مفتی منیر شاکر ماضی اور حال کے آئینے میں
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مفتی منیر شاکر میں ایک سب سے نمایاں اور خاص خوبی یہ تھی کہ جب بھی کوئی دلیل سنتے تھے، تو اسے قبول کرنے اور اپنے سابقہ نظریات سے پھرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے، بلکہ اپنے سابقہ نظریات کی مخالفت منبر اور سوشل میڈیا پر کھلم کھلا کر ڈالتے۔ چند سال قبل مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ جب انکی ملاقاتین ہوئیں تو انہیں کافی نئی معلومات فراہم ہوئیں۔ نتیجتاً انکے نظریات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔ اسکے بعد کراچی کے پیر عتیق الرحمان گیلانی کیساتھ انکی ملاقات ہوگئی۔ گیلانی صاحب نے انہیں عدم تشدد پر قائل کیا۔ نقطہ نظر: استاد ایس این حسینی
مفتی محمد منیر شاکر 4 اپریل 1969ء لوئر کرم کے علاقے منڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خود بھی عالم اور ایک مسجد کے امام تھے۔ مفتی صاحب ابتداء سے سخت گیر دیوبندی نظریات کے حامل تھے۔ 1992ء تا 95ء سنٹرل کرم کے علاقے ڈوگر میں مسجد کی امامت کرتے تھے کہ اسی دوران وہاں پہلے سے متعین ایک صوفی منش مولوی سے پھڈا ہوگیا۔ اس کے ساتھ معاملات رفتہ رفتہ مسلح تصادم تک پہنچ گئے۔ جس کے نتیجے میں وہ مولوی اپنے مزید 15 دیگر ساتھیوں کے ہمراہ موت کے منہ میں چلا گیا، جبکہ جوابی کارروائی میں مفتی منیر شاکر خود تو بچ گئے، تاہم ان کے گروپ کے نصف درجن افراد لقمہ اجل بن گئے۔ حکومت کے دباو نیز جرگہ کے فیصلے کے نتیجے میں مفتی منیر شاکر 1996ء کے اوائل میں علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اسکے بعد مختصر عرصے کیلئے کراچی چلے گئے۔
2002ء میں کراچی سے پلٹ کر خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کی ایک مسجد میں امام مقرر ہوئے۔ باڑہ میں پہلے ہی سے ایک اور افغان نژاد مولوی پیر سیف الرحمان بھی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ صوفیانہ نظریات کے حامل اس پیر کے ساتھ مفتی منیر شاکر کا نظریاتی اختلاف ٹھیک 180 درجے کا تھا۔ چنانچہ مسجد و منبر سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول دیا۔ ایک دوسرے کے نظریات کے خلاف تبلیغ کرتے وقت ایک دوسرے پر نیز ایک دوسرے کے فالوورز پر کفر کے فتوے لگتے گئے۔ خلیج بڑھتی گئی، تین چار سال کے عرصے میں یہ سرد جنگ مسلح جہاد میں تبدیل ہوگئی۔ 2005-2006ء میں مفتی منیر کی نگرانی اور منگل باغ کی قیادت میں لشکر اسلام جبکہ پیر سیف الرحمان کی سرپرستی میں انصار الاسلام کے نام پر دو الگ الگ مسلح جہادی لشکر وجود میں آگئے۔ جن کے مسلح تصادم کے نتیجے میں گاؤں کے گاؤں خالی ہوگئے۔
لوگ قتل ہوگئے۔ بازار، مکانات اور دیہات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ انکے تصادم کو جواز بناکر حکومت نے پوری باڑہ تحصیل کا آپریشن کیا۔ جس کی وجہ سے پورا علاقہ خالی ہوکر پشاور، خیبر اور اورکزئی شفٹ ہوگیا۔ اہلیان باڑہ کے مطابق اس علاقے کی دو لاکھ آبادی بے گھر ہوگئی اور انکے گھر مکمل طور پر ملیامیٹ ہوگئے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں افغان نژاد پیر سیف الرحمان اور ساتھ کرم کے مفتی منیر شاکر علاقہ بدر ہوگئے۔ تقریبا 2007ء میں مفتی شاکر دوبارہ جلا وطن ہوکر کراچی چلے گئے۔ جہاں وہ کچھ عرصہ جیل میں رہے اور پھر نظربندی کی زندگی گزارتے رہے۔ 2011ء میں کے پی کے ضلع صوابی آکر معروف مدرسہ جامعہ پنج پیر میں خدمات انجام دینے لگے۔ یوں نظریہ دیوبندیت کو خیرباد کہتے ہوئے پنج پیری نظریات قبول کرکے دیوبندیت سے کچھ زیادہ سخت گیر نظریات کا پرچار شروع کریا۔
شیعوں کے حوالے سے تو ان کا نظریہ پہلے ہی متشددانہ تھا، جبکہ پنج پیر مدرسہ میں قیام کے دوران ان کے نظریات میں مزید تبدیلی یہ بھی آگئی کہ یزید پلید کی حمایت کھلم کھلا شروع کر دی اور اسے رحمت اللہ علیہ کہنا شروع کر دیا۔ چھ سات سال تک پنج پیر میں رہنے کے بعد پشاور کے نواحی علاقے ورمڑ شفٹ ہوگئے اور یہاں ایک مسجد کی امامت شروع کر دی۔ ورمڑ میں معاشرے کی اصلاح کے نام پر کام شروع کیا اور رائج الوقت روایات و رسوم کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی۔ اس دوران ان کا نشانہ خاص تعویذ گنڈوں کے عامل، نجومی، مدارس کے مولوی خصوصاً بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب مولوی حضرات، دکاندار اور سیاستدان وغیرہ رہے۔ جس سے انہیں ملک بھر میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مفتی صاحب کافی عرصہ سے صرف قرآن کے قائل جبکہ حدیث کے منکر نظر آرہے تھے۔ یعنی ایک طرح سے پرویزی نظریات کے حامل ہوگئے تھے، جنہیں اصطلاح میں اہل قرآن کہا جاتا ہے۔
متشدد نظریات میں تبدیلی کا آغاز:
مفتی منیر شاکر میں ایک سب سے نمایاں اور خاص خوبی یہ تھی کہ جب بھی کوئی دلیل سنتے تھے، تو اسے قبول کرنے اور اپنے سابقہ نظریات سے پھرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے، بلکہ اپنے سابقہ نظریات کی مخالفت منبر اور سوشل میڈیا پر کھلم کھلا کر ڈالتے۔ چند سال قبل مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ جب ان کی ملاقاتین ہوئیں۔تو انہیں کافی نئی معلومات فراہم ہوئیں۔ نتیجتاً ان کے نظریات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس کے بعد کراچی کے پیر عتیق الرحمان گیلانی کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ گیلانی صاحب نے انہیں عدم تشدد پر قائل کیا۔ پھر شیعوں یا کسی بھی جماعت کے خلاف کفر کے فتووں اور قتل کے فتووں کو خیرباد کہہ دیا۔ یوں مسلمان تو کیا غیر مسلم بلکہ حیوان کی حرمت کے بھی قائل ہوگئے۔ جس طرح کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اپنے بیانات میں حدیث کا انکار کرتے اور صرف قرآن کو قابل عمل جانتے تھے۔
اس ضمن میں وہ کہتے تھے کہ صحاح ستہ ماننے کی صورت میں تمہیں مذہب اہل سنت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ وہ یوں کہ تم جس عمل کو حرام سمجھتے ہو، اس کی حلت تمہاری کتابوں سے ثابت ہے اور جسے تم دین سمجھتے ہو، اس کے رد میں احادیث سے تمہاری ہی کتب بھری پڑی ہیں۔ تم کہتے ہو کہ صحابہ تمام کے تمام عادل ہیں جبکہ تمہاری کتابوں سے اس نظریئے کا ابطال ثابت ہے۔ لہذا تمہیں دو (کتب احادیث اور مذہب اہل سنت) میں سے ایک کو چھوڑنا پڑے گا۔ 2020ء کے بعد ذہن میں قوم پرست نظریات سرایت کرگئے تو منظور پشتین کی پختون تحفظ موومنٹ میں شمولیت اختیار ک لی۔ اس کے بعد نظریات مکمل چینج ہوگئے۔ کسی مسلمان کو تو چھوڑو کسی کافر کے قتل کو بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پختونوں کے قتل پر بہت رنجیدہ رہتے تھے۔
حکومت کے کٹر مخالف تھے۔ پختون علاقوں میں قتل و غارت کیلئے ریاست کو مورد الزام اور ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ پختونوں کے تحفظ اور ان کے اتحاد کی بات ہر خطاب اور تقریر میں کیا کرتے تھے۔ شعلہ بیانی اور موثر فن خطابت کی وجہ سے حکومت انہیں اپنا خطرناک ترین مدمقابل سمجھتی تھی۔ مفتی منیر کے بقول سرکار نے ان کے محافظ واپس لے لئے اور ان کا لائسنس یافتہ اسلحہ بھی چھین لیا۔ جس پر انہوں نے کافی شور بھی مچایا۔ اسی رمضان میں مفتی منیر شاکر نے حکومت کے اس سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے قتل کی پیشیں گوئی بھی کر ڈالی۔
سانحہ قتل:
15 مارچ 2025ء کو نماز عصر کے وقت مسجد جاتے ہوئے انہیں پلانٹیڈ بم کا نشانہ بنایا گیا۔ جس میں وہ زخمی تو ہوگئے، تاہم ان کے جسم کا اوپر والا حصہ محفوظ رہا۔ ان کے ساتھ پانچ دیگر افراد بھی زخمی ہوئے۔ انہیں زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا، تاہم وہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ مبینہ طور پر ان کی حالت اتنی سیریس نہیں تھی۔ چنانچہ ہسپتال میں دم توڑنے کو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہر صورت جیسا بھی ہو، مفتی منیر شاکر کا سانحہ جملہ پختونوں، خصوصاً قوم پرستوں، بالاخص پی ٹی ایم اور منظور پشتین کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے اور تمام قوم پرستوں کیلئے کھلا چیلنج بھی ہے۔ پختون حقوق کیلئے دوبارہ شاید ہی کوئی قیام کرسکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے سابقہ نظریات مفتی منیر شاکر میں مفتی منیر کے نتیجے میں نظریات میں نظریات کے ایک دوسرے کے نظریات ایک مسجد پنج پیر کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
پشاور دھماکے میں مفتی شاکر کے جاں بحق ہونے پر فضل الرحمان حکومت پر برس پڑے
اسلام آباد:جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے معروف عالم دین مفتی منیر شاکر کے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ممتاز عالم دین مفتی منیر شاکر کی شہادت پر مذمت کی اور اپنے بیان میں کہا کہ رمضان المبارک میں روزانہ مساجد میں دھماکے اور علماء کی ٹارگٹ حکومت کہاں ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ علماء کا پے درپے قتل افسوسناک اور مذہبی طبقے کے خلاف گہری سازش ہے، مفتی منیر شاکر سمیت دیگر علماء کے قاتلوں کی گرفتاری پرکوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر مساجد مدارس محفوظ نہیں تو عام مقامات کیسے محفوظ ہونگے۔ انہوں نے لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ کریم مفتی منیر شاکر کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔