رمضان کی برکتیں اور عید کی مسرتیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
دماغ کی بند کھڑکیوں کے تالے کھولتے، سوچ کے کمروں میں پڑی ڈائریوں کے اوراق کھولتے ہی ان گنت یادوں کی پھول مہکنے لگتے ہیں، جن میں بزرگوں کی باتیں، ماں باپ کا ڈسپلن، سرزنش، نصیحتیں اور ان کے زندگی کے تجربات و واقعات۔
جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ میرے والد سخت طبیعت کے مالک اور والدہ نرم مزاج کی حامل ہیں۔ ایسے میں ہم جب بھی بچپن میں رمضان کے روزے رکھنے کے لیے سحری کے وقت اُٹھتے تو ہماری والدہ دیسی گھی کے پراٹھے بنانے پر ہمیں آواز دیتیں کہ ’’ سب جلدی سے اُٹھ جائیں سحری کا وقت ختم ہونے میں چند منٹ باقی رہ گئے ہیں‘‘ ہم جلدی سے بستر چھوڑ کر روزہ رکھنے کی تیاری کے لیے بھاگ اُٹھتے ۔
جیسے ہی جلدی جلدی سحری کرتے تو والدہ فرماتی کہ ’’ بیٹا ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے آرام سے کھانا کھاؤ۔‘‘ تقریبا چار سال کی عمر میں ہم ’’چڑی‘‘ روزہ رکھا کرتے تھے جو کچھ ہی دیر بعد افطار بھی ہو جاتا۔
بہرحال میں نے بچپن میں مکمل روزہ سات سال کی عمر میں رکھا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کبھی دس روزے، تو کبھی بیس رکھ لیے۔ آخر کار میں نے اپنی زندگی میں رمضان کے پورے روزے سولہ سال کی عمر میں رکھنا شروع کیے جس کا سلسلہ زندگی کے ساتھ ساتھ اب تک جاری ہے۔
روزہ رکھنے سے قبل نمازِ تروایح کے لیے ہم بچپن میں کبھی آٹھ رکعت پڑھ کر گھر بھاگ آتے تو کبھی بارہ، اسی طرح جب رمضان کے پورے روزے رکھنے کی عادت اپنائی تو تراویح میں بیس رکعت پوری ادا کرتے اور مکمل قرآن سنتے۔ نامور شاعر سرفراز شاہد کا ایک شعر شدت سے یاد آ رہا ہے کہ:
شاہدؔ سے کہہ رہے ہو کہ روزے رکھا کرے
ہر ماہ جس کا گزرا ہے رمضان کی طرح
ٍرمضان المبارک کے مہینے میں سحری کے وقت بہت سے لوگ جدید سہولیات کی وجہ سے موبائل کے الارم سے جا گ جاتے ہیں، کبھی ایسے سنہرے دور بھی ہُوا کرتے تھے جب ہم ’’اماں‘‘ کی ڈانٹ پڑنے سے، کبھی مساجد کے لوڈ اسپیکر سے گونجنے والی آوازوں سے، کبھی گلی میں ڈھول بجانے والے کی تھاپ سے، کبھی بڑی بہن کی نٹ کھٹ سی شرارتوں سے سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوتے۔
اُن دنوں ہم گھر والے سحری کے وقت اپنے عزیزوں اقارب کے گھروں پر دستک دیتے ہوئے اُن کو روزہ رکھنے کے لیے اُٹھاتے یا اُن کو فون پر اطلاع دیتے کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں اتنا وقت رہ گیا ہے۔ اب بھی وقت اور شکلیں وہیں ہے بدلا تو صرف انسان اور اُس کی سوچ۔ وگرنہ آج بھی وہیں راستے، وہیں گلیاں، وہیں ڈھول بجانے والے، وہیں مساجد میں گونجنے والی صدائیں اور سحر و افطار کا وقت بتانے والے موجود ہیں۔
نہیں ہے تو وہ خون کے رشتوں میں احساس کی خوشبو اور سچی وفاؤں کا خلوص شامل جو کبھی پہلا ہُوا کرتا تھا۔ پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کو ایک ساتھ سحرو افطارکرنے کی ضیافت دیا کرتے تھے، مگر اب نفسا نفسی کے دور میں انسانی رویوں میں اس قدر تبدیلی آ چکی ہے کہ ایک ساتھ بیٹھنا تو دورکی بات ایک دوسرے کو ایک نظر پیار سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے بشیر بدرکا خیال کافی ہے:
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں
آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت
رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، رمضان کے پہلے پندرہ دن نمازِ عصر ادا کرتے ہی گھر پر افطاری کا اہتمام کرنا اس دوران گھر کے دسترخوان پھلوں،کھانوں اور سموسے، پکوڑیوں سے سجا ہُوا ہوتا ہے۔
اس دوران فروٹ زیادہ اورکھانا کم کھایا جاتا ہے، پیاس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لیمو پانی یا شربت تیارکیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت اور دوسروں کی خدمت میں وقت گزارا جائیں۔ اس لیے رمضان میں ایک قرآن پاک نمازِ تراویح میں سننے اور قرآن جتنا آسانی سے پڑھ سکے۔
اسی طرح رمضان میں بچوں کی روزہ کشائی کے حوالے سے بہت سی مساجد اور مدارس میں تقریبات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں بچوں کو روزہ رکھنے، نماز پڑھنے، صدقہ و زکوٰۃ، روزہ افطارکرنے جیسے موضوعات پر خاص درس دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بات کریں تو رمضان کے دوران بہت سی اچھی بچوں اور بڑوں کی تصاویر اور وڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ رمضان کا احترام نہ کرتے ہوئے بھی بُرائی کا راستہ اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول شاعر:
بُرائی چھپانے سے چھپ نہ سکے گی
خدا بھی تو دیکھو تمہیں دیکھتا ہے
رمضان میں زکوٰۃ اکٹھی کرنے کے لیے فلاحی ادارے خوب سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ادارے مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو کچھ اپنا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ زکوٰۃ دیتے وقت گلی محلوں میں کچھ لوگ سارا سارا دن مردوں، عورتوں کے ہجوم کا میلہ لگا رکھتے ہیں اور افطار کا وقت ہوتے ہی گنتی کے چند افراد میں پیسے یا راشن تقسیم کرنے پر کچھ لوگوں کو غلیظ زبان کا سہارا لینے پرگالیوں کی برسات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کل صبح پھر آنا۔ اسی آس اور اُمید پر نمائشی زکوٰۃ کے چکر میں بہت سی غریب اپنی ماں ، بہن، بیٹیوں کی آبروگنوا بیٹھتے ہیں۔
میرے خیال میں اللہ کے راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے کسی بھی غریب عزیزوں اقارب کی محرومیوں کا تمسخر نہ اُڑایا جائیں، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کے حبیب حضرت محمدؐ کے فرمان کے مطابق ایک ہاتھ سے کسی کو دو اور دوسرے ہاتھ کسی کو خبر تک نہ ہو۔
رمضان سے دس دن قبل کچھ لوگ عید کی تیاریاں مکمل کر لیتے ہیں تاکہ روزے رکھنے کے دوران بازاروں کے چکر نہ لگانا پڑے۔ کچھ لوگ آدھا رمضان گزر جانے کے بعد بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔
عید الفطر پر ہم ہر سال اپنا قومی لباس ’’شلوار قمیض‘‘ بڑے شوق کے ساتھ سلواتے ہیں، تاکہ پہلے دن اسے پہن کر عید کی نماز ادا کی جائے، دوسرے اور تیسرے دن کے لیے بازار سے پینٹ شرٹ اور جوتوں کی خریداری کرتے ہیں جب کہ گھر کی خواتین کی زیادہ تر ڈیمانڈز آن لائن کپڑے منگوانا، جیولری ، مہندی پہلی ترجیحات ہوتی ہے۔
رمضان میں کپڑے سلائی کرنے والے ڈیلر کے دن بھی اچھے آئے ہوتے ہیں ہر شخص ٹیلر ماسٹرکو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے ہمیں وقت پر سوٹ سلائی ہُوا مل جائیں۔ ایسے میں ٹیلر ماسٹر بھی ضرورت سے زیادہ کا معاوضہ چارج کرتے ہیں وگرنہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ میرے پسندیدہ شاعر ناصر کاظمی کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ کچھ اس طرح سے یاد آ رہا ہے کہ:
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
رمضان میں سوشل میڈیا کو پہلے کی طرح مرد حضرات کم وقت دیتے ہیں جب کہ خواتین گیارہ مہینوں کی طرح ہی وقت دیتی ہیں تاکہ ڈرامے کی نئی قسط نہ نکل جائیں۔ اس حوالے سے کبھی پھر تفصیل سے بات ہوگی۔
عیدالفطر کے موقع پر ہر شخص کی ملک و ملت کی سلامتی کے لیے دُعا ہوتی ہے کہ آنے والا ہمارا ہر دن اچھا اور یاد گار ثابت ہو۔ نمازِ عید ہم گھر کے قریب مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں قریبی رشتے دار اور محلے دار ایک ساتھ محبت کی خوشبو بانٹتے اور دلوں سے کدورتوں کو مٹاتے نظر آتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کبھی ہمارے دور میں رشتے داروں اور دوستوں کو عید کارڈ بھیجنے کی روایت عام تھی جو جدید وقت کے ساتھ مستقل ختم ہو کر رہ گئی۔ اُس زمانے میں ہم عید کارڈ میں کسی کو پھول، محبت بھری باتیں بھیجا کرتے تھے۔ اب عید کارڈ کے بجائے ہم عید نماز پڑھ کر خاص خاص لوگوں کو واٹس اپ پر عید مبارک کہہ کر گزارا کر لیتے ہیں۔ قمر بدایونی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
سمندر پار بچوں اور عزیزوں کی بات کریں تو عید پر اُن کو وڈیو کال پر عید مبارک کہنے اور سننے سے آنکھیں اشکِ تر ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اُن کی موجودہ شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ آخر میں مسافروں، عام شہریوں، غریبوں کے لیے سحری و افطار کا جو اہتمام کیا جاتا ہے وہ کچھ جگہوں پر سراہنے کے قابل بھی ہے کچھ جگہوں پر نہیں بھی۔
کیوں کچھ لوگ دکھاؤے کے لیے بانٹتے ہیں تو کچھ لوگ اللہ کی رضا کے لیے۔ آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ رمضان کے مہینے میں جس طرح عبادت کو اپنا معمول بناتے ہیں، باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ کے گھروں کو آباد رکھا کریں، دوسروں کو کھانا کھلاتے رہیں اور غریبوں ، بے سہاروں، عزیز رشتوں داروں کا خلوصِ نیت سے ساتھ دیتے رہیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ ہمارے رمضان کے روزے، عبادتیں، خدمتیں، دُعائیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سحری کے وقت روزہ رکھنے کرتے ہیں دیتے ہیں رمضان کے کرتے تھے ایسے میں کچھ لوگ جاتا ہے کرتے ہی بھی ہے عید کا کی بات کے لیے کا وقت
پڑھیں:
بدلتی اقدار: پہلے اور اب نشر ہونے والی رمضان ٹرانسمیشن میں کیا فرق ہے؟
رمضان المبارک برکتوں، دعاؤں اور سلامتی کا مہینہ ہے۔ تمام مسلم ممالک ماہ مقدس شروع ہوتے ہی ایک منفرد رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور ہر جگہ مخصوص روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’کیا یہ واقعی رمضان ٹرانسمیشن ہے؟‘، جاوید شیخ کی عمران ہاشمی سے متعلق گفتگو پر شدید تنقید
مسلم ممالک میں بھی برکتوں کے مہینے کے آغاز کے بعد ٹیلی ویژن پروگراموں میں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی رجحان پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں تمام ٹیلی ویژن چینلز اپنا لب و لہجہ بدل لیتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چیزیں بہت بدل گئی ہیں اور رمضان کے رنگ پہلے جیسے نہیں رہے۔
چند دہائیاں قبل پی ٹی وی پاکستانیوں کا واحد چینل ہوا کرتا تھا اور پی ٹی وی کے سنہری دور میں رمضان بہت مختلف احساس رکھتا تھا۔ لوگ نئے چاند کی خبر پی ٹی وی کے ذریعے حاصل کرتے تھے۔ چینل سے کسی بھی موسیقی کو فوری طور پر حذف کردیا جاتا تھا۔ پریزنٹر سب ہی دوپٹہ پہنتی تھیں اور اچانک خصوصی پروگرام شروع ہو جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے تراویح اور تلاوت اور ملک بھر سے رمضان محافل نشر کی جاتی تھیں۔
رمضان کے موجودہ دور میں بھی مختلف قسم کے پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن بد قسمتی سے تجارت اور سرمایہ داری نے مقدس مہینے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب یہ سب برانڈز کو فروغ دینے کے بارے میں ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ برسوں میں رمضان ٹرانسمیشن کس طرح تبدیل ہوئی ہے۔
رمضان ٹرانسمیشن اب تمام چینلوں کے لیے ایک اہم حصہ بن گئی ہے اور وہ ٹی آر پی کے لیے بھی لڑتے ہیں۔
ان شوز کی میزبانی پر بھی کافی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے اداکار ان ٹرانسمیشنز کی میزبانی کرتے وقت بڑی حد تک احترام کرتے ہیں۔ جیسے کہ اقرار الحسن جیسے میزبان جو سال بھر اپنی ذاتی زندگی کے انتخاب کی وجہ سے نشانہ بنتے رہتے ہیں اور وینا ملک جیسی مشہور شخصیت جنہوں نے رمضان کے لیے استغفار جیسا شو کیا ہے۔ بدقسمتی سے گیمیکری پیکیج کا ایک حصہ بن گیا ہے اور آپ اس سے بچ نہیں سکتے۔
عجیب و غریب مناظرحال ہی میں رمضان ٹرانسمیشن میں عجیب و غریب گفتگو کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ براہ راست ٹیلی ویژن پر ایسے پروگراموں میں چل رہی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مذہبی ہیں۔ وہ مکمل طور پر غیر ضروری ہیں اور براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر نہیں کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیے: فیصل قریشی سوشل میڈیا اسٹارز کی حمایت میں بول پڑے
رمضان المبارک تمام چینلز کے لیے کمرشلائزیشن کا موقع بن چکا ہے۔ میزبانوں کے پہنے ہوئے کپڑے اور ان کے ہاتھ دھونے سے لے کر کھانا پکاتے وقت جو تیل ڈال رہے ہوتے ہیں سب کچھ اسپانسر کیا جاتا ہے اور ان تمام اسپانسرز کو اسکرین پر 100 بار دکھایا جاتا ہے چاہے وہ نعت کا سیگمنٹ ہو یا علما کا سیگمنٹ۔
تفریح کسی کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور دیکھنے کے لیے اچھے خاندانی شو ہونا ضروری ہیں۔ ہمیں ’سونو چندا‘‘ ملا جو میگا ہٹ بن گیا کیونکہ ڈرامے میں رمضان کا پس منظر ہوتا اور ہلکی پھلکی تفرح اور مذاق بھی۔ اس کے بعد ہمارے پاس کچھ بہت اچھے رمضان ڈرامے بھی تھے لیکن اب یہ برین پھکڑ کامیڈی اور غیر ضروری لو اسٹوریز پر مبنی ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: رمضان المبارک میں ایمن خان کی فیملی کے ہمراہ مصروفیات، تصاویر وائرل
جیتو پاکستان جیسے گیم شوز رمضان المبارک کے دوران تفریح کا مرکز بن گئے ہیں جبکہ ماضی میں بزم طارق عزیز جیسے شوز زیادہ مقبول تھے۔ اس تبدیلی نے ناظرین میں ملے جلے جذبات کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ آیا ان گیم شوز کو نشر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
اسپانسرز اور چینلز کی جانب سے کمرشلائزیشن کے بڑھتی ڈیمانڈ نے پرامن جذبے کو نقصان پہنچایا ہے جو کبھی رمضان پروگرامنگ کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ اگر چینلز ناظرین کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بار بار ایک ہی فارمولے پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے نقطہ نظر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹی وی نشریات رمضان نشریات رمضان نشریات میں تبدیلی