Daily Ausaf:
2025-03-09@05:49:23 GMT

یوکرین،نیٹواورامریکہ:بدلتی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
سعودی عرب میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے دوران بعض ایسی باتیں سامنے آئیں جنہوں نے مغربی دنیا کوحیران کردیا۔ان میں سے ایک ریاض کے بندکمرے میں ہونے والی میٹنگ تھی،جس میں روس اورچین کے نمائندوں کے ساتھ یورپی ممالک کے سفارت کاربھی شریک تھے۔اس میٹنگ کے بین الاقوامی تعلقات پرگہرے اثرات ہوسکتے ہیں، خاص طورپرمشرق وسطی میں طاقت کے توازن کے حوالے سے ایک نئی مضبوط سوچ اس وقت ابھرکرسامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کوسعودی عرب اور اردن میں بسانے اورغزہ پرامریکی قبضے کابیان دیاہے ۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اوریوکرینی صدر ولودیمیرزیلنسکی کے درمیان حالیہ اوول آفس ملاقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی، جوسفارتی آداب کے حوالے سے غیرمعمولی سمجھی جا رہی ہے۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس اور معدنیات کے معاہدے پر دستخط کی تقریب منسوخ کردی گئی۔
اوول آفس کی ملاقاتوں میں رسمی احترام اور یکجہتی کا اظہارکیاجاتاہے لیکن طاقت کے عدم توازن کونظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ سفارتی ملاقاتوں میں آداب اورپروٹوکول کاخاص خیال رکھا جاتا ہے، خاص طورپرجب دوممالک کے سربراہان اکٹھے ہوں۔یوکرین اورامریکاکے درمیان یہ ملاقاتیں عام طورپرسفارتی آداب کاحددرجہ خیال رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں جس میں سمبولزم اورمقام کا خیال بھی رکھاجاتاہے یعنی اوول آفس امریکی صدر کی طاقت اورخودمختاری کی علامت ہے۔ یہاں ملاقات کامطلب ہے کہ امریکا خاص طور پر روس کے ساتھ جاری تنازعے کے تناظرمیں یوکرین کواہم اتحادی سمجھتاہے۔
سفارتی زبان میں بظاہردونوں رہنمائوں کے بیانات میں یکجہتی، تعاون،اورجمہوریت کے تحفظ پرزوردیاجاتاہے۔مثال کے طورپر، امریکا یوکرین کوفوجی اورمعاشی امداد دینے کے عہد کا اعادہ کرتا۔ پروٹوکول کی پابندی کے پیشِ نظر تصاویر، پریس بریفنگز،اور مشترکہ بیانات میں دونوں رہنمائوں کی برابری اورباہمی احترام کو اجاگر کیاجاتا۔کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ امریکا یوکرین کواپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہا ہے، جس میں سفارتی آداب کااحترام کرتے ہوئے بھی طاقت کاعدم توازن واضح ہوتاہے۔مثال کے طورپر، یوکرین کی فوجی امدادکے بدلے میں امریکا کسی طرح کاسیاسی یامعاشی دبا ڈال سکتاہے لیکن اسے کھلے عام بیان نہیں کیاجاتا۔یوکرین اپنے وسائل کوترقی دے کرعالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرناچاہتا ہے،جس میں مغربی کمپنیوں کی شراکت داریاں شامل ہیں۔یہ معاہدے عام طورپر شفاف طریقے سے ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے مطابق انہوں نے یوکرین سے اپنی دی ہوئی گرانٹ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے یوکرین کی قیمتی دھات کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ یوکرین معدنی ذخائر (جیسے لیتھیم، ٹائٹینیم، اور قدرتی گیس)کے لحاظ سے امیر ملک ہے۔ یاد رہے کہ روس کے کریمیا پر قبضے کے بعد امریکا نے جہاں ان اقدامات کی مذمت کی تھی بلکہ خود اعتراف کیا تھا کہ کسی ملک کے وسائل پر جبری قبضہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اگر امریکا کسی غیر قانونی طریقے سے وسائل پر کنٹرول حاصل کرے، تو یہ جارحیت سمجھا جائے گا، لیکن فی الحال ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ تاہم امریکا کے ’’سپرپاور‘‘ہونے کے باوجود، یوکرین کے وسائل پر قبضے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ تاہم یوکرین کی تعمیرنومیں مغربی ممالک کے معاشی مفادات ضرورشامل ہیں،جوبین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہیں۔امریکااوریوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر مذاکرات جاری تھے، جس کے تحت امریکا کو یوکرین کی نایاب معدنیات، تیل، گیس اور کلیدی بنیادی ڈھانچے تک رسائی حاصل ہوتی۔ امریکا اس معاہدے کو اپنی یوکرین کیلئے حمایت جاری رکھنے کیلئے اہم قرار دے رہا تھا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے اس معاہدے پردستخط کرنے کی آمادگی ظاہرکی ہے اورانہیں یقین ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔امریکاکی جانب سے یوکرین کی معدنیات پرممکنہ قبضے کی کوششیں بین الاقوامی قوانین اورسفارتی آداب کے تناظرمیں متنازع سمجھی جاسکتی ہیں۔اگریہ اقدامات یوکرین کی خودمختاری اور اس کے وسائل پر کنٹرول کومتاثرکرتے ہیں تو انہیں جارحیت کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق،کسی بھی ملک کی قدرتی وسائل پراس کا حقِ خودمختاری تسلیم شدہ ہے، اوربیرونی دبائو یااستحصال کوغیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔
جے ڈی وینس،جوٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں شمارہوتے ہیں،امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کوازسرِ نو ترتیب دینے کے حامی ہیں اورامریکاکوعالمی معاملات میں کم مداخلت کی پالیسی اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔وینس کاکہناہے کہ امریکا کو یورپ کی بجائے ایشیاپرتوجہ دینی چاہئے جبکہ مغربی میڈیا انہیں پیوٹن کاغیرمسقیم حامی قراردے رہا ہے۔ وینس کایہ بھی کہناہے کہ امریکاکوتائیوان اورچین پرتوجہ دینی چاہیے۔
ابھی حال ہی میں وائٹ ہائوس میں زیلنسکی کی حاضری کے دوران ان کے لباس پرتنقیدکی گئی،کیونکہ وہ اس سے پہلے ایک ملاقات میں رسمی سوٹ کے بجائے فوجی لباس میں تھے اور اب امریکی میڈیانے وائٹ ہاس میں زیلنسکی کے غیررسمی لباس شرٹ پہن کرمیٹنگ پرتنقیدکو’’ٹرمپ کی ذاتی نفرت‘‘ سے جوڑاہے۔بعض مبصرین کے مطابق یہ واقعہ درحقیقت ٹرمپ اورزیلنسکی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی علامت تھا۔ٹرمپ کی قیادت میں امریکی پالیسی میں جوتبدیلیاں آئیں،ان کا براہِ راست اثریوکرین کے ساتھ تعلقات پربھی پڑاہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی ہے کہ امریکا سفارتی آداب کے درمیان یوکرین کی

پڑھیں:

ٹرمپ کی پالیسیاں اور عالمی تجارتی جنگ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف لگانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مستقبل میں بھی مزید محصولات عائد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، یوں امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد اضافی ٹیکس کا نفاذ ہوگیا ہے، جس کے ساتھ ہی چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی اضافی رقوم کا اطلاق شروع ہو گیا ہے، جس کے جواب میں تینوں ممالک نے فوری اور سخت ردعمل دیا ۔

 امریکی صدر ٹرمپ اگر ایسی ہی پالیسیوں پر گامزن رہے تو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت کی روانی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت ذرا مختلف ہے۔ وہ اس بار پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور انھوں نے اپنی ٹیم کو ایسے عہدوں پر تعینات کر دیا ہے جہاں وہ ان کے ایجنڈے پر مؤثر طریقے سے عمل کر سکیں جس میں ان کی تباہ کن خواہشات بھی شامل ہیں۔

اسی لیے ایک ماہ کی معطلی کے بعد کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فی صد محصولات عائد کیے جا چکے ہیں جب کہ چین پر بھی اضافی ٹیکس لگا کر مجموعی طور پر محصول کو 20 فی صد کر دیا گیا، یہ محصولات درآمد کنندگان، بندرگاہوں اور سرحدی گزرگاہوں پر ادا کرتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کریں گے لیکن عملی طور پر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ یہ محصولات 918 ارب ڈالر کی امریکی درآمدات پر لاگو ہوں گے، جس سے ایواکاڈو سے لے کر امریکی گھروں کی تعمیر کے لیے ضروری لکڑی تک، سب کچھ متاثر ہوگا۔ اضافی محصولات کے نفاذ کے باعث امریکی، یورپی اور ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

تجارتی جنگ کے بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں مندی دیکھی گئی۔ وال اسٹریٹ کے بڑے انڈیکس ایس اینڈ پی 500 میں تیزی سے کمی آئی، جس سے ٹرمپ کے انتخاب کے بعد ہونے والے تمام فوائد مٹ گئے۔ امریکا کے لیے کینیڈا ایک اچھا فراہم کنندہ ہے کیونکہ وہ بالکل پڑوس میں ہے اور اس کا ایک قابل اعتماد اتحادی بھی ہے بلکہ تھا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکا میں تیل اور بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی۔ جب کاروبار کو بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ خود اس بوجھ کو برداشت کریں یا اسے صارفین تک منتقل کر دیں یعنی عام امریکی شہری تک۔ نئی صورت حال میں زیادہ تر کاروباری طبقے دوسرا راستہ اپنانا پسند کریں گے۔

محصولات (ٹیرف) کے بارے میں کوئی بحث نہیں۔ یہ مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو مرکزی بینک کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے؟ وہ شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے گھریلو اورکاروباری قرض لینے والے متاثر ہوتے ہیں اور معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکا کی بطور اچھے تجارتی شراکت دار ساکھ بھی متاثر ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ تجارتی راستے کسی اور سمت مڑ جائیں۔ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ گزشتہ بار بھی ایسا ہوا تھا۔ٹرمپ کی اس پالیسی کا دوسرا مقصد ملکی آمدنی میں اضافہ ہے۔

امریکا کا قرض اب جی ڈی پی کے 124 فی صد تک پہنچ چکا ہے جب کہ برطانیہ کا قرض اس کے جی ڈی پی کے 95 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ دراصل آمدنی بڑھانے کا اس سے زیادہ تباہ کن طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ محصولات لگا کر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت دنیا کو حیران کردیا، جب اس نے غزہ پر قبضہ کر کے اسے امریکا کی ملکیت بنانے اور غزہ کے بائیس لاکھ باسیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے اردن اور مصر میں بسانے کا اعلان کیا۔

مصر، اردن اور عرب ممالک کے علاوہ یورپین ممالک نے بھی اس منصوبے کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے جو علاقے میں مزید تباہی، انتہا پسندی اور عدم استحکام کو جنم دے گا۔ ٹرمپ کے مطابق وہ اردن اور مصر کو ہر سال اربوں ڈالرز دیتے ہیں اور اگر انھوں نے فلسطینیوں کواپنے ہاں آباد نہ کیا تو وہ یہ امداد بند کر دیں گے۔ گزشتہ سال ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے غزہ کو شہریوں سے خالی کر کے ’’واٹر فرنٹ پراپرٹی‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین ٹرمپ کی دھونس اور دھمکیوں کی پالیسیوں کو ہٹلر کی حکمت عملی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کی سپر طاقت امریکا کے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غورکر رہے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی یو این میں تجارت شروع کی، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیار کی جب امریکا کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا، لہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یورو کو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اور کئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کیے تاکہ ڈالرز پر انحصار کم کیا جاسکے۔

دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں، یہ گروپ اقتصادی، سیاسی، اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، اور عالمی سطح پر ڈالر کے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے، امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے دھمکاتے رہے ہیں، وہ برکس ممالک سمیت کسی بھی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہیں انھیں ڈر ہے کہ اگر برکس ممالک نے اپنی کرنسی بنا لی تو امریکا برباد ہو جائے گا، نیز ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دور کر رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے۔

 ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالر کو بدلنے کے لیے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا، یہی نہیں بلکہ انھیں امریکا کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور ملک تلاش کرسکتے ہیں اور انھیں امریکا کو بھی الوداع کہنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے، عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے، کیونکہ امریکا پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے پس پردہ عوامل میں تیسری عالمی جنگ کی دھمک سنائی دیتی ہے، جیسا کہ روس اور یوکرین کی جنگ، چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی، اسرائیل فلسطین تنازع، امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو دنیا میں جنگوں کو بڑھا سکتے ہیں، اس وقت جنگیں روایتی ہونے کے بجائے معاشی سائبر اور پراکسی جنگوں کی شکل میں جاری ہیں عالمی حالات میں کشیدگی کے سبب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اگر باہمی تباہی کی گارنٹی (MAD)Mutually Assured destruction کے اصول پر کاربند رہیں گی تو جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے براہ راست تصادم سے گریز کریں گی۔امریکی صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات عالمی سطح پر تشویشناک صورتحال اختیار کر تے جا رہے ہیں، میامی میں ایف آئی آئی کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’تیسری عالمی جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ جنگ اب دنیا سے دور نہیں ہے‘‘ ٹرمپ کا یہ بیان واضح اعلان جنگ ہے ۔

ٹرمپ کے حالیہ بیان کے پس پردہ عوامل اور ریاکاریاں بھی پوشیدہ ہیں، جس سے تیسری عالمی جنگ کے خدشے کو تقویت ملتی ہے، امریکا اس وقت یوکرین جنگ کا خاتمہ اس وجہ سے چاہتا ہے کیونکہ اس پر مالی اور عسکری دباؤ بڑھ رہا ہے، دوسری طرف غزہ پر امریکا کی توجہ معنی خیز ہے۔ایسی صورتحال کے پیش نظر اگر روس مشرق وسطیٰ میں کھل کر مداخلت کرتا ہے چاہے وہ ایران، شام یا کسی اور مقام سے ہو، تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، امریکا براہ راست جنگ سے گریز کرے گا اور اپنے اتحادیوں کو روسی اثر و رسوخ کے خلاف مضبوط کرے گا اور خاص طور پر اسرائیل کو مزید عسکری امداد فراہم کرے گا، جیسا اس نے یوکرین میں کیا،لہٰذا ممکنہ روسی مداخلت کے بڑھنے کی صورت میں امریکا اسے اپنے عالمی اثر و رسوخ میں کمی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے براہ راست عسکری کارروائی کا فیصلہ کر سکتا ہے، اور اگر یہ ایسا ہوا تو ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے جو ممکنہ طور پر عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی دنیا کے ممالک کو نفرت انگیز دھمکیاں برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں جس سے امریکا کی معاشی بالا دستی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب روس اور چین برکس گروپ میں توسیع کر کے ڈالر کے متبادل کو عملی جامہ پہنا دیں، جو کہ امریکا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے،جس کی وجہ سے امریکا خود کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھے گا پھر یہ معاملات عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں ناجائز منافع خوروں کیخلاف انتظامیہ کی نئی حکمت عملی
  • امریکی صدرنے مذاکرات میں روس کو آسان فریق قراردے دیا
  • ٹرمپ کاروس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدہ ہونے تک ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے پر غور
  • ایلون مسک اور امریکی وزیرِ خارجہ کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے
  • امریکی صدر ٹرمپ کی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حماس سے خفیہ مذاکرات کی تصدیق
  • تم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہو
  • ٹرمپ کی پالیسیاں اور عالمی تجارتی جنگ
  • یوکرین کا امریکا کے ساتھ نئے مذاکرات کرنے شروع کرنے کا عندیہ
  • امریکا نے ہتھیاروں کے بعد یوکرین کو خفیہ معلومات کی فراہمی بھی معطل کر دی