اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) علیحدگی پسند عسکری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جنگجوؤں نے منگل کے روز بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقے میں واقع ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑانے کے بعد ایک مسافر ٹرین پر دھاوا بول دیا تھا، جس میں 450 کے قریب افراد سوار تھے۔ سکیورٹی فورسز نے بتایا کہ انہوں نے دو روزہ ریسکیو آپریشن میں 340 سے زائد مسافروں کوبازیاب کرایا۔

سکیورٹی اداروں کی یہ کارروائی بدھ کو رات دیر گئے ختم ہوئی تھی۔

اس کے بعد جمعرات کو محاصرے میں مارے گئے اکیس یرغمالیوں سمیت کم از کم پچیس افراد کی لاشیں برآمد کی گئیں۔

اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم بی ایل اے، ان متعدد علیحدگی پسند گروپوں میں سے ایک ہے، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بلوچستان کے قدرتی وسائل لوٹنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے اپنا استحصال قرار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

جعفر ایکسپریس پر قبضہ ختم، تمام حملہ آور مارے گئے، سکیورٹی ذرائع

ہلاکتوں کی تعداد غیر واضح

جعفر ایکسپریس پر حملے اور سینکڑوں مسافروں کو بی ایل اے کی طرف سے یرغمال بنائے جانے کے واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستانی فوج نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ''21 بے گناہ یرغمالیوں‘‘ کے ساتھ ساتھ ریسکیو آپریشن میں شامل چار فوجی بھی مارے گئے ہیں۔

بلوچستان میں ریلوے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جمعرات کی صبح پچیس افراد کی لاشوں کو حملے کے مقام سے ٹرین کے ذریعے قریبی قصبے مچھ تک پہنچایا گیا۔

ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہلاک ہونے والوں کی شناخت سے پتا چلا ہے کہ ان میں 19 فوجی مسافر، ایک پولیس اور ایک ریلوے کے اہلکار شامل ہیں، جبکہ چار لاشوں کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔

‘‘

دریں اثناء کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے ایک سینئر مقامی فوجی اہلکار نے ہلاک ہونے والوں کی ان تفصیلات کی تصدیق کر دی ہے۔

قبل ازیں ایک فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے یرغمال بنائے گئے فوجیوں کی تعداد 28 بتائی تھی، جن میں 27 آف ڈیوٹی یا سروس پر موجود نہیں تھے۔

بلوچستان ٹرین حملہ: حکومت کا حملہ آوروں کو انجام تک پہنچانے کا عزم

فرار ہونے والوں کے بیانات

بلوچ لبریشن آرمی کے محاصرے سے فرار ہونے والے مسافروں نے بتایا کہ انہیں محفوظ مقام تک پہنچنے کے لیے کئی گھنٹوں تک ناہموار پہاڑوں سے پیدل گزرنا پڑا اور اس دوران انہوں نے عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے عام افراد کو ہلاک ہوتے دیکھے۔

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جمعرات کو شروع کر دیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''وزیراعظم نے آپریشن کے دوران سکیورٹی اہلکاروں اور ٹرین کے مسافروں کی شہادت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔‘‘

بلوچستان ٹرین حملہ: ’مسافر یرغمال، سکیورٹی فورسز کا آپریشن‘

بی ایل اے نے ویڈیو جاری کر دی

بلوچ لبریشن آرمی نے جعفر ایکسپریس کے ٹریک پر کیے گئے دھماکے اور حملے کی ویڈیو جاری کر دی ہے۔

اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے ساتھ ہی پہاڑوں میں چھپے درجنوں عسکریت پسند ریل کی پٹری کی طرف بھاگے اور انہوں نے ٹرین پر حملہ کر دیا۔

پاکستان ریلوے نے بلوچستان کے لیے ٹرین سروسز معطل کر دیں

اس حملے میں فرار ہونے میں کامیاب ہونے والے محمد نوید نے اے ایف پی کو بتایا، ''انہوں نے ہمیں ایک ایک کر کے ٹرین سے باہر آنے کو کہا، خواتین کو الگ کیا اور انہیں جانے کو کہا۔

انہوں نے بزرگوں کو بھی بخش دیا۔ ہمیں انہوں نے یہ کہتے ہوئے باہر آنے کو کہا کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جب 185 کے قریب لوگ باہر آئے تو انہوں نے لوگوں کو ُچن ُچن کر گولیاں ماریں۔‘‘

ایک اڑتیس سالہ مزدور بابر مسیح نے بدھ کے روز اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اور اس کا خاندان ناہموار پہاڑوں سے گھنٹوں پیدل چل کر اُس ٹرین تک پہنچے، جو انہیں ریلوے پلیٹ فارم پر عارضی ہسپتال لے جا سکتی تھی۔

انہوں نے کہا، ''ہماری خواتین نے ان سے التجا کی اور انہوں نے ہمیں بچایا۔‘‘ بابر مسیح کا مزید کہنا تھا، ''انہوں نے ہم سے کہا کہ باہر نکلو اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔ جیسے ہی ہم بھاگے، میں نے دیکھا کہ بہت سے دیگر افراد بھی ہمارے ساتھ بھاگ رہے ہیں۔‘‘

بارکھان میں بس پر حملے میں سات پنجابی مسافر ہلاک، حکام

پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز اور صوبے کے باہر سے آنے والے نسلی گروہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ک م/ ش ر (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جعفر ایکسپریس ہونے والوں اہلکار نے بی ایل اے اے ایف پی بتایا کہ انہوں نے والوں کی

پڑھیں:

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) سکیورٹی حکام کا کہنا ہےکہ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد مسافروں کو بازیاب کرایا جا چکا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

یرغمالی مسافروں کو بچانے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار تیمور حبیب نے انکشاف کیا ہے کہ اس حملے میں ملوث بعض عسکریت پسند براہ راست افغانستان میں اپنے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، جس کے ٹھوس شواہد حاصل کیےگئے ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یرغمالی مسافروں کی بازیابی کے لیے موثر کارروائی کی جارہی ہے۔ اس ریسکیو آپریشن میں فورسز کو فضائی معاونت بھی حاصل ہے۔ یرغمالیوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

تیمور حبیب کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اب تک کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے 20 سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

رہائی پانے والے یرغمالی مسافر کا آنکھوں دیکھا حال

جعفر ایکسپریس میں یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے بعض رہا ہونے کے بعد کوئٹہ اور مچھ پہنچ رہے ہیں۔ سکھر سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ صغیر احمد بھی ان مسافروں میں شامل ہیں، جو رہائی کے بعد کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچے تھے۔

مچھ سے کوئٹہ پہنچنے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم سے پہلےشناختی دستاویزات طلب کی گئیں اور چیکنگ کے بعد ٹرین باہر جانے کا کہا گیا۔

میں نے سوچا شاید ہمیں مارنے کے لیے باہر لے جایا جا رہا ہے لیکن کچھ دیر بعد ہمیں رہا کردیا گیا ۔ ہم تقریبا 4 گھنٹے پیدل سفر کرکے قریبی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔‘‘

جعفر ایکسپریس پر حملہ اور حکومتی موقف

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ مسافر ٹرین پر حملے میں ملوث عناصر معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیل کر بلوچستان کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ڈھاڈر میں ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے ریاستی ادارے ہر حد تک جائیں گے ۔ ان کے بقول، ''بلوچستان کو منظم منصوبے کے تحت غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام نے امن دشمن قوتوں کو یکسر مسترد کیا ہے۔‘‘

'گوریلا جنگ پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہوچکی ہے‘

بلوچستان کے شورش زدہ ضلع بولان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے کئی دیگر بڑے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔

چند روز قبل ضلع سبی سے واپسی پر رکن بلوچستان اسمبلی لیاقت لہڑی کو بھی عسکریت پسندوں نے روک کر ان کے محافظوں کا اسلحہ چھین لیا تھا۔

اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کے تجزیہ کار عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں گوریلا جنگ اب پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہوچکی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ملکی داخلی سکیورٹی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''بلوچستان میں جاری شورش کے اثرات پورے ملک پر پڑ رہے ہیں ۔ بد امنی میں ملوث تنظیموں کی مقامی آبادی میں جڑیں دن بدن مضبوط ہو رہی ہیں۔‘‘

ادھر دوسری جانب حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈھاڈر میں مسافر ٹرین میں حملے کے دوران 20 سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

اس کالعدم تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ریاستی اداروں کے زیر حراست بلوچ مزاحمت کاروں اور سیاسی کارکنوں کو رہا نہ کیا گیا تو جعفر ایکسپریس کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا جائے گا۔

بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے اور کیا چاہتی ہے؟

بلوچ لبریشن آرمی یا بی ایل اے، جسے پاکستان اور امریکہ دونوں نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اندازوں کے مطابق تقریباﹰ 3 سے پانچ ہزار ارکان پر مشتمل ایک تنظیم ہے۔

بی ایل اے بلوچستان میں سرگرم درجنوں دیگر علحیدگی پسند عسکری تنظیموں میں سب سے منظم اور مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے۔

معدنیات کی دولت سے مالا مال یہ خطہ گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں بیجنگ کی سرمایہ کاری کا مرکز بھی ہے۔

یہاں علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونا، کوئی نئی بات نہیں تاہم بی ایل کے عسکریت پسندوں نے گزشتہ چند مہینوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے: ملکی حکومت کو دباؤ میں رکھنا۔ لیکن آخر بلوچ لبریشن آرمی کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟

بی ایل اے ریاست سے چاہتی کیا ہے؟

اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو یہ 'آزاد بلوچستان‘ چاہتی ہے۔

یعنی بلوچستان کو پاکستان سے الگ ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنا دیا جائے۔ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

یہ شمال میں افغانستان اور مغرب میں ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ لیکن یہ صوبہ صرف جغرافیائی اہمیت کا ہی حامل نہیں بلکہ قدرت نے اس خطے کو قدرتی وسائل سے بھی دل کھول کر نوازا ہے۔

تاہم حکومت کا موقف ہمیشہ ہی کچھ مختلف رہا ہے۔

صوبے کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کی جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''جو لوگ حقوق کے نام پر اپنا ایجنڈا عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، وہ اس مٹی کے کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔‘‘

بی ایل اے کا ماننا ہے کہ حکومت صوبے کے قدرتی وسائل کا غیر منصفانہ استعمال کر رہی ہے اور یہ بھی کہ اس سے صوبے اور خصوصا بلوچ عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

بی ایل اے کے مطابق ان کی لڑائی بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دلانے کی ہے۔

بی ایل اے آخر اتنی مضبوط کیسے ہوئی؟

حال ہی میں بولان کے اسی علاقے کے آس پاس جہاں یہ ٹرین حملہ کیا گیا، ان علحیدگی پسند عناصر کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آئیں، جس میں وہ سڑک پر ناکہ بندی کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ یاد رہے کہ یہ خطہ اتنا بھی پہاڑوں میں اوجھل نہیں کہ ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو جائے۔

تو سوال یہ ہے کہ دن دھاڑے بلوچ علحیدگی پسند پاکستان کی سڑکوں پر ناکہ بندی کریں اور ریاست بے بس ہو؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم کا آغاز تو بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت ہی ہوگیا تھا اور 2006 میں اس تنظیم کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس دوران بلوچستان میں کئی بڑے واقعات سمیت نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت بھی شامل ہے، جسے بلوچستان میں علحیدگی پسندوں کی کارروائیوں کی اس نئی اور شدید لہر کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

پاکستان میں ملکی سلامتی کے اداروں کو البتہ سب سے بڑا دھچکا 2022 میں اس وقت لگا، جب بی ایل اے نے بری فوج اور بحریہ کے اڈوں پر حملہ کیا۔ صرف یہ ہی نہیں اس گروہ نے بلوچ ثقافت کے برعکس خواتین حملہ آوروں کو بھی متعدد جان لیوا حملوں میں شامل کیا۔ اس گروہ کی جانب سے کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر اور بلوچستان میں سکیورٹی ادارو پر چند حملے اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین نے کیے۔

بی ایل اے کے اہداف کیا ہیں؟

بی ایل اے اکثر بلوچستان میں بنیادی شہری ڈھانچے اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔ لیکن حالیہ سالوں میں اس گروہ کی جانب سے پاکستان کے دیگر شہروں میں حملے کیے گئے، جیسے کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ، اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ بلوچستان میں بسنے والے پنجابی آبادی بھی ان کے نشانے پر رہی ہے۔

یہ گروہ پاکستان میں چین کی جانب سے شروع کیے گئے میگا پراجیکٹ، چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے بھی خلاف ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے معدنی کے معدنی وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے اور بلوچستان کے لوگ خاص کر نوجوان اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

بلوچستان اتنا اہم کیوں؟

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں بیجنگ کی 65 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں بلوچستان کا اہم حصہ ہے۔

سی پیک کے تحت شروع کیے گئے چند میگا پراجیکٹس بھی اسی پسماندہ صوبے میں ہیں، جن کی ایک بڑی مثال ریکوڈیک بھی ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھر میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے۔

صرف یہ ہی نہیں بلوچستان میں بحیرہ عرب کی ایک طویل ساحلی پٹی بھی ہے۔

صوبے میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی دہائیوں سے چل رہا ہے۔

اس بابت کئی عوامی تحریکیں بھی شروع ہوئیں اور اب یہ تازہ حملہ اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ انتھک حکومتی کوششوں کے باوجود علحیدگی پسندی کی یہ لہر اب عوامی سطح پر سرایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے عبداللہ خان کہتے ہیں، ''عوامی سہولت کاری کے بغیر کالعدم تنظیمیں اپنےمقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں، اس لیے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان پیدا ہونے والے خلیج کو کم کیا جائے۔‘‘

ر ب⁄ ش ر (روئٹرز)

متعلقہ مضامین

  • جعفر ایکسپریس حملہ، کلیئرنس آپریشن میں جہنم واصل دہشتگردوں کی تصاویر جاری
  • جعفر ایکسپریس حملہ: کچھ پی ٹی آئی سے منسوب سوشل میڈیا اکا ئونٹس سے غیر اخلاقی ٹویٹس کی گئیں، سلمان اکرم راجہ نے تسلیم کر لیا
  • جعفر ایکسپریس پر قبضہ ختم، تمام حملہ آور مارے گئے، سکیورٹی ذرائع
  • وزیراعظم کا وزیراعلیٰ بلوچستان رابطہ، ٹرین حملے کی صورت حال سے آگاہ
  • جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟
  • جعفر ایکسپریس حملہ،دہشت گردوں سے بازیاب ہونے والے مسافروں کا آنکھوں دیکھا حال
  • جعفر ایکسپریس حملہ؛ دہشت گردوں سے بازیاب ہونے والے مسافروں کا آنکھوں دیکھا حال
  • بلوچستان کے لئے ٹرین سروس معطل کرنے کا اعلان
  • بلوچستان: بولان پاس کے علاقہ میں دہشت گردوں کا جعفر ایکسپریس پر حملہ، درجنوں مسافر یرغمال بنا لئے، آپریشن