ایلون مسک: ایک کاروباری یا ڈکٹیٹر؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
سوا تین سو سال قبل جب امریکا کے بانیوں نے نظام حکومت تشکیل دیا تو انھوں نے اس میں جگہ جگہ ’’چیک اینڈ بیلنس ‘‘لگائے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی فرد اتنی زیادہ طاقت نہ پا لے کہ وہ بادشاہ بن بیٹھے۔ مگر انھوں نے یہ نظام صرف سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو ذہن میں رکھ کر تشکیل دیا تھا۔
گو بانیان ِ امریکا کو یہ تشویش لاحق تھی کہ حکومت سے باہر کا کوئی فرد بھی دولت یا اثرورسوخ کی بدولت حکومتی نظام کنٹرول کرنے کے قابل ہو سکتا ہے مگر اس معاملے پر ان کی بنیادی توجہ مرکوز نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ دولت مندوں کا طبقہ امریکی حکومت کو کبھی کنٹرول نہیں کر سکتا لیکن اب یہ سوچ تبدیل ہو چکی۔
امریکا کا طبقہ امرا
اب امریکا میں یہ نظریہ مقبول ہو رہا ہے کہ ملک میں ’’طبقہ امرا کی حکومت‘‘ (oligarchy) جنم لے چکی۔ اس طبقے کے امرا نے دولت کے بل پر اتنی زیادہ طاقت پا لی ہے کہ اب وہ مختلف طریقوں مثلاً سیاسی پارٹیوں کو چندے اور اپنے کاروباری ذرائع سے انھیں ہر ممکن مدد دے کر حکومت میں فیصلہ سازی کے عمل میں بہت دخیل ہو چکے۔صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی کہ ان کی ایما پر قومی اور بین الاقوامی پالیسیاں بنتی یا ختم کی جاتی ہیں۔
ماضی میں لیفٹسٹ امریکی راہنما یہ خدشہ ظاہر کرتے تھے کہ امریکا امرا شاہی بن چکا۔ مگر امریکی عوام کی اکثریت نے اس خدشے کی جانب توجہ نہیں دی اور اپنی سرگرمیوں میں مگن رہے۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے ان پر بھی یہ سچائی القا ہو چکی کہ امریکی حکومت میں دولت مند شخصیات کا عمل دخل بہت بڑھ چکا جن کی قیادت کرہ ارض پہ امیر ترین انسان، ایلون مسک کر رہا ہے۔
بچپن اچھا نہ تھا
53 سالہ ایلون مسک کی ذات اور سرگرمیاں سمجھنے کے لیے اس کے ماضی کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ جنوبی افریقا میں پیدا ہوا۔ والدین انگریز اور ولندیزی نسل کے تھے جن میں نباہ نہ ہو سکا کیونکہ مسک کا باپ سائیکوپیتھ یعنی نفسیاتی مریض ہے۔ وہ دوسروں پہ حکم چلا اور انھیں تکلیف دے کر لذت محسوس کرتا ہے۔بیوی کو مارنا معمول تھا۔
جب مسک نو سال کا تھا تو والدین میں طلاق ہو گئی۔ مسک باپ کے پاس رک گیا۔ اس فیصلے پر وہ اب بھی پچھتاتا ہے کیونکہ باپ اسے بھی تنگ کرنے لگا۔ سائیکوپیتھ باپ کی وجہ سے مسک بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گیا۔ اس میں جارحانہ پن اور دوسروں کو ہر قیمت پر نیچا دکھانے کی خواہش نے جنم لیا۔ وہ بھی باپ کی طرح دوسروں کو اپنی خواہشات کے تابع رکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔
مسک انیس سال کا تھا کہ جنوبی افریقا چھوڑ کر کینیڈا اور پھر امریکا چلا آیا۔وہ باپ سے ناراض تھا۔ ماں بھی اس کی مالی مدد نہیں کر سکی۔ اس لیے مسک نے چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کیے۔ جارح مزاج اور دوسروں سے آگے نکلنے کی تمنا نے اسے نت نئے کام کرنے پر اُکسایا۔1995ء میں تعلیم پا کر وہ سائنس وٹکنالوجی کی دنیا میں داخل ہو گیا۔اس نے پھر کئی کمپنیوں کی بنیاد رکھی جو آج اربوں ڈالر مالیت رکھتی ہیں۔ انہی کمپنیوں نے اسے دنیا کا امیر ترین انسان بھی بنا دیا۔ یہ سطور قلمبند ہونے پر اس کی دولت 360 ارب ڈالر مالیت رکھتی ہے۔
سیاست میں داخلہ
صنعت وتجارت اور کاروبار سے منسلک لوگ عام طور پہ غیر سیاسی رہتے ہیں تاکہ اپنی توانائیاں اپنے کاموں پر مرکوز رکھ سکیں۔ ابتداً مسک بھی غیر سیاسی تھا مگر ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں وہ سیاست میں گھس آیا۔ ٹرمپ نے اس کو اپنا مشیر بھی بنایا مگر وہ جلد بعض اختلافات کی وجہ سے الگ ہو گیا۔
تب مسک خود کو اعتدال پسند کہتا تھا لیکن پھر قدامت پسندی کی جانب چلا گیا۔ اب وہ امریکا میں سفید فام اکثریت کی قوت برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے۔ کہتا ہے کہ انھیں خوب بچے پیدا کرنے چاہیں تاکہ امریکا میں سفید فاموں کی اکثریت رہے۔ وہ عموماً ڈیموکرٹیک پارٹی کا حامی رہا ہے مگر تین سال پہلے ٹویٹر(اب ایکس) خریدنے کے بعد وہ نہ صرف اس پہ تنقید کرنے لگا بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ سیاسی ہوتا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
کارباری مفاد
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسک اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لیے سیاست میں آیا۔ وہ امریکی سیاست دانوں ہی نہیں بیرون ممالک کی حکومتوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے لگا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ ممالک اس کی کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے فراہم کریں ، نیز اس کے کاروبار کے سامنے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔
یہ حکمت عملی کامیاب رہی ، اس لیے وہ سیاست میں دخیل ہوتا گیا۔ پھر جوں جوں اس کی دولت میں اضافہ ہوا، امریکی و عالمی سیاست میں اس کا قدکاٹھ بھی بڑھ گیا۔ وہ امریکا ہی نہیں دیگر معاشی طاقتوں، مثلاً چین، جرمنی، روس، برازیل، بھارت، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ کے حاکموں سے بھی ملاقاتیں کرنے لگا۔ انہی سیاسی سرگرمیوں کے دوران وہ سفید فام قدامت پسندی کو فروغ دینے کی جانب مائل ہو گیا۔
مسک تاہم کوئی واضح سیاسی نظریہ نہیں رکھتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا کاروباری مفاد سب سے مقدم رکھتا ہے۔اسی لیے مفاد کے مطابق مسک کے سیاسی نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ چین جا کر چینی راہنماؤں اور وہاں کے نظام حکومت کی تعریفیں کرتا ہے۔ مگر جب تائیوان جائے تو وہاں چین کے خلاف کوئی نہ کوئی بات ضرور کہتا ہے۔
اسی طرح اپنا مفاد سامنے رکھ کر کبھی روسی صدر پیوٹن کی مدح سرائی کرتا ہے تو کبھی یوکیرائن کی حمایت میں بول پڑتا ہے۔ مسک پھر سازشی نظریات پر بھی یقین رکھتا اور اپنے ایکس (ٹویٹر)اکاؤنٹ کے ذریعے ان کی ترویج کرتا ہے۔ کئی امریکی باشندے مسک کو ’’بے سوچے سمجھے باتیں اور کام کرنے والا پاگل‘‘کہتے ہیں۔ مگر امریکا میں لاکھوں لوگ مسک کے پرستار بھی ہیں۔ وہ اس کو ’’خطرے مول لینے والا اور منہ پھٹ دلیر انسان‘‘ کہتے ہیں۔
خطیر چندہ
2024ء کے اوائل میں مسک نے اعلان کیا کہ وہ آمدہ امریکی الیکشن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کرے گا۔ دلچسپ امر یہ کہ دو سال قبل وہ ٹرمپ کو مشورہ دے چکا تھا ، اپنا سیاسی چولہ اتار کر اپنے گھر میں آرام کرو۔ مسک نے پھر ٹرمپ کی جیت میں مرکزی کردار ادا کیا۔
اس نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بارہ کروڑ ڈالرکا خطیر چندہ دیا۔ٹرمپ کو سب سے زیادہ چندہ اسی سے ملا۔نیز ایکس پر اس کے حق میں سرگرمی سے مہم چلائی۔ کئی ریاستوں میں لوگ ملازم رکھے تاکہ وہ گھر گھر جا کر ٹرمپ کے حق میں انتخابی مہم چلا سکیں۔ کئی جگہ مسک نے بسیں فراہم کیں تاکہ وہ ووٹروں کو بوتھ تک لے آئیں۔ غرض ٹرمپ کی جیت میں مسک کا کردار سب سے نمایاں رہا۔
مسک اوتار بن گیا
ٹرمپ نے تقریروں میں امریکی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ کرپشن میں لتھڑے سرکاری ادارے تباہ کر دے گا۔ جبکہ خاص طور پہ نوجوانوں کے لیے مسک ایسا اوتار بن گیا جو نئے منصوبے بنا اور ملک وقوم کو سنگین مسائل سے نجات دلا سکتاہے۔ جدید انسانی تاریخ میں ایک نمایاں موجد اور اختراع پسند امریکی نئی نسل کا آئیڈیل بن گیا۔ جب وہ ٹرمپ کے ساتھ انتخابی جلسوں میں کھڑا ہوتا تو اس کا بڑھاپا غیر نمایاں ہو جاتا ۔ ٹرمپ اور مسک عوام کو مسیحا کے روپ میں نظر آنے لگتے۔ انھوں نے بار بار اعلان کیا کہ وہ حکومتی اخراجات میں دو ٹریلین ڈالر کی کمی لائیں گے۔ اس قسم کے اعلانات نے دونوں کو خاص طور پہ قدامت پسندوں کی ڈارلنگ بنا دیا اور پولنگ والے دن وہ جوق در جوق نکلے اور ٹرمپ کو کامیاب کرا دیا۔
نیا سٹار جنم لے چکا
ٹرمپ کو بھی احساس تھا کہ مسک کی بھرپور کوششوں سے ہی وہ وائٹ ہاؤس پہنچا ہے۔اسی لیے اس نے تقریباً ہر تقریر میں مسک کی تعریف کی اور کہا کہ امریکا میں ایک نیا سٹار جنم لے چکا۔ مسک ہر جگہ ٹرمپ کے ساتھ نظر آنے لگا۔ اس نے پھر وزرا اور مشیروں کے انتخاب میں ٹرمپ کو مشورے دئیے جن میں سے اکثر قبول کر لیے گئے۔
رفتہ رفتہ مسک ہر سیاسی معاملے میں اپنی رائے دینے لگا۔ اس نے ایکس پر اپنے اکاوئنٹ سے ٹرمپ کو کئی تجاویز دیں جن پر عموماً عملی جامہ پہنایا گیا۔ یہی وجہ ہے، امریکا میں مشہور ہو گیا کہ ٹرمپ کے دوسرے دور میں حقیقی حکمران مسک ہو سکتا ہے۔ گو اس سوچ کی تردید ٹرمپ اور مسک ، دونوں کرتے ہیں۔ بہرحال ٹرمپ حکومت کا آغاز ہونے کے بعد رفتہ رفتہ سبھی کو پتا چل گیا کہ مسک اس میں کتنا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے مسک کو ڈاج نامی ایک غیر سرکاری ادارے کا سربراہ بنایا جو امریکی حکومت کے اخراجات گھٹانے کی خاطر مختلف اقدامات کر رہا ہے اور جن سے امریکی بیوروکریسی میں ہلچل مچ چکی۔
عالمی سیاست میں ٹانگ اڑانا
امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت ہے۔ اسی لیے سبھی ممالک اس سے متاثر ہوتے اور اس کی خوشنودی پانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ مسک کو اسی امر کے باعث دیگر ممالک کی سیاست میں دخل انداز ہونے کا بھی موقع مل گیا۔ مثال کے طور پر اب وہ یورپ کے سب سے بڑے ممالک، برطانیہ اور جرمنی میں سفید فام قدامت پسندوں کو اقتدار میں لانا چاہتا ہے۔ برطانیہ میں اس کی من پسند پارٹی ریفارم یوکے ہے جس کا قائد، نائجل فریج برطانیہ میں کم سے کم مہاجرین لانا چاہتا ہے۔ وہ مسلم دشمن تو نہیں مگر برطانیہ میں سفید فاموں کی حاکمیت کا متمنی ہے۔
خیال ہے کہ مسک اس پارٹی کو دس کروڑ ڈالر کا چندہ دے گا تاکہ وہ برطانیہ کے طول وعرض میں اپنے قدم جما سکے۔ جرمنی میں تو مسک انتہا پسند سفید فام پارٹی، اے ایف ڈی (Alternative for Germany) کا پُرزور حمایتی بن گیا ۔ یہ پارٹی میں جرمنی میں خاص طور پہ مسلم مہاجرین کی آمد روکنا چاہتی ہے۔ مسک اس پارٹی کو بھی بھاری چندہ دے سکتا ہے تاکہ وہ جرمنی میں اپنے آپ کو مقبول بنا سکے۔
عالمی ’’کنگ میکر‘‘
جس مغربی ملک میں قدامت پسند حکمران حکومت کر رہا ہے، مسک اس کی حمایت میں پیش پیش ہے۔ ان میں ارجنٹائن کے صدر، میلی اور اٹالین وزیراعظم شامل ہیں۔ یہ یقینی ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں خاص طور پہ برطانیہ اور جرمنی میں اس کی حمایت یافتہ قدامت پسند پارٹیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی تو مسک صحیح معنوں میں ’’عالمی بادشاہ گر‘‘کا لقب پا لے گا۔ امریکا ویورپ میں تو ابھی سے کئی ماہرین اس کو ’’انٹرنیشنل کنگ میکر ‘‘قرار دے چکے۔
یہ یقینی ہے، مسک اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لیے عالمی سیاست میں سرگرم حصہ لے گا۔ چناں چہ وہ مستقبل میں یہ حیثیت پا سکتا ہے کہ خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک میں اس کے اشارے پر حکومتیں گرائی یا بنائی جانے لگیں۔ تب انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ ایک امیر ہستی عالمی سطح پر بادشاہ گر بن گئی۔ مسک اپنی غیر معمولی شخصیت کے باعث یہ مقام پا بھی سکتا ہے۔
ماہرین سیاسیات کے نزدیک مسک عالمی بادشاہ گر بن کر اقتدار کا حصول نہیں چاہتا، بس اس کی تمنا ہے کہ وہ ایسی حکومتیں تشکیل دے جو اس کے کاروبار کو ترقی دینے والے پہیے بن جائیں۔ نیز وہ ان حکمرانوں کو بھی سراہتا ہے جن سے کوئی کاروباری مفاد وابستہ ہو۔ مثال کے طور پر ارجنٹائن میں لیتھیم دھات کے وسیع ذخائر واقع ہیں جو کار بیٹریاں بنانے میں کام آتی ہے۔ اس لیے مسک کی ٹیسلا کمپنی کے لیے ارجنٹائن ایک اہم مملکت کا روپ دھار چکا۔ مسک اسی لیے ارجنٹائنی صدر میلی سے دوستی کی پینگیں جھول رہا ہے۔ تاہم یہ یقینی ہے، ارجنٹائن میں جو بھی حکمران آیا، مسک اس سے دوستانہ تعلقات قائم کر لے گا۔
پاکستانی گینگ
مسک واضح طور پہ مسلم دشمن نہیں لیکن وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے آباد ہونے کا سلسلہ روکا جائے۔ گویا وہ اس معنی میں سفید فام انتہا پسندوں کے اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمان آتے رہے تو مستقبل میں اپنی زیادہ آبادی کے بل بوتے پر وہ کافی قوت و اثرورسوخ پا لیں گے۔ٹرمپ کی جیت کے بعد تو مسک نے اس نظریے کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹ اور غلط خبروں کا سہارا لے لیا۔
یہی نہیں، وہ یورپ و امریکا میں عیسائی انتہا پسندوں کا حمایتی بن گیا جو کٹڑ مسلم مخالف ہیں۔ اسی لیے اب امریکا و یورپ کے غیرجانب دار اور لیفٹسٹ دانشوروں کے نزدیک ایلون مسک ایسا سازشی اور شیطان صفت رہنما بن چکا جو اشتعال انگیز اور شر انگیز بیانات دے کر مختلف مذاہب اور اقوام کے درمیان نفرت ودشمنی میں اضافہ کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر اس نے پے در پے بیانات دے کر برطانیہ میں یہ جھوٹ پروان چڑھایا کہ دس سال قبل پاکستانیوں کے گینگ برطانوی لڑکیوں کی بے حرمتی کرنے میں ملوث رہے۔ ان گینگوں میں پاکستانی نژاد بھی شامل تھے، مگر برطانوی حکومت کی اپنی تحقیقی رپورٹ ہے کہ برطانیہ میں سفید فام خواتین کا زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ مسک کے بیانات کو بھارتی میڈیا نے بہت اچھالا، تاہم یہ مثبت امر ہے کہ بی بی سی اور سی این این جیسے بااثر مغربی ذرائع ابلاغ نے ایسے مضامین شائع کیے جو امریکی صنعتکار کے جھوٹ اور فیک نیوز کو نمایاں کرتے رہے۔
ناکامی کا داغ
ایلون مسک کے عمل سے عیاں ہے،وہ کسی خبر کی تصدیق نہیں کرتا اور نہ ہی اسے پرکھتا ہے، بس وہ اس کی سوچ سے لگا کھاتی ہو تو اس کو ایکس پہ اپنے اکاونٹ پر چڑھا دیتا ہے۔ چونکہ فی الوقت وہ ٹرمپ اور سفید فام امریکیوں کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے لہذا اس کی پوسٹ لاکھوں کروڑوں لوگ پڑھتے ہیں…گو یہ ضروری نہیں کہ وہ اس سے متاثر ہوں یا عمل بھی کریں۔
یہی وجہ ہے، بعض ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ مسک جن یورپی پارٹیوں اور راہنماؤں کی پشت پناہی کر رہا ہے، وہ عوام میں غیرمقبول بھی ہو سکتی ہیں۔ وجوہ یہ ہیں کہ عوام کی اکثریت مسک جیسے امرا کو پسند نہیں کرتی۔ دوم مسک اپنے بیانات سے دکھا چکا کہ وہ بنیادی طور پہ منفی ذہنیت رکھنے اور شر پھیلانے والا انسان ہے۔ لہذا ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ یورپی قدامت پسند اور قوم پرست پارٹیوں کے لیے ایلون مسک بوجھ اور ناکامی کا داغ بن جائے۔
ساتھیوں سے نوک جھونک
مسک تاہم دیگر ملکوں کے مہاجرین کی امریکا میں آمد چاہتا ہے، خاص طور پر وہ جو باہنر اور قابل ہوں۔ اس معاملے پر پچھلے دنوں مسک، اس کے دست راست ، رام سوامی اور ٹرمپ کے قدامت پسند حامیوں کی اہم رہنما، کے درمیان دلچسپ و تیز وتند بحث بھی ہوئی۔ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ‘‘ (Make America great again)تحریک کے سخت گیر لیڈروں کے درمیان اس وقت تلخ لڑائی چھڑی جب امریکی منتخب صدر نے ایک بھارتی نژاد کاروباری، سری رام کرشنن کو مصنوعی ذہانت کے سلسلے میں اپنا اے آئی مشیر منتخب کیا۔
اس نامزدگی نے مسک اور ان کے ساتھی کاروباری وویک رامسوامی کو سخت گیر لیڈروں کے خلاف کھڑا کر دیا جن میں انتہائی دائیں بازو کی راہنما، لورا لومر اور میٹ گیٹز، کانگریس کے سابق رکن اور اٹارنی جنرل کے لیے نامزد امیدوار شامل ہیں۔ اس جھگڑے سے ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان امیگریشن کے حوالے سے خانہ جنگی کا امکان پیدا ہو گیا جو ان کی انتخابی فتح میں ایک اہم معاملہ رہا ہے۔
مسک نے اس قضیے کو ’’خانہ جنگی ‘‘سے تعبیر کرتے ہوئے اس وقت جارحانہ انداز اختیار کیا جب لورا لومر نے سیلیکون ویلی کے وینچر کیپیٹلسٹ، سری رام کرشنن کے انتخاب پر حملہ کیا۔اس نے لکھا، نوزائیدہ انتظامیہ کے اے آئی پالیسی مشیر کے طور پر اس کی نامزدگی "انتہائی پریشان کن" ہے۔
ٹرمپ ایجنڈا یہ نہیں
لورا لومر ایک مشہور امیگریشن مخالف اور اشتعال انگیز لیڈر ہے۔ اس نے گزشتہ ستمبر میں کملا ہیریس کے ساتھ صدارتی مباحثے میں اس غلط افواہ کا تذکرہ کرنے کے لیے ٹرمپ کو قائل کیا تھا کہ ہیٹی کے تارکین وطن پالتو جانور کھا لیتے ہیں۔لورا لومر نے ہنر مند کارکنوں کے لیے ویزا دینے اور گرین کارڈ کی توسیع کی حمایت کرنے پر سوشل میڈیا پر سری رام کرشنن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے کہا کہ یہ ٹرمپ کے ایجنڈے کی "براہ راست مخالفت" کرنے والا انتخاب ہے۔
اس کے تبصروں نے ایلون مسک کو بھڑکا دیا جو ٹرمپ کے سب سے بااثر حامی اور خود جنوبی افریقہ سے آئے تارکین وطن ہیں۔اس نے کرسمس کے دن اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ، ایکس پر پوسٹ کیا’’امریکا میں اچھے اور بہترین انجینئرنگ ٹیلنٹ کی مستقل کمی ہے۔ یہ سلیکون ویلی میں کاروبار اور بڑھوتری کو محدود کرنے والا بنیادی عنصر ہے۔" مسک نے بعد میں ایک پوسٹ میں لکھا: "بات کا خلاصہ یہ ہے… کیا آپ چاہتے ہیں کہ امریکہ جیت جائے یا آپ چاہتے ہیں کہ امریکہ ہار جائے؟ اگر آپ دنیا کے بہترین ٹیلنٹ کو دوسری طرف کھیلنے پر مجبور کرتے ہیں تو امریکہ ہار جائے گا۔ کہانی ختم ہوئی۔"
بھارتی نژاد کے دلائل
مسک کے مؤقف کی تائید وویک رامسوامی نے کی جو نئے آنے والے "محکمہ حکومتی کارکردگی" (Doge) میں مسک کے ساتھی ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا، ٹرمپ نے ان دونوں کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ ایسی تجاویز دیں جن کی مدد سے سرکاری اخراجات میں کمی ہو سکے۔ ایک طویل سوشل میڈیا پوسٹ میں بھارت سے آنے والے تارکین وطن کے بیٹے، رامسوامی نے دلیل دی کہ امریکہ اعلیٰ ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے بغیر زوال کا شکار ہے اور یہ خیال پیش کیا کہ امریکی ثقافت رفتہ رفتہ "اوسط درجے " کی طرف جا رہی ہے۔اس نے لکھا:
"امریکا میں چوٹی کی ٹیک کمپنیاں اکثر 'آبائی' امریکیوں کے برعکس غیر ملکی اور پہلی نسل کے (امریکی نژاد) انجینئرز کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ وجہ امریکیوں کی آئی کیو میں کمی آنا نہیں بلکہ وہ تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے اوسط درجے کے ہو چکے۔ امریکی ثقافت طویل عرصے سے اوسط لوگوں کو جوہر قابل پر ترجیح دے رہی ہے۔ یہ سلسہ کالج میں شروع نہیں ہوتا،اس کا آغاز نوجوانی سے ہوجاتا ہے۔
یہ ثقافت ریاضی کے اولمپیاڈ چیمپیئن کے بجائے پروم کوئین کا جشن مناتی ہے اور سائنس دانوں کے بجائے کھلاڑیوں کو ماتھے کا تاج بناتی ہے۔ یہ کبھی بہترین انجینئر پیدا نہیں کر سکتی۔اس وقت عالمی مارکیٹ میں تکنیکی صلاحیتیں رکھنے والوں کے درمیان انتہائی مسابقت جاری ہے۔ اگر امریکا میں اوسط درجے کا ٹیلنٹ ہی سامنے آتا رہا تو ہم اپنے پچھواڑے چین کے سامنے کر دیں گے (تاکہ وہ ان پہ جوتے لگا سکیں)۔ ‘‘
شدید ردعمل
’’امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ ‘‘ کے راہنماؤں نے رام سوامی کے دلائل پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ان کی سرکردہ لیڈر، لورا لومر نے رام سوامی کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا:
’’رام سوامی جانتے ہیں کہ (امریکا میں مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث جنم لیتی )عظیم تبدیلی حقیقی ہے۔ تاہم ہماری پالیسیاں بھارتیوں کے خلاف نسل پرستانہ نہیں کہ وہ اصل ان کو پسند کرتے ہیں جن کے لیے میں نے ووٹ دیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے ، میں نے’’ایچ آئی بی ‘‘( H1B )ویزا میں کمی کے حق میں ووٹ دیا، توسیع کے لیے نہیں۔ٹیک ارب پتی چاہتے ہیں کہ وہ مارا لاگو (ٹرمپ کی رہائش گاہ ) کے اندر گھومتے پھرتے رہیں اور اپنی بڑی بی چیک بکوں کو کھولے رکھیں۔ مگر انھیں ہماری امیگریشن پالیسی دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تو تمنا ہے کہ ان کے پاس بھارت اور چین کے لامحدود غلام مزدور ہوں جو کبھی بھی (امریکی معاشرے میں ) ضم نہیں ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ’’امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ ‘‘ کی امیگریشن پالیسی کیا ہے۔‘‘
ہمیں غیر ملکی کارکن نہیں چاہیں
رامسوامی کے دلائل کو ٹرمپ کے حامی پوڈ کاسٹر، برینڈن ڈیلی نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس نے پوسٹ کیا: "مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے جب یہ ٹیک کھرب پتی آپ کو یہ بتاتے ہیں، انہیں امریکی ثقافت کی کوئی سمجھ نہیں ۔اس کے باوجود یہ لوگ آپ کو یہ بتانے کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ آپ(امریکی قوم) کی وجہ سے امریکہ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل کا نشانہ بنا ہے۔‘‘
نکی ہیلی، سابق ریپبلکن صدارتی دعویدار اور ٹرمپ کی ناقد جس کے والدین بھی بھارتی تارکین وطن تھے،اس نے پوسٹ کیا ’’امریکی کارکنوں یا امریکی ثقافت میں کوئی برائی نہیں ہے۔ آپ کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ غیر قانونی مہاجرین سرحد پار کر کے نہ آئیں۔ اور یہ دیکھنا ہے کہ امریکا کو کتنے لوگ درکار ہیں۔ ہمیں غیر ملکی کارکنوں نہیں بلکہ امریکیوں اور ان پہ سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ ‘‘امریکی ماہرین سیاسیات کے نزدیک یہ خانہ جنگی ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ خود بھی مہاجرین کی آمد کے خلاف ہیں۔ حقیقتاً انھوں نے اپنی سیاسی اپیل کی بنیاد امیگریشن مخالف پیغام پر رکھی ۔انھوں نے اپنی پہلی صدارت کے دوران اس دلیل کی بنیاد پر ایچ آئی بی ویزوں تک رسائی پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ غلط استعمال کے لیے کھلے ہیں۔
پری گیم
لیکن اپنی حالیہ صدارتی مہم میں، منتخب صدر نے اشارہ دیا کہ غیرملکی تعلیم یافتہ کارکنوں کی قانونی امیگریشن کے لیے راستے کھلے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکا میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل غیر ملکی شہریوں کو مستقل رہائش کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔’’اگر آپ گریجویٹ ہیں یا آپ نے کسی امریکی درس گاہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، تو آپ کو اس ملک میں رہنے کے قابل ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے گزشتہ جون میں آل ان پوڈ کاسٹ کو یہ بتایا تھا۔
فاؤنڈیشن فار امریکن انوویشن کے سینئر ماہر معاشیات سیموئیل ہیمنڈ نے ٹرمپ کے حامیوں کے مابین خانہ جنگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ اس صف بندی نے ٹرمپ انتظامیہ کے اندر مستقبل میں تصادم کے امکانات پیدا کر دئیے ہیں۔ یہ مستقبل کے تنازعات کی علامت ہے۔‘‘ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا’’اس کو پری گیم کی طرح سمجھیے۔‘‘
ایک اہم خطرہ
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسک کا سب سے بڑا خواب مریخ میں انسانی بستی بسانا ہے۔ مگر وہ تن تنہا اس خواب کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا، اس کو امریکی حکومت کی مدد درکار ہے۔ چناں چہ وہ ملکی سیاست میں اس لیے بھی داخل ہوا کہ حکومت میں اپنے بندوں کو لا سکے۔ وہ پھر مریخ مشن کی تکمیل کے لیے اسے سرکاری رقم فراہم کر سکتے ہیں۔ اس نظریے کو امریکی لیفٹسٹ راہنماؤں نے نمایاں کیا ہے جو بطور دولت مند ہستی منہ پھٹ مسک کو پسند نہیں کرتے۔
مذید براں امریکا میں یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ ٹرمپ حکومت میں مسک اور دیگر کھرب پتیوں کے اثرورسوخ کی وجہ سے وہ کبھی دولت مندوں پہ ٹیکس نہیں لگائے گی۔ بلکہ دو ٹریلین ڈالر کا جو سرکاری خرچ کم کرنا مقصود ہے، فلاحی سرکاری پروگرام ختم کر کے یہ ٹارگٹ حاصل کیا جائے گا۔ گویا مستقبل میں مسک و ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکی عوام علاج، تعلیم اور روزگار سے متعلق سماجی سرکاری منصوبوں کے فوائد سے محروم ہو سکتے ہیں۔ مسک نے اس سوچ کے سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا، ویسے وہ اپنے ایکس اکاونٹ سے روزانہ کوئی نہ کوئی متنازع بیان دیتا رہتا ہے۔
مسک نے جب سے ایکس (سابقہ ٹویٹر )خریدا ہے، اس کی مالیت میں ’’۰۸‘‘فیصد کمی آ چکی، اس کے باوجود وہ سازشی نظریات کی ترویج اور متنازع بیان دینے کی روش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی لیے مسک کے مخالفین کہتے ہیں، ٹرمپ حکومت میں اگر مسک اور اس کے ٹولے کو فیصلے کرنے دئیے گئے تو وہ اپنے اٹکل پچو اور بلا سوچے سمجھے اقدامات سے مقامی و عالمی سطح پر کئی مسائل اور پریشانیاں کھڑی کر سکتے ہیں۔
مسک پاگل ہو چکا!
امریکا کے یہودی دانشور، پچاس سالہ سیتھ ابراہمسن (Seth Abramson) یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ٹرمپ پر سوانحی کتب لکھ چکے۔ مسک کی سوانح حیات بھی لکھ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایکس اکاونٹ سے یکے بعد دیگرے کئی پوسٹس کیں جن میں انکشاف کیا گیا کہ مسک دیوانے ہو چکے۔ انھوں نے لکھا:
’’ایلون مسک ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں جو ابھی ظاہر نہیں ہو سکی۔ وہ منشیات بھی استعمال کرتے ہیں۔ پھر اقرار کر چکے کہ شدید مصروفیات کی وجہ سے بے پناہ دباؤ (اسٹریس)میں رہتے ہیں۔ حقائق سے عیاں ہے کہ مسک نجی طور پہ مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، انہی مسائل کی وجہ سے مسک کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے اور وہ اپنے ایکس اکاؤنٹ سے بے سروپا اور اٹکل پچو بیانات دے رہے ہیں۔ وہ نیم دیوانے ہو چکے۔ان کی قول و فعل سے خصوصاً عالمی سطح پر امریکا کے مفادات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو چاہیے، وہ ایلون مسک کو اپنے سے دور کر دیں۔ایسا نہ ہوا تو وہ ملک وقوم اور انھیں بھی مشکلات میں گرفتار کرا دے گا۔‘‘
آغاز میں لکھا جا چکا کہ مسک کی سرگرمیاں سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کو سمجھنا چاہیے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ٹوٹے پھوٹے گھر کا مکین ہونے کی وجہ سے مسک لڑکپن میں جھگڑالو اور غصیلی طبعیت کا تھا۔اس باعث اسکول میں بڑے لڑکے اس کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیے وہ دوسرے انسانوں کو نفرت سے دیکھنے لگا۔ اب وہ دانستہ منفی باتیں اور عمل کرتا ہے تاکہ بنی نوع انسان سے انتقام لے سکے۔ وہ زمین کو امن وسکون کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں کرتا، اس کو ہر لمحہ نیا ڈراما چاہیے تاکہ اپنے جذبات کی تسکین کر سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مثال کے طور پر امریکی حکومت امریکا میں ا میں سفید فام برطانیہ میں تارکین وطن سوشل میڈیا مہاجرین کی خاص طور پہ حکومت میں ایلون مسک کے درمیان کہ امریکا لورا لومر سیاست میں چاہتے ہیں رام سوامی خانہ جنگی اپنے ایکس کر رہا ہے کی وجہ سے ہے کہ مسک انھوں نے سکتے ہیں دولت مند کی حکومت غیر ملکی کرتے ہیں چاہتا ہے کی حمایت کہتے ہیں کرنے لگا ٹرمپ کے کرتا ہے ٹرمپ کی اسی لیے نے ایکس کے ساتھ لیے مسک میں ایک مسک اور نہیں کر ٹرمپ کو کے خلاف سکتا ہے کہ وہ ا کیا کہ مسک کو نے لگا بن گیا کے بعد ہیں کہ یہ بھی نے ایک اور ان مسک کے مسک کی میں یہ اپنے ا کا تھا اس لیے مسک کا ہو گیا ہے اور کے لیے لیے اس تھا کہ ہو چکے
پڑھیں:
یورپ کا دفاع امریکا کیوں کرے؟ ایلون مسک
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کی جانب سے نیٹو اور یورپی یونین کے خلاف زبانی بیانات کے باوجود یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ بلاک اب بھی امریکا کو اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینیئر مشیر ایلون مسک نے نیٹو سے امریکی انخلا کی حمایت کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا ہے کہ امریکا کے لیے یورپ کے دفاع کی قیمت ادا کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کی جانب سے نیٹو اور یورپی یونین کے خلاف زبانی بیانات کے باوجود یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ بلاک اب بھی امریکا کو اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر ایکس پر ایک پوسٹ کا جواب دے رہے تھے کہ امریکا کو اب نیٹو سے نکل جانا چاہیے، ٹیسلا کے ارب پتی چیف ایگزیکٹو افسر نے کہا کہ ہمیں واقعی ایسا کرنا چاہیے۔
مسک کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) جو اپریل میں اپنی 76 ویں سالگرہ منائے گا، اس کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا یورپی یونین پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی، اور یوکرین کے معاملے پر روس کے ساتھ ان کی صف بندی نے یورپی حکام کو شدید پریشان کیا ہے۔ امریکی رہنما نے نیٹو کی چھتری تلے یورپ کے ساتھ امریکی سلامتی کے وعدوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ارسلا وان ڈیر لیئن سے ایک نیوز کانفرنس میں پوچھا گیا کہ کیا وہ واشنگٹن کے بارے میں برسلز کے نقطہ نظر کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں؟، انہوں نے کہا واضح نہیں ہے، ہاں، ہمارے مشترکہ مفادات ہمیشہ ہمارے اختلافات سے بالاتر ہیں۔
ارسلا وان ڈیر لیئن نے عام الفاظ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں ہر چیز لین دین بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے اندر فوری طور پر ضرورت کا احساس بڑھ رہا تھا کیونکہ کچھ بنیادی تبدیلی آئی ہے، ہماری یورپی اقدار، جمہوریت، آزادی، قانون کی حکمرانی خطرے میں ہیں۔ امریکا کے ساتھ نیٹو ممالک کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں خاص طور پر پوچھے جانے پر ارسلا وان ڈیر نے کہا کہ اگرچہ اتحادی تعلقات برقرار ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس آخری پیٹرن تھا، 25 سے 30 سال یہ اب بھی صحیح ہے امریکا کے تعلقات کا بدلتا ہوا لہجہ ایک بہت مضبوط ویک اپ کال ہے اور اب یورپ اپنے آپ کو وہ پوزیشن دے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔
یورپی یونین کے سربراہ نے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے ہی واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، جمعرات کو یورپی یونین کے سربراہ اجلاس میں دفاعی اخراجات کو بڑھانے کے لیے تقریبا 800 ارب یورو جمع کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، جس پر واشنگٹن طویل عرصے سے زور دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتحادی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اتحادیوں کو اپنی ذمہ داریاں اٹھانی ہوں گی۔ وان ڈیر لیئن نے مزید کہا کہ اگلے ہفتوں کے اندر، وہ یورپی یونین کے کمشنرز کا پہلا اجلاس طلب کریں گی جس میں بیرونی اور داخلی سلامتی، توانائی، دفاع اور تحقیق‘ اور سائبر سیکیورٹی، تجارت اور غیر ملکی مداخلت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔