امریکی اسرائیلی یرغمالی کو رہا کرنے پر تیار ہیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نےکہا ہے کہ وہ ایک اسرائیلی امریکی یرغمالی کی رہائی اور دوہری شہریت کے حامل چار دیگر مگر ہلاک شدہ یرغمالیوں کی جسمانی باقیات واپس کرنےکے لیے تیار ہے۔ حماس نے آج بروز جمعہ ایک بیان میں کہا، ''کل، حماس کی زیر قیادت وفد کو برادر ثالثوں کی طرف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز موصول ہوئی۔
‘‘ اس کے جواب میں ''اسرائیلی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کر دیا جائے گا، جس کے پاس امریکی شہریت ہے، جبکہ دوہری شہریت رکھنے والے چار ہلاک شدہ دیگر افراد کی جسمانی باقیات بھی واپس کر دی جائیں گی۔‘‘حماس کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب اس عسکریت پسند فلسطینی گروہ اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے قطری دارالحکومت دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے)
الشفا ہسپتال سے 48 لاشیں بر آمدغزہ میں حماس کے زیر انتظام شہری دفاع کی ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ اس کے عملے نے الشفا ہسپتال کے صحن سے 48 لاشیں نکالی ہیں۔ الشفا ہسپتال کبھی غزہ پٹی کا سب سے بڑا طبی ادارہ تھا لیکن جنگ کے دوران متعدد اسرائیلی حملوں کے بعد اب یہ ہسپتال زیادہ تر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ کی شہری دفاع کی ایجنسی ماضی میں بھی اسی جگہ سے مدفون لاشیں برآمد کر چکی ہے۔
اس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی کارکنوں نے 38 لاشوں کی شناخت کے بعد انہیں مرنے والوں کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا، جو انہیں دوسرے قبرستانوں میں دفن کرنے کے لیے لے گئے۔ انہوں نے کہا، ''باقی نکالی گئی 10 لاشوں کو شناخت کے لیے غزہ کی وزارت صحت کے فرانزک ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔
‘‘باسل نے مزید کہا کہ الشفا ہسپتال کے احاطے میں تقریباً 160 لاشیں دفن ہیں اور یہ کہ ان کے نکالنے کا عمل کئی دنوں تک جاری رہے گا۔
اے ایف پی کی فوٹیج میں کارکنوں کو صحن کے کچھ حصوں میں کھدائی کرتے اور مبینہ طور پر انسانی باقیات پر مشتمل سفید تھیلے کو ہٹاتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جنہیں پھر کمبل میں لپیٹ کر لے جایا گیا تھا۔
اپنے بھائی کی لاش شناخت کرنے والے غزہ کے رہائشی محمد ابو عاصی نے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ ایک بار پھر جنگ کا تجربہ کرنے جیسا ہے۔ میرے بھائی کی لاش کو برآمد کرنا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم اسے دفن کر رہے ہیں، درد اور زخم دوبارہ کھل گئے ہیں۔‘‘غزہ پٹی کی ایک اور رہائشی، سوہا الشریف، اپنے بیٹے کی لاش ملنے کی امید میں اس مقام پر آئیں۔
ان کا کہنا تھا، ''میں جانتی ہوں کہ میرے بیٹے نے کیا پہنا ہوا تھا۔ اسی لیے میں آئی ہوں۔ انشاء اللہ، میں اسے ڈھونڈ لوں گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''میں اسے ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔ میں ایک ماں ہوں، میں تھک چکی ہوں اور نہیں جانتی کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔‘‘حماس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے اپنی جوابی کارروائی میں غزہ کے ہسپتالوں، خاص طور پر الشفاء کو بار بار نشانہ بنایا۔
اسرائیل نے حماس پر طبی سہولیات کو اپنے کمانڈ سینٹرز کے طور پر استعمال کرنے اور اس گروپ کے اسرائیل میں حملے کے دوران پکڑے گئے افراد کو یرغمال بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں یا اس کے آس پاس کے ہسپتالوں میں سینکڑوں لاشوں پر مشتمل اجتماعی قبروں کی اطلاعات ملنے کے بعد ''گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا تھا۔اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، جن میں سے تقریباﹰ 58 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 34 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اس فلسطینی علاقے میں اسرائیلی جنگی حملوں اور عسکری کارروائیوں میں کم از کم 48,524 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد سمجھتا جاتا ہے۔
ش ر⁄ م م، ع ا (اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اے ایف پی حماس کے حملے کے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی ’جنسی بدسلوکی‘ کا شکار فلسطینی، جنیوا میں بیانات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے بدھ 12 مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق رواں ہفتے کے دوران ایسے فلسطینی متاثرین نے، جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں اسرائیلی حراست کے دوران اور اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے بری طرح پیٹا گیا اور جنسی بدسلوکی بھی کی گئی، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اپنے حلفی بیانات میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیلات ریکارڈ کرائیں۔
الشفاء ہسپتال کے کارکن کا بیانان میں سے اس وقت 28 سال کی عمر کے ایک فلسطینی اور پیشے کے اعتبار سے نرس کا کام کرنے والے سعید عبدالفتاح نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ غزہ سٹی کے الشفاء ہسپتال میں کام کرتا تھا اور اسے اسی ہسپتال کے قریب سے نومبر 2023ء میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
عبدالفتاح نے اپنے بیان میں کہا، ''میری تذلیل کی گئی اور مجھ پر تشدد بھی کیا گیا۔
‘‘اسرائیل کا غزہ کو اشیائے صرف کی ترسیل کی معطلی کا اعلان
ان فلسطینیوں کی طرف سے بیانات ریکارڈ کرائے جانے سے پہلے ہی جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے اسرائیل کے مستقل مندوب ڈینیل میرون نے اس سماعت کو محض ''وقت کا ضیاع‘‘ قرار دے کر اور یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اسرائیل باقاعدہ چھان بین کر چکا ہے اور اگر اسرائیلی فورسز پر کسی غلط برتاؤ کے الزامات لگائے بھی گئے تھے، تو ان پر بھی کارروائی ہو چکی ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سعید عبدالفتاح نے جنیوا میں سماعت کے دوران اپنا بیان حلفی غزہ پٹی سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ایک پبلک سماعت کے دوران اور ایک مترجم کی مدد سے ریکارڈ کرایا۔
تشدد اور مبینہ بدسلوکی کس نوعیت کی؟اس فلسطینی نے بتایا کہ دو ماہ سے بھی زیادہ عرصے کی حراست میں، جس دوران اسے کئی بار ایک سے دوسرے لیکن بہت بھرے ہوئے حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا، اسے سردی میں ننگا رکھا گیا، بری طرح پیٹا گیا اور ریپ اور دیگر اقسام کی بدسلوکی کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
غزہ سیزفائر کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کو، مزید مذاکرات بےنتیجہ
سعید عبدالفتاح نے بتایا کہ جنوری 2024ء میں انہیں ایک ایسے خوفناک تفتیشی عمل کا سامنا رہا، جس دوران ''میں بالکل ایک پنچنگ بیگ جیسا تھا۔‘‘ اس فلسطینی طبی کارکن نے کھلی سماعت کے دوران بتایا، ''تفتیش کار بار بار مجھے میرے نازک جنسی اعضاء پر ضربیں لگاتا رہا تھا۔
میرا ہر جگہ سے خون بہہ رہا تھا۔ میرے عضو تناسل سے بھی خون بہہ رہا تھا اور میری مقعد سے بھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میری روح میرا جسم چھوڑ چکی ہو۔‘‘ اقوام متحدہ کا آزاد انکوائری کمیشنسعید عبدالفتاح نے منگل کے روز جنیوا میں اپنا بیان مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورت حال سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک آزاد کمیشن آف انکوائری (سی او آئی) کے سامنے ریکارڈ کرایا۔
یہ اور دیگر متاثرہ فلسطینیوں کے بیانات اس یو این کمیشن کی طرف سے اسی موضوع پر کھلے عوامی سماعتی عمل کی تازہ ترین کڑی تھے۔رواں ہفتے ہونے والی اس پبلک سماعت پر اسرائیل کی طرف سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ اس سماعت کے دوران خاص طور پر توجہ ان الزامات پر دی جا رہی ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں پر ''جنسی اور تولیدی تشدد‘‘ کے مرتکب ہوئے۔
اسرائیل قیدیوں کے معاملے پر غزہ سیزفائر کو خطرے میں ڈال رہا ہے، حماس
منگل کے روز یہ سماعت جس نشست میں کی گئی، اس کے میزبان کرس سیڈوٹی تھے، جو اقوام متحدہ کے اس کمیشن آف انکوائری کے رکن بھی ہیں۔ سیڈوٹی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ سماعت اہم ہے۔ ایسی بدسلوکی سے متاثرہ افراد کا یہ حق ہے کہ ان کا موقف سنا جائے۔
‘‘ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے بیاناتاقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی سماعت کے دوران منگل 11 مارچ کو جن ماہرین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فعال کارکنوں نے بھی اپنے بیانات ریکارڈ کرائے، انہوں نے کہا کہ دوران حراست فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کا ایک ''منظم رجحان‘‘ پایا جاتا ہے۔ لیکن ایسا فوجی چیک پوائنٹس اور دیگر مقامات پر بھی ہوتا ہے، سات اکتوبر 2023ء کے روز حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل میں کیے گئے ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے جن کی وجہ سے غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی۔
تین اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی
دوسری طرف جنیوا ہی میں اقوام متحدہ کے لیے اسرائیل کے مستقل مندوب میرون نے ان کوششوں کی مذمت کی جن کے تحت انفرادی اعمال کے مرتکب انسانوں کے طور پر اسرائیلیوں پر لگائے گئے الزامات کا موازنہ حماس کے اسرائیلی یرغمالیوں پر ''ہوش ربا جنسی تشدد اور سات اکتوبر کے حملے کے متاثرین کے ساتھ برتاؤ‘‘ سے کیا جا رہا ہے۔
ڈینیل میرون نے پبلک سماعت سے ایک روز قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی بھی موازنہ غلط اور''قابل مذمت‘‘ ہے۔ اس اسرائیلی سفارت کار نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پبلک سماعت اور اس کے تمام مراحل اس لیے ''وقت کا ضیاع‘‘ ہیں کہ ''قانون اور نظم و ضبط والے ایک ملک کے طور پر‘‘ اسرائیل میں کسی بھی غلط عمل یا بےقاعدگی کی چھان بین کی جاتی اور اس کے لیے سزا سنائی جاتی ہے۔
ویسٹ بینک کے متاثرین کے بیاناتاس سماعت کے دوران فلسطینی خاتون وکیل سحر فرانسس نے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کے ان واقعات کے لیے کسی کو جواب دہ نہ بنایا جانا باعث شرمندگی ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ بدسلوکی کے ایسے واقعات ''ایک وسیع تر پالیسی‘‘ بن چکے تھے۔
رہا ہونے والے یرغمالیوں کی حالت پر تل ابیب میں غم و حیرت
ان کے مطابق فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات صرف اسرائیلی حراستی مراکز میں ہی نہیں ہوئے تھے، بلکہ ایسا مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی آباد کاروں کے ہاتھوں بھی ہوا۔
ویسٹ بینک کے رہائشی محمد مطار نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ اسے کئی گھنٹوں تک اسرائیلی آباد کاروں اور سکیورٹی ایجنٹوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، یہاں تک کہ اس تشدد کو رکوانے کے لیے ایک اسرائیلی پولیس اہلکار نے بھی مداخلت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
م م / ک م، ر ب (اے ایف پی)