اسپیس ایکس خلائی جہاز کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سےڈاکنگ کامیاب
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسپیس ایکس خلائی جہاز کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سےڈاکنگ کامیاب WhatsAppFacebookTwitter 0 16 March, 2025 سب نیوز
واشنگٹن:
امریکی اسپیس ایکسپلوریشن ٹیکنالوجی کارپوریشن (اسپیس ایکس) کا “ڈریگن” خلائی جہاز کامیابی کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے اتوار کے روزڈاکنگ ہو گئ۔
امر یکی میڈ یا نے بتایا کہ اسپیس ایکس کے خلائی جہاز کے اس مشن میں چار خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچانا اورخلا میں پھنسے ہوئے خلابازبچ ولمور اور سنی ولیمز کو واپس زمین پر لانا ہے۔
اسپیس ایکس خلائی جہاز کو 14 مارچ کو امریکی ریاست ٹیکساس سے لانچ کیا گیا اورمشرقی امریکہ کے وقت کے مطابق 16 مارچ کی صبح صفر بجکر پانچ منٹ پر کامیابی کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ڈاک کیا گیا ۔
یاد رہے کہ 5 جون ، 2024 کو ، ولمور اور ولیمز نے بوئنگ اسٹار لائنر پر اپنی پہلی انسان بردار آزمائشی پرواز کے لئے اڑان بھری تھی۔ دونوں کو در اصل اسی ماہ کی 14 تاریخ کو زمین پر واپس آنا تھا، لیکن تھرسٹر کی ناکامی، ہیلیئم لیک اور دیگر مسائل کی وجہ سے، ان کی واپسی کا وقت بار بار ملتوی کیا گیا، اور “خلائی سفر” آٹھ دن سے بڑھ کر نو ماہ سے بھی زیادہ ہو گیا
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن خلائی جہاز اسپیس ایکس
پڑھیں:
پاکستان: ایکس پر پابندی لیکن حکومتی عہدیداروں کو استثنیٰ؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عائد کی گئی حکومتی پابندی کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب لاہور ہائیکورٹ نے ان تمام سرکاری شخصیات اور اداروں کی تفصیلات طلب کر لیں، جو بدستور ایکس استعمال کر رہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے ایکس کی بندش کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی وزرات داخلہ سے رپورٹ طلب کر تے ہوئے کہا کہ بتایا جائے پابندی کے باجود کون سی سرکاری شخصیات اور ادارے ایکس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے گزشتہ سال فروری میں انتخابات کے نزدیک یہ کہہ کر ماضی میں ٹوئٹر اور اب ایکس کہلائے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ منفی خبریں پھیلانے اور پراپیگنڈا کرنے کا ایک ہتھیار بنا چکا ہے اور شر پسند عناصر اس کے ذریعے ملک میں انتشار اور فساد پھیلا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت نے عوام کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور عام شہریوں کو اس تک رسائی کے لیے وی پی این کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور اب حکومت وی پی این پر بھی پابندی عائد کرنے کی کوششوں میں ہے لیکن دوسری طرف، تمام سرکاری مشینری کھلے عام اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے عوام سے رابطے میں نظر آتی ہے۔
حتیٰ کہ وزیر اعظم، تمام وزراء اور بیوروکریسی بھی مسلسل ایکس استعمال کر رہی ہے۔ کئی پولیس افسران بھی اپنی سوشل پروفائلز کے ذریعے اس پلیٹ فارم پر اپنی سرگرمیوں کے بارے میں پوسٹیں کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر کسی ادارے یا پلیٹ فارم پر پاکستان میں پابندی عائد کی جاتی ہے، تو اس کے استعمال کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا پابندی کے شکار کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر صارف کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے یا کوئی ایسا قانون موجود ہے جو صارفین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دیتا ہو؟
اس بارے میں قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو کسی شخص کو ایکس یا کسی اور سوشل پلیٹ فارم کے محض استعمال پر مجرم قرار دے سکے۔
تاہم، اگر کوئی شخص جعلی خبریں پھیلانے، بے بنیاد منفی پراپیگنڈہ کرنے یا قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے میں ملوث پایا جائے تو اسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔معروف وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ایکس جیسے پابندی کے شکار کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کس قانون کے تحت اس پلیٹ فارم پر پابندی عائد کی گئی؟ لیکن اگر ہم صرف پابندی کے پہلو پر بات کریں، تو حکومت کسی کو اسے استعمال کرنے سے روک نہیں سکتی اور نہ ہی کسی کو مجرم قرار دے سکتی ہے۔‘‘وکلاء کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر حکومتی پابندی کے نتیجے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر کسی شخص کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے، تو خود سرکاری افسران اور ادارے بھی اس انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
تاہم، وہ اسے ایک اخلاقی سوال قرار دیتے ہیں، جو حکومت پر اٹھایا جانا چاہیے کہ وہ خود اسی پلیٹ فارم کو کیوں استعمال کر رہی ہے، جسے عوام کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے؟لاہور سے تعلق رکھنے والی معروف وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن رابعہ باجوہ نے کہا، ''ایکس کے استعمال کو جرم قرار دینے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں، لیکن یہ ایک اخلاقی سوال ضرور ہے کہ پوری حکومتی مشینری اور بیوروکریسی وہی پلیٹ فارم استعمال کر رہی ہے جسے انہوں نے عوام کے لیے بند کر رکھا ہے۔
بار بار کہا جاتا ہے کہ یہ پلیٹ فارم منفی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، تو پھر حکومت اور اس کے عہدیدار اسے کس مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘اس سوال کا جواب شاید لاہور ہائی کورٹ کی آئندہ یعنی بیس مارچ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر مل سکے، جب حکومتی اداروں کی جانب سے ایکس کی بندش کے باوجود سرکاری شخصیات کی جانب سے اس کا استعمال جاری رکھے جانے سے متعلق ممکنہ طور پر جوابات عدالت میں داخل کرائیں گے۔