ریمدان بارڈر سے عالم دین کا اغواء قابل مذمت ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
جیکب آباد میں وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ پاراچنار کو غزہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدام کرتے ہوئے پاراچنار کا راستہ محفوظ بنائیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ تبلیغ کیلئے آنے والے علماء کا ریمدان بارڈر سے اغواء قابل مذمت ہے۔ کسی پر اعتراض ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو لاپتہ بنانا شرمناک عمل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاراچنار کو غزہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود پاراچنار کے عوام کا راستہ کھولنے میں سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیکب آباد میں ڈومکی قبیلے کے معززین انجینیئر عید محمد ڈومکی، گل محمد خان ٹالانی و حاجی شاہ محمد ڈومکی و دیگر پر مشتمل وفد سے ملاقات کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر گوٹھ قادر بخش ٹالانی ڈومکی میں برادری کو درپیش مسائل کے حوالے سے تبادل خیال کیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کا مہینہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کو ترجیح دینی چاہئے۔ حکومت احترام رمضان آرڈیننس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ ماہ صیام میں سرعام ہوٹلز کا کھلنا افسوسناک عمل ہے۔ رمضان المبارک کے احترام میں ملک میں فحاشی اور عریانی کا بھی سدباب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان میں تبلیغ کے لئے آئے ہوئے علماء کرام کا ریمدان باڈر سے اغواء افسوسناک عمل ہے۔ نامعلوم افراد کے ہاتھوں شریف شہریوں کا اغواء روز کا معمول بن چکا ہے اور یہ نامعلوم طاقتور افراد خود کو قانون اور آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اگر کسی شخص پر اعتراض ہے تو اسے مہذب انداز میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو لاپتہ بنانا شرمناک عمل ہے، جس میں مقتدر ادارے ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاراچنار کے عوام ماہ صیام میں بھی محاصرے میں ہیں۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود حکومت اور ریاستی ادارے پاراچنار کے عوام کا راستہ کھولنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پاراچنار کو غزہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدام کرتے ہوئے پاراچنار کا راستہ محفوظ بنائیں۔ تعجب ہے کہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں ریاست پاکستان گزشتہ کئی ماہ سے یرغمال بنی ہوئی ہے۔ پاراچنار کے عوام کی ترجمانی کرنے کے جرم میں پاراچنار کے منتخب تحصیل چیئرمین مزمل حسین فصیح کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاراچنار کے عوام علامہ مقصود کرتے ہوئے نے کہا کہ کا راستہ عمل ہے
پڑھیں:
لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب میں دفعہ 370 کا ذکر نہ ہونا قابل افسوس ہے، پی ڈی پی و پیپلز کانفرنس
محبوبہ مفتی نے کہا کہ عوام نے نیشنل کانفرنس کو بھاری اکثریت دی لیکن اس نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اب دفعہ 370 کے معاملے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں نے آج لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اسمبلی میں کئے گئے خطاب پر سخت نکتہ چینی کی، جس میں دفعہ 370 کی منسوخی یا اس کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے آج جموں میں اسمبلی کے پہلے بجٹ اجلاس سے خطاب کیا۔ اسمبلی کے طریقہ کار کے مطابق ایل جی کا خطاب نیشنل کانفرنس کی حکومت کے تحریر کردہ متن پر مبنی ہوتا ہے، جسے وہ ایوان میں پڑھ کر سناتے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایل جی کا خطاب یوم آزادی یا دیگر اہم مواقع پر ان کی سابقہ تقاریر سے مختلف نہیں تھا۔ انہوں نے سرینگر میں پی ڈی پی کے دفتر پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب میں جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کی عکاسی ہوگی لیکن اس میں ہماری محرومیوں اور بے اختیاری کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ ریاستی درجہ کی بحالی کا وعدہ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کیا ہے لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے مسائل صرف ریاستی درجہ تک محدود نہیں ہیں۔ اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران منوج سنہا نے کہا کہ ریاستی درجے کی بحالی جموں و کشمیر کے عوام کی ایک بڑی خواہش ہے اور حکومت اس جائز مطالبے کو پورا کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا "میری حکومت اس حوالے سے سبھی فریقین سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جو امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنائے، ہم عوام کے جذبات اور ریاستی درجے کی سیاسی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں"۔ تاہم خطاب میں دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی یا 5 اگست 2019ء کے واقعات کا ذکر نہ ہونے پر پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیا کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت میں بننے والی حکومت اب بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ حکومت بی جے پی کے اگست 2019ء کے غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلوں کو جواز فراہم کرنے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے نیشنل کانفرنس کو بھاری اکثریت دی، لیکن اس نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اب دفعہ 370 کے معاملے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ کے ایم ایل اے سجاد غنی لون نے کہا کہ ایل جی کا خطاب کسی بی جے پی لیڈر کے خطاب سے مختلف نہیں تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ حکومت اور بی جے پی کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی مکمل ہو چکی ہے۔ نہ دفعہ 370، نہ دفعہ 35 اے، نہ 5 اگست 2019ء اور نہ ہی ری آرگنائزیشن ایکٹ کا کوئی ذکر۔ لگتا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت نے اب محض علامتی مزاحمت کی روایت بھی ترک کر دی ہے، وہ اب یہ دکھاوا بھی نہیں کرنا چاہتے کہ انہیں دفعہ 370 سے کوئی لینا دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے دوران نیشنل کانفرنس کا پورا بیانیہ دفعہ 370 کے گرد گھوم رہا تھا اور وہ دیگر جماعتوں پر بی جے پی کی "بی ٹیم" ہونے کا الزام لگا رہی تھی۔ انہوں نے کہا "مجھے یاد ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہر بات کا محور دفعہ 370 تھا۔ اور اب نظریاتی ہم آہنگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے"۔