پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) خواتین سے متعلق حقوق کی سرگرم افغان کارکن زہرہ موسوی طالبان حکومت کے جبر کے خلاف مہینوں کی لڑائی اور اس کے خلاف احتجاج کے بعد مارچ 2022 میں افغانستان سے فرار ہو کر پڑوسی ملک پاکستان پہنچی تھیں۔
وہ اب روپوش ہیں اور پاکستانی پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے اور اپنے آبائی ملک جلاوطن کیے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
اگست 2021 میں جنگ زدہ ملک افغانستان میں اسلامی بنیاد پرست گروپ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد موسوی نے طالبان حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
انہوں نے عوامی اجتماعات اور مظاہروں میں حصہ لے کر خواتین کے حقوق کی وکالت کی اور افغان خواتین کی آواز کو باقی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی۔
(جاری ہے)
لیکن طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر وسیع پابندیاں عائد کرنے اور بتدریج خواتین کو عوامی زندگی سے دور کرنے کے بعد، موسوی بھی وہاں سے جانے پر مجبور ہوئیں۔
پاکستان پہنچ کر انہوں نے ملک میں رہنے کے لیے ضروری دستاویزات کو محفوظ بنانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔
پاکستان: حکومتی کریک ڈاؤن اور مصائب کا شکار افغان پناہ گزین
تاہم 29 سالہ خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "زیادہ اخراجات اور پاکستان کی سخت ویزا پالیسیوں کی وجہ سے میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک درست پاکستانی ویزا حاصل نہیں کر سکی۔
"وہ مزید کہتی ہیں، "اس کی وجہ سے 22 فروری کو پاکستانی پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ وہ سادہ کپڑوں میں میرے گھر میں داخل ہوئے، شدید تلاشی لی اور مجھے اور میری جوان بیٹی دونوں کو گرفتار کر کے، ہمیں جلاوطنی کے حراستی کیمپ میں لے جایا گیا۔"
"ہمیں وہاں دو دن اور ایک رات تک انتہائی سخت حالات میں رکھا گیا اور ہمیں ضمانتیں فراہم کرنے کے بعد اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے دباؤ کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔
" افغان خواتین کارکنوں کو اپنی جانوں کا خطرہپاکستان سے ملک بدری سے خوف زدہ موسوی کا بس یہی ایک معاملہ نہیں بلکہ بہت سی دیگر ایسی مہاجر خواتین کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے کئی دیگر افغان خواتین کارکنوں سے بات کی، جو چھپ کر رہ رہی ہیں کیونکہ اسلام آباد اب ایسے افغانوں کی ملک بدری کےعمل کو تیز کر رہا ہے۔
27 سالہ جمیلہ احمدی نے بتایا کہ ان کی کئی ساتھی افغان خواتین کو پہلے ہی افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے اور خبردار کیا کہ ان کے ساتھ ہی ان تمام خواتین کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
مغربی ممالک جانے کے منتظر افغانوں کو ملک بدر کر سکتے ہیں، پاکستان
احمدی نے کہا، "میری سرگرمیاں، خاص طور پر طالبان کے قبضے سے پہلے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے میری کوششیں، طالبان کے جرائم پر میری رپورٹنگ، اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) میں میری شمولیت، نے مجھے بڑے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
"ان کا کہنا ہے، "اگر مجھے طالبان کی حکومت میں واپس آنے پر مجبور کیا گیا تو واضح طور پر میرے لیے یہ ایک یقینی موت ہوگی۔"
خواتین کے حقوق کی بہت سی کارکنان نے اسی صورت میں پاکستان میں پناہ طلب کی تھی، جب طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں حالات ناگفتہ بہ ہو گئے۔
احمدی نے کہا، "فروری 2021 میں، مجھ پر حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک ٹانگ ٹوٹ گئی، لیکن میرا عزم متزلزل رہا۔
ایک بار پھر، ستمبر 2021 میں بھی طالبان نے ہمیں بڑی بے دردی سے مارا۔"طالبان کا جبر نہیں تو پاکستان میں افغان پناہ گزین پریشان کیوں؟
ملک بدری کی ایک بڑی مہمپاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کے سبب طالبان حکام سے ناراض ہے۔
جیسے جیسے سرحد کے دونوں جانب کشیدگی بڑھ رہی ہے، پاکستان میں افغانوں کی خیریت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔اسلام آباد اس وقت تقریباً 40 لاکھ افغانوں کی وطن واپسی کے لیے ایک بڑی مہم چلا رہا ہے جو گزشتہ چار دہائیوں کے دوران سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، پاکستان ستمبر 2023 سے گزشتہ سال کے آخر تک 800,000 سے زائد افغان مہاجرین کو پہلے ہی واپس بھیج چکا ہے۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی
قانونی ماہرین اور پناہ گزینوں کے حقوق کے کارکنوں نے پاکستانی حکومت کے ملک بدری کے ان منصوبوں پر تنقید کی ہے، خاص طور پر جب بات افغان خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو ملک بدر کرنے کی ہو۔
اسلام آباد میں پناہ گزینوں کے وکیل، اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کارکنوں کو افغانستان واپس بھیجنا، جہاں ان پر طالبان حکومت کے ہاتھوں تشدد کا بہت زیادہ امکان ہے، انہیں مزید خطرے میں ڈال دے گا۔
" ملک بدری کے بڑھتے ہوئے خدشاتاحمدی کا کہنا ہے کہ ملک بدری کی اس مہم سے ان کی صحت متاثر ہوئی ہے، "بدقسمتی سے، ایک ماہ کے زائد عرصے سے، پاکستانی پولیس نے پناہ گزینوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے، جس میں ویزا اور ویزے میں توسیع کے مسائل شامل ہیں۔ میرے ویزے کی معیاد 25 فروری 2025 کو ختم ہو گئی تھی۔ میرے ذاتی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل ویزا نہ ہونے اور اس میں توسیع نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔
"پاکستان:رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں ایک سال کی توسیع
انسانی حقوق گروپوں نے پاکستانی حکام پر افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے، تاہم اسلام آباد نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور زور دیا کہ یہ ملک بدری 2023 کی اسی مہم کا حصہ ہے، جسے "غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کا منصوبہ" کہا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ڈی پورٹ کیے جانے والے کارکنوں کے لیے کوئی مخصوص زمرہ نہیں ہے۔
افغان مہاجرین کی میزبانی کی ذمہ داری صرف پاکستان پر نہیں آنی چاہیے، کیونکہ دوسرے ممالک بھی انہیں جگہ دے سکتے ہیں۔"پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ ایجنسی کو ملک بدریوں پر تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا، "یو این ایچ سی آر خاص طور پر ان افغانوں کے لیے فکر مند ہے، جنہیں واپسی پر نقصان کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے نسلی اور مذہبی اقلیتیں، تنہا خواتین، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، اور فنکارانہ پیشوں کے اراکین جیسے موسیقار وغیرہ۔
"آفریدی نے کہا، "ان بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ادارے نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ خطرے میں پڑنے والے افغانوں کو تحفظ فراہم کرنا جاری رکھے، چاہے ان کی دستاویزات کی حیثیت کچھ بھی ہو۔"
بین الاقوامی مدد کا مطالبہکابل سے تعلق رکھنے والی ایک 34 سالہ کارکن ماریہ نوری، جنہیں ملک بدری کا سامنا ہے، نے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے پاکستان میں خوف کے عالم میں زندگی بسر کرنے والی افغان خواتین کارکنوں کی زندگیاں بچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "افغانستان واپس بھیجے جانے کا مطلب تشدد، قید یا موت کا سامنا کرنا ہوگا۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں، خاص طور پر خواتین کو ملک بدر کرنا ہماری زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے، اور ہماری حفاظت کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔"
اسامہ ملک نے مغربی حکومتوں کی بے عملی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مغربی ممالک میں سے کسی نے بھی فوری طور پر ان خواتین کارکنوں کو اپنے ممالک کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی۔
نوری نے وضاحت کی کہ قانونی حیثیت اور رہائشی دستاویزات کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ "اس کے علاوہ، ہمیں سخت معاشی حالات، بے روزگاری، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی کی کمی، اور انتہا پسندوں کی طرف سے سکیورٹی کے خطرات کا سامنا ہے۔"
ص ز/ ج ا (ہارون جنجوعہ)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان خواتین کارکنوں ان خواتین کارکنوں حقوق کے کارکنوں پاکستان میں پناہ گزینوں نے پاکستان اسلام آباد کارکنوں کو افغان پناہ طالبان کے میں افغان خواتین کو کی وجہ سے ملک بدری حکومت کے کا سامنا کے حقوق کرنے کی کے بعد کو ملک نے کہا کے لیے
پڑھیں:
یو این چیف کا سیاسی تغیر کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو منصفانہ، مشمولہ اور خوشحال مستقبل یقینی بنانے کی کوششوں میں ہرممکن میں مدد فراہم کرے جو سیاسی تبدیلی کے بعد ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔
بنگلہ دیش کے دورے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے مختلف میدانوں میں ملک کی پیش رفت کو سراہتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ اقوام متحدہ بنگلہ دیش اور اس کے لوگوں کا ثابت قدم شراکت دار ہے جو سبھی کے مستحکم اور مساوی مستقبل کی تعمیر کے لیے ان کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
Tweet URLانہوں نے ملک کے مشیر اعلیٰ (چیف ایڈوائزر) محمد یونس کی قیادت کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ بنگلہ دیش کے لوگ جمہوریت، انصاف اور خوشحالی کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ ملک میں امن، قومی مکالمے، اعتماد اور مفاہمت کو فروغ دینے میں ہرممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔بنگلہ دیش گزشتہ سال اگست میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے خلاف طلبہ کے احتجاج اور اس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہونے کےبعد سیاسی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ اس احتجاج میں بہت سے بچوں سمیت 300 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
امن کاری: بنگلہ دیش کے کردار کی ستائشسیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعاون اور بالخصوص امن کاری میں اس کے کردار کی سائش کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہزاروں سپاہی دنیا میں ہر جگہ خطرناک ماحول میں قیام امن کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کی لگن اور قربانیاں قابل تحسین ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے اس دورے میں مشیراعلیٰ کے علاوہ وزیر خارجہ محمد توحید حسین اور روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے پر اعلیٰ سطحی نمائندے خلیل الرحمان سے بھی ملاقاتیں کیں۔
علاوہ ازیں، وہ ملک میں نوجوانوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے بھی ملے اور ان سے ملک کے موجودہ حالات اور مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال لیا۔روہنگیا پناہ گزینوں سے یکجہتیسیکرٹری جنرل نے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ان پناہ گزینوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ روزہ رکھا اور افطار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان ہمدردی، خدا ترسی اور فیاضی کی اقدار یاد دلاتا ہے جو انسانیت کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ بنگلہ دیش ان اقدار کی تجسیم ہے جس کے لوگوں نے 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔
انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے بھاری سماجی، ماحولیاتی اور معاشی قیمت چکاتے ہوئے ان لوگوں کے حوالے سے یکجہتی اور انسانی وقار کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ امدادی وسائل میں آنے والی کمی کے باعث پناہ گزینوں کا بحران مزید بگڑ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو لوگوں کی تکالیف میں اضافے اور اموات کا خدشہ ہے۔