے، نہ پیٹرول کا خرچہ اور نہ ہی چالان کا ڈر، یہ بے ضرر سواری ماحول کے لیے بھی نقصان دہ نہیں۔
سائیکل چلانے میں ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اسے سیکھنا اتنا مشکل نہیں، عام طور پر بچوں کا بچپن اسی سواری سے ہی شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی سائیکل سیکھ لے تو پھر اس کے لیے اسے بھولنا مشکل ہوتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ سائیکل کے استعمال میں کمی کی ہے۔ بچے تو اب بھی سائیکل کی فرمائش کرتے ہیں، مگر یہ شوق ہی رہتا ہے، ان کی عادت نہیں بنتی۔
آج کل تو نوعمر بچے بھی سائیکلوں پر کم موٹرسائیکلز پر زیادہ نظر آتے ہیں، دو تین دہائیوں پیچھے چلیں تو سائیکل نہ ہونے کی صورت میں بچے ایک، دو روپے دے کر سائیکل کرائے پر لیتے تھے اور وہ آدھ یا ایک گھنٹہ ان کے لیے کسی عیاشی سے کم نہیں ہوتا تھا۔
بچپن کی یادوں پر مزید دستک دیں تو کئی خوشگوار جھونکیں آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ خوبصورت گھنٹی، ٹوکری اور اگلے حصے پر ایک چھوٹی سی گدی، سائیکل کی شان بڑھاتی تھیں، وقت بدلا تو الیکٹرک بیلز نے پرانی گھنٹیوں کی جگہ لی۔
کس کی سائیکل اچھی ہے، بچوں میں اس کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ اب تو وقت بدل گیا ہے مگر پہلے ڈاکیا، دودھ فروش، چوکیدار یا پھر دیگر ملازم پیشہ افراد سائیکل کا ہی استعمال کرتے تھے۔
سائیکل انتخابی مہم کا بھی حصہ بنتی رہی ہے۔ ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد کو سائیکل کا انتخابی نشان ملا، سائیکل کا انتخابی نشان پہلے مسلم لیگ جونیجو کے پاس بھی رہا، مسلم لیگ (ق) کو سائیکل کا نشان دیا گیا جو اب بھی اسی کے پاس ہے۔
ماضی میں جائیں تو جنرل ضیا الحق سے اس معصوم سواری کا تعلق ملتا ہے، 80 کی دہائی میں انہوں نے سادگی کو فروغ دینے کے لیے ایک دن کے لیے سائیکل چلائی۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی سائیکل کی اہمیت پر زور ڈالتے رہے اور اس حوالے سے وہ اکثر نیدرلینڈز کے وزیراعظم کی مثال بھی دیا کرتے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس جانے کے لیے وہ ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے تھے۔
سائیکل چلائیں، اپنی صحت بھی بہتر بنائیں، یہ سواری چلانے سے دل، خون کی نالیاں اور پھیپھڑے سب کی مشق ہوتی ہے، دل کے دورے اور شوگر کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے، یہ سواری ذہنی دباؤ بھی کم کرتی ہے اور ذہنی بیماریاں بھی کم کم ہی آپ کے قریب آتی ہیں۔
سائیکل چلانے سے ٹانگیں مضبوط ہوتی ہیں، وزن بھی کم ہوتا ہے، ایک تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک گھنٹہ مسلسل سائیکل چلانے سے 300کے قریب کیلوریز جلائی جا سکتی ہیں۔
ایک اور تحقیق بتاتی ہے کہ باقاعدگی سے سائیکل چلانے سے کینسر کی کچھ اقسام میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ روزانہ تیس منٹ سائیکل چلانے والوں میں شوگر کا امکان ان افراد کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہوتا ہے، جو کہیں جانے کے لیے سائیکل کا استعمال نہیں کرتے۔
گئے وقتوں میں بینکس گاڑیوں نہیں سائیکل کے لیے آسان اقساط کے اشتہار دیا کرتے تھے۔ ادب میں بھی سائیکل کا ذکر زیادہ ہی ملتا تھا۔ دنیا بھر میں سائیکلنگ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں، ٹور ڈی فرانس سب سے زیادہ مشہور ہے، کئی مرحلوں پر مشتمل اس ریس میں سائیکلسٹ 3 ہزار 500 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
دنیا میں کھیلوں کے سب سے بڑے میلے اولمپکس میں بھی سائیکلنگ کے 22 مقابلے ہوتے ہیں اور 66 تمغے جیتنے کا موقع ہوتا ہے۔ اولمپکس میں سائیکلنگ کے مقابلے 1896 میں کھیلوں کے اس میلے کے آغاز سے ہی شامل ہیں۔
موجودہ دور میں رائٹ برادرز سے بھی کم لوگ ہی واقف ہیں، ہوائی جہاز بنانے کا سہرا ان دونوں بھائیوں کو ہی جاتا ہے، یہ دونوں بھائی نہ صرف سائیکلیں فروخت کرتے تھے، بلکہ انہیں ان کی مرمت میں بھی مہارت تھی۔
سائیکل کا استعمال تو کم ہوا ہے مگر اقوام متحدہ کی نظر میں اس کی اہمت آج بھی قائم و دائم ہے۔ اقوام متحدہ نے 15 مارچ 2022 کو ایک قرارداد منظور کی، جس کے نتیجے میں ہر سال 3 جون کو دنیا بھر میں سائیکل کا دن منایا جاتا ہے اور اس بھولی بچھڑی سواری کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ان ممالک کی بات کریں، جہاں سائیکل چلائی جاتی ہے تو اس فہرست میں نیدرلینڈز سب سے اوپر ہے، جہاں سائیکلوں کی تعداد تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ جو اس ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
ڈنمارک میں بھی سائیکل چلانے والے کم نہیں، ایک اندازے کے مطابق، یہاں روزانہ 40 فیصد افراد روزانہ سائیکل چلاتے ہیں، دیگر یورپین ممالک جیسے جرمنی، فرانس، بیلجیم اور سوئٹزرلینڈ میں بھی سائیکل سوار کم نہیں۔
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور چین میں بھی سائیکل دوست افراد بہت ہیں۔ اکثر ممالک میں تو سڑکیں بھی سائیکل سواروں کے لیے خاص طور پر بنائی گئی ہیں، اس کے علاوہ ان کی پارکنگ اور اس سواری کے لیے مختص لینز بھی موجود ہیں۔
چین میں دنیا کی تقریباً 50 فیصد سائیکلیں بنائی جاتی ہیں۔ بھارت سے بھی دنیا بھر میں سائیکلیں برآمد کی جاتی ہیں۔
ممتا تیواری کی ایک خوبصورت نظم کا یہ شعر پڑھیے اور ساتھ ساتھ ماضی کی سیر بھی کیجیئے؛
پوسٹ مین کی سائیکل کی گھنٹی،
میرے دل کی دھڑکنیں بڑھا دیتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میں بھی سائیکل سائیکل چلانے میں سائیکل سائیکل کا سائیکل کی کرتے تھے چلانے سے کے لیے ا ہوتا ہے جاتا ہے ہے اور بھی کم تے ہیں
پڑھیں:
صدر اردوان کے حریف اکرم امام گرفتار، عوام سڑکوں پر نکل آئے
استنبول(نیوز ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے بڑے سیاسی حریف اور استنبول کے میئر اکرم امام اعولو کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ چند دن بعد ترک صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے امیدوار نامزد ہونے والے تھے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اکرم امام اعولو کو بدھ کی صبح ترک پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ان پر کرپشن اور ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، تحقیقات کے دوران 100 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔
اکرم امام اعولو نے اپنی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔
اکرم امام کی گرفتاری کے بعد ترکی میں شدید احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ استنبول، انقرہ اور دیگر شہروں میں سڑکوں، یونیورسٹی کیمپسز اور ٹرین اسٹیشنوں پر عوام حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ استنبول میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
حکومت نے چار روزہ پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جن کے تحت عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تاہم، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ امام اعولو کو صدارتی دوڑ سے باہر کرنے کی سازش ہے۔
میئر استنبول کی گرفتاری کے فوراً بعد ترکی میں سوشل میڈیا سروسز میں خلل آنا شروع ہو گیا، اور صارفین کو رسائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
دوسری جانب عرب میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امام اعولو کی یونیورسٹی ڈگری بھی منگل کو منسوخ کر دی گئی تھی، جس کے بعد ان کی صدارتی نامزدگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ترکی میں صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں، اور اس گرفتاری کے بعد سیاسی صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی صدر اردوان کی حکومت کے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش ہے۔