متحدہ عرب امارات میں بھارتی خاتون کو شیر خوار بچے کے قتل پر پھانسی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
متحدہ عرب امارات میں بھارتی نژاد 33 سالہ خاتون کو چار ماہ کے بچے کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی دیدی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق خاتون کو پھانسی ملنے سے مودی حکومت بے خبر تھی یہاں تک کہ خاتون کے والد نے عدالت سے رجوع کیا۔
خاتون کے والد شبیر خان نے عدالت میں بتایا کہ ان کی بیٹی دسمبر 2021 میں ابوظہبی گئی تھی اور اگست 2022 میں اس کے آجر نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔
میری بیٹی اپنے آجر کے بیٹے کی نگہداشت پر مامور تھی اور معمول کے حفاظتی ٹیکے لگوانے کے باعث بچے کی 7 دسمبر 2022 کو موت ہو گئی تھی۔
عدالت میں ایک ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ذکر کیا گیا جس میں مبینہ طور پر شہزادی خان کو شیر خوار کے قتل کا اعتراف بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تاہم خاتون کے والد نے بتایا کہ یہ اعترافی بیان بیٹی کے آجر اور اس کے خاندان والوں نے تشدد اور جبری طور پر لیا ہے۔
والد شبیر خان نے بھارتی عدالت کو بتایا کہ شیر خوار کے والدین نے پوسٹ مارٹم کرانے سے بھی انکار کیا اور تفتیش ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
شبیر خان نے عدالت میں کہا کہ بھارتی سفارت خانے نے ان کی بیٹی کو قانونی معاونت فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
بزرگ والد نے عدالت سے کہا کہ دو ہفتے ہوگئے، بیٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
بے بس والد نے عدالت سے استدعا کی کہ مودی حکومت کو میری بیٹی کے بارے میں پتا لگانے کا حکم دیا جائے۔
جس پر وزارت خارجہ نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں خاتون کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ شہزادی خان نامی خاتون کو 15 فروری کو پھانسی دی گئی اور 28 فروری کو بھارت کو مطلع کیا گیا۔
بیان میں خاتون شہزادی خان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع باندا سے تھا۔ لاش کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے 5 مارچ تک لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدالت میں خاتون کو نے عدالت بتایا کہ کے والد والد نے
پڑھیں:
فلم ’کافِر‘ کے ریپ سین سے الجھن اور کپکپاہٹ کا شکار تھی؛ دیا مرزا کا انکشاف
بھارتی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ دیا مرزا نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی اپنی فلم کافر کے ایک نہایت ناپسندیدہ اور نازیبا سین سے متعلق سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔
فلم کافِر دراصل 2019 میں پیش کی گئی ایک ویب سیریز ہے جو ایک پاکستانی خاتون شہناز پروین کی سچی کہانی پر مبنی ہے جو غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے بھارت میں داخل ہوئیں۔
آزاد کشمیر کی ان خاتون پر بھارتی فوج نے عسکریت پسند ہونے کا الزام عائد کرکے 8 سال تک جیل میں قید رکھا تھا اور وہیں انھوں نے ایک بچی کو بھی جنم دیا تھا۔
شہناز پروین کی اسٹوری ایک بھارتی صحافی کو معلوم ہوئی جس نے بے گناہ خاتون کا معاملہ اُٹھایا اور انصاف کے لیے طویل جدوجہد کی جس کے نتیجے میں رہائی نصیب ہوئی۔
بھارتی میڈیا کو انٹرویو میں اداکارہ دیا مرزا نے بتایا کہ ویب سیریز میں ریپ سین نے انہیں اس قدر جذباتی اور جسمانی طور پر متاثر کیا کہ وہ کانپنے لگیں اور اُلٹی کر بیٹھی تھیں۔
انٹرویو میں اداکارہ نے بتایا کہ جب ہم نے وہ ریپ سین شوٹ کیا تو وہ لمحہ اتنا سخت تھا کہ میں مکمل طور پر کانپنے لگی۔ جیسے ہی کیمرہ بند ہوا، میں اُلٹی کرنے لگی۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ ایسے سین فلمانے کے لیے صرف اداکاری نہیں بلکہ مکمل طور پر اس کیفیت میں ڈوبنا پڑتا ہے جو کردار ادا کرنے والے پر حقیقی اثر چھوڑتا ہے۔
دیا مرزا نے کہا کہ ایک فنکار کے لیے سب سے اہم چیز کردار سے ہمدردی ہے جو مجھے فلم میں اپنے کردار سے ہوگئی تھی۔