Islam Times:
2025-04-21@11:52:31 GMT

کیا یورپ امریکہ سے طلاق کیلئے تیار ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

کیا یورپ امریکہ سے طلاق کیلئے تیار ہے؟

اسلام ٹائمز: نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔ تحریر: حسین مہدی تبار
 
"کیا ہمارے بغیر روس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟"۔ یہ سوال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم سے پوچھا۔ اگرچہ ٹرمپ کے اس سوال کا مقصد صرف یورپی رہنماوں کی تحقیر تھی لیکن اس مسئلے نے کافی عرصے سے یورپی حکمرانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یورپ امریکہ کی فوجی مدد کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اگر امریکہ یوکرین کی مدد نہ کرتا تو جنگ دو ہفتوں کے اندر اندر روس کی فتح کے ساتھ ختم ہو جاتی۔ دوسری طرف بعض یورپی رہنما مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونوئیل میکرون یورپ کے لیے علیحدہ سے فوجی اتحاد کی تشکیل پر زور دیتے ہیں جبکہ جرمنی کے آئندہ ممکنہ صدر فریدرش مرتس بھی سیکورٹی شعبے میں امریکہ سے علیحدگی کا تصور پیش کرتے ہیں۔
 
معروف سیاسی ماہر اسٹیفن والٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جغرافیائی لحاظ سے کسی خطرے کو زیادہ قریب سمجھنا امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے۔ یورپی حکمران روس کو اپنے لیے اصل خطرہ تصور کر رہے ہیں جبکہ امریکہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اس بات پر اتفاق رائے رکھتی ہیں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اپنی تمام تر طاقت اور وسائل چین کے خلاف جمع کرنا شروع کر دیے ہیں اور عین ممکن ہے روس کے مقابلے میں یورپ کو اکیلا چھوڑ دے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی حکمران اس بات سے شدید پریشان ہیں کہ یوکرین جنگ میں روس کی کامیابی کی صورت میں پیوتن کی جرات بڑھ جائے گی اور وہ یورپ کے خلاف مزید اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔
 
لہذا یورپی حکمران اپنے دفاع میں خودمختار ہونے پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کے لیے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ یورپ کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونا چاہیے اور ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ امریکہ کی مدد ہمیشہ جاری رہے گی۔ لیکن براعظم یورپ جس نے گذشتہ 75 برس سے اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کیا ہے اس کے لیے اب دفاعی شعبے میں خودمختار ہونا آسان کام نہیں ہے۔ یورپ اس مسئلے میں کئی چیلنجز سے روبرو ہے۔ یورپی پالیسیوں کا تجزیہ و تحلیل کرنے والا تحقیقاتی ادارہ CEPA اس بارے میں اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ امریکہ سے خودمختار ہونے میں یورپ کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے: اسٹریٹجک صلاحیتیں، آپریشنل توانائیاں اور فوجی طاقت۔
 
اس تحقیقاتی ادارے کی نظر میں یورپ کی سب سے بڑی دفاعی کمزوری "اسٹریٹجک توانائیوں" میں مضمر ہے۔ یعنی اس کی صلاحیتیں، فوجی ذخائر اور وسائل اس حد تک نہیں ہیں جو فوجی آپریشن کو اثربخش اور نتیجہ خیز ثابت کر سکیں۔ امریکہ کے پاس بہت سی فوجی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اسٹریٹجک سسٹمز، انٹیلی جنس وسائیل اور نظارت اور جاسوسی کے آلات ہیں اور اگر امریکہ ان شعبوں میں یورپ کی مدد چھوڑ دیتا ہے تو یورپ شدید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ یورپ کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ اپنی جنگ میں فوجی آپریشنز انجام دینے کی صلاحیت ہے۔ نیٹو میں فضائی، بری اور مشترکہ کمانڈ امریکی افسروں کے پاس ہے جس کے باعث یوں دکھائی دیتا ہے کہ یورپی کمانڈرز امریکی افسروں کے بغیر فوجی اقدامات انجام دینے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ گذشتہ 75 برس میں صرف امریکہ نے ہی نیٹو کے ذریعے حقیقی جنگیں لڑی ہیں۔
 
اس بارے میں تھنک ٹینک "بروگل" (Bruegel) اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "یورپ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ امریکہ بغیر روس کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکے"۔ روسی فوج اس وقت 2022ء کی نسبت بہت بڑی، تجربہ کار اور فوجی وسائل سے لیس ہو چکی ہے جب اس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس آرمی اور اس کے سربراہان اب بہت سی جنگوں سے تجربات حاصل کر چکے ہیں۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی فوجی مصنوعات میں 2022ء کی نسبت 220 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ کو اپنی فوجی مصنوعات کی پیداوار اس حد تک بڑھانے کے لیے سالانہ طور پر 250 ارب یورو بڑھانے کا بجٹ درکار ہے۔ اس مقدار میں بجٹ میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کا فوجی بجٹ اس کی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بڑھ کر 3.

5 فیصد ہو جائے گا۔
 
نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کا مقابلہ کرنے کے لیے خودمختار ہونے کے لیے یورپ کو کا مقابلہ کر میں یورپ کو امریکہ سے درکار ہو کرنا پڑے کی فوجی کہ یورپ روس کے

پڑھیں:

مسلم حکمران امریکا و یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں، حافظ نعیم

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ مسلم حکمران امریکا اور یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں۔

اسلام آباد میں غزہ کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف جماعت اسلامی نے مارچ کا اہتمام کیا، اس دوران 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔

اس موقع پر جلسہ عام سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے، غزہ ملبے کا ڈھیر بن گيا ہے، مسلم حکمران امریکا اور یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ یہاں سے اسرائیل جا کر وعدے کر آئے، بتایا جائے انہیں کس نے تل ابیب بھیجا تھا؟

انکا کہنا تھا کہ امریکا مسلمانوں اور انسانوں کا قاتل ہے، آج اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کا زبردست پیغام دیا جارہا ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے، ہم اعلان کریں تو کوئی کنٹینر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا، ہم پولیس والوں کیساتھ تصادم نہیں چاہتے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بربریت روکنے کےلیے ہمیں متحد ہونا پڑے گا، اٹھو اور فلسطین کا مقدمہ لڑو، اسرائیل کی مذمت کرو، غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، بچوں کو شہید کیا گیا۔

حافظ نعیم الرحمان نے یہ بھی کہا کہ 26 اپریل کو پورا پاکستان چترال سے کراچی تک ملک گیر ہڑتال کرے گا، میں مطالبہ کرتا ہوں پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • مسلم حکمران امریکا و یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں، حافظ نعیم
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • ن لیگ پانی سمیت تمام مسائل پر پیپلز پارٹی کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہے، رانا ثناء
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
  • مارکیٹ میں نئی تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار رکھیں؛ احسن اقبال
  •  سوناکشی سنہا کی تھرلر فلم ’نکیتا رائے‘ ریلیز کیلئے تیار 
  • عمران خان کچھ شرائط پر ہر کسی سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: شاندانہ گلزار
  • آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کیلئے، سویلین کو لانا ہوتا تو الگ سے ذکر کیا جاتا: جسٹس نعیم