آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج کیلئے ہے: جسٹس علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دئیے ہیں کہ آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کیلئے ہے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ عدالتیں آرٹیکل 175 کے تحت بنیں، کیا فوجی عدالت بھی آرٹیکل 175 کے تحت بنیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کوئی ایسا فورم ہے جو آرٹیکل 175 کے تحت نہ بنا ہو اور شہریوں کا ٹرائل کر سکتا ہو؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کیلئے ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا آئین پاکستان میں درج ہے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کیلئے ہے، میں آپ کے سامنے بتا دوں کہ 9 مئی کے واقعات میں انسداد دہشتگری کا کوئی جرم نہیں تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے۔ 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 8 یقینی بناتا ہے کہ افواج اپنے فرائض کو درست طریقے سے ادا کر سکیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تو آیا ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا ایف بی علی کیس چیلنج اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ا رمی ایکٹ کیلئے ہے نے کہا ا ا رٹیکل کے تحت
پڑھیں:
کسی فوجی کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے. جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 مارچ ۔2025 )سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے. جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ عدالتیں آرٹیکل175 کے تحت بنیں، کیا فوجی عدالت عدالت بھی آرٹیکل175 کے تحت بنیں؟.(جاری ہے)
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کوئی ایسا فورم ہے جو آرٹیکل175کے تحت نہ بنا ہو اور شہریوں کا ٹرائل کر سکتا ہو؟جسٹس محمد علی نے کہاکہ آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کے لیے ہے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کے لیے ہے، میں آپ کے سامنے بتا دوں کہ 9 مئی کے واقعات میں انسداددہشت گری کا کوئی جرم نہیں تھا.
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے خواجہ حارث نے کہاکہ آرٹیکل 8 یقینی بناتا ہے کہ افواج اپنے فرائض کو درست طریقے سے ادا کر سکیں. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تو آیا ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایف بی علی کیس چیلنج اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہورہے ہیں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی خواجہ حارث جواب الجواب جاری رکھیں گے.