سید حسن رضا نقوی، میرا بھائی
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایک مرتبہ علامہ غلام شبیر بخاری صاحب نے کہا کہ لاہور میں ایک سٹڈی سرکل قائم کیا جائے، جس میں استاد مرتضیٰ مطہری شہید کی کتاب "سچی کہانیاں" پڑھی جائیں اور ہر کہانی سے نتائج اخذ کیے جائیں۔ میں نے حسن رضا نقوی سے بات کی تو انہوں نے حامی بھر لی کہ انکے گھر پر یہ ہفتہ وار نشست ہوگی۔ اسوقت آپ چوہان روڈ، پر کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ قبلہ بخاری صاحب میرے غریب خانے پر تشریف لاتے، وہاں سے ہم دونوں حسن رضا کے دولت کدہ پر حاضر ہوتے، جہاں ایک دو افراد کا انتظار کیا جاتا۔ ان نشستوں میں اسّی کی قریب کہانیاں پڑھی گیں۔ ہر کہانی سے کئی نتائج سامنے آئے۔ ان نشستوں میں ہم تینوں لازمی شامل ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نیکی اور خیر کے ہر کام میں حسن رضا نقوی سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ آپ امام خمینی (رح) کے عاشق تھے اور شکر ادا کرتے تھے کہ انکی زندگی میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور وہ اسی طرح کا خواب اپنے پیارے ملک پاکستان کیلئے بھی دیکھتے تھے۔ تحریر: سید نثار علی ترمذی
میں نے جن دنوں تنظیم میں فعالیت اختیار کی تھی، تب تنظیموں پر عجب طرح کا دور تھا۔ تنظیمیں فعال تھیں اور زعم میں تھیں کہ اگر وہ نہ ہوئیں تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جب یہ گرد چھٹی تو اس میں سے چند ہیرے ہاتھ میں آئے، جن میں ایک ہیرے کا نام سید حسن رضا نقوی ہے۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے کہ اس ہیرے کو زیر زمین چھپا دیا گیا ہے، مگر ایسا ہوچکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے جسم کا ایک حصہ ساتھ نہیں ہے یا میں خود اپنے ساتھ نہیں ہوں۔ میں اپنی کیفیت کسی کو بتا بھی نہیں سکتا۔ جس کو بتا سکتا تھا، وہ تو درد جدائی دے کر چلا گیا ہے۔
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
برادر حسن رضا نقوی، سادات امروہہ کے چشم و چراغ ہیں۔ نقوی سادات امروہہ کے مورث اعلیٰ عزت مآب سید حسین شرف الدین شاہ ولایت ہیں۔ شاہ ولایت سے یاد آیا کہ عزا خانہ پانڈو سٹریٹ، لاہور کے بانی سید محمد نقوی مرحوم نے مسجد صاحب الزمان، اسلام پورہ، لاہور میں بعد از نماز جمعہ قبل از نماز عصر اپنے خصوصی خطاب میں بتایا کہ وہ چند دن پہلے ہندوستان سے واپس آئے ہیں۔
ہندوستان میں انہوں نے اپنے جد امجد حضرت شاہ ولایت کے مزار پر حاضری دی اور ان کی کرامت "بچھو" جو ان کے مزار کے احاطے میں پائے جاتے ہیں، وہاں کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے ہیں، کا مشاہدہ کیا۔ میں وہاں سے دو بچھو اس وعدے پر لے کر آیا ہوں کہ انہیں واپس مزار پر چھوڑوں گا۔ یہ بچھو اس وقت میرے پاس موجود ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور اس میں سے بچھو نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیے اور تمام نمازیوں کو دکھائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان بچھوؤں کو آپ بھی چھو سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے نمازیوں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ جدھر بھی ہاتھ بڑھاتے، نمازی پیچھے ہٹتے جاتے۔ میرا خیال ہے کہ کسی نے بھی چھونے کی سعادت حاصل نہیں کی ہوگی۔ میں کیونکہ دور صف میں بیٹھا تھا، اس لیے فقط نظارہ زیارت ہی کرسکا۔ یہ بات برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی۔
برادر حسن رضا نقوی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے رکن رہے، مزید یہ کہ آپ آئی ایس او لاہور ڈویژن کے ڈویژنل جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ آپ امامیہ آرگنائزیشن پاکستان میں شامل ہو کر خدمت انجام دیتے رہے۔ جب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید (رح) امامیہ آرگنائزیشن لاہور ریجن کے ناظم تھے تو آپ ان کے ساتھ کابینہ میں بھی شامل تھے۔ آپ آخری دم تک امامیہ آرگنائزیشن میں فعال اور متعدد عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جب آپ نے اس دنیا میں آخری سانس لی تو ناظم لاہور ریجن تھے۔ یعنی جو عہد کیا تھا، اسے آخر تک نبھایا۔ آپ قومی تحریکوں کے سرگرم رکن رہے۔ 1980ء میں آل پاکستان شیعہ کنونشن میں شریک رہے۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھ اسلام آباد جانے کا موقع ملا تو انہیں ان حالات و واقعات کی روداد سنائی اور بتایا کہ اس ایریا میں ان کے عزیز کا گھر تھا، علماء کرام کو لے کر آئے، فون کروائے اور خاطر تواضع کی۔ مجھے بھی اس گھر میں لے کر گئے۔
کنونشن اور دھرنے میں جو مشکلات پیش آئیں، انہیں سب کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ آپ اس معرکہ کے چشم دید گواہ تھے۔ اس کے بعد آپ بسلسلہ روزگار سعودی عرب چلے گئے۔ جہاں چند سال گزار کر واپس آئے تو پھر روزگار کے ساتھ ساتھ تنظیمی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔ دوران جلوس نماز باجماعت غالباً 1980ء کی بات ہے کہ جلوس عزاء میں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ آئی ایس او اور آئی او اس کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ لاہور میں محرم الحرام کا پہلا بڑا جلوس نو محرم الحرام کو امام بارگاہ پانڈو اسٹریٹ، اسلام پورہ سے نکلتا تھا اور وہ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے۔ انہوں نے انتظامیہ کو بھی اطلاع کر دی تھی، وہ بھی پوری طرح اس عبادت کو روکنے کے لیے تیار تھی۔ مقامی ہونے کے حوالے سے حسن رضا نقوی آگے آگے تھے۔ جب ظہر کا وقت آیا تو پولیس نے شدید لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ شرکاء نماز پیچھے ہٹ گئے اور سراج بلڈنگ کے قریب ثاقب نقوی مرحوم کی اقتداء میں نماز ادا کر دی گئی۔
پولیس متحرک لوگوں کو پکڑنے کی تگ و دو میں تھی، جن میں سرفہرست حسن رضا نقوی کا نام تھا۔ آئی ایس او والے موصوف کو بس میں بیٹھا کر انجینئرنگ یونیورسٹی لے گئے، یوں شب عاشور انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں گزاری۔ بعد میں تو مخالفین خود نماز کی پہلی صف میں شامل ہوتے اور اگلے دن اخبارات میں تصاویر چھپ جاتیں۔ جب سے یہ نماز شروع ہوئی اور ان کی حیات تک اس کا انتظام و انصرام میں برادر حسن رضا مرحوم کا مرکزی کردار رہا ہے۔ جلوس کے منتظمین سے رابطے میں، نماز باجماعت کا اہتمام، وضو اور صفوں کا بندوست، پیش امام کا تعین، سپیکر کی تنصیب، نماز کے بعد کے لوازمات غرض یہ ہے کہ سب میں آپ کا کردار مرکزی رہا۔ اس دور میں آئی ایس او یا آئی او کا یونٹ فعال تھا یا نہیں تھا، مگر نماز باجماعت دوران جلوس اسی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔
نماز کے بعد ایک بالباس حلقہ ماتم کا قیام جس میں آئی او، آئی او کے اراکین و سابقین ایک کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ روایت اسی جلوس میں زندہ ہے۔ تین چار نوحے پڑھنے کے بعد سب کو اپنے بھائی کے گھر نیاز کے لیے لے جانا بھی آپ کی روایت ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ پرانے ریکارڈ سے پرانے خطوط تلاش کرتے رہے، جس جلوس عزاء اور نماز کے قیام کے حوالے سے کوئی قابل عمل معاہدہ طے پا جائے۔ اس سلسلے میں مجھے بھی مشاورت میں رکھا۔ یوم القدس 1980ء میں جمعۃ الوداع کے دن یوم القدس کا جلوس برآمد ہؤا۔ اس کی کیا کیفیت ہوگی، اسے کوئی چشم دید ہی بتا سکتا ہے، مگر بعد ازاں یہ جلوس ناصر باغ سے مسجد شہداء تک جانے لگ گیا۔ لاہور کی مساجد سے لوگ ناصر باغ کے اندر جمع ہوتے، وہاں ایک دو تقاریر ہوتیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید (رح) ہدایات دیتے، یوں یہ جلوس منظم ہو کر مال روڈ پر آتا۔
یہ تب شروع ہوتاو جب مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان، حیدر روڈ کے نمازی جلوس کی صورت میں القدس کے جلوس میں شامل ہو جاتے۔ لا محالہ سب کی نظریں اس طرف لگی ہوتیں۔ مسجد کے پیش امام و انتظامیہ دونوں القدس کے جلوس کے حق میں نہ اس وقت تھے اور نہ اب ہیں، مگر اس جلوس میں شرکت میں نمازیوں کی محبت اور اور حسن رضا کا ولولہ شامل ہے۔ پھر یوں ہوا کہ جلوس کا آغاز ہی جامع مسجد صاحب الزمان سے کر دیا گیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے یہ لکھ کر دیا ہؤا ہے کہ یہ جلوس مسجد سے نہیں بلکہ مسجد کے باہر سے نکلتا ہے، لیکن آج تک کوئی بھی نہیں جان سکا، کیونکہ کہ یہ حسن رضا نقوی مرحوم کی حکمت عملی و کردار تھا کہ مسجد اور جلوس ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ نماز جمعہ سے القدس کے حوالے سے خصوصی خطاب بھی مرحوم کا خاصہ رہا ہے۔ جلوس کو لے کر چلنا، نعرے و تقاریر میں مرحوم پیش پیش رہتے تھے۔
جامع مسجد صاحب الزمان مسجد سے حسن رضا مرحوم کا تعلق ہمیشہ سے رہا ہے۔ آپ نے قرآن مجید ناظرہ اسی مسجد سے پڑھا۔ جب میرے بچے یہاں قرآن مجید پڑھتے تھے تو انہوں نے بتایا کہ آج مسجد میں تقریب انعامات ہے۔ میں بھی شامل ہوا۔ دیکھا کہ سادہ سی تقریب ہے اور برادر حسن رضا کرسی پر بطور مہمان خصوصی تشریف فرما ہیں۔ بھائی صغیر مرحوم جو کہ معلم قرآن تھے، وہ انعامات کا اعلان کر رہے تھے اور حسن بھائی انعامات دے رہے تھے۔ مجھے دلی خوشی ہوئی۔ حسن رضا بھائی بعد میں وضاحتیں دینے لگے کہ بھائی صغیر نے بہت اصرار کیا تھا۔ مسجد کا کردار ہم دونوں کا مشترکہ درد تھا۔ میری نظر میں اس مرکزی مسجد کو آج تک کوئی ایسا پیش امام میسر نہیں آیا، جو بقول علامہ اقبال "جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے" پیش امام کے حوالے سے ہم مسلسل گفتگو کرتے رہتے تھے۔ حسن بھائی خواہش کے باوجود موجودہ کی اصلاح کی کوشش کرتے رہتے۔ ایک مرتبہ اس بات پر گفتگو ہوئی کہ موجودہ پیش امام کو مطالعہ کے لیے کچھ مواد دیا جائے۔ میں نے تجویز دی کہ استاد مطہری شہید کی کتاب "سخن" میں شہید کی دو تقاریر ہیں، جو خطبہ و منبر کے موضوع پر ہیں، وہ اس قابل ہیں کہ جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
حسن رضا نے اس کی کاپی کی اور اہم نکات کو نمایاں کیا اور مولانا صاحب کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگئے۔ ان سے درخواست کی کہ وہ ان سے پڑھنے آئے ہیں۔ انہوں نے ایک نظر اس مواد کو دیکھا اور حسن رضا سے کہا کہ "تم پڑھنے آئے ہو یا مجھے پڑھانے آئے ہو۔" حسن بھائی نے کہا کہ آپ جو بھی سمجھیں، ہم چاہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ اس انداز سے ہو۔ انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے کہا کہ یہ میرے لیے حجت نہیں ہے۔ کافی عرصہ ہم اس تبدیلی کی کوشش پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے۔ حسن رضا موجودہ پیش امام کے ایک کردار سے بہت خوش تھے کہ انہوں نے غالیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ اس دور میں یہ کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، ورنہ یہاں تو غالی عشرہ بھی پڑھ چکے تھے۔ یہی اطمینان والی بات ہے۔ مسجد کے انتخابات ہوں یا مقدمات ہوں یا انتظامی معاملات ہوں، آپ کا کردار عملی و مشاورتی رہا ہے۔ آپ کی مسجد میں موجودگی سے تمام تنظیموں کو اپنا کردار ادا ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔
1986ء لاہور میں محرم الحرام میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بیسیوں امام بارگاہیں کلی یا جزوی طور مسمار کر دی گیں۔ تبرکات و قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے۔ اس وقت حسن رضا، اسلام پورہ میں رہتے تھے، جو فسادات کا مرکز تھا۔ جلتی ہوئی امام بارگاہوں کو حسرت و یاس سے دیکھتے۔ کرفیو نے اس فتنہ کو روکا۔ اسی دہشت زدہ ماحول میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) نے لاہور کا دورہ کیا۔ اس پورے دورے میں آپ شہید (رح) کے ساتھ ساتھ رہے۔ شہید (رح) سے صادر ہونے والے جملات کے راوی بھی آپ ہی ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ علم عباسؑ وہ اپنے گھر پر لگائے، جو اس کی حفاظت بھی کرسکتا ہو یا مجھے افسوس ہے کہ علم غازی عباسؑ تو گرئے، مگر نوجوانوں کے سر نہیں گرئے۔ شہید (رح) کے بروقت دورے سے لوگوں کو حوصلہ ملا۔
آپ کثیر مطالعہ شخص تھے۔ کتب کا اچھا خاصہ ذخیرہ آپ نے جمع کیا ہوا تھا اور پڑھا ہوا تھا۔ میں جب بھی بات کرتا تو کہتے کہ یہ فلاں کتاب میں ہے اور فلاں دور میں پڑھی تھی۔ میں نے حضرت زید شہید پر کتب کی بات کی تو آپ نے مجھے دو یا تین کتب دیں، جنہیں میں واپس بھی نہیں کرسکا۔ میری دونوں کتب پر آپ نے جان دار تبصرہ کیا۔ آپ میرے لکھنے کی صلاحیت کی ہمیشہ تعریف کرتے اور خواہش کرتے کہ فلاں فلاں موضوعات پر بھی لکھیں، میں اپنی محدودیت کا اظہار کرتا، مگر وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے دن فون کرتے، ترمذی صاحب وہ کالم پڑھا ہے؟ میں نہیں، میں جواب دیتا تو بس شروع ہو جاتے کہ آپ جتنا مرضی اتحاد کے لیے کوشش کر لیں، ان کے دل سے خناسیت جا نہیں سکتی۔ اس کا جواب لکھیں۔ میں اپنے سر سے بوجھ اتارتے ہوئے کہتا کہ آپ جواب لکھیں، آپ بھی تو لکھ سکتے ہیں۔ پھر کہتے ترمذی بھائی، اس کے لیے ایک فورم ہونا چاہیئے، جو ایسے معاملات کے مدلل جواب تیار کرے، میں ان سے اتفاق کرتا۔
کہتے ہیں کہ کچھ فقط خواب دیکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ میں ملت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہر مسئلہ پر رنجیدہ ہو جانا، اس کے حل کے لیے تجاویز دینا اور اپنے حصے کا کام کرنا، یہ آپ کا وطیرہ رہا ہے۔ ہماری محبوب شخصیت ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید (رح) رہے ہیں۔ وہ شہید کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور شہید کی شخصیت سے آگاہ تھے۔ جب ہم ملتے تو "ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا" کے مصداق کافی دیر گزر جاتی۔ آپ بتاتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب صبح کی نماز پڑھانے تیزاب احاطہ جاتے تھے، میں بھی پہنچ جاتا، واپسی پر ڈاکٹر صاحب موٹر سائیکل پر ہوتے اور وہ سائیکل پر، ڈاکٹر صاحب اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہتے۔ چوبرجی پر راستہ بدلنا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کہتے کہ اللہ حافظ، یہ کہ کر ہاتھ چھوڑ دیتے۔ یہ قرب کے لمحے تو خواب ہوگئے۔ ہر واقعے پر مجھے کہتے کہ کاش! آج ڈاکٹر شہید ہوتے تو یہ جھمیلے نہ جھیلنے پڑتے۔
ایک مرتبہ علامہ غلام شبیر بخاری صاحب نے کہا کہ لاہور میں ایک سٹڈی سرکل قائم کیا جائے، جس میں استاد مرتضیٰ مطہری شہید کی کتاب "سچی کہانیاں" پڑھی جائیں اور ہر کہانی سے نتائج اخذ کیے جائیں۔ میں نے حسن رضا نقوی سے بات کی تو انہوں نے حامی بھر لی کہ ان کے گھر پر یہ ہفتہ وار نشست ہوگی۔ اس وقت آپ چوہان روڈ، پر کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ قبلہ بخاری صاحب میرے غریب خانے پر تشریف لاتے، وہاں سے ہم دونوں حسن رضا کے دولت کدہ پر حاضر ہوتے، جہاں ایک دو افراد کا انتظار کیا جاتا۔ ان نشستوں میں اسّی کی قریب کہانیاں پڑھی گیں۔ ہر کہانی سے کئی نتائج سامنے آئے۔ ان نشستوں میں ہم تینوں لازمی شامل ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نیکی اور خیر کے ہر کام میں حسن رضا نقوی سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ آپ امام خمینی (رح) کے عاشق تھے اور شکر ادا کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور وہ اسی طرح کا خواب اپنے پیارے ملک پاکستان کے لیے بھی دیکھتے تھے۔
لاہور میں علامہ جواد نقوی صاحب کے دروس شروع ہوئے تو آپ ذوق و شوق سے سننے لگے۔ مدرسہ عروہ الوثقیٰ کے قیام کے بعد ہر اتوار کو وہاں جانے لگے، جمعہ کے اجتماع میں سر ہلا ہلا کر روداد بتاتے۔ میں بھی کریدتا رہتا۔ ایک دن انکشاف کیا کہ انہوں نے جانا چھوڑ دیا ہے۔ میں حیران ہو کر اس تبدیلی کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے کہ وہ اب سمجھے ہیں کہ "آغا صاحب صرف "ٹچکراں" کر دے نیں۔" اس ایک لفظ نے ساری تبلیغ کا نچوڑ بیان کر دیا۔ باتیں اتنی ہیں کہ لکھتا جاؤں تو ختم نہ ہوں۔ ایک عرصہ ایک علاقے میں رہے، روزانہ ملاقات ہو جاتی، پھر ہر جمعے کو لازمی ملتے، اس کے علاؤہ بھی ملنے کے اور اسباب پیدا ہو جاتے۔ آپ میرے بیٹے اور بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے۔ جب انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو مجھے بھی شرکت کی سعادت بخشی۔ کراچی کے لوگوں سے ملواتے رہے، میرے بارے میں بتلاتے رہے۔ اسی طرح جب بیٹے کی شادی کی تو میں اسلام آباد میں تھا۔ کہا یہ تو اچھا ہوگیا ہے، کیونکہ بارات اسلام آباد جائے گی۔
ثاقب اکبر مرحوم اور برادر امتیاز رضوی کو بھی دعوت دی۔ ہم تینوں سے متعدد افراد کا تعارف کروایا۔ ہمارے آنے پر بہت خوش تھے۔ میں نے انہیں ہمیشہ پرعزم دیکھا ہے۔ ان کی بیماری کا سنا تو بہت دکھ ہؤا۔ ارادہ کے باوجود عیادت کے لیے نہ جا سکا۔ دل تو انہیں ہشاش بشاش دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ سے یقین تھا کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ 23 مارچ 2024ء کو گاؤں میں میرے تایا زاد بھائی کا انتقال ہوگیا تھا۔ ہم سب جنازہ میں شرکت کے لیے گاؤں گئے ہوئے تھے کہ فیس بک سے معلوم ہوا کہ حسن رضا نقوی نے 24 مارچ کو اپنی جان آفریں کے سپرد کر دی۔
اے چارہ ساز! حالتِ دردِ نِہاں نہ پُوچھ
اِک راز ہے جو کہہ نہیں سکتے زباں سے ہَم
میں جنازہ میں شرکت سے محروم رہا، جس کا قلق تا حیات رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اولاد کو ان کے راستے کو روشن رکھنے کی ہمت عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ برادر عزیز حسن رضا نقوی کا اور میرا سن ولادت ایک ہے۔ آپ 28 اگست 1958ء کو پیدا ہوئے اور 24 مارچ 2024ء کو اس دنیا میں آخری سانس لی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسجد صاحب الزمان ان نشستوں میں حسن رضا نقوی کے حوالے سے میں شامل ہو ہر کہانی سے ا ئی ایس او ڈاکٹر صاحب لاہور میں ایک مرتبہ ساتھ ساتھ انہوں نے بھی نہیں امامیہ ا پیش امام تھے اور رہے ہیں کے ساتھ شہید کی شروع ہو میں ایک میں بھی ا ہے کہ ا ئی او کیا جا ہیں کہ رہا ہے کے بعد تھے کہ کے لیے کر دیا کے گھر اور وہ کہا کہ
پڑھیں:
پی ایس ایل 8: دو ارب کی تقسیم کا معاملہ، محسن نقوی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں طلب
پی ایس ایل 8 کےلیے 2 ارب کی تقسیم نہ ہونے کے معاملے میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے طلب کرلیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 8 کےلیے تقریباً 2 ارب رقم کی تقسیم نہ ہونے سے متعلق آڈٹ پیرا کا جائزہ پیش کیا گیا۔
جائزے کے مطابق آڈٹ حکام کے مطابق پی سی بی اور فرنچائز کے درمیان یہ رقم تقسیم نہیں کی گئی۔
اس دوران چیئرمین پی اے سی نے سوال کیا کہ کیا چیئرمین پی سی بی کو آج کمیٹی میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟
پی اے سی نے اگلی میٹنگ میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو طلب کر لیا۔
اجلاس کے دوران سیکریٹری کابینہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے واقعات کی وجہ سے ان کا آنا ممکن نہیں تھا۔
اس دوران ثناءاللّٰہ مستی خیل کا کہنا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ وزیر داخلہ بیرون ملک ہیں، یہاں نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں وہ وزیر داخلہ کا کردار بھی ادا نہیں کر رہے؟
کمیٹی رکن نے کہا کہ نگران سیٹ اپ میں غیرقانونی طور پر پی سی بی کو کابینہ کے ماتحت کیا گیا۔
سیکریٹری کابینہ نے اجلاس کے دوران بتایا کہ مجھے ابھی اطلاع ملی ہے کہ وزیر داخلہ ملک میں ہیں، باہر نہیں ہیں۔
اس دوران سید نوید قمر بولے چیئرمین پی سی بی کے بغیر ہم آڈٹ پیرا نہیں سن سکتے، تحریک استحقاق کے علاوہ آپ کے پاس بھی بہت سے اختیارات ہیں، اگر ایک بار بندہ بلانے پر نہ آئے تو آپ نوٹس بھیج سکتے ہیں۔
نوید قمر نے یہ بھی کہا کہ آپ سول جج کے اختیارات کے تحت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرسکتے ہیں۔