UrduPoint:
2025-03-12@12:27:46 GMT

وقف ترمیمی بل: بھارت میں مسلمانوں کو ایک اور امتحان درپیش

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

وقف ترمیمی بل: بھارت میں مسلمانوں کو ایک اور امتحان درپیش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں کسی بھی دن پیش کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد اسے صدر دروپدی مرمو کے پاس توثیق کے لیے بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ لیکن اس پیش رفت کے مدنظر بھارت میں ایک بار پھر سیاسی، سماجی، مذہبی طوفان کے آثار نظر آرہے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں جاری ہیں، دھریندر جھا

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے واضح لفظوں میں کہا کہ کسی بھی "خطرات" سے قطع نظر بل کو منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔

(جاری ہے)

اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بہار کی جنتا دل یونائٹیڈ اور آندھرا پردیس کی تیلگو دیسم پارٹی، جن کی بیساکھی کے سہارے مرک‍زی حکومت قائم ہے، کے رہنما بھی اس بل کو منظور نہیں ہونے دینے کے متعلق مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو بھول گئے ہیں۔

وقف جائیدادوں کے انتظام کے لیے سکھ مت سے سبق سیکھیں

مسلمانوں کی تقریباﹰ تمام اہم جماعتیں اس بل کے خلاف ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے قریب جنتر منتر پر 17 مارچ کو دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کے مظاہرے بہار اور آندھرا پردیس کی ریاستی دارالحکومتوں کے ساتھ ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں بھی کیے جائیں گے۔

مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ بی جے پی ایسے قوانین لا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو'غیر آئینی‘ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کر رہی ہے۔ دوسری طرف جگدمبیکا پال نے کہا کہ مسلم تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کسی مزاحمت سے یہ بل نہیں رکے گا۔ مسلمان اس بل کے خلاف کیوں ہیں؟

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینیئر محمد سلیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وقف املاک حکومت کی جائیداد نہیں بلکہ مذہبی امانتیں ہیں اور یہ بل وقف کی خودمختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔

انجینیئر محمد سلیم کا کہنا تھا، "یہ بل مسلمانوں کے اوقاف اور ان کے اداروں کی منظم طریقے سے کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس بل میں 1995 کے موجودہ وقف ایکٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے ذریعے حکومت کو وقف املاک کے انتظام میں زیادہ مداخلت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا،"ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سمجھداری سے کام لے گی اور بل کو واپس لے لے گی لیکن اگر وہ ضد پر اڑی رہی تو مسلم جماعتیں اس بل کے خلاف تمام قانونی، آئینی، اخلاقی اور پرامن طریقے اختیار کریں گی۔

"

تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں وہ ان جائیدادوں کے انتظام میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلم کمیونٹی کے اصلاحات کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

وقف کیا ہے؟

اسلامی روایت میں، وقف ایک خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کمیونٹی کے فائدے کے لیے دیا جاتا ہے۔

ایسی جائیدادیں کسی دوسرے مقصد کے لیے فروخت یا استعمال نہیں کی جا سکتی ہیں نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔

بھارت میں ان املاک کی ایک بڑی تعداد مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور بہت سی دوسری خالی پڑی ہیں یا ان پر تجاوزات ہو چکی ہیں۔

وقف جائیدادیں ابھی وقف ایکٹ 1995 کے تحت ہیں، جن کے انتظام و انصرام کے لیے ریاستی سطح کے بورڈز کی تشکیل لازمی ہے۔

ان بورڈز میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد، مسلم قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، اسلامی اسکالرز اور وقف املاک کے منتظمین شامل ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ بھارت کے سب سے بڑے زمین مالکان میں سے ہیں۔ ملک بھر میں کم از کم 872,351 وقف جائیدادیں ہیں، جو 940,000 ایکڑ سے زیادہ پر پھیلی ہوئی ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ 1.

2 ٹریلین روپے ہے۔

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور وقف ترمیمی بل ان میں اصلاحات کے لیے لایا گیا ہے۔

کیا اصلاح کی ضرورت ہے؟

مسلم تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ وقف بورڈ میں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے- اس کے اراکین پر متعدد بار الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تجاوزات کرنے والوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے وقف اراضی کو بیچ رہے ہیں۔

لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان وقف املاک کی ایک بڑی تعداد افراد، کاروباری اداروں اور سرکاری اداروں کی طرف سے تجاوزات کا شکار ہو چکی ہے،جس پر بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لیے سابقہ ​​کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی جسٹس سچر کمیٹی کی 2006 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ نے وقف اصلاحات کی سفارش کی تھی۔

اس نے پایا تھا کہ بورڈز سے حاصل ہونے والی آمدن ان جائیدادوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں کم تھی۔

کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ اوقاف کی جایئدادوں کے موثر استعمال سے تقریباﹰایک سو بیس بلین روپے سالانہ آمدن حاصل کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ موجودہ سالانہ آمدن تقریباً دو بلین روپے ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم از کم 58,889 وقف املاک پر تجاوزات ہیں، جب کہ 13,000 سے زیادہ قانونی چارہ جوئی میں ہیں۔

435,000 سے زیادہ جائیدادوں کی حیثیت نامعلوم ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا "فرقہ پرستوں کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کی ہیں، حالانکہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اوڈیسہ میں مندروں کی املاک وقف کی مجموعی املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔

" تنازعہ کیوں؟

بل کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے، جس سے بورڈ کی ملکیت تاریخی مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں پر اثر پڑے گا۔

مجوزہ قانون میں'استعمال کے ذریعہ وقف‘ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وقف بائی یوز کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔

لیکن مجوزہ قانون میں جائیدادوں کی ایک بڑی تعداد کی قسمت غیر یقینی ہو گئی ہے۔

بہت سی جائیدادیں، جو نسل درنسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں، کے پاس رسمی دستاویزات نہیں ہیں کیونکہ وہ دہائیوں یا صدیوں پہلے زبانی طور پر یا قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔

ماہر سماجیات جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ایسی قدیم کمیونٹی جائیدادوں کی ملکیت کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام اور ملکیت کا نظام صدیوں سے مغلیہ نظام سے برطانوی نوآبادیاتی نظام اور اب موجودہ نظام میں منتقل ہو چکا ہے۔

پروفیسر رحمان کا کہنا تھا، "آپ چند نسلوں تک ذاتی جائیدادوں کا سراغ لگا سکتے ہیں، لیکن کمیونٹی جائیدادوں کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔"

پروفیسر رحمان کے مطابق حکومت کے موجودہ اقدام سے"ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

"

رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ ان قوانین کا مقصد مسلمانوں سے ان کی زمین چھیننا ہے۔ اویسی کا کہنا تھا "بہت سے لوگوں نے غیر قانونی طور پر وقف پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔"

اویسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملک کے سب سے دولت مند شخص مکیش امبانی کا گھر 'انٹیلا' وقف کی زمین پر بنا ہوا ہے، جس کے خلاف عدالت میں ایک کیس زیر التوا ہے۔

آخر یہ کیسا قانون ہو گا؟

وقف ترمیمی بل کے ناقدین نے کہا کہ بل میں بعض باتیں تو مضحکہ خیز لگتی ہیں، مثلاﹰ اگر کوئی مسلمان اپنی جائیداد کو وقف للہ کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے کم از کم پانچ سال سے "عملاﹰ مسلمان" رہا ہے۔

مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون بہت سی تاریخی درگاہوں اور مساجد کو خطرے میں ڈال دے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے کمیونٹی کی حساسیت اور مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

وقف املاک سے متعلق تنازعات اب تک وقف ٹریبونل میں طئے کیے جاتے تھے، مجوزہ قانون میں یہ اختیار حکومت کے نامزد کردہ افسر کو دینے کی بات کہی گئی ہے۔

بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ میں اب غیر مسلم افسران کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ وقف کا غیر مسلم سی ای او مقرر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو وقف اداروں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

قاسم رسول الیاس نے کہا کہ 17 مارچ کا مظاہرہ "حکومت کے اڑیل رویے کے خلاف" ہے۔ جو کروڑوں مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو یکسر نظر انداز کرکے ایک ایسا قانون تھوپنے کی کوشش ہے جو کہ وقف کے تصور کے یکسر خلاف اور وقف املاک کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ انہوں نے بتایا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور غیر مسلم تنظیموں کی ایک بڑی تعداد بھی اس مظاہرے میں شامل ہو گی۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ وقف کی ایک بڑی تعداد کرنے کی کوشش کی جائیدادوں کی مسلمانوں کی مسلمانوں کے مسلمانوں کو کا کہنا تھا ان کا کہنا کے انتظام بھارت میں وقف املاک کی طرف سے انہوں نے سے زیادہ حکومت کے کے خلاف اور وقف وقف کی کی گئی گیا ہے کہا کہ رہی ہے کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

بھارتی حکومت نے میر واعظ عمر فاروق کی عوامی مجلس عمل اور مسرور عباص انصاری کی اتحاد المسلمین پر پابندی لگا دی

ذرائع کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ نے دو الگ الگ نوٹیفکیشنز میں ان تنظیموں پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جس سے بھارت کی خودمختاری، سالمیت اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں قائم عوامی ایکشن کمیٹی اور مسرور عباس انصاری کی سربراہی میں جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ نے دو الگ الگ نوٹیفکیشنز میں ان تنظیموں پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جس سے بھارت کی خودمختاری، سالمیت اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق عوامی مجلس عمل کے ارکان عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کی حمایت، بھارت مخالف بیانیے کا پرچار کرتے رہے ہیں اور جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے تنظیم پر تشدد بھڑکانے، بھارتی ریاست کے خلاف عدم اطمینان کو فروغ دینے اور مسلح مزاحمت کی حوصلہ افزائی کا بھی الزام لگایا ہے۔ وزارت داخلہ نے عوامی ایکشن کمیٹی اور اس کے قائدین کے خلاف متعدد فوجداری مقدمات درج کیے جن میں بغاوت، غیر قانونی اجتماع اور تشدد پر اکسانے کے الزامات شامل ہیں۔

میرواعظ عمر فاروق اور تنظیم کے دیگر ارکان کے خلاف نوہٹہ، صفاکدل اور کوٹھی باغ سمیت سرینگر کے مختلف تھانوں میں بھارتی حکومت کے خلاف تقاریر کرنے، انتخابی بائیکاٹ کو فروغ دینے اور احتجاجی مظاہروں کے لئے اکسانے پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر مسرور عباس انصاری کی سربراہی میں جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر بھی پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کالے قانون کے تحت پابندی متنازعہ علاقے میں سیاسی تنظیموں کے خلاف بھارت کی ہندوتوا حکومت کا ایک اور ظالمانہ اقدام ہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما اور عوامی مجلس عمل کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے ایک بیان میں اس کی تنظیم پر پابندی اور اسے غیر قانونی ایسوسی ایشن قرار دینے کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مجلس عمل شہید ملت نے 1964ء میں موئی مقدس کی تحریک کے عروج پر قائم کی تھی۔ یہ عدم تشدد اور جمہوری طریقے سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے، ان کی امنگوں اور حقوق کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے جس کے لئے اس نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور شہادتوں کو بھی گلے لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے اور بے اختیار کرنے کی پالیسی کا حصہ لگتا ہے جس پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اگست 2019ء سے عمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حق کی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا تو جا سکتا ہے لیکن اسے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔

دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے پابندی کو ریاستی دہشت گردی اور بی جے پی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی سیاسی آواز اور حق خودارادیت کے مطالبے کو دبانے کی دانستہ کوشش قرار دیا ہے۔ترجمان نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • دوران امتحان مسلح افراد کی فائرنگ،بھگڈر مچ گئی
  • بھارتی حکومت نے میر واعظ عمر فاروق کی عوامی مجلس عمل اور مسرور عباص انصاری کی اتحاد المسلمین پر پابندی لگا دی
  • وقف ترمیمی بل 2024ء کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے احتجاج کا اعلان کردیا
  • آئندہ سال سی ایس ایس امتحان میں تبدیلی نظر آئے گی، اعظم نذیر تارڑ
  • آئی ایم ایف مذاکرات ‘ حکومت نے ریونیوشارٹ فال پورا کرنے کا متبادل پلان دیدیا 
  • تحریک انصاف ضلع پشاور کا صوبائی حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار
  • تحریک انصاف ضلع پشاور کا اجلاس، صوبائی حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار
  • چینی افراد کو بھی موٹاپے کا مسئلہ درپیش
  • عمر ایوب نے حکومت کیخلاف تحریک تیز کرنے کا اعلان کردیا