Express News:
2025-03-21@22:08:34 GMT

دہشت گردی کا رِستا ہوا ناسور

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے تحت جاری ہونے والے اعداد و شمار پاکستان کےلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ گلوبل ٹیرارزم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

یہ اعداد و شمار 2011 سے 2024 کے درمیان کے ہیں اور 2025 کے آغاز سے ہی حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر نے اس پہ مہر ثبت کرنا شروع کردی ہے۔ اور اعداد و شمار پریشان کن بھی ہیں۔ 1099 واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں سے گئے اور پندرہ سے زائد زخمی ہوئے۔ ہونے والی اموات پہلے سے 45 فیصد زائد ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں اضافہ طالبان کے افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے زیادہ ہوا۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن حالیہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خیبر پختونخوا کی حکومت ہی غیر حاضر رہی۔ اس دورانیے میں سب سے مہلک حملہ بھی بی ایل اے کا رہا اور یہی کڑیاں جعفر ایکسپریس حملے سے آن ملیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو نقصان پاکستان نے اٹھایا، وہ شاید ہی کسی اور ملک نے اٹھایا ہو۔ یہ نقصان نہ صرف جانی ہے بلکہ مالی بھی ہے اور پاکستان کی معیشت کو دہشت گردی نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی جنگ میں بھی ہمیشہ پاکستان کو تختہ مشق بنائے رکھا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے سول و عسکری قیادت کو ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔ 

ممتاز عالم دین حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت، نوشکی میں سیکیورٹی فورسز پر حملے، بنوں میں دہشت گردی کی کارروائی، بولان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے اور قیمتی جانوں کا ضیاع، مفتی منیر شاکر کا ایسی ہی کارروائی میں جاں سے جانا، اور اسی طرح کی دیگر کارروائیوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ اور اس حوالے سے تمام حلقے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ 2025 کے آغاز سے آنے والی اس نئی لہر نے دہشت میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ سب اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ملک دشمن عناصر پاکستان میں دوبارہ انتشار پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ یہ دہشت گردانہ حملے نہ صرف معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ملک کی داخلی سلامتی، معیشت، اور عالمی ساکھ پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو داخلی استحکام اور اقتصادی ترقی کی اشد ضرورت ہے، دہشت گردی کی اس نئی لہر نے حکومت، عوام اور سیکیورٹی اداروں کےلیے نئے چیلنج کو جنم دیا ہے۔

اس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر، قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت اقدامات پر زور دیا گیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اجلاس اور بیانات دینا کافی ہے؟ کیا ہم واقعی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کےلیے تیار ہیں؟

اگر حالیہ دہشت گردی کی لہر کا تجزیہ کیا جائے تو چند بنیادی عوامل واضح ہوتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد وہاں مختلف شدت پسند گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ طالبان حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں۔

پاکستانی حکام بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں یا انہیں پاکستان کے حوالے کریں، لیکن اس پر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہورہی۔ افغانستان میں شدت پسند گروہ پہلے سے زیادہ متحرک ہوچکے ہیں اور حالیہ جعفر ایکسپریس کے ہینڈلرز کے تانے بانے بھی افغان سرزمین پر جاکر ملتے ہیں اور کالعدم تنظیمیں وہاں پر فعال ہیں جو پاکستان میں بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

امریکا نے افغانستان سے عجلت میں انخلا کرکے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ امریکا کےلیے افغانستان کی غیر یقینی صورتحال ایک سفارتی چال بھی ہوسکتی ہے، تاکہ وہ پاکستان اور چین کے خلاف اپنا دباؤ برقرار رکھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا کے ماضی کے کردار کو دیکھتے ہوئے بھی خیال یہی ہے کہ امریکا آج بھی جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی ختم ہوچکی ہے، لیکن وہ اب بھی وہاں مختلف گروہوں کے ذریعے اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ طالبان کو امداد کی فراہمی بھی اس کی ایک مثال تھی۔ پاکستان کو اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی بیرونی قوت کے مقاصد اور عزائم ہمیشہ خطے میں اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔

پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات بھی اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے قومی سلامتی کے مسائل پر قیادت متحد نہیں ہو رہی۔ مضبوط حکومتی حکمت عملی کا فقدان دہشت گردوں کو دوبارہ متحرک ہونے کا موقع دے رہا ہے۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سیاسی قیادت ایک پیج پر نہ آسکی اور تحریک انصاف نے اس میں شرکت نہیں کی۔ معاشی بحران کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کو درپیش مسائل نے ان کے کام کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ جب ریاست کمزور نظر آتی ہے تو دشمن عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں اسے موقع سمجھ کر مزید حملے کرنے کی جرأت کرتی ہیں۔ اگر پاکستان کے اندرونی حالات اسی طرح عدم استحکام کا شکار رہے تو یہ دہشت گردی کی نئی لہر کو مزید تقویت دے سکتے ہیں، جو نہ صرف عوام کےلیے بڑا خطرہ ہے بلکہ ریاست کے وجود کےلیے بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

ماضی میں کیے گئے بڑے فوجی آپریشنز، جیسے ضرب عضب اور ردالفساد، کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس مکمل طور پر ختم نہیں کیے جاسکے۔ یہ تنظیمیں نئے ناموں اور نئی حکمت عملیوں کے ساتھ دوبارہ فعال ہورہی ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں کے درمیان مزید بہتر کوآرڈینیشن اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے، تاکہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کو بروقت ناکام بنایا جاسکے۔ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز ختم کرنے کےلیے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط کرنا ہوگا، کیونکہ اگر دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملتا رہا تو وہ مزید مہلک حملے کرسکتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس جیسا منظم حملہ ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہونا چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں، لیکن حالیہ حملے ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اسے مکمل طور پر بحال کرنا ہوگا۔ مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کو مزید سخت کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ دہشت گردوں کے مالی وسائل کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ ہر اس عنصر پر کڑی نظر رکھنی ہوگی جو دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث ہوسکتا ہے، چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی۔
افغان طالبان پر سخت دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں۔ امریکا، چین اور روس جیسے ممالک کو پاکستان کی مدد کےلیے تیار کیا جائے۔ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترکہ انسدادِ دہشت گردی حکمت عملی بنائی جائے۔

پاکستان کو ایک مؤثر سفارتی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ عالمی طاقتوں کو باور کرایا جاسکے کہ خطے میں استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کی سرگرمی کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے، اس لیے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں سفارتی دباؤ کا عنصر لازمی طور پر شامل کرنا ہوگا۔

دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی سے ختم کیا جائے۔ ڈرون ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹل سرویلنس کو بروئے کار لایا جائے۔ حساس علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تکنیکی مہارت اور ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے۔ دشمن اب صرف روایتی حملے نہیں کرتا بلکہ سائبر اسپیس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، اس لیے پاکستان کو اپنی سیکیورٹی پالیسی میں جدید حربوں کو اپنانا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام بنائے جاسکیں۔

تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ سیاسی اختلافات کو قومی سلامتی کے معاملات سے الگ رکھا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔ یہ وقت کسی بھی سیاسی انتشار یا مصلحت کا نہیں بلکہ یکجہتی اور قومی سوچ اپنانے کا ہے۔ جب تک سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف ایک مؤقف اختیار نہیں کرے گی، اس وقت تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کےلیے ریاست، عوام اور سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا تاکہ ملک دشمن عناصر کو شکست دی جاسکے۔

پاکستان نے ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے، لیکن حالیہ دہشت گرد حملے ہمارے سیکیورٹی نظام میں کمزوریوں کو اجاگر کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو دہشت گردی ایک بار پھر ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ ریاستی اداروں، سیاسی قیادت، اور عوام کو ایک صفحے پر آنا ہوگا تاکہ دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ پاکستان کو اب فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ہوں گے، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ اس جنگ میں ہر وہ شخص ذمے دار ہے جو ملک کے دفاع اور استحکام کےلیے کردار ادا کرسکتا ہے۔ دہشت گردی کے اس رِستے ہوئے ناسور کا علاج ہم نے آج ہی کرنا ہوگا۔ اگر آج ہم نے اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پایا تو کل ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جعفر ایکسپریس دہشت گردوں کے دہشت گردی کی یہ دہشت گردی قومی سلامتی سیاسی قیادت پاکستان کو پاکستان کے حالیہ دہشت کرنا ہوگا کیا جائے کو مزید کہ دہشت نئی لہر کو ایک دیا ہے اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

ریت کی طرح

اگرچہ آبادی کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان، پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے لیکن قدرتی دولت اور وسائل کے معاملے سے دیکھا جائے تو بلوچستان وطن عزیزکا سب سے زرخیز اور مالا مال صوبہ ہے۔ پھر یہاں گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور چین کے تعاون سے شروع ہونے والے عظیم منصوبے سی پیک کی وجہ سے مستقبل قریب میں بلوچستان ملک کی معاشی ترقی میں نہ صرف اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے پہلو بہ پہلو ان کی زندگیوں میں چھائے غربت، پسماندگی، بے بسی، مایوسی، بے چینی، جہالت اور افلاس کے اندھیروں کو دور کر کے ان کے گھروں میں خوشحالی اور مالی استحکام کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

ہمارے دشمن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان خطے کا اہم ترین ملک بن جائے گا، اس کی معیشت مستحکم ہوجائے گی جس سے اس کی سلامتی و استحکام ہوگا۔ اسی سبب وطن دشمن قوتوں نے پاکستان کے اس اہم ترین صوبے کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ بھارت نے اول دن سے ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اس کے وجود کو مٹانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور افغانستان جس نے پاکستان کے قیام کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا آج کل بھارت کا ہم پیالہ و ہم نوالہ بن کر اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پے درپے ہونے والے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود فتنہ الخوارج کے شرپسند عناصر سے ملتے ہیں جن کی نشان دہی حکومتی سطح پر بار بارکی جا چکی ہے افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی باور کرایا جا چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ گزشتہ ہفتے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں بھی دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے سرپرستوں سے مسلسل رابطے میں تھے جیساکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ مقام اطمینان کہ تمام 33 دہشت گردوں کو پاک فوج کے بہادر جواں ہمت اہلکاروں نے بڑی مہارت و احتیاط کے ساتھ نشانہ بنا کر ہلاک اور تین سو سے زائد مغویوں کو بازیاب کرا لیا۔

دہشت گرد عناصر چیک پوسٹوں، تھانوں، فوجی تنصیبات، بسوں اور ٹرکوں وغیرہ پر حملے کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ قبل ازیں دہشت گردوں نے ہوائی جہاز تک اغوا کیے لیکن ٹرین اغوا کرنے کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے ایک خفیہ جاسوس کل بھوشن یادیو کو بلوچستان ہی سے گرفتارکیا گیا تھا جس نے برملا پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

اس کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے اس ڈوزیئر پر غور و فکر کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھارت کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی جاتی کہ وہ عالمی قوانین کا احترام کرے لیکن افسوس کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں حق خود ارادیت کی قراردادیں نصف صدی سے زائد عمل درآمد کے انتظار میں ہیں اور کشمیری مائیں بہنیں، بیٹیاں، بچے، بوڑھے اور جوان ’’آزادی‘‘ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ان کی آواز دبانے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ بعینہ بلوچستان کو علیحدہ کرنے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا اس کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان ڈوزیئر بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرح بے اثر رہے گا جو المیہ ہے۔

ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ دہشت گردوں نے بڑی تیزی کے ساتھ بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی مذموم کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے فوری بعد دہشت گردوں نے پنجگور میں پولیس چوکی اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسزکے قافلے پر حملہ کیا، اسی طرح ایک زیر تعمیر ڈیم پر حملہ کرکے سات مزدوروں کو اغوا کرکے لے گئے، کے پی کے میں ٹانک میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے اسے ناکام بنا دیا اور دس خوارج کو جہنم واصل کر دیا۔

لکی مروت اور بنوں میں بھی دہشت گردوں نے چوکیوں پر حملے کیے جنھیں پولیس فورسز نے ناکام بنایا۔ پشاورکی ایک مسجد میں بم دھماکہ کرکے معروف عالم مفتی منیر شاکرکو شہید کر دیا۔ قبل ازیں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ میں جمعے کی نماز میں خود حملہ کرکے نامور عالم دین مولانا حامد الحق، جو مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے تھے کو شہید کردیا گیا تھا۔ بیرونی مداخلت کے باعث بلوچستان کے حالات تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں بنگال کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ افغانستان میں جدید امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان اور ہمارے شہریوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ انتہائی غور طلب اور فوری کارروائی کا متقاضی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ 2022 میں جب امریکا رسوا کن انداز میں افغانستان سے نکلا تھا تو اربوں ڈالرکا فوجی ساز و سامان افغانستان ہی میں چھوڑگیا۔

امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا تقریباً 7.2 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں رہ گیا ہے جس میں تین لاکھ اٹھاون ہزار پانچ سو تیس رائفلیں، 64 ہزار مشین گنیں، 25,327 گرینیڈ لانچر اور 22,174 مختلف سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ اسلحہ ہے جنھیں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت مختلف دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران خوارج سے جو اسلحہ برآمد کیا اس کی کڑیاں افغانستان کے بازاروں میں ملنے والے اسلحے سے ملتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں آج بھی امریکی اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے، بلوچوں کی آواز سنے، ان کے مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے لیے جامع، ٹھوس اور دور رس نتائج کے حامل جلد فیصلے کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مٹھی سے ریت کی طرح سرکتا بلوچستان کوئی گہرا گھاؤ لگا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • گنڈا پور دہشت گردی کیخلاف آپریشن کے مخالف کیوں ؟
  • پالیسی بدلی نہ پاکستانیوں کے اسرائیل جانے کا علم، دہشت گردی میں بھارت ملوث: پاکستان
  • ریت کی طرح
  • دہشت گردی محض پاکستان کا مسئلہ نہیں ، بھارت بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔خورشید قصوری
  • قومی سلامتی کمیٹی میں کسی نئے آپریشن کی بات نہیں ہوئی، طلال چوہدری
  • پاکستان میں لگی دہشتگردی کی آگ خطے کے دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہے، سپیکر قومی اسمبلی
  • دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج
  • ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر حال میں جیتنی ہے، آصف زرداری
  • دہشت گردی ناسور، شکست دینگے، وزیراعظم: گورننس کے خلا کب تک افواج، شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے، آرمی چیف